Home / Socio-political / زانیوں کو سزا دینے میں امتیاز سب سے بڑی رکاوٹ

زانیوں کو سزا دینے میں امتیاز سب سے بڑی رکاوٹ

زانیوں کو سزا دینے میں امتیاز سب سے بڑی رکاوٹ
عابد انور ہندوستان میں آج تک جتنے بھی مظاہرے ہوئے ہیں ، تحریکیں چلی ہیں،کسی واقعہ کے خلاف عوام کا غصہ آسمان پر رہا ہے یا نظام زندگی درہم برہم کردیا کیا گیا لیکن وہ کبھی مذہبی قید سے آزاد نہیں رہا۔ عوامی طوفان کبھی بھی مشترکہ ہندوستانی عوام یا بلاامتیاز مذہب و ملت نہیں رہا۔ آزادی کے بعد سے آج تک جتنی تحریکیں چلیں اگراس پر نظر ڈالیں تو اس سے صرف ایک خاص طبقہ کی مراد پوری ہوئی دکھائی دیتی ہے اور ایک طبقہ کے نظریہ کو فروغ ملا ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ یہ طبقہ ہر طرح کے جرائم میں مبتلا ہے یہاں تک کہ ملک میں دہشت گردانہ واقعات میں بھی ملوث ہے اوراس کے ایک درجن کارکن گرفتار بھی کئے گئے ہیں لیکن عوام میں اس طبقہ کے تئیں کسی طرح کی ناراضگی نہیں ہے بلکہ اسے سب سے بڑا دیش بھکت تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے گناہ اور ظالمانہ رویے کی ہندوستانی سماج اس قدر احترام کرتاہے کہ اس سے بڑا کوئی سورما نہ ہو۔ ہندوستان ایسا ملک ہے جہاں جرائم کو بھی مذہب سے منسلک کرکے دیکھا جاتاہے۔ اگر جرم کا ارتکاب کرنے والا اکثریتی فرقہ سے تعلق رکھتا ہے اور خصوصاً وہ سنگھ پریوار سے وابستہ ہے تو اس کا سات خون بھی معاف ہوجاتا ہے۔ اس کے بریگیڈ سر عام مختلف موقعوں پر عورتوں کی بے عزتی کرتا رہتا ہے لیکن کوئی اس کے خلاف آواز اٹھانے والا نہیں ہوتا اور نہ ہی اسے گھناؤنا جرم قرار دیتاہے۔ طالبان کی کسی بھی حرکت کو پورے اسلام کی حرکت تصور کرنے والا ہندو سماج اور ہندوستانی میڈیا کبھی بھی ایسی ذلیل اور وحشی رویے کو ہندو مذہب سے نہیں جوڑتا۔ ہندوستانی سماج کبھی بھی معتدل نہیں رہا۔ ظلم ڈھانے پر آجائے تو حیوانیت کے تمام ریکارڈ توڑ دے جیساکہ گجرات میں ہوا اورکسی کے حق میں آواز بلند کرنے پر اترآئے تو تمام نظام درہم برہم کردے جیسا کہ آج کل دہلی سمیت پورے ملک میں ہورہاہے۔کیا ایسا ہی ہنگامہ ہوا ہوتا اگر متاثرہ لڑکی مسلمان ہوتی۔ یہ اچھی بات ہے کہ اجتماعی آبروریزی کے شکار لڑکی کے حق میں اتنی شدت کے ساتھ آواز بلند کی جارہی ہے۔ ہم تو صرف اس کی تکلیف کا تصور ہی کرسکتے ہیں۔ اس لڑکی پر کیا بیتی ہوگی جو اس وحشیانہ فعل اور درندگی کا شکار ہوئی اور اس دکھ کو جھیلا۔ ملک بھر میں لاکھوں خواتین اس درد سے دوچار ہوتی ہیں اس سے نہ صرف جسم زخمی ہوتا ہے بلکہ روح بھی زخمی ہوجاتی ہے اور یہ ایسا زخم ہوتا ہے جو کبھی نہیں بھرتا ، ناسور بن کر رستا رہتا ہے۔ آج پورا ہندوستان اس کے خلاف آواز بلند کر رہا ہے حتی کہ پارلیمنٹ میں بھی ممبران نے خاطی کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ کیا صرف سزائے موت دینے سے یہ سنگین جرم کا سدباب ممکن ہے ؟اور اگر اسی طرح کاحادثہ مسلم خواتین کے ساتھ ہوگا تو میڈیا، پولیس، قانون، عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کا رویہ یہی ہوگا۔سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ آبروریزی کے واقعات میں خواہ وہ باالجبر ہو یا باالرضا سیاست داں ہی سب سے آگے ہیں ۔ ثبوت کیلئے الیکشن کمیشن میں جمع کردہ حلف نامے کو دیکھا جاسکتاہے۔ ایسے میں کوئی سخت قانون بنانا اور اسے نافذ کرنا بیان بازی کے حد تک تو ممکن ہے لیکن عملی شکل دینا بہت ہی مشکل ہے کیوں کہ ہندوستانی سیاست داں خود نہیں بدلتے ہیں وقت کو بدلنے میں یقین رکھتے ہیں۔
دہلی میں گزشتہ16دسمبر کی رات کو چلتی ہوئی بس میں ایک 23 سالہ پیرا میڈیکل کی طالبہ کی اجتماعی آبروریزی کی گئی ۔ بتایا جاتا ہے کہ جیسے ہی یہ لڑکی اپنے دوست کے ساتھ بس میں چڑھی تو حملہ آوروں نے اس پر پھبتی کسنا شروع کر دی کہ اتنی رات کو ایک آدمی کے ساتھ گھر سے باہر وہ کیا کر رہی ہے۔ لڑکے نے مداخلت کی تو انہوں نے اس کی پٹائی شروع کر دی۔ جب لڑکی نے اس کی مخالفت کی تو ان لوگوں نے لڑکی کو ’سبق ‘سکھانے کا فیصلہ کیا۔ آبروریزی کے دوران اسے اور اس کے بوائے فرینڈ کو ملزموں نے لوہے کے سریہ سے حملہ کرکے سخت چوٹیں پہنچائیں جو طالبہ کی موت کا سبب بنیں۔ اس کا علاج پہلے صفدر جنگ میں کیاگیا پھر سنگاپور لے جایا گیا۔ جہاں اس نے 29دسمبر کی صبح دم توڑ دیا۔ ایر انڈیا کے ایک چارٹرڈ طیارہ کے ذریعہ دیر رات متاثرہ لڑکی کی نعش کو لایا گیا اور30 دسمبر کی صبح ہندو رسم و رواج کے مطابق آخری رسم ادا کردی گئی۔ اس کی موت کی خبر سنتے ہی پورا ملک صدمہ میں ڈوب گیا۔ حالانکہ اجتماعی آبروریزی کے خاطی ملزموں کو گرفتار کرلیا گیا تھا لیکن احتجاج کا سیلاب تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ سڑک سے لے کر پارلیمنٹ تک اس واقعہ کی مذمت ہو رہی ہے اور خواتین کی حفاظت کے پختہ انتظامات کرنے کی وکالت کی جا رہی ہے۔پارلیمنٹ میں وزیر داخلہ سشیل کمار شنڈے نے بھی سخت قانون بنانے کا اشارہ دیا اور ساتھ ہی یہ بھی پارلیمنٹ کو بتایا کہ انہوں نے پولیس اور ٹرانسپورٹ محکمہ کے حکام کو ہدایات دی ہے کہ وہ فوری طور پر مہم چلا کر دہلی میں بسیں چلا نے والے ڈرائیوروں کے پس منظر کی تفتیش کریں۔اس کے علاوہ اقدمات کے طور پر خاتون پولیس اہلکار کو ہر تھانے میں تعینات کرنے ،رات کی بس سروس میں پبلک ٹرانسپورٹ کو دوگنا کرنے اور ہر بس میں ہوم گارڈ کے جوان کو تعینات کرنے کا کی ہدایت بھی دی گئی ہے تاکہ خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات کو روکا جاسکے۔ اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے دلی ہائی کورٹ نے بھی کہا ہے کہ وہ دہلی اس اجتماعی آبروریزی کی واردات سے ’’حیران ‘‘ ہے۔ عدالت نے اس بارے میں خواتین وکلاء کو یقین دہانی کرائی کہ وہ اس “شرمناک” واقعہ پر توجہ دے رہی ہے۔ دہلی ہائی کورٹ نے اجتماعی آبروریزی کی اس واقعہ کا خود نوٹس لیتے ہوئے پانچ فاسٹ ٹریک عدالتیں بنانے کی تجویز پیش کی ہے تاکہ شہر میں عصمت دری کے معاملات سے فوری طور پر تصفیے کے کیا جا سکے۔ حزب اختلاف کی رہنما سشما سوراج نے پارلیمنٹ میں مطالبہ کیا کہ زانی کو موت کی سزا ہونی چاہئے۔قومی خواتین کمیشن کی چیرمین ممتا شرما نے کہا کہ اس سخت سزا کے بغیر کام نہیں بنے گا اور ایسی سزا ملنے کے بعد ہی ملزم زندہ رہتے ہوئے بھی مرتے رہیں ۔اس واقعہ کی تحقیقات اور خواتین کے خلاف جرائم کے سدباب کے لئے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ورما کی قیادت میں تین رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جو تحقیقات کے ساتھ سفارشات بھی پیش کرے گی۔اس کے باوجود انڈیا گیٹ، جنتر منتر ، وجے چوک اور دیگر مقامات پر احتجاج و مظاہرہ کا زور کم نہیں ہوا۔ بالآخر پولیس اور نیم فوجی دستوں نے انڈیا گیٹ کو ہی سیل کردیا اور اس طرف جانے والے تمام راستوں کو بند کردیا۔ کئی میٹرو اسٹیشن بند کردئے گئے۔ اس کے باوجود اس واقعہ سے صدمے سے دوچار عوام نے جنتر منتر پر پہنچ کر لڑکی کو خراج عقیدت پیش کیا۔
ایسا نہیں ہے کہ اجتماعی آبروریزی کا واقعہ پہلی بار پیش آیا ہے۔ ہندوستان میں ہر روز سیکڑوں خواتین اس طرح کے جنسی جرائم کا شکار ہوتی ہیں۔ ہندوستان میں پیش آنے والے آبروریزی کے واقعات میں سے بہت کم واقعے روشنی میں آتے ہیں۔ بہت سارے واقعات تو بدنامی کے خوف سے لڑکی اورخواتین اجاگر نہیں کرتیں۔ لاکھوں عصمت دری کے واقعات باالرضا ہوتے ہیں ۔ اس کی کوئی گنتی نہیں ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ہر سال ہندوستان میں ۲۶ ہزار سے زائد آبروریزی کے واقعات پیش آتے ہیں۔ 2011 میں خواتین کے خلاف جرائم کے 24000 سے زائد مقدمے درج کئے گئے۔ 2010 کے مقابلے میں عصمت دری کے 9.2 فیصد زیادہ کیس سامنے آئے. پچاس فیصد سے زیادہ مقدمات میں متاثرہ کی عمر 18 سے 30 سال کے درمیان تھی۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق، سب سے زیادہ پریشان کرنے والی بات یہ ہے کہ 94 فی صد معاملات میں خواتین کو ان کے قریبی لوگوں نے ہی اپنی ہوس کا شکار بنایا۔ پڑوسی نے ہی اپنی خاتون پڑوسی کو نشانہ بنایا اور کئی معاملات میں لڑکی کے خاندان کے رکن اور رشتہ دار ہی ملوث پائے جاتے ہیں۔ پورے ملک میں آبروریزی کے جتنے معاملے درج کئے جاتے ہیں ان میں سے 17 فیصد سے زیادہ معاملے میں قومی دارالحکومت میں ہوتے ہیں۔ پولیس ریکار ڈکے مطابق 2011 میں ملک میں لڑکیوں کے اغوا کے معاملے 19.4 فیصد اضافہ ہوا ہے۔جہیزکے معاملات میں خواتین کی موت میں 2.7 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ تشدد کی وجہ سے خواتین کی موت کے معاملے 5.4 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ چھیڑ چھاڑ کی وجہ سے خواتین کی موت کے معاملے 5.8 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ سامنے آئی ہے کہ لڑکیوں کی اسمگلنگ کے معاملے میں122 فیصدکا اضافہ ہوا ہے۔یہ وہ معاملے ہیں جس کی رپورٹنگ ہوتی ہے ۔ دور دراز اور ملک کے پسماندہ علاقے میں اس طرح کے واقعات کی عام طور پر رپورٹنگ نہیں ہوتی اور نہ ہی لوگ پشیمانی کے خوف سے تھانے میں معاملے درج کراتے ہیں۔ ویسے بھی حکومت کی پالیسی ہوتی ہے کہ اس طرح کے تمام واقعات کی رپورٹ درج نہ کی جائے تاکہ ریاست پر بدامنی اور لاقانونیت کا داغ نہ لگ سکے۔ تھانے میں اگر رپورٹ درج کرانے والا ان پڑھ ہے تو پولیس یونہی بھگا دیتی ہے۔ پولیس کا یہ رویہ پڑھے لکھوں کے ساتھ بھی جاری رہتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق آندھرا پردیش میں 30 ہزار سے زائد دیواداسیاں ہیں جن کا مذہب کے نام پر جنسی استحصال کیا جارہاہے۔ دیوداسیو کی عوامی سماعت میں شامل دہلی یونیورسٹی کی پروفیسر وملا تھوراٹ کہتی ہیں، “دیوداسی خواتین کو اس بات کا بھی حق نہیں رہ جاتا کہ وہ کسی کی ہوس کا شکار ہونے سے انکار کر سکیں۔جس جسمانی استحصال کے شکار ہونے کے صرف ذکر سے روح کانپ جاتی ہے، اس دل دہلا دینے والے استحصال کا سامنا یہ دیوداسیاں ہر دن کرتی ہیں۔ہر سال سیکڑوں لڑکیوں کو دیواداسی بننے کے لئے مندر کے حوالے کردیا جاتا ہے جہاں ان لڑکیوں کا جنسی استحصال عام بات ہے۔
اترپردیش کی بلیا کی رہنے والی ۲۳ سالہ لڑکی کی آبروریزی کے خلاف پورا ملک ابل رہا تھا لیکن اس کے باوجود خواتین کے خلاف جرائم میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ اسی دوران بہار کے سہرسہ میں ایک اسکول کے طالبہ کو اغوا کرکے عصمت دری کی کوشش کی گئی تھی۔دہلی کی ایک سرکاری بس میں ایک لڑکی کے ساتھ دست درازی کاواقعہ پیش آیا۔جس وقت پورا ملک اجتماعی آبرویزی کے خلاف ابل رہا تھااس وقت ملک میں آبروریزی کے آٹھ واقعات پیش آئے۔ کچھ عرصہ قبل ہریانہ میں لگاتار خواتین کی آبروریزی کی واردات پیش آتی رہی تھی لیکن ملک کے چہرے پر بل تک نہیں پڑا تھا۔ کشمیر میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد آرمی کو عورتوں کی آبروریزی کرنے کا لائسنس مل گیا تھا لیکن ملک کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ اترپردیش کے سراوشتی میں14 جولائی ۲۰۰۷ کو ڈیڑھ درجن سے زائد مسلم خواتین کی آبروریزی کی گئی تھی جس میں نابالغ بچی سے لیکر عمر دراز خواتین تک شامل تھیں لیکن پھر بھی ملک کی غیرت پر حرف نہیں آیا۔ پہلے تو پولیس نے رپورٹ درج کرنے سے انکار کردیا لیکن جب اسمبلی میں آواز اٹھی تو پولیس معاملہ درج کرنے پر مجبور ہوئی اور متاثرین کا اس وقت میڈیکل چیک اپ کرایا جب یہ احساس ہوگیا کہ اب جنسی زیادتی ثابت نہیں ہوگی۔ ابھی حالیہ فسادات کے دوران فیض آباد اور دیگر مقامات پر مسلم خواتین کی آبروریزی کی گئی تھی لیکن ملک میں خاموش رہا۔ سب سے بڑھ کر گجرات قتل عام کے دوران حاملہ عورت کے پیٹ کو چاک کرکے بچہ کو نکالا اور ذبح کردیا لیکن ملک شرمندہ نہیں ہوا ور نہ ہی ملک کا کوئی مرد شرمندہ ہوا۔ گجرات قتل عام کے دوران سیکڑوں خواتین کی اجتماعی آبروریزی کی گئی لیکن ملک میں کوئی طوفان نہیں مچا اور نہ ہی مجرم کے خلاف سخت سزا کا مطالبہ کیا گیا۔ 20 اگست کی شام کوبہار کی گیارہ سال کی ایک بچی نو ر کے ساتھ جب وہ راجستھان کے سیکر قصبے میں اپنی بہن کے ساتھ بازار سے گھر واپس لوٹ رہی تھی کچھ مقامی لوگوں نے اغوا کر اس کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی۔ ابھی وہ زندگی اور موت کے درمیان جھول رہی ہے لیکن کسی کا ضمیر نہیں جاگا۔ نندی گرام اور سنگور میں درجنوں مسلم خواتین کے ساتھ آبروریزی کی گئی تھی لیکن کسی نے بھی اس کے حق میں آواز بلند نہیں کی۔ اس کے علاوہ دل دہلادینے والے جنسی زیاتی کے سیکڑوں واقعات مسلم خواتین کے ساتھ پیش آچکے ہیں اور آتے رہتے ہیں کیوں کہ یہ سارے معاملے مسلم خواتین کے ساتھ پیش آئے ہیں اس لئے بیشتر مقدمات میں خاطی آج بے خوف و خطر آزاد گھوم رہے ہیں۔
پریشانی کی بات یہ ہے کہ ہندوستان میں ہر معاملے کوہندو مسلم کے عینک سے دیکھا جاتاہے قانون کی نظر سے نہیں۔ اس لئے واردات میں کمی نہیں آتی اور نہ ہی ملزموں کو خوف ہوتا۔ اگر اجتماعی آبروریزی کے شکار متوفی لڑکی اگر مسلمان ہوتی توکیا اسی طرح ہفتوں دہلی کی زندگی درہم برہم ہوتی۔منی پور میں وہاں کی خواتین کو آرمی ہیڈکوارٹر کے سامنے برہنہ مظاہرہ اس بینر کے ساتھ کرنا پڑا تھا کہ ’انڈین آرمی ریپ اس‘۔ یہ بینر امتیاز کامنہ بولتا ثبوت تھا۔سابق آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ کو قومی اقلیتی کمیشن کے چیرمین وجاہت حبیب اللہ نے بہت اچھا جواب دیا ہے کہ اگر ان کو آبروریزی کے شکار متاثرہ لڑکی سے اتنی ہمدردی ہے تو اس وقت اس کی ہمدردی کہاں گئی تھی جب کشمیری خواتین کے ساتھ آبروریزی کی جارہی تھی۔ آج سبھی طبقے سے آواز سے اٹھ رہی ہے کہ زانی کو پھانسی کی سزا دی جانی چاہئے۔ بہت سی تنظیموں اور سماجی امور سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ پھانسی کی سزا بھی چھوٹی سزا ہے ۔ اس واقعہ نے جہاں ایک طرف اس گھناؤنا جرم کے خلاف لوگوں میں بیداری پیدا کی ہے وہیں ان لوگوں کے منہ پر ایک طمانچہ بھی رسید کیا ہے جو اسلامی حدود کو بربریت اور وحشی قانون قرار دینے میں آسمان اور زمین ایک کرتے رہتے ہیں۔ اگر اسلامی قوانین کے مطابق زانیوں سے نمٹا جاتا تو اس طرح کے واقعات نہ ہوتے۔ جہاں جہاں اسلامی حدود کے قوانین نافذ ہیں وہاں آبروریزی کے واقعات کے کم ہوتے ہیں۔ آبروریزی کے واقعات پر قابو پانا ہے تو ملک کو تعصب اور امتیاز سے اوپر اٹھ کر کام کرنا ہوگا۔جہاں مردوں کو اپنا نظریا بدلنا ہوگا وہیں خواتین کو اپنے لباس رہن سہن اور خصوصاً جنسی بے راہ روی کے رویے کو ترک کرنا ہوگا۔ باپردہ خواتین کے ساتھ دست درازی کے واقعات کم ہوتے ہیں آخر کیوں۔لڑکیاں عام طور ایک بات بہت زور و شور سے کہتی ہیں کہ بھڑکیلے لباس اور غیر سائشتہ لباس اگر اس کیلئے ذمہ دار ہے تو پھر ساڑی میں ملبوس، اڈھیر عمر کی خواتین اور چھوٹے بچیوں کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے توا س کاسیدھا سا جواب یہ ہے کہ اس بھڑکیلے اور غیر سائشتہ لباس کی قیمت ساڑی میں ملبوس ، اڈھیڑ عمر کی خواتین اور بچیوں کو چکانی پڑتی ہے۔جنسی زیاتی کے واقعات خواہ کشمیر میں ہوں یا کنیا کماری میں ،نارتھ ایسٹ میں ہوں یا مغربی ہندوستان میں اسی طرح کی مذمت اور مخالفت ہونی چاہئے اور مجرموں کے تئیں اسی طرح نفرت ہونی چاہئے جس طرح اس وقت ہے۔
D- 64/10 Abul Fazal Enclave Jamia Nagar, New Delhi- 110025 INDIA
9810372335
abidanwaruni@gmail.com

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *