رباعیات رشید لکھنوی اور احوال پیری
سوانح عمری تشریح و تجزیہ
تصنیف: رشیدؔ لکھنوی
مرتبہ ـ: ڈاکٹر سیدتقی عابدی
ناشر : شاہد پبلیکیشنز ، ریشمی اسٹریٹ ، کوچہ چیلان ، دریا گنج ، نئی دہلی
مبصر : محمد رکن الدین مصباحی
یہ کتاب شاہد پبلی کیشن ۲۲۵۳،ریشم اسٹریٹ،کوچہ چیلان،دریا گنج ،نئی دہلی (۱۱۰۰۰۲)سے ۲۰۱۴ میں شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب کے چار صفحات پر تبرکات رشید ؔ لکھنوی کی شکل میںتصویر ،انگرکھا،پیالااور دوات کا عکس موجود ہے جس سے رشید ؔ لکھنوی کے متروکات سے واقفیت ہوتی ہے۔
اس کتاب کی فہرست میں درج ذیل عناوین ہیں:
(۱)رومیں ہے رخش عمر
(۲)انتساب
(۳)پیش لفظ
(۴)زندگی نامہ
(۵)رباعیات رشیدؔ میںاحوال پیری
(۶)رباعیات
(۷)کتابیات
ہم یہاں سے مذکورہ عناوین پر مختصر روشنی ڈالیںگے۔
(۱)رو میں ہے رخش عمر
اس عنوان کے ذیل میں تقی عابدی نے اپنا زندگی نامہ پیش کیا ہے۔جس سے ان کی پیدائش،حالات زندگی ،تعلیم و تربیت،خاندانی حالات،ذوق و شوق اور ادبی سر گرمیوں سے واقفیت ہوتی ہے۔
(۲)انتساب
تقی عابدی نے اپنی اس ادبی کاوش کو خاندان انیسؔ لکھنوی اور انسؔ لکھنوی کے نبیران سید سبط حسین نقوی جوہر ؔلکھنوی ،سید احمد میرزا مجربؔلکھنوی اور سید علی امام گوہرؔ لکھنوی کے نام سے منسوب کیا ہے۔
(۳)پیش لفظ ۔دیر آید درست آید
اس عنوان کے تحت تقی عابدی نے اس کتاب کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’رشید ؔ لکھنوی کی صد سالہ برسی کے موقع پر یہ انکشاف قابل ذکر ہے کہ رشیدؔ لکھنوی کے علاوہ آج تک فارسی اور اردو کے کسی شاعرنے شاعر ی کی کٹر صنف رباعی میں پیری سے مربوط اور متعلق چار سو سے زیادہ نادر مضامین کو ڈیڑھ سو رباعیات میں پیش نہیں کیا۔ہم نے اس صحیفہ میں رشیدؔ کی تمام رباعیات جو ہماری دسترس میں تھیں گلدستہ کی شکل میں پیش کی ہیں اور ہر رباعی کی اجمالی تشریح بھی کی ہے‘‘۔(۹۱)
(۴)زندگی نامہ
اس کتاب میں تقی عابدی نے رشیدؔ لکھنوی کے خاندانی پس منظر کو مختلف شجروں کی شکل میں بیان کیا ہے۔شجرہ کی تفصیل یہ ہے کہ اس میں چار شجرے بیان کیے گئے ہیں (اول) شجرہ خاندان رشید ؔ لکھنوی ددھیال کی طرف سے اس میں رشید ؔ لکھنوی کی ددھیالی نسب سید محمد میرزا صاحب انسؔ سے ملتا ہے۔(دوم)شجرہ رشید ؔ لکھنوی ننھال اور ددھیال کی طرف منسوب ہے۔ننھالی رشتے میں انیسؔ کے آپ نواسے ہیں۔(سوم)شجرہ پیارے صاحب رشیدؔ لکھنوی یہ رشیدؔ لکھنوی کا اپنا شجرہ ہے۔(چہارم)شجرہ محمد میرزاصاحب انسؔکا ہے۔اس کے بعد انیس(ؔحقیقی نانا)،مونسؔ،تعشقؔلکھنوی رشید ؔ کے چچا،میرعلی محمد عارفؔ لکھنوی،شدیدؔ لکھنوی،زیدی گوہر وغیرہ کی تصویر جس سے خانوادے رشیدؔ لکھنوی کا علم ہوتا ہے۔واضح ہو کہ سید مصطفی میرزا عرف پیارے صاحب رشید ؔ کا اصل نام ہے اور تخلص رشید ؔ ہے ۔جس کی ولادت ۱۷؍ ربیع الاول ۱۲۶۳ہجری اور وفات ۲۶؍ذی قعدہ ۱۳۲۶ہجری کو ہوئی۔ ڈ اکٹر صاحب نے اس زندگی نامہ میں بھی خاندانی احوال و کوائف ہی کو پیش کیا ہے۔اس کتاب میں دیوان انسؔ لکھنوی ،قلمی مخطوطہ،غیر مطبوعہ کے ساتھ ساتھ ان سب کی تشریح و تفسیر بھی موجو د ہے اور تقریبا گیارہ(۱۱)صفحات پر دیوان انسؔ کا عکس جو کہ مخطوطہ کی شکل میں ہے ،موجو د ہے ان سب کی تفصیل حاشیہ میں درج ہے جس سے دیوان انسؔ لکھنوی کے قلمی مخطوطہ کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ڈاکٹر سید تقی عابدی نے دیوان مخطوطہ( غیر مطبوعہ )جو کہ سید میرزا مجربؔ لکھنوی کا مملوکہ ہے ،کا ذکر کرتے ہوئے اس دیوان میں شامل شعری اصناف کی نشاندہی کی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دیوان انسؔ میں صرف اکسٹھ (۶۱)غزلیں ہیں۔غزلوں میں اشعار کی تعداد زیادہ ہے۔سب سے چھوٹی غزل میں دس (۱۰)شعر ہے اور بڑی غزل میں چوالیس (۴۴)اشعار ہیںکل اشعار کی تعداد (۱۲۸۵)ہے اور تقریباً تمام غزلیں مردف ہیں۔رشیدؔ لکھنوی کا زندگی نامہ بھی تقی عابدی نے بیان کیا ہے ۔رشیدؔ کی شکل وصورت،وضع ولباس،شاعری کی ابتدا کب ہوئی،مشق سخن،اساتذہ وتلامذہ،علمی استعداد،رفتاروگفتار،مذہب وعقیدت،مسافرت،تصانیف وغیرہ کا ذکر بھی زندگی نامہ کا ایک اہم حصہ ہے۔فہرست کلام رشید ؔ لکھنوی درج ذیل ہے:
اصناف
غزلیات کی تعداد( ۱۶۳ )کل تعداداشعار (۱۸۳۷)
قصاید کی تعداد (۲)کل تعداد قصاید(۲۴)
سلام کی تعداد(۱۱)کل اشعار کی تعداد (۱۰۰)
مراثی (۲۲)کل اشعار کی تعداد (۴۹۹۵)
رباعیات(۱۶۰)کل اشعار تعداد(۳۲۰)
کل اشعار (۷۲۸۰)
فہرست غزلیات لکھنوی میں تمام غزلوں کا مطلع درج ہے،ساتھ میں تعداد اشعار اور ملاحظات بھی موجود ہے اور اس کے بعد نمونہ ٔ غزلیات میں (۱۲۵)منتخب اشعار غزل کا بھی ذکر ہے۔اور آخر میں جدول غزلیات بھی درج ہیں۔چند شعر ملاحظہ کریں ؎
ایک خاموشی ہمارے دل کو دیتی ہے ملال
اور سب باتیں پسند آئی تری تصویرکی
اک بات کہیں تم سے ،خفا تو نہیں ہوگے
پہلو میں ہمارے دل مضطر نہیں رہتا
مارڈالے گی ہمیں یہ خوش بیانی آپ کی
موت کا پیغام آئے گا زبانی آپ کی
