Home / Socio-political / ریلی ، سوگ اور احتجاج

ریلی ، سوگ اور احتجاج

 

ریلی ، سوگ اور احتجاج

          گذشتہ دو تین ہفتوں سے پاکستان میں یا  پاکستان کے حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان دنوں پاکستان سخت کرائسس سے گزر رہا ہے ۔ سیاسی اعتبار سے جنرل مشرف نے ایک نئی پارٹی بنا کر سیاسی تالاب میں ہلچل مچا دی ہے ۔ اس ہلچل سے ایوان سیاست میں  ایک نئے زلزلے کابھی آغاز ہو گیا کیونکہ  جنرل مشرف  نے اپنی نئی پارٹی کے لانچ کے موقعے سے ہی  جس طرح کی تقریر کی اور پاکستان کی انتظامیہ  اور حکمرانوں کے حوالے سے جو باتیں کیں وہ حالانکہ کوئی نئی بات نہیں تھی مگر جس معتبراور اعلیٰ عہدے پر فائز شخص نے یہ بات کہی وہ اہم تھی ۔ جنرل مشرف  آرمی چیف کے علاوہ صدر پاکستان بھی  رہ چکے ہیں ۔ان کے متعلق یہ بھی کہا جاتا رہا ہےکہ وہ پاکستان میں سب سے زیادہ طاقتور حکمران رہے ہیں ۔ ان کا یہ کہنا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کو باضابطہ  ہندستان کے خلاف تیار کیا جاتا ہے اور ان کی امداد کی جاتی ہے ۔کشمیر کے لیے ان دہشت گردوں کو تیار کیا جاتا ہے تاکہ وہ کشمیر میں جہادی سر گرمی کر سکیں ۔ جنرل مشرف کے اس بیان بعد نہ صرف ہندستان کے اس موقف کی تائید ہوئی کہ پاکستان اپنی سر زمین کو ہندستان مخالف سر گرمیوں کے لیے استعمال کرتا ہے بلکہ اس سے پاکستان خفیہ ایجنسیوں سمیت حکمرانوں کے چہرے بے نقاب ہوئے ۔مشرف کے اس بیان کو پاکستان کی سیاسی پارٹیوں نے سخت تردید کی ہےاور کہا کہ مشرف کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب کشمیر کے حالات پاکستان کے نقطہ نظر سے بہتر ہورہے تھے ، ایسے وقت یہ بیان کشمیر کاز کو نقصان پہنچائےگا۔خیر ایک طرف تو مشرف صاحب کے بیان اور ان  کی پارٹی کے قیام کے اعلان سے پاکستان میں ہنگامہ بر پا تھا تو دوسری جانب ناٹو افواج کی رسد رسانی اور غازی بابا کے مزار پر حملے نے پاکستان کے حالات کو اور بھی نا گفتہ بہ بنا دیاہے۔

عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر شدت پسندوں نے اس وقت کو منتخب کیا جب زائرین کی بڑئ تعداد  ہوتی ہے۔ جمعرات کی وجہ زائرین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔اس وجہ سے اس حملے میں تقریبا سو افراد زٕخمی اور کئی ہلاک ہو گئے ۔دھماکوں کی اطلاع ملتے ہی امدادی ٹیمیں جائے وقوعہ پرپہنچ گئیں۔دھماکے کے فوری بعد پولیس، رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مزار کے سے متصل علاقے کو چاروں جانب سے گھیرے میں لے لیا۔پاکستانی اخبارات  کے مطابق لاہور میں داتا دربار حملے کے بعد پاکستان میں جن مزارات پر حملوں کی وارننگ جاری کی گئی تھی ان میں عبداللہ شاہ غازی کا مزار بھی شامل تھا۔قانون نافذ کرنے والے اداروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہاں ایک اور دھماکہ بھی ہو سکتا ہے جس کے پیش نظر لوگوں کو جائے وقوعہ سے دور رہنے کی ہدایت کی ہے۔زخمی اور ہلاک ہونے والوں میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔اس حملے کے بعد  کراچی کے تمام مزارات سیل کردئے گئے ہیں ۔دھماکے اس قدر شدید تھے کہ قریب کھڑی گاڑیوں اورعمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے اور دھماکے کی آواز پانچ سے چھ کلومیٹر تک سنی گئی۔دونوں دھماکے ایک منٹ کے وقفے سے مزار کے مرکزی دروازے پر نصب واک تھرو گیٹ پر ہوئے ۔دھماکے کے بعدبھگدڑ مچ جانے سے بھی بہت سے زائرین زخمی ہوئے۔ دھماکوں میں زخمی ہونے والوں کو کراچی کے عباسی شہید اور جناح ہسپتال سمیت دیگرہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔عبداللہ شاہ غازی پر ہونے والے دھماکوں کے بعد شہر کے تمام مزارات کو بند کردیا گیا ہے۔ ڈی آئی جی ایسٹ نے  میڈیا کو بتایا کہ مزارات کو سیکورٹی خدشات کے باعث فوری طور پر بند کردیا گیا ہے۔کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کے مزارپر خود کش حملوں کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے ۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ حکومت داتا دربار اور شاہ عبداللہ غازی کے مزار پر حملوں میں ملوث دہشت گردوں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دلائے۔عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر خودکش حملوں کے خلاف اسلام آباد ،ملتان ، کراچی، ٹھٹھہ، سکھر، گوجرنوالہ سمیت مختلف علاقوں میں نماز جعمہ کے بعد احتجاج کیا گیا۔ مقررین کا کہنا تھا کہ اسلام دشمن قوتیں مسلمانوں میں فرقہ واریت پیدا کر کے ان کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہیں ۔اس لئے ملک میں اتفاق و اتحاد پیدا کرکے ان سازشوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔دھماکوں کے خلاف اندرون سندھ کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے اور ریلیاں نکالی گئیں ۔سکھر میں جمعیت علمائے پاکستان اور سنی تحریک کی جانب سے احتجاجی ریلی مختلف شاہراؤں سے ہوتی ہوئی گھنٹہ گھر چوک پہنچی جہاں مظاہرین نے مزارات پر سیکیورٹی کے ناقص انتظامات کے خلاف نعرے بازی کی ۔شرکا کا کہنا تھا کہ حکومت مزارات پر سیکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جو شدت پسند ہیں وہ مر کزی حکومت اور صوبائی حکومتوں میں کلیدی عہدوں پر فا ئض ہیں۔ وہ اپنے اپنے آدمیوں کے رکھوالے ہیں اور ان کو تمام سہولت فرا ہم کرتے ہیں پھر یہ بھی کہ کراچی میں پولس والے بھی تمام صوبوں سے کمانے آتے ہیں ۔ انہیں مقامی مسا ئل سے دلچسپی کم اور کمانے سے زیادہ ہو تی ہے وہ بھی مجرموں کے شریک َکار ہیں۔ نتیجہ وہی ہے جو ہو نا چا ہیئے۔مثال کے طور پر عبد اللہ شاہ غازی کے مزار پر دھماکےکا تازہ بہ تا زہ معاملہ لے لیں ؟ چار دن پہلے سے وہ تمام سر کٹ کیمرے نا کا رہ کر دیئے گئے تھے۔ جو ملزمان کی نشاندھی کر سکیں ایک نہیں سارے ۔اس کے بعد بونی ایک بنک ڈکیتی سے ہو ئی کہ مالی معالات بھی بہتر رکھنے کی ضروری تھے اور اس کے بعد دھماکے ہو گئے۔ اس کا فا ئدہ یہ ہوا کہ جو کام دہشت گرد نہیں کرا سکے اس کو سندھ کے وزیر ِ داخلہ نے کر دیا کہ تمام مزارات کو تالے لگا دیئے۔ اس پر جو احتجاج نظر آیا وہ صرف سنی تحریک اور اہل ِ تشیع کی طرف سے آیا کہ ان کا کہنا تھا کہ یہ کو ئی مسئلہ کا حل نہیں ہے کل کو جلوس بند کر دیئے جا ئیں  گےامام با ر گاہوں میں مجا لس کا انعقاد بند کر دیا جا ئے گا اور پر سوں کو ممکن ہے کہ ایک مخصوص فرقے کے علاوہ تمام مدارس اور مساجد بھی بند کر دی جا ئیں ۔جو کہ حکومت میں شامل جما عتوں کو پسند نہیں ہیں ۔اس طرح یہ بات سامنے آتی ہے کہ حکومت خود بھی اس حساس معاملے کو حساس طریقے سے نہیں  لے رہی ہے ، جبکہ اس طرح کے معاملات سے ملک میںمسلکی جنگ چھڑ سکتی ہے کیونکہ مزارات پر حملے ایک خاص فرقے کے عقیدے پر حملے ہیں ۔ اور یہ حملے کسی بھی طرح غیر ملکی نہیں ہیں بلکہ یہ حملے پاکستان کے اندرون میں موجود ان شر پسندوں کی کرتوت ہیں جو ملک میں اپنے عقیدے کو بم اور دھماکوں سے رائج کرناچاہتے ہیں ۔ یہ کوئی پہلا معاملہ نہیں ہے تقریبا ایک سال قبل ایک سنی عالم دین کو دن دہاڑے قتل کرنے کا مذموم کام بھی ایسے ہی دہشت گرد کر چکے ہیں اور یہ سبھی کو معلوم ہے کہ پاکستان میں الگ الگ مسالک کے لوگ  اس طرح کی شر پسندی میں ملوث ہیں ۔وہ طبقہ جو مزارات پر حاضری اور سکام و  درود کو  کسی بھی طرح جائز  نہیں سمجھتا وہ اس طرح کی حرکتیں کر رہے ہیں ۔ کچھ دنوں قبل لاہور کے داتا دربار میں جب کود کش حملے ہوئے تھے تو اس سے قبل وہاں کئی بار اس طرح کے اشتہارات تقسیم کیے گئے تھے جن میں ان کاموں کو بدعات کہتے ہوئے اس کی تردید کی گئی تھی اور لوگوں کو اس طرح کی بدعات سے بچنے کے لیے کہا گیا تھا، پھر اس کے بعد ان لوگوں کو اشتہارات کے ذریعے ڈرایا دھمکایا گیا  تھا۔ ان تمام دھمکیوں کی اطلاع حکومت کے پاس تھی مگر حکومت داتا دربار میں خودو کش حملے کو نہیں رو ک سکی اور کراچی میں بھی اس طرح کے خدشات تھے مگر حکومت شاید ا

ب پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ متبرک مقامات کی حفاظت کر سکے اور اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کر سکے۔

          اس طرح کے قابل مذمت واقعات اور خود کش دھماکے اب پاکستان کے لمحہ فکریہ بن گئے ہیں کیونکہ اس سے ملک کی شبیہ تو خراب ہو ہی رہی ہے ۔خود ملک کے اندر بھی انتشار پھیلنے کےامکانات پیدا ہونے لگے ہیں ۔ بہت عرصے کے بعد بہت کوششوں سے بین المسالک ہم آہنگی پیدا ہورہی تھی سو اب اس پر بھی آنچ آنے لگی ہے۔ اس لیے حکومت کو انتہائی سنجیدگی سے اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے اور ملزمین کو عبرتناک سزائیں دینے کی بھی ضرورت تاکہ ملک کے امن و امان میں خلل نہ پڑے ۔ صرف سوگ منا لینے اور ریلی نکال لینے سے مسائل حل نہیں ہوتے اس کے ضروری ہے سوگ منانے والی پارٹیاں اور جامعتیں مل جل کر اس کے تدارک کی کوشش کریں ۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *