پامسٹری میں ہاتھ کی لکیروں سے قسمت کے حال بتائے جاتے ہیں لیکن زیادہ تر اس میں انسان کے کردار اس کی خوبیاں ، کمزوریاں اور اس کے ذہنی رجحانات کا اندازہ ہوتا ہے۔ اسی لئے پامسٹ بھی اکثر تمہید باندھتے ہوئے پہلے کسی شخص کو اس کے مزاج، ضدی پن، کنجوسی، بے احتیاطی، واضح بیماری کے بارے میں بتائے گا کیونکہ ان کی علامت ہاتھ پر ایسے ہی واضح ہوتی ہیں جیسے ماتھا چھونے سے بخار کا پتہ چلتا ہے اور نبض دیکھنے سے دل کی دھڑکن کا اندازہ ہوتا ہے ۔ یہ سب بتانے کے بعد وہ اندازے لگانا شروع کرتا ہے لیکن ان پشین گوئیوں میں بھی اس کی بنیاد اس استعدا دیا اس رویے کی بنیاد پر ہوتی ہے جو پامسٹ کسی شخص میں پڑھ لیتا ہے ۔ مثلاً ایک انتہائی غیر حساس اور بے صلاحیت لکیروں والے ہاتھ کے بارے میں وہ کبھی یہ نہیں کہے گا کہ یہ مستقبل میں پینٹر، شاعر یا ادیب بن جائے گا۔
اسی طرح وہ حساس لائینوں اور نرم مزاجی کی علامتیں رکھنے والے کو قاتل، ڈکٹیٹر یا ظالم نہیں بتائے گا۔ یہ فن صدیوں سے انسان کی جستجو اور مشاہدے کی پیداوار ہے جیسے ہمارا علم قیافہ یعنی وہ کو ئی ایک تبصرہ کسی دوسرے کے بارے میں ضرور کرتا ہے ۔ یہ شکل سے شریف آدمی لگتا ہے یا شکل سے غنڈہ ہے۔ پامسٹری بھی ہاتھ دیکھ کر یہ بتاتی ہے کہ یہ ہاتھ سے کیسا لگتا ہے۔
ہاتھ کی ان لکیروں میں ایک علامت ایسی ہے کہ پامسٹ اگر اسے دیکھ لے تو فوراً یہ فیصلہ صادر فرما دیتا ہے کہ تمہیں اکثر محبت میں مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ یہ علامت دل کی لکیر سے ایک شاخ کا دماغ کی لکیر کی طرف مشتری کے ابھار سے نیچے جھکنا ہے۔ ایسا فیصلہ صادر ہونے کے بعد وہ شخص اکثر یہ سوال کرتا ہے کہ مجھے مایوسی کیوں ہوتی ہے تو پامسٹ اکثر یہی کہتا ہے کہ تم میں ایک بہت بری عادت ہے۔ تم لوگوں سے توقعات بہت زیادہ وابستہ کر لیتے ہو اور جب توقعات پوری نہیں ہوتی تو پھر تمہیں شدید مایوسی ہوتی ہے اور یہ تمہارے ہاتھ سے ظاہر ہے اس لئے اول تو محبت کرو نہیں اور اگر کرو تو توقعات نہ لگائو تاکہ مایوسی نہ ہو۔
یوں لگتا ہے اس مملکت خداداد پاکستان کے سولہ کروڑ عوام میں سے اکثریت کے ہاتھوں پر دل کی لکیر سے دماغ کی لکیر تک جھکنے والی ایک شاخ موجود ہے اور اگر اس ساری قوم کو ایک بہت بڑے سٹیڈیم میں کھڑا کر دیا جائے اور ہاتھ بلند کرنے کو کہا جائے تو پامسٹ ان کے ہاتھ دیکھ کر کہیں گے جائو اپنے گھروں میں آرام کی نیند سو جائو، تمہارے مقدر میں ہمیشہ محبت میں مایوسی لکھی ہوئی ہے۔ مجمع سوال کرے گا کہ ایساکیوں تو پامسٹ اپنے اندازے سے یہ بتائے گا اے سولہ کروڑ عوام تم خوش فہم ہو، خوابوں کی دنیا میں رہتے ہو۔ ہر کسی سے توقعات وابستہ کر لیتے ہو اور پھر جب وہ پوری نہیں ہوتی تو تمہارا دل ٹوٹ جاتا ہے۔ تمہارے کئی سال آنسو بہانے اور چھپ چھپ کر رونے میں گزرتے ہیںاور پھر جب تم سنبھلنے لگتے ہو، ذرا اس صدمے سے جاگتے ہو تو تمہارے سامنے ایک اور محبوب کھڑا ہو جاتا ہے۔
ہم اس بد نصیب، خوش فہم اور جذباتی قوم سے تعلق رکھتے ہیں جن کے مقدر میں ازل سے شاید یہ لکھ دیا گیا ہے کہ وہ جس کے گلے میں ہار پہنائے گی، جس کی گاڑیاں چومے گی، جس کے راستے پر اپنا دل اور آنکھیں بچھائے گی جس کی لگن میں پیٹ پر لاٹھیاں کھائے گی، سینے گولیوں سے چھلنی کروائے گی وہی اسے مایوس کرے گا۔ یہ وہی قوم تھی جس نے دس لاکھ لوگوں کا خوف اس سرحد پر نذرانے کے طور پر پیش کیا تھا اور خواب دیکھا تھا ایک ایسے ملک کا جس میں انصاف، امن اور خوشحالی ہوگی۔ یہ خواب پورا تو نہ ہوا لیکن اس ملک کے باسیوں کی آنکھوں میں ابھی تک امید باقی ہے۔
وہ ہر چند سال بعد اپنی آنکھوں میں امید کے دئیے روشن کر لیتے ہیں۔ حیرت ہے ان ۶۵ سالوں میں اس قوم نے محبت کرنے میں کبھی کسی کو مایوس نہیں کیا ۔ جو ان کو اپنی امیدوں کا مرکز نظر آیا اس کے لئے مجنوں کی طرح کوڑے بھی کھائے، سسی کی طرح دھوپ میں بھی جلے اور منصور کی طرح موت کو بھی گلے لگایا۔ سب نے اس قوم سے وعدے کئے، دعوے کئے اور ان سے محبت کی اس کٹھن راہ میں جانوں کی بھینٹ لی۔ لوگوں نے اپنے جوان بچوں کے لاشے اٹھائے لیکن ہمیشہ آنسوئوں اور امیدوں میں یہی فقرہ بولا بس اب ہماری قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔ اب حالات بدل جائیں گے اب انصاف ہوگا، امن ہو گا، خوشحالی ہوگی۔ وہ لوگ تو جان دے کر سرخرو ہو گئے لیکن ہمارے ہاںآج پھر ایسی جمہوریت کے شادیانے بجائے جا رہے ہیںجہاںہمارے اربابِ اقتدار نے پانچ سال جمہوریت کے نام پرقوم کو جی بھرکر لوٹااور اپنے اقتدارکے آخری دن ایسی لوٹ مار میں مصروف ہیںگویاکائنات کایہ آخری دن ہو حتی کہ اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے اپنے ہی محکمے کے سیکرٹری کوزدوکوب کرکے ایسی جمہوریت پرمہر ثبت کردی اورہماری منتخب قومی اسمبلی کی اسپیکر فہمیدہ مرزا نے اراکین اسمبلی پرمحض اس لئے انعامات کی بارش کردی کہ اس کی آڑمیں وہ اپنے لئے تاحیات مراعات حاصل کرسکیں۔ وفاق نے چھٹی کے دن تمام ملکی بینکوں اوردوسرے تمام حکومتی اداروںکو کھلارکھنے کا حکم دیاگیااورکھلے عام دن دیہاڑے ملکی خزانے سے اربوں روپے منتقل کرنے کے علاوہ من پسندافرادکے تبادلے اوردیگر تمام مراعات کی لوٹ سیل لگادی گئی گویا کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔
میں کبھی کبھی ایک منظر سوچ کر کانپ اٹھتا ہوں۔ وہ منظر جس میں کسی بے انصافی پر، ظلم پر، زیادتی پر، دھوکے پر ایک ایسی عدالت میں سزا سنائی جائیگی جو سب سے بڑی عدالت ہے۔ اس محشر کے میدان کی تپتی زمین پر اگر ان جان دینے والوں نے میرے رب کے روبرو ان لوگوں کاگریبان تھام لیا جن کے دعوئوں، جن کے وعدوں اور جن کے نعروں پر اس نے جان دی تھی اور اللہ کے حضور مقدمہ دائر کر دیا کہ میں نے جان دی تھی کہ لوگوںکو روٹی کپڑا مکان ملے گا، کوئی گریبان میں ہاتھ ڈال کر کہے گا میں نے نظام مصطفیﷺ کے لئے جان دی تھی، میں نے عدل و انصاف کے لئے جان دی اور پھر سوال کرے گا، اے عادل و منصف رب میں نے جان دی تاکہ یہ شخص سرفراز ہو، اس قابل ہو کر میر ے جیسے اور جان دینے والوں کے خواب پورے کر سکے۔ اسے اختیار ملا، طاقت ملی۔ اب فیصلہ تیرے ہاتھ میں ہے ۔
اس کائنات کی سب سے بڑی عدالت میں کوئی مصلحت کام نہیں آئے گی۔ وہاں اس اختیار کا سب کو جواب دینا پڑے گا جس کی بنیاد میں بے گناہوں کا لہو ہوتا ہے۔ وہاں کیس تکنیکی وجوہات کی بنا پر خارج نہیں ہو گا اور وہاں پر گریبان پکڑنے والے کی اپیل قابل سماعت ہے اور تمام عمر سزا کے لئے صرف ایک خون ہی کافی ہے ۔