اس کے بعد فہرست قصاید رشید ؔ لکھنوی میں تمام قصاید کا مطلع اولیٰ درج ہے۔اور قصاید کا انتخاب بھی بہت دل چسپ ہے۔رشید ؔلکھنوی کے سلاموں کی فہرست کے ساتھ مطلع اولیٰ اور جدول سلام بھی درج ہے۔رشید ؔ کے مراثی کی فہرست بھی مطلع اولیٰ اور اصل مآخذ کے ساتھ تقی عابدی نے ذکر کیا ہے جس سے بیان کردہ جدول مراثی کی شکل میں مراثی کی صحیح تعداد کا اندازہ ہوتا ہے۔اس کتاب کا اہم عنوان تلامذہ رشید ؔ لکھنوی ہے جس کاذکر غالباً اس لیے کیا گیا ہے کہ ان کے کلاموں سے رشیدؔ کے فکر اور فن کی بلندی کا پتہ لگایا جا سکے۔شاگردوں کا ذکر کافی تحقیقی انداز میں پیش کیا گیا ہے جس سے تقی عابدی کے وسیع النظری کا بخوبی علم ہوتا ہے۔
(۵)رباعیات رشید ؔمیں احوال پیری
اس عنوان کے ضمن میں تقی عابدی نے رباعی کی تعریف ،عروج و ارتقا کی تاریخ،اہم فارسی رباعی گو شعرا کا تذکرہ،رباعی کا فن،فن رباعی کی اصل اور اردو رباعی کی ابتدا اور اردو رباعی گو شعرا کا ذکر بہت تفصیلی طور پہ کیا ہے۔میں ان نکات پر یہاں اس لیے نہیں گفتگو کر سکتا کیو ں کہ اس سے پہلے انیسؔ اور دبیرؔ کی رباعیات کے حوالے سے فن رباعی پر گفتگو ہوچکی ہے اس لیے اس سے احتراز لازم ہے۔رشید ؔ کی رباعی میں احوال پیری ایک دل چسپ عنوان ہے کیوںکہ انسان کو کبھی نہ کبھی ان حالات سے گزرنا پڑتاہے۔اس لیے رشید ؔ لکھنوی نے سو سے زیادہ رباعیات بڑھاپے کے احوال سے لکھیں جن میں زیادہ رباعیات صرف جھکی کمر کے بوجھ سے شاعری کے چہرے پر ابرو کی خم ہیں۔ذیل میں چند رباعی ملاحظہ کریں:
اندوہِ شباب ٹالنے کو خم ہوں
میں قلب و جگر سنبھالنے کو خم ہوں
دونوں مرے پاؤں ہوگئے بے کار
خارِپیری نکالنے کو خم ہوں
اس رباعی میں جدید تراکیب اندوہ ِشباب اور خارِ پیری کا جواب نہیں۔تیسرا مصرعہ روزمرہ کی بہترین مثال ہے۔
کب تک میں رنج وغم کی شدت دیکھوں
تاکہ اپنے پہ یہ مصیبت دیکھوں
گردوں نے پیر کردیا ہے مجھ کو
خم ہوں کہ بس اب نہ اس کی صورت دیکھوں
اس رباعی میں صنعت ِحسنِ تعلیل کا عمدہ نمونہ پیش کیا گیا ہے:
پیری سے گو جھکا ہوا چلتا ہوں
جو راست ہے وہ راستا چلتا ہوں
اب تو نہ رہِ ثواب سے ہٹ جائیں
اپنے پیروں کو دیکھتا چلتا ہوں
اس رباعی میں صنعت ایہام مجرد،صنعت اشتقاق،تجنیس اور مراعات النظیرکا استعمال ہواہے۔اس طرح سے اردو ادب میں رشید ؔ ایسے واحد شاعر ہیں جنہوں نے پیری کے احوال کو اس قدر تفصیل سے بیان کیا ہے۔
(۶)رباعیات :
اس کتاب میں ایک سو ساٹھ (۱۶۰)رباعیات ہیں جنہیں تقی عابدی نے بشمول مطلع اولیٰ خوب صورت انداز میںپیش کیا ہے۔ تقی عابدی کا انداز پیش کش بہت عمدہ ہے۔تمام رباعیات کی تشریح و توضیح صنائع وبدائع کے ساتھ کی گئی ہے اورساتھ ہی قارئین کے آسانی کے لیے قدیم ونا مانوس الفاظ کی جگہ حل لغات اورسہل الفاظ کا استعمال کیاگیا ہے تا کہ نئی نسل کی فہم رشید ؔ لکھنوی کی رباعیات تک اچھی طرح ہوسکے۔
(۷)کتابیات :
آخیر میں کتابیات کی طویل فہرست ہے جس سے رشیدؔ لکھنوی کی تصنیفات و تالیفات کے ساتھ تقی عابدی کے وسیع مطالعہ کی گواہی دیتی ہے۔
ماحصل یہ ہے کہ آج تک کسی بھی زبان وادب میںخواہ وہ اردوہویا فارسی،عربی ہو یا انگریزی یا اور بھی کوئی دیگر زبانیں احوال پیری کا ذکر اس طرح نہیں ملتا ۔آج تک کسی بھی شاعر وادیب نے پیری یعنی بڑھاپے پر اس قدر اشعار نہیں کہے،البتہ کچھ شاعروں نے بڑھاپے پر چند اشعار ضرورکہے لیکن سو سے زیادہ پیری پہ اشعار پہلی بار اردو ادب میں رشیدؔ لکھنوی نے کہااس لیے تقی عابدی نے پہلی بار رشیدؔ کی رباعیات کی تقسیم کی ،صرف تقسیم ہی نہیں بلکہ تشریح بھی کی ،صرف تشریح ہی نہیں بلکہ مشکل الفاظ کے لیے حل لغات بھی پیش کی ،نہ صرف حل لغات پیش کی بلکہ جو ربا عیات میں محاروے ہیں انہیں واضح طورپر بتایا ،نہ صرف محاورے کا استعمال بتایا بلکہ رشیدؔ کی رباعیات میں جو تشبیہات ،صنائع اور بدائع ہیں اسے واضح بھی کیا یہی وجہ ہے کہ ہر رباعی کی اپنی ایک الگ شناخت بن گئی ہے۔اس میں ایک بسیط مقدمہ ہے جن میں رشید ؔ لکھنوی کی غزلیات،مراثی اور قصاید کا ذکر ہے۔اردو ادب میں آج تک کسی بھی ادیب یا محقق نے رشیدؔ لکھنوی کی رباعیات کواس طرح جمع نہیں کیا تھا ،آج تک کسی نے بھی ان کی رباعیات کی اس قدر تفصیلی تشریح نہیں کی تھی۔اس لیے ڈاکٹر سید تقی عابدی کا یہ کارنامہ یقینا اردو ادب میں بہت اہم ہے کیوں کہ انہوںنے رشیدؔ کی رباعیوں کو موجودہ عہد سے جوڑا تا کہ نئی نسل اس سے استفادہ کر سکے۔رشیدؔ کی رباعیات میں چالیس سے زیادہ مضامین میں خمیدگئی کمر،بڑھاپے کے مسائل،ہاتھ میں عصا،بال کا سفید ہونا،آنکھوں کی بینائی کا ختم ہوجانا،دل کی دھڑکن،دانتوں کا گرنا وغیرہ کا ذکر ہے۔آج کے دور میں بڑھاپا بہت مشکل نہیں ہے کیوں کہ موجودہ دور میں میڈیکل میں بدن کے کسی حصے کا سر جری بہت آسانی سے کروایا جاسکتا ہے اس لیے جدید ٹکنالوجی نے بڑھاپے کے بہت سارے مسائل کا حل پیش کر دیا ہے۔مگر آج سے سو سال قبل اس کا تصور بھی نہیں تھا اس لیے بڑھاپا بہت ظالم چیز تھی ،لوگ مرنے کی دعا ئیں کیا کرتے تھے۔اس ضمن میں رشیدؔ لکھنوی نے بڑھاپے کی بہت ہی خوب صورت تصویر کشی کی ہے۔اور اسے جدید دور میں جدید الفاظ کے قالب میں ڈھال کر ایک باذوق اور عہد حاضر کے ممتاز محقق و نقاد ڈاکٹر سید تقی عابدی نے تجزیہ، تشریح اور حل لغات کی شکل میں پیش کیا ہے۔جو اردوادب کے رباعیات کی تاریخ میں ایک اہم کارنامہ ہے جسے اردو کا ایک اہم نقش کہہ سکتے ہیں۔