عالمی سطح پر اسلامی ممالک میں ایک شورش بر پا ہے ۔ صدیوں سے دبی چنگاریاں اب شعلے کی شکل اختیار کرتی جارہی ہیں ۔ مصر کے بعد یمن ، بحرین ، لیبیا میں عوامی غم وغصے کو سڑکوں پر دیکھا جارہا ہے ۔ایسے میں دیگراسلام ممالک بھی محتاط ہورہے ہیں تاکہ ان شعلوں کی لپک وہاں تک نہ پہنچ جائے ۔ اسی لیے ابھی سعودی شہزادہ طلال بن عبد العزیز نے ملک میں اصلاحات کو ضروری قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عوامی مسائل کی جانب توجہ دینے کی بات کی ہے ۔ ایسے حالات میں پاکستان کو بھی محتاط رویہ اپنانے کی ضروت ہے کیونکہ قیاس یہ بھی لگایا جا رہا ہے کہ ان ممالک کے بعد پاکستان میں بھی یہ صورت حال ممکن ہے ۔ بس آگ کے ڈھیر سے چنگاری کو ہوا دینے کی ضروت ہے۔کیونکہ پاکستان میں ایک نہیں کئی ایسے مسائل ہیں جن سے عوام نہ پریشان ہیں بلکہ جاں بلب ہیں ۔ایک طرف بے محابہ ڈرون حملے ہیں تو دوسری جانب امریکہ کی بڑھتی محکومیت ہے جس سے ملک کی سالمیت کو بھی خطرے لاحق ہیں اور عوام تو آئے دن حقارت آمیز رویوں سے پریشان ہیں ہی۔ ازیں علاوہ ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ پاکستان میں آگ پر گھی کاکام کر رہاہے ۔ ریمنڈ ڈیوس کے خلاف ملک میں جگہ جگہ احتجاج ہورہے ہیں لیکن حکومت کچھ کرنے کی پوزیشن میں اس لیے نہیں ہے کہ ایک طرف امریکہ ہے تو دوسری جانب ملک کے عوام ۔ حکومت کی حالت یہ ہے کہ ‘‘ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن ’’ دن بہ دن ڈیوس کی رہائی کے لیے امریکی دباؤ بڑھ رہا ہے تو دوسری جانب عوام کا غصہ بھی اسی رفتار سے سڑکوں پر مظاہرے کی شکل میں نظر آرہا ہے ۔اب تک یہ باتیں کی جارہی تھیں کہ اس کے ساتھ سفارتی مراعات کے تحت ہی کچھ چارہ جوئی کی جاسکتی ہے ۔ لیکن اب یہ بھی راز طشت از بام ہو چکا ہے کہ ریمنڈ کو پاکستان میں سفارتی مراعات حاصل ہی نہیں تھیں ۔اس لیے اب قانونی اور سفارتی معاملات دونوں کو حربہ بناتے ہوئے اس مسئلے کو مزید سنگین بنایا جارہا ہے ۔جس کا نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات میں شدید کشیدگی آگئی ہے۔ امریکہ کی جانب سے ہر طرح کی کوششیں کی جارہی ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس کو رہا کرایا جاسکے ۔ اس کے تحت امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن نے نیویارک میں ایشیاسوسائٹی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ‘‘ افغانستان میں طالبان اورالقاعدہ کے خلاف لڑائی میں کامیابی کے لیے پاکستان کاتعاون انتہائی ضروری ہے۔انھوں نے ریمنڈڈیوس کیس کاذکر کیے بغیر کہا کہ دونوں جانب سے بداعتمادی کے باعث تاخیر ہورہی ہے۔دونوں ملکوں کوہوشیاری کے ساتھ غلط فہمیوں اوراختلافات کودورکرنے کے لیے ملک کرکام کرنا چاہیے تاکہ گزشتہ دوسال سے جاری پیش رفت کو پٹری سے اترنے سے بچایا جاسکے۔’’لیکن وہ بتانے سے عاجز رہیں کہ آخر یہ نوبت آئی ہی کیوں؟ اور ایسے معاملے میں امریکہ بلا وجہ کیوں پریشان ہے ؟۔انسانی جانوں کے زیاں کی باتیں وہ عراق ، افغانستان اور پاکستان میں کیوں نہیں کرتا ۔ صرف شبہے کی بنیاد پر بم برسانے والے ملک کو آج اپنے شہری کی جان اتنی قیمتی کیوں لگ رہی ہے۔؟ جس نے دو معصوم پاکستانی کی جان لی ۔اس کے بر عکس پاکستان کے کئی شہری امریکی جیل کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں ۔لیکن پاکستانی حکومت کی مجبوری یہ ہے کہ ابھی بھی وہ بین بین میں ہے اور کوئی درمیانی راہ کی تلاش میں ہے ۔
