تحریر: نجیم شاہ
مہنگائی، بیروزگاری، غربت، قدرتی آفات، لاقانونیت، بدامنی، لوڈ شیڈنگ، جہالت، امتیازی سلوک اور ڈینگی کی ماری عوام ایک طویل عرصہ سے کوئی خوشی کی خبر سُننے کو ترس رہی تھی اور آج کا وہ لمحہ بھی آ گیا ہے۔ اہلِ پاکستان کو مبارک ہو کہ ملک میں ایک اور ڈاکٹر کا اضافہ ہو گیا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ حضرت رحمن ملک مداظلہ بھی ڈاکٹر بن گئے ہیں۔ اس وقت موصوف جہاں بی اے اور ایم اے ہیں وہاں بفضلہ تعالیٰ پی ایچ ڈی بھی ہو چکے ہیں۔ یہ ڈگری کسی قومی یا بین الاقوامی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی باقاعدہ تعلیم کے بعد حاصل نہیں کی گئی بلکہ کراچی یونیورسٹی کی مرہون منت ہے جو اُن کی ملک کے لیئے ”اعلیٰ خدمات“ انجام دینے کے عوض اعزازی طور پر عطاء کی گئی ہے۔ رحمن ملک کی اِن اعلیٰ خدمات کا براہ راست تعلق کراچی میں امن و امان کے قیام سے ہے اور یہی وہ خوشخبری ہے جسے ایک عرصے سے پوری قوم سُننے کو ترس رہی تھی ۔
گزشتہ چند سالوں سے کراچی میں ہر طرف کشت و خون کا بازار گرم تھا، اس شہر کی ترقی اور حسن برباد ہو رہا تھا، ڈر اور خوف کے سائے نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی، ہر طرف لینڈ مافیا، ڈرگ مافیا اور دہشت گردوں کا راج تھا لیکن پھر یکدم اس شہر میں پہلے والی رونقیں دوبارہ لوٹ آئیں اور یہاں سے ڈرگ مافیا، لینڈ مافیا ، ٹارگٹ کلرز اور دہشت گردوں کا ہمیشہ کے لیئے صفایا ہو گیا۔ وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کی دن رات کی کوششوں سے کراچی دوبارہ روشنیوں کا شہر بن گیا ہے لیکن ہمیں پتہ تک نہ چل سکا۔ یہ راز تو اُس وقت کھلا جب گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے گورنر ہاؤس میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب کے دوران اُنہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔ اس پر مزید مہر ثبت اُس وقت ہوئی جب صدر آصف زرداری نے رحمن ملک کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری ملنے پر مبارکباد دی۔ صدر زرداری کے مبارکبادی پیغام سے بھی اس بات کی تصدیق ہو گئی ہے کہ یہ اعزازی ڈگری کراچی میں امن کی بحالی کی کوششوں کے اعتراف میں دی گئی ہے۔
رحمن ملک کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملنا کوئی انہونی بات نہیں کیونکہ کسی بھی اعلیٰ کارکردگی یا خدمات کے عوض سیاسی و سماجی شخصیات ، کھلاڑیوں، فلمی سٹارز ، قملکاروں اور دیگر پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو ایسی اعزازی ڈگریاں ملتی رہتی ہیں بلکہ اہلِ پاکستان کیلئے انہونی بات تو یہ ہے کہ کراچی میں امن قائم ہو گیا ہے اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو سکی۔ پچھلے دنوں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے کراچی کے حالات کی خرابی کا ذمہ دار رحمن ملک کو قرار دے کرشدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اُس وقت سے لے کر آج تک ذوالفقار مرزا خبروں کا موضوع بنتے چلے آ رہے ہیں۔ ڈاکٹر مرزا کے تابڑ توڑ حملوں کا رحمن ملک کوئی برجستہ جواب نہ دے سکے شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ مرزا کی ڈاکٹری سمجھنے سے قاصر تھے۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا بار بار رحمن ملک کو وزارت داخلہ سے فارغ کرنے کا مطالبہ بھی کرتے رہے لیکن بجائے فارغ ہونے کے وہ اُن کے مقابلے میں ڈاکٹر بن بیٹھے۔ حکومتی حلقوں میں یہ بات عام تھی کہ ان دونوں کی لڑائی میں آخری فتح رحمن ملک کی ہوگی ۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے بقول رحمن ملک اس قدر جھوٹے ہیں کہ اگر سیب کھا رہے ہوں تو بولتے ہیں کیلا کھا رہا ہوں اس لیئے انہیں جھوٹ بولنے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملنی چاہئے لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا اور موصوف کراچی میں قیامِ امن کے نام پر ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری حاصل کرکے ذوالفقار مرزا کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے۔
پیپلز پارٹی میں ڈاکٹروں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، ڈاکٹر فوزیہ وہاب، ڈاکٹر بابر اعوان کے بعد اب ڈاکٹر رحمن ملک بھی میدان میں موجود ہیں۔ ذوالفقار مرزا کی بغاوت کے بعد اس پارٹی میں ایک ڈاکٹر کم پڑ گیا تھا اور یہ کمی اب رحمن ملک کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری ملنے کے بعد پوری ہو گئی ہے۔ اتفاق بھی کچھ ایسا ہے کہ ایک صوبائی وزیر داخلہ رہ چکے ہیں جبکہ دوسرے وفاقی وزیر داخلہ کے عہدے پر براجمان ہیں۔ یہ بھی کیسا اتفاق ہے کہ مذکورہ تمام ڈاکٹرز ہر وقت حکومتی پالیسیوں کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ ممکن ہے زرداری صاحب کو کسی نے مشورہ دیا ہو کہ ڈینگی مچھر سے نپٹتے نپٹتے شہباز شریف بھی ڈاکٹر بن گئے ہیں لہٰذا اُن کا مقابلہ کرنے کے لیئے حکومت کے پاس بھی ڈاکٹروں کی فوج ظفر موج ہونی چاہئے۔ یہ بھی خدشہ ہے کہ جن اعلیٰ خدمات کے اعتراف میں رحمن ملک کو اس اعزاز سے نوازا گیا کہیں ایسا ہی مطالبہ دوسرے حکومتی وزراء بھی نہ کر ڈالیں اور اگر اُن کا مطالبہ پورا نہ کیا گیا تو پھر وہ اپنی وزارت سے دلبرداشتہ بھی ہو سکتے ہیں۔
وفاقی وزراء میں سے وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ پہلے سے اکنامکس میں پی ایچ ڈی ہیں اس لیئے انہیں مزید کسی ڈاکٹریٹ ڈگری کی ضرورت نہیں ہے۔ وزیر اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان، وزیر مواصلات ارباب عالمگیر خان اور وزیر پٹرولیم عاصم حسین تینوں پہلے سے ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں۔ یہ تینوں بھی مقابلے سے باہر ہیں البتہ اگر حکومت چاہے تو پھر رائٹ مین فار رائٹ جاب یعنی صلاحیت کے مطابق ذمہ داری کے فارمولے کو دیکھتے ہوئے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نواز سکتی ہے کیونکہ ان وزارتوں کے لئے تینوں کا انتخاب درست نہیں لہٰذا ان سے بہتر کارکردگی دکھانے کا مطالبہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ وزیر ریلوے غلام احمد بلور ایک سو سے زیادہ ٹرینیں بند اور دو سو سے زائد ریلوے انجن گراؤنڈ کرنے جیسے کارہائے نمایاں انجام دینے کے عوض اعزازی ڈاکٹریٹ کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ پانی و بجلی کے وفاقی وزیر سید نوید قمر اپنی وزارت میں ابھی نووارد ہیں اس لیئے حکومت اگر چاہے تو اس اعزاز سے سابق وزیر راجہ پرویز اشرف کو نوازا جا سکتا ہے۔ اُن کا یہ اعلان کہ 31دسمبر 2009ء کے بعد بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو جائیگا اس وقت بھی زبان زدِ عام ہے۔ اس اعلان کے بعد نہ صرف ہمیشہ کیلئے لوڈ شیڈنگ ختم ہو چکی ہے بلکہ پاکستان سے توانائی کا بحران بھی ٹل گیا ہے۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری نہ ملنے پر اگر نوید قمر کی طرف سے ناراضگی کا خدشہ ہو تو پھر اُنہیں اکثر تقریبات کے دوران سوئے رہنے جیسے کارنامے پر اس اعزاز سے نوازا جا سکتا ہے۔ وزیر تجارت مخدوم امین فہیم کو این ایل سی اسکینڈل کے چار کروڑ دس لاکھ روپے قومی خزانے میں واپس جمع کرنے پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی جا سکتی ہے جبکہ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اور وزیر قانون مولا بخش چانڈیو اپنی وزارتوں میں ابھی نووارد ہیں لہٰذا دونوں کو مزید کارکردگی دکھانا پڑے گی۔ مذہبی امور کے وزیر خورشید شاہ بھی اپنی وزارت میں ابھی نووارد ہیں لہٰذا یہ اعزاز مذہبی امور کے سابق وزیر حامد سعید کاظمی کو دیا جا سکتا ہے کیونکہ اُنہوں نے اپنے دور میں حاجیوں سے فی کس پچیس ہزار روپے کمیشن لے کرعالمی ریکارڈ قائم کیا۔ ایبٹ آباد میں اُسامہ کے خلاف امریکہ کی یکطرفہ کارروائی کے بعد وزیر دفاع چوہدری احمد مختار کے نام پر بھی غور کیا جا سکتا ہے البتہ دیگر وزراء کو یہ اعزاز پانے کیلئے ابھی مزید محنت درکار ہے۔