Home / Socio-political / راہ احتساب و طرز انقلاب

راہ احتساب و طرز انقلاب

       راہ احتساب و طرز انقلاب 

عباس ملک

پاکستان

معاشرے میں احتساب وانقلاب کی بات ہر نوک زباں پر ہے ۔احتساب اور انقلاب کی آمد کی نوید سنائی دیتی ہے لیکن کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی ۔احتساب و انقلاب کی طرف پیش قدمی سے ہرکوئی گریزاں ہے۔کون کس کا احتساب کرے اور کون انقلاب کا داعی بن کر سامنے آئے ۔اس عمل میں اتنی پیچیدگیاں ہیں جو اسے موجودہ حالات اور موجودہ لوگوں سے ناممکن ہی بتاتی ہیں ۔آئین و قانون استحقاق اور استثناءکی دفعات کے تحت صاحبان اقتدار واختیار کو ہر احتساب سے مبرا قرار دے تو اختیارات سے تجاوز اور لوٹ سیل کا حساب کون اورکیسے لے سکتا ہے ۔ایک فرد واحد اپنی انا کی تسکین کیلئے آئین اور قانون کو بالا ئے پشت کر کے عنا ن اقتدار پر قابض ہو جائے اور عوام کے جمہوری حق کو نوک بوٹ تلے روند ڈالے تو جاتے ہوئے اسے اسی جمہوریت کے پاسدار اگر گارڈ آف آنر سے نوازیں تو اس سے اس کے پیشروں کو یہی پیغام ملے گا کہ یہ کام باعث ننگ نہیں بلکہ باعث افتخار ہے ۔میڈیا بھی اس کا بائیکاٹ کرنے کی بجائے اس کی لا یعنی توجیحات کو شہ سرخیوں میں جگہ دیکر اسے توقیر دیتا ہے ۔ایسے شخص کا سوشل بائیکاٹ کر معاشرے مٰں ایک قدم بھی چلنے سے لا چار کیا جا سکتا ہے ۔جوتے نہ بھی مارے جائیں تو ایسے شخص کو تحقیر آمیز نگاہوں سے دیکھ کر بھی جیتے جی مارا جا سکتا ہے ۔کتابیں مارے کی بجائے اگر صرف ردی کاغذ کے گولے ہی بناکر اسے مارے جائیں اور کاغذ کے جہاز بناکر اس کی پریس کانفرنسوں میں اڑائے جائیں تو یہ بھی اس کی بے عزتی کیلئے کافی ہے۔اس کی جائیداد بحق سرکار ضبط کی جاسکتی ہے ۔اس کے اکاﺅنٹس منجمد کر کے اسے معاشی طور پر لا چار کیا جا سکتا ہے۔اس طرح مثال قائم کی جاسکتی ہے کہ آئین اور قانون کوئی کھلونا نہیں جس کو جس طرح چاہے استعمال کیا جائے ۔یہ اپنی وضح میںایک مضبوط لائحہ عمل ہے جس کو کسی طور نہیں بدلا جا سکتاہے ۔آئین اور قانون کے الفاظ کی تفسیر و تشریح سے ہی تو بے ضابطگیاںجنم لیتی ہیں ۔آئین اور قانون دونوں کی یہ صفت انتہائی اہم ہے کہ یہ مختصر اور واضح ہونا چاہیں ۔مبہم الفاظ اور ذومتنی الفاظ اس کے احترام کیلئے اور اس پر عمل کیلئے زہر قاتل اور سنگ راہ ہیں ۔یہ واضح ہونا چاہیے کہ یہ کام آئین اور قانون کے تحت جائز ہے اور یہ ناجائزہے ۔ناجائز اوپر سے نیچے اور جائز بھی ایسے نیچے سے اوپر تک ہے۔اسلام میں حرام اور حلال سب کیلئے یکساں ومساوی ہے ۔اس میں شاہ وگدا کی تخصیص نہیں ۔الخمرووالمیسرو سب کیلئے ہے ۔اس کا نام قانون ہے یہ آئین ہے جو ایک پوری امت کیلئے صرف ایک لائن میں واضح ضابطہ حیات مہیا کرتا ہے ۔یہاں الٹی گنگا بہتی ہے ۔عہدوں اور اختیارات کے زریعے سب کچھ استحقاق اور قانون کی تشریح میں اگے پیچھے کر دیا جاتا ہے۔