اس معاملے کی سنجیدگی کو سمجھنے کے لیے پاکستانی اخبارات کی رپورٹنگ کی بنیاد پر چند حقائق پیش ہیں ۔ پاکستان کے صدر آصف زرداری نے کہا کہ‘‘ ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ اتنا آسان نہیں جتنا اسے بعض اوقات ظاہر کیا جارہا ہے۔ یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے اور اسے خوش اسلوبی سے حل کرنے کیلئے تمام پہلوﺅں کو مدنظر رکھنا ہوگا’’۔شاید اسی لیے پاکستانی حکومت ریمنڈ ڈیوس کے کیس میں ‘خون بہا’کے ممکنہ راستہ نکالنے کے امکانات پر کام کر رہی ہے۔اخباری رپورٹس کے مطابق ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر پاکستانی حکومت امریکا کے ساتھ جاری شدید تناوٴ کا خاتمہ چاہتی ہے۔ ڈیوس کے سخت ترین مسئلے پر حکومت ایسا ممکنہ بچاوٴ چاہتی ہے جس کیلئے اس آپشن پر کام کر رہی ہے کہ حکومت پر کوئی الزام بھی نہ آئے اور وہ اپنے آپ کو عوام کی نظر میں سرخرو بھی رکھنے میں بھی کامیاب ہو۔حکومت کی کوشش ہے کہ مقتولین کے ورثاء کو امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کی طرف سے رقم کی ادائیگی کے بعد وہ تمام الزامات واپس لینے پر راضی ہو جائیں۔
کہیں یہی وجہ تو نہیٕں کہ عدالت کی حالیہ شنوائی میں ریمنڈ سے متعلق تمام تفصیلات نہیں پیش کی جاسکیں ۔سابق وزیر خارجہ نے اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئےمعاملے کے کئی پہلو کو ابھار دیا ہے ۔پاکستانی اخبارات کے حوالے سے جو باتیں نکل کر سامنے آئیں ہیں وہ یہ ہیں کہ خود پاکستان میں سیاسی جماعتیں اور افراد اس معاملے میں الگ الگ خیال رکھتے ہیں ۔‘‘میاں نواز شریف نے کہا کہ پاکستان کی وفاقی حکومت نے ریمنڈ ڈیوس کے معاملے کو “مس ہینڈل” کیا ہے جس کے باعث معاملہ پیچیدہ ہوگیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سینیٹر جان کیری سے بھی ملاقات میں انہوں نے اپنے اسی موقف کو دہرایا کہ ڈیوس کے کیس کا فیصلہ پاکستانی قانون کے مطابق کیا جائے گا۔’’اور شاہ محمود قریشی کے مطابق ‘‘ ریمنڈ ڈیوس کا مسئلہ امریکا نے اپنے اوپرسوارکرلیا ہے بلاشبہ امریکا بہت بڑی طاقت ہے لیکن قوم کھڑی ہوچکی ہے اور وقت آگیاہے کہ سراٹھاکرجیاجائے۔
ان حالات کو دیکھتے ہوئے امریکی صدر نے جو بیان دیا ہے اس پر تبصر ہ کرتے ہوئے رؤف عامر نے نیوز اردو میں اپنے ایک کالم میں لکھا ہے کہ ‘‘امریکی ایوان نمائندگان کی چہچہاہٹ کے بعد صدر اوبامہ بھی قاتل ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے لئے میدان میں اترچکے ہیں۔ اوبامہ نے حاکمانہ دندھاہٹ اور تحکمانہ انداز میں فرمایا کہ ریمنڈ کو فوری رہا کیا جائے ۔ ویانا کنونشن کے تحت اسکی گرفتاری غیر قانونی ہے ۔ اوبامہ کے صدارتی الیکشن میں انکے حریف ریپبلکن پارٹی کے سینٹ جان کیری بھی بھاگم بھاگ پاکستان آئے۔کیری نے صدر و وزیراعظم سے ملاقاتوں کے دوران ریمنڈ ڈیوس کی معصومیت اور شرافت کے نوحے گا کر بیک جنبش قلم رہائی کا مطالبہ کیا۔ جان کیری کی آمد سے یہ حقیقت عیاں ہوچکی ہے کہ امریکہ کی دونوں بڑی پارٹیاں ریمنڈ کے وحشیانہ جرم کے باوجود اسکی رہائی کے لئے لرزاں و ترساں ہیں۔امریکی قوم ایک شہری کی غیر منصفانہ آزادی کے لئے باہم شیر و شکر بن گئی۔ دوسری طرف ہمارے سیاسی و حکومتی مہاراجوں اور سول سوسائٹی کی بے تکانی ہڑبوئنگ نفسا نفسی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ہم ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی ظلمت کدوں کی تپتی دوزخ سے باہر کرنے کے لئے مشترکہ پالیسی اپنانے میں نامراد ٹھہرے۔ حکومت اس تنازعے پر سنگین گھمبیرتا کی زد میں ہے۔’’کالم نگار نے صورت حال کا ذکر تلخی بھرے لہجے میں ضرور کیا ہے ، مگر یہی وہ تلخ حقیقت ہے جس ابھی پاکستان جھوجھ رہا ہے ۔سب سے بڑی محرومی یا تلخی یہ ہے کہ امریکہ کے لیے سب روا ہے مگر پاکستان کو کبھی انسانی حقوق کا درس دیا جارہا ہے تو کبھی آئینی ضوابط کے حوالے دئے جارہے ہیں۔
ان حالات میں عوام کی نگاہیں چیف افتخارچوہدری پر بھی لگی ہوئیں جن کی حمایت میں لوگوں نے اپنے خون پسینے ایک کیے تھے ۔ عوام اب تک معاملے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے صبر و ضبط سے کام لے رہی ہے ۔ اگر خدا نخواستہ حکومت وقت نے کوئی ایسا فیصلہ لیا جو عوامی غم و غصے کا سبب بن گیا تو شاید پاکستان میں نئے انقلاب کی وجہ یہی ریمنڈ بن جائے گا۔
***