Home / Socio-political / راہنما ﺅں کی گم راہ

راہنما ﺅں کی گم راہ

      راہنما ﺅں کی گم راہ 

   

  عباس ملک ، پاکستان

امریکہ کا صدر پاکستان کا دورہ کرے یا نہ کرے اس سے پاکستانی عوام کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی کوئی سروکار ہے ۔پاکستان کے عوام اپنے صدر کی نگاہ کرم کے منتظر ہیں ۔جنبش ِقلم امریکہ کی غلطیوں کی نشاندہی میں مصروف ہے لیکن حکمرانوں کی مداح سرائی کرتے ہوئے نہ ملول ہے اور نہ ہی اسے ملا ل ہے ۔صاحبان اقتدار اس رعایا کا نگہبان کیونکر ہوئے جن کی زندگی کا ایک ایک سانس ان کی خواشات کا آسیر اور آئی ایم ایف ،ورلڈبینک اور معاشی اداروں میں رہن وگروی ہو چکاہے ۔معذور ،مجبور ،لاچار ،بے سروسامان اپنی رعایا کیلئے عملی اقدام اٹھانے سے اگر امریکی وفاداری یا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پالیسیاں مذہم و مانع ہیں تو یہ حکمرانوں کی خودی اور خوداری کا امتحان ہے ۔ وہ اپنی خودی اور خوداری سے اپنی وفا اور اپنی ہمدردیاں اپنوں کیلئے ثابت کرتے لیکن وہ اس میں ناکام ہیں ۔اپنے منہ سے حقائق بتانے والے حکمران بارہا اس بات کا اعادہ کر چکے ہیں کہ پاکستان کو اللہ تعالی نے ہر نعمت سے نوازا ہے ۔ایک حقیت یہ بھی ہے کہ پاکستان کو اللہ تعالی نے سب کچھ عطا کیا لیکن حقیقی راہنماﺅں نے اس جنت کو بھی پر خار بنا دیا ۔خادم اعلی ہوں یا مخدوم اعظم بیانات سے خود کو مظلوم ثابت کر کے اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کی تگ و دو میں لگے ہیں لیکن عوام کی حالت زار سے اس کو دور کا بھی تعلق نہیں ۔اپنی پارٹیوں سے وابستگی مفادات کے حصول کیلئے ترپ چالیں اہم ہیں لیکن عوام کے درد کی دوا ندارد۔مرکز اور صوبے ایک دوسرے کو مﺅرد الزام قرار دیکر وفاق پاکستان کی پیٹھ میں خنجر اتار تے جا رہے ہیں ۔سندھ کارڈ اور پنجاب کارڈ ،بلوچی کارڈ اور پختون کارڈ نے وفاق پاکستان کی یکجہتی کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔پاکستان کے دست و بازو ایک دوسرے سے دست وگریباں ہو کر پاکستانی کو مرکزی شناخت سے دور کر رہے ہیں ۔خود کو قوم کا راہنما کہلانے والے ذرا سی آنچ پر سندھ ،پنجاب اور بلوچی کارڈ کے نیچے پناہ گزیں ہو جاتے ہیں ۔بلوچوں کو گلا ہے کہ ہمیں پسماندہ رکھا گیا سندھ والوں کو گلا ہے کہ ہمیں محروم رکھا گیا ۔سرحد والوں کو گلا ہے کہ ہمارے زخموں پر مرہم نہیں رکھا گیاتو پنجاب میں رہنے والے جنت کے مکینوں کا حال بھی تو کوئی جانے ۔پنجاب میں بجلی پانی ،گیس مفت ملتا ہے؟پنجاب میں آٹا گندم چینی چاول دالیں پنجابیوں کیلئے حکومت کی طرف سے ماہانہ بھیجی جاتی ہیں ؟ہر فرد کو ملازمت میسر ہے ؟ہر خاص و عام کیلئے صحت تعلیم و تفریح کی سہولیات در پر مہیا کی جاتی ہیں ؟پنجاب میں حاتم طائی اور عمر ثانی کے وارث حکومت کر رہے ہیں ؟بلوچستان ،سندھ ،سرحد اور پنجاب کے غریبوں کو ایک قطار میں کھڑا کیا جائے تو وہ سب ایک جیسے غریب مفلوک الحال پاکستانی ہی نظر آئیں گے ۔ان میں سے کسی کی لسانی یا علاقائی تخصیص انتہائی دشوار ہوگی ۔بلوچ سردار قیام پاکستان سے لیکر آج تک وہاں حکومت کر رہے ہیں تو پھر بلوچستان کی محرومی کا گلا کس سے کیا جائے گا ؟سندھ کے وڈیرے سندھ کی عنان حکومت پر فائز ہیں ،سرحد کے خوانین نے عوام کو مغلوب کر رکھا ہے ،پنجاب کے جاگیرداروں نے پنجاب کو غلام بنا رکھا ہے ۔ان کی آپس کی چپقلش غریب اور محب الوطن پاکستانیوں کے درمیان نفاق کا بیج بوتی ہے۔ یہ ایک دوسرے کو نیچا دکھا نے کیلئے ناخواندہ اور مزدور طبقے اور کم تعلیم یافتہ افراد کو استعمال کرتے آرہے ہیں ۔انصاف کی کرسیوں پر بھی یہی متمکن ہیں اورقانون شکنی بھی انہی کا وطیرہ ہے ۔جعلی ڈگریوں کے ذریعے جعلی مینڈیٹ کے حاملین سے بھلائی کی توقع رکھا ابوجہل و ابولہب سے نیکی کی تمنا کے سوا کیا ہے ۔آئین ان کے استحقاق اور ان کی خواہشات پر مشتمل ترمیمات کا مجموعہ بنا دیا گیا ہے ۔اس میں حکمرانوں کے استحقاق کی وضاحت تو ہے لیکن عوام کیلئے انسانی حقوق کا باب نامکمل ہے ۔وفاقی حکومت اگرچہ پورے ملک کے نظم و نسق کی ذمہ دار ہے لیکن صوبائی حکومتیں بھی تو اپنے صوبوں کی حالت زار کی بلواسطہ ذمہ دار ہیں ۔پیپلز پارٹی اگر وفاقی سطح پر عوام کیلئے سہولیات باہم پہنچانے سے قاصر ہے تو کیا مسلم لیگ ن پنجاب میں دودھ شہد کی نہریں بہا رہی ہے ۔آٹا ،چینی، چاول ،دالیں بجلی ،پانی گیس ،امن عامہ کی ذمہ داری تو حکومت پنجاب نبھا سکتی ہے ۔ذخیرہ اندوزمافیا ، قبضہ مافیا ،سیاسی مداریوں کے خلاف تو ایکشن لے سکتی ہے ۔وفاقی حکومت کی ضد میں کچھ نہ کرنا مفاد پرستی کی دلیل نہیں بین ثبوت ہے ۔مسلم لیگ ن کی قیادت اگر انا کے خول سے باہر اور ذاتیات کے حصار سے سے باہر جھانک کر دیکھیںتو انہیں جمہوریت کی ترویج اور خدمت کیلئے کئی راہیں مل سکتی ہیں ۔پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ آج تک منشور کی خاطر ان میں کوئی تنازعہ نہیںصرف ذاتیات پر جنگ ہے ۔بینظیر سے ہاتھ ملا یا جا سکتا ہے ،زرداری کو برداشت کیا جا سکتاہے تو مسلم لیگ ق والے را کے ایجنٹ تو نہیں ۔ انہوں نے بھی تو وہی کردار ادا کیا تھا جو آج کے حکمران ادا کر رہے ہیں ۔اگر ان کی غلطیاں قابل معافی ہیں اور جمہوریت کے تسلسل کیلئے ضروری ہیں تو پھر ان کو بھی اسی طرح معاف کر کے گلے لگایا جا سکتا ہے ۔پیر پگاڑا اگرچند نشستوں کے سر پر اعجاز الحق اور شیخ رشید کو قبول کر کے ان کو مسلم لیگی ہونے کی سند عطا کررہے ہیں تو پھر آپ جمہوریت کی ترویج اور تسلسل کیلئے ایسا کیوں نہیں کرتے ۔چوہدری برادران سے نہیں تو ہم خیال گروپ کا تو مسلم لیگ سے رشتہ بحال ہو سکتا ہے ۔عمران خان ،منور حسن اور مولانا فضل الرحمان آپ کے ساتھ اتحاد کیلئے تیار ہونگے ۔ایم کیو ایم بھی حالات کے پیش نظر آپ کا ساتھ دینے کیلئے مجبور ہو جائے گی ۔اے این پی کو اتحاد کی ک] ]>

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *