ایک بار پھر پاکستان طالبان کے حملے سے لہو لہان ہورہاہے۔گذشتہ کئی مہینے سے طالبان کی کاروائیاں کم ہورہی تھیں لیکن اچانک اس مہینے میں متواتر کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں جن سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں ایک پھر سے طالبان اپنی کاروائیاں تیز کرنے لگے ہیں ۔ان کی ان کاروائیوں میں بیک وقت کئی اہداف شامل ہیں۔ کبھی وہ ایسے افراد کو نشانہ بناتے ہیں جو ان کی مخالفت میں کچھ بولتے ہیں یا عملی طور پر حصہ لیتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی وہ ایسے لوگوں اور سیاسی رہنماؤں کو بھی اپنے تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں جو ان کے اصولوں کے خلاف ہیں ۔ شہباز بھٹی کا قتل بھی اسی زمرے میں ہے کیونکہ اس کے قاتل کا اب تک پتہ تو نہیں چلا ہے لیکن قتل کی ذمہ داری طالبان نے اسی وقت لے لی تھی ۔لیکن اس سے بھی افسوسناک پہلو یہ ہےکہ طالبان تعلمی نظام پر بھی حملہ کر رہے ہیں ۔ ابھی پشاور کے کئی اسکولوں کو انھوں نے پھر سے نشانہ بنایا ہے ۔ان میں سے بہت سے ایسے اسکول بھی ہیں جن پر طالبان نے پہلے بھی حملے کیے تھے ۔ ان کا یہ طریقہ کوئی نیا نہیں ہے وہ شروع سے اسکولی نظام تعلیم کے مخالف رہےہیں اس لیے جب بھی انھیں موقع ملا ہے انھوں نے اسکول کو تباہ و برباد کیا ہے ۔ صرف اس حوالے سےاگر طالبانی کاروائیوں کا جائزہ لیا جائے تو ایک طویل فہرست تیار ہوسکتی ہے کہ اب تک طالبان نے کتنے اسکولوں کو منہدم کیا ہے۔ خاص طور پر قبائلی علاقوں میں کوئی اسکول ایسا بچا ہی نہیں ہے جہاں انھوں نے کچھ نہ کیا ہو۔ میں سن دو ہزار سات کے بعد شدت آئی ہے۔صرف سوات میں اب تک دو سو سکولوں کی عمارتوں کو بارودی مواد سے تباہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مہمند ایجنسی، خیبر ایجنسی، باجوڑ ایجنسی اور نیم قبائلی علاقے درہ آدم خیل میں بھی تین سو کے قریب اسکولوں کو دھماکوں سے اڑایا گیا ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ اسکولوں کا رخ کرتے ہوئے بچے اور بچیاں ڈرتی ہیں اور والدین اپنے بچوٕں کو اسکولوں میں بھیجتے ڈرتے ہیں ۔ دراصل سننے میں یہ طالبان کی ایک معمول کی کاروائی لگتی ہے لیکن اس کے دوررس نتائج پر غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ اس سے نہ صرف یہ کہ اسکولوں کا نظام خطرے میں پڑ گیا ہے بلکہ پوری نسل کو جو قبائلی علاقے میں رہتے ہیں ، ان کو تعلیم سے دور رکھنے کی کوشش ہے تاکہ ان کورے اذہان کو کسی بھی وقت اپنے منصوبے کے تحت موڑ لیا جائے ۔ اس لیے طالبان کی ان کاروائیوں کو معمولی نہ سمجھ کر حکومت کو چاہیے کہ ان کے خلاف کاروائی کی جائے اور کوئی ایسا لائحہٴ عمل طے کیا جائے جو اسکولی نظام تعلیم کو مکمل طور پر تحفظ فراہم کر سکے ۔
اس کے علاوہ ابھی پشاور کے علاقے میں جو کچھ ہوا ہے وہ انتہائی شرمناک ہے ۔ میرے علم کے مطابق یہ دوسرا یا تیسرا موقع ہے جب انھوں نے کسی جنازے کی نماز کے وقت خود کش حملہ کیا اور کئی افراد کو قتل کیا ۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ طالبان مخالف امن لشکر کے ایک رکن کی اہلیہ کی نماز جنازہ ادا کی جا رہی تھی کہ اس دوران ایک مبینہ خودکش حملہ آور نے جنازہ گاہ میں داخل ہوکر خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ حملہ آور کی عمر سولہ سے اٹھارہ سال کی لگ بھگ تھی اور اس نے سفید چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ عینی شاہدین کے مطابق جیسے ہی حملہ آور جنازہ گاہ میں داخل ہوا تو اس کے چند سکینڈ کے بعد ہی ایک زوردار دھماکہ ہوا۔علاقے میں مقامی لوگوں نے دو مقامات آدیزئی اور بازید خیل میں طالبان کے خلاف لشکر بنائے ہوئے ہیں۔ اس علاقے میں اکثر اوقات عسکریت پسندوں اور حکومتی حامی لشکروں کے مابین جھڑپیں بھی ہوتی رہیں ہیں جس میں لشکر کے رہنماؤں اور رضاکاروں پر کئی بار خودکش حملے، بم دھماکے اور ریموٹ کنٹرول بم حملے کیے گئے ہیں جن میں لشکر کے سربراہ سمیت پچاس کے قریب افراد مارے جا چکے ہیں۔آدیزئی متنی پشاور شہر کے جنوب میں واقع ایک مضافاتی علاقہ ہے۔ یہ علاقہ عام طور پر پشاور شہر کی دفاعی لائن کہلاتی ہے کیونکہ اس علاقے کی سرحدیں قبائلی علاقوں باڑہ، درہ آدم خیل اور ایف آر پشاور سے متصل ہیں۔ اس پورے علاقے میں مقامی لوگوں نے دو مقامات آدیزئی اور بازید خیل میں طالبان کے خلاف لشکر بنائے ہوئے ہیں۔ اس علاقے میں اکثر اوقات عسکریت پسندوں اور حکومتی حامی لشکروں کے مابین جھڑپیں بھی ہوتی رہیں ہیں جس میں لشکر کے رہنماؤں اور رضاکاروں پر کئی بار خودکش حملے، بم دھماکے اور ریموٹ کنٹرول بم حملے کیے گئے ہیں جن میں لشکر کے سربراہ سمیت پچاس کے قریب افراد مارے جا چکے ہیں۔چند ہفتے قبل آدیزئی امن لشکر کے سربراہ دلاور خان نے دھمکی دی تھی کہ اگر حکومت نے ان کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے تو وہ طالبان کے خلاف لڑنا چھوڑ دیں گے۔کیونکہ ان کے وسائل ختم ہو رہے ہیں اور ان میں مزید لڑنے کی سکت باقی نہیں رہی۔ اگر حکومت اپنے وعدے پوری کرتی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ مزید ان کی لڑائی نہیں لڑ سکتے۔ادھر تحریک طالبان متنی کے ترجمان نے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ ان کا نشانہ متنی امن لشکر اور اس کے سربراہ دلاور خان اور ان کے ساتھی تھے اور وہ آئندہ بھی ان کو نشانہ بناتے رہیں گے۔حیرت یہ ہے کہ طالبان اپنے کیے پر اظہار افسوس کے بجائے اس طرح کی مزیدمذموم کاروائیاں کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں ۔ مسلمان میں مسلمان کے ذریعے اس طرح کی کاروائی سمجھ سے باہر ہے کہ کیا کوئی ایسا بھی کر سکتا ہے؟ لیکن ایسا ہورہا ہے اور مستقل ہو رہا ہے اس لیے یہ کوئی معمولی سانحہ نہیں ہے ۔ اس پر انتہائی سنجیدگی سے غور و فکر اور عملی اقدام اٹھانے کا وقت ہے ۔کیونکہ اس سے دو اہم پہلو سامنے آتے ہیں ایک تو یہ غیر اسلامی حرکت ہے اور دوسری یہ کہ ان کو اگر اسی طرح چھوڑ دیا جائے تو ان کی سرکشی اور بڑھتی جائے گی۔طالبان کی اسی سرکشی کا یہ نتیجہ انھوں نے پاکستان میں کئی مسجدوں اور مزاروں کو بھی نشانہ بنایا ہے ۔ ابھی گذشتہ جمعہ کو ہی پشاورکے نواحی علاقہ بڈھ بیر کی مسجد شیر علی میں نماز جمعہ سے دو گھنٹے پہلے ٹائم بم دھماکے سے دیواریں منہدم ہوگئیں تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ۔ پولیس کے مطابق نامعلوم افراد نے مسجد شیر علی میں واٹر کولر میں دھماکا خیز مواد چھپا رکھا تھا جو کہ نماز جمعہ کی ادائیگی سے دو گھنٹے قبل اچانک دھماکے سے پھٹ گیا۔اور اس قبل والے جمعہ کو صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر پشاور اور نوشہرہ کے درمیان اکبر پورہ کے علاقے میں اخوند پنجو بابا کے مزار میں قائم مسجد میں دھماکہ ہوا ہے جس میں کم سے کم نوافراد ہلاک اور اڑتیس سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔یہ واقعہ نمازِ جمعہ کے فوراً بعد پیش آیا ہے ۔ پبی پولیس کے مطابق نماز کے بعد مزار میں لنگر تقسیم ہو رہا تھا جس کے لیے بڑی تعداد میں لوگ جمع تھے کہ اچانک اس وقت ایک زور دار دھماکہ ہوا۔ پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ یہ ٹائم بم تھا جو مسجد میں رکھا گیا تھا۔عینی شاہدین کے مطابق دھماکے میں زخمی ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
ان تفصیلات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ طالبان شاید یہ محسوس کر چکے ہیں کہ ملک میں حکومت کمزور ہوچکی ہے ۔ خود حکومت ایسے حالات کا شکار ہے کہ وہ اپنے تحفظ کے لیے ہی فکر مند ہے ایسے میں وہ ہمارے خلاف کوئی کاروائی نہیں کر سکتے لہٰذا وہ بڑی دلیری سے ایسی حرکتیں کر رہے ہیں جن سے عوام، مساجد اور مزارات بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ان کے اس عمل سے یقیناً پاکستان کو اندورونی خلفشار کا سامنا ہوگا لیکن یہ بیک وقت مسلم امہ کے لیے بھی باعث فکر ہے ۔حالانکہ خود پاکستان میں علما نے اس جانب توجہ دی ہے اور 18 ممالک کے دو سو پچاس علما اور اسلامی اسکالر نے خود کش حملوں کو حرام قرار دیتے ہوئے اسے ریاستی ڈھانچہ کو تباہ کرنے کی سازش قرار دی ہے۔ اب حکومت کو چاہیے کہ عوامی حمایت کے ساتھ اس کے خاتمے کے لیے سنجیدہ کوشش کرے اور وہ لوگ جو ان کے خلاف صف آرا ہیں انھیں بھی تحفظ فراہم کرے تاکہ پاکستان کو اپنے ملک کو یہ لہو لہان چہرہ پھر نہ دیکھنا پڑے۔