اس طرح آئین و قانون کی پاسداری ممکن ہی نہیں ۔جمہوریت کے پاسبان اور پاسدار جمہوریت پر نقب لگانے والوں کو خود ہی مواقع فراہم کر کے واویلا کرتے ہیں کہ جمہوریت کو خطرہ ہے ۔اگر جمہوریت کو خطرہ ہے تو صرف جمہوریت کے پاسبانوں اور اس کے نگہبانوں سے ہی ہے ۔ اسمبلیوں میں کورم پورا نہ ہونے کے سبب اسمبلیوں میں قانون سازی مﺅخر رہتی ہے ۔اسمبلیوں میں بیٹھے جمہوریت کے پاسبان خود ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی کریں تو کاروائی میں اس کو حدف کرا دیا جاتاہے اس پر انہیں خود ہی احساس نہیں کہ وہ کیا ہیں اور ان کے روپ کیا ہیں ۔مشرف نے آئین توڑا تو کس نے اس کو روکا یا اس کا ساتھ دینے سے انکار کیا ۔جمہوریت کے پاسبانوں نے اس کے ساتھ عقد ثانی کر کے خود این آر او کی چھت تلے ہنی مون منا نا شروع کر دیا ۔آج مشرف کو آمر کہنے والے جب اس کی اسمبلی میں (کیونکہ وہ جمہوری عمل نہیں بلکہ ایک آمر کو تقویت پہنچانے اور اسے آئینی بنانے کیلئے وجود میں لائی گئی تھیں )کے صدر ،وزیر اعظم اوروزیر ومشیر بن بیٹھے تھے ۔انہیں ان کے اصل روپ کی جھلک دکھا کر رام رام پر مجبور کر کیا گیا ۔ان کے دامن اگر جمہور اور جمہوریت سے خون آلودہ نہ ہوتے تو وہ ضمیر کے سامنے شرمندہ ہونے کی بجائے ڈنکے کی چوٹ پر جمہوریت کیلئے آواز بلند کرتے اور قربانی دیتے ۔ایسانہیں کیا گیا بلکہ ذاتی مفاد اور ہاتھ آئی ہوئی حکمرانی کے مزے لینے کو ترجیح دی گئی ۔آج پھر وہ اسی راہ کو دیکھ رہے ہیں کہ کوئی تو آئے جو اِن کی حسرت رفتہ کو لوٹائے ۔اس کیلئے کوئی چیف جسٹس کو دیکھ رہا ہے تو کوئی آرمی چیف کی طرف دیکھ رہا ہے ۔ان کے ساتھی اسمبلی میں چیونگم دانتوں تلے دبائے جمہوریت کے ساتھ ہوتے مذاق کا تماشہ دیکھ رہے ہیں ۔زلزلہ زدگان کیلئے اجڑی ہوئی بستیوں کو پیرس اور لندن بنانے والے بھی یہیں ہیں اور سیلاب زدگان کیلئے ہیروشیما اور ناگاساکی کے نقشے منگوانے کے دعویدار بھی یہیں ہیں ۔اس ملک کو وطن کی بجائے کھلونا جان کر کھیلنے والے آئین اورقانون کی آڑ میں احتساب سے مبرا ہیں ۔ہر صاحب اقتدار اور اختیار کو اگر قانون اور آئین کی رو سے احتسابی عمل سے استثنا ہے تو پھر لوٹ سیل کا عمل کیونکر رک سکتاہے ۔سکندر مرزا ،ایوب ،بھٹو ،ضیاءکی قبروں کی بے حرمتی کرنےھ سے مقاصد حاصل نہیں ہونگے زندوںکے خلاف جو سامنے ہیں احتسابی عمل کا آغاز کیا جانا ہی منزل کی طرف پیش قدمی ہے ۔سابق صدر ہوں یا وزیر اعظم ان کو اپنے اقتدار کا احتساب دینا چاہیے ۔انکے احتساب کیلئے ان کے نیچے کام کرنے والوں کو اقرباپروری کے تحت چھوڑنا ہی سب سے اہم ترین نکتہ ہے ۔صدر اور وزیر اعظم براہ راست تو کسی غیر قانونی اور غیر آئینی عمل میں شریک نہیں ہوتے انکے وزیر ،مشیر اور سیکریٹری اس عمل میں ان کے معاونین کا کردار ادا کرتے ہیں ۔یہ ایک گروہی عمل ہے ۔سابق صدر ،اور ان کے ساتھ ] ]>

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *