Home / Articles / زکوٰة وخیرات اور غربت کا مذاق

زکوٰة وخیرات اور غربت کا مذاق

رمضان خیر وبرکت کا مہینہ ہے اور اس مہینے کو اللہ نے ایسا بنایا ہے کہ ہر خاص و عام  کو اس کے اختتا م پر خوشیاں میسر آتی ہیں ۔ غریب ہو کہ امیر اسلامی نظام ایسا ہے اور رسول کریم کے عمل سے  بھی ایسی ترغیب ملتی ہے کہ اپنی خوشی میں دوسروں کو شامل کرو۔ زکوٰة اور فطرے کا نظام دنیا ایسا نظام ہے جو اسلام کے علاوہ نہ تو کسی مذہب میں ملتا ہے اور نہ کسی نظام میں ۔زکوٰة اور فطرے کے پس پردہ دراصل یہ منشا ہے کہ اس ماہ مبارک میں کوئی بھی مسلمان خوشیوں سے محروم نہ رہ جائے اسی لیے نماز عید سے قبل ہی فطرہ ادا کرنے کا حکم ہے ۔ رہی بات زکوٰة کی تو اسے کسی مہینے میں بھی ادا کر سکتے ہیں لیکن عام طور پر مسلمانوں کا یہ دستور بن چکا ہے کہ وہ اسی مبارک مہینے میں زکوٰة بھی نکالتے ہیں ۔ کیونکہ اس مہینے میں کوئی بھی کار خیر کرنے کا کئی گنا زیادہ ثواب ملتا ہے ۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو یہ ایسا نظام ہے کہ کوئی اگر کہرائی سے اس پر غور کرے تو ایمان لانے کے لیے صرف یہی نظام کافی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ ہم مسلم قوم ان اسلامی نظام کو بھی دستورکے طور پر  لیتے ہیں۔اور اکثر لوگ اب نام و نمود کے لیے بھی ان کا استعمال کرتے ہیں ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ زکوٰة کےحوالے سے حکم  یہ ہے کہ اس زکوٰة دو کہ دوسرے ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو ۔مگر معاملہ یہ ہے کہ اکثر لوگ اس طرح زکوٰة دیتے ہیں کہ وہ زکوٰة کم اور اشتہار زہادہ معلوم ہوتا ہے ۔ مجھے با وثوق ذرائع سے معلوم ہو اکہ ممبئی میں ایک صاحب جوصاحب  خیر ہیں ہر سال وہ رمضان کی پندرہ تاریخ کو زکوٰة دیتے ہیں ۔ اس لیے اس دن ملک کے تمام مدراس کے سفیروں کی نہ صرف اچھی خاصی تعداد موجود ہوتی ہے بلکہ اس تعداد وک بھیڑ کہنا زیادہ مناسب ہوگا ۔ کیونکہ ایک ایسا   جم غفیر ہوتا ہے  جس کو سنبھالنا بھی مشکل امر ہے ۔ صبح سے شام تک یہ سلسلہ چلتا ہے ۔ہندستان کے کم ہی ایسے سفیر ( مدرسوں کے لیے چندہ جمع کرنے والے )ہوں گے جن کو ان کانام اور زکوٰة دینے تاریخ نہ معلوم ہو ۔ اس طرح ہوتا یہ ہے کہ زکوٰة کم ادا ہوتی ہے اور ان کا شہرہ زیادہ ہوتا ہے ۔ یہاں قارئین کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ یہی وہ شہر ہے جہاں  دل اور جذبہ رکھنے والے مسلمان رہتے ہیں ۔ ہندستان کے 90 فیصد مدارس انھیں کے چندوں سے چلتے ہیں ۔ اس اعتبار سے ممبئی والے یقیناً قابل مبارک باد ہیں۔ استثا ہر جگہ ہے ، یہاں بھی زیادہ تر لوگ ایسے ہیں جو خاموشی سے احکام الہٰی کی پیروی کرتے ہیں ۔

          ہندستان کے علاوہ دوسرے ممالک بھی ہیں جن کو یہاں زکوٰة کی رسم کو رسم شہرت  بنالی گئی ہے ۔ سعودی عرب سے زکوٰة کی اتنی خطیر رقم ہوتی ہے کہ اس سے کئی ممالک کے غربا ء کی پرورش ہو سکتی ہے ۔ لیکن یہاں بھی معاملہ بہت حد تک سیاسی ہو کر رہ گیا ہے ۔سعودی حکومت  انھیں لوگوں کو بیشتر اس رقم سے نوازتے ہیں جو مسلکی اعتبار سے ان کے ہم خیال ہوتے ہیں ۔ اور انھیں ممالک کے عوام کے لیے ان کے خزانے کا منہ کھلا ہوتا ہے جو سیاسی اعتبار سے ان سے وابستہ ہیں اور امریکہ ان ممالک سے ناراض نہیں ہے ۔ سعودی حکومت کا یہ رویہ بھی بہت افسوسناک ہے ۔

          اپنا پڑوسی ملک پاکستان بھی اس سلسلے میں کسی سے کم نہیں ہے ۔ کہنے کو یہ جوہری توانائی کا حامل ملک ہے ۔ لیکن غربت کا یہ عالم ہے کہ آدھی سے زیادہ آبادی دو وقت کی روٹی کے لیے بھی محتاج  ہے ۔یہی ایسا ملک ہے جہاں متوسط طبقے کی تعداد بہت کم ہے ۔ اسی لیے یہاں کے لوگ یا تو بہت زیادہ امیر ہیں یا بہت غریب ۔ لیکن اس اسلامی ملک میں لوگ کیسے بھوکے رہ جاتے ہیں یہ آج تک سمجھ نہیں آیا ۔ رسول کریم کے قول کے مطابق جو شخص سیر ہو کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ پھر یہ کیسے ہوتا ہے ؟  ایک بڑا سوالیہ نشان ہے جس پر غور کرنا چاہیے ۔جی ہاں تو بات رمضان کے مہینے او ر اس کے رسوم کی چل رہی تھی ۔ پاکستان میں بھی بہت سے ایسے سیاسی اور شخصی عمل ہیں جو خیرات ، زکوٰة اور فطرے کو رسم کے طور پر ظاہر کرتے ہیں پاکستانی اخباروں  اس میں ایک ایسی خبر آئی جو دل کو دہلا گئی ۔خبر یہ ہےبلکہ افسوسناک واقعہ کی تفصیل یہ ہے  ‘‘14 ستمبر کراچی کے علاقے کھوڑی گارڈن مفت راشن کی تقسیم پربھگدڑ مچنے سے 14خواتین و بچے جاں بحق جبکہ متعدد زخمی ہو گئیں ہیں صدر ٹاؤن کے ناظم دلاور خان کا کہنا ہے کہ یہاں رمضان المبارک کے دوران راشن مفت تقسیم کا سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس بار ٹوکن تقسیم نہیں کیا گیا ہو جس کی وجہ سے اتنی بڑی تعداد میں خواتین راشن حاصل کرنے یہاں پہنچیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جس وقت بھگڈر مچی 3 سے 4 سو افراد وہاں موجود تھے۔ ’’  اس خبر سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں اول یہ ہے کہ یہ ہر سال کا معمول ہے ۔ اچھی بات ہے کہ کم از کم اس مہینے میں خیر کرنے والوں کو غریبوں کی یاد تو آتی ہے ، دوسری بات یہ ہے کہ صرف تین سے چار سو افراد  کی بھیڑ سے ایسی بھگدڑ مچی اور کئی لوگوں کو جان گنوانی پڑی یعنی کہ کوئی انتظام نہیں کیا گیا اور غربت کی شدت ایسی کہ لوگ اس فکر میں مجھےراشن  مل پائے  گا یا نہیں ؟ اس واسطے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی فکر میں اپنی جان گنوا بیٹھے ۔ اس  خبر سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی مجبوری کیا رہی ہوگی۔ ظاہر ہے یہ ایسے اہل خیرکا تماشہ ہے جو خیر کم کرتے ہیں اور شہرت زیادہ چاہتے ہیں ۔ورنہ غربت ایسا مذاق نہ اڑایا جاتا  اور غریبوں کی جان کی ارزانی ایسی نہ ہوتی ۔

          اس طرح کے تمام تماشے صرف اس لیے ہو رہے ہیں کہ ہم نے اسلام کی روح کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔ خدا ہم لوگوں کو ریا کاری سے بچائے اور اصل اسلام کا شعور عطا فرمائے ۔

About admin

Check Also

تفہیم میر کی  چند  جہتیں

نوٹ : ترجیحات میں شائع شدہ اداریہ اور مضمون قارئین کے لیے یہاں پیش کررہا …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *