سفرنامہ ایک صنف بھی ہے اور ایک دستاویز بھی ہے۔ دنیا کے مختلف سیاحوں نے اپنے مشاہدات اور تجربات کو قلمبند کیا ہے ۔ بعض ممالک کی تاریخ انھیں سفر ناموں کے حوالوں سے مرتب کی گئی ہے ۔ ہندستان کی قدیم تہذیب و ثقافت کو بھی چند نامور سیاحوں نے لکھا ہے ، ان میں ابن بطوطہ ۔البیرونی ، فاہین کے نام قابل ذکر ہیں ۔ ان کے سفر نامے اس عہد کی تہذیبی تاریخ کی حقیقی آئینہ دار ہیں۔ ہندستان عہد قدیم ہی سے دنیا بھر کے لوگوں کے لیے باعث کشش رہا ہے ۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہند ستان تہذیبی اعتبار سے شروع سے ہی رنگارنگی رہی ہے ۔ یہاں کےموسم ، پھل پھول اور آداب زندگی سے دنیا کے بیشتر سیاح متاثر ہوئے ہیں اور ہندستان کو جس نظر سے انھوں نے دیکھا ہے اس کو تحریر کیا ہے۔عہد قدیم سے اب تک یہ سلسلہ جاری ہے ۔ لیکن جب ہم نئے سفر ناموں کی بات کرتے ہیں تو اس میں ہمارے لیے شخص واحد کے تجربات اور مشاہدات زیادہ اہم ہیں لیکن قدیم سفر نامے کئی اعتبار سے اہم ہیں ۔ لیکن یہ اتفاق ہے کہ تاریخ دانوں سمیت ادب کے ماہرین نے بھی اس جانب خصوصی توجہ نہیں دی ہے۔
سفر ناموں کی انھیں ادبی ، تہذیبی اور ثقافتی اہمیت پیش نظر ہندستانی زبانوں کا مرکز جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے زیر اہتمام سہ روزہ عالمی سیمنار کا انعقاد کیا گیا۔ اس سیمنار کے میں ترکی سے خلیل طوقار ، کارداش ذکائی ، ایران سے وفا ہزدان منش۔ نرگس گنجی ، نرگس جابری نصب ، ملیشیا سے لیلیٰ تاجر ۔ امیر ذکر گو ، سویڈن سے شگوفہ تقی، سائپرس سے ازلیم ، بنگلہ دیش سے ابوالکلام کوثر ، اکسد العالم ، ابوالکلام سرکار ، محمد عطا اللہ ، پروین حسن ، پاکستان سے جمیل اصغر ، تنظیم الفردوس اور ہندستا ن کے مختلف علاقوں سے تقریباً ایک بیس مندوبین نے شرکت کی ۔ اس سہ روزہ سیمنار میں بیک وقت دو ہال میں دو سیشن چلتے رہے اور ایک سو دس مقالے پڑھے گئے ۔یہ تمام مقالے الگ الگ موضوعات پر لکھے گئے تھے ۔ میرا خیال ہے کہ ہندستان میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا سیمنار تھا جس میں اتنی سنجیدگی سے اور اتنے ہم مقالات پڑھے گئے ۔اس سہ رواہ سیمنار میں ہندستان کہ ج وشکل نکل کر سامنے آئی وہ ایک عظیم ہندستان کی کی تہذیب ہے جو ناقبل تسخیر بھی ۔ ہندستان کی اس تہذیب میں رواداری اور مہمان نوازی خاص بات ہے ۔میں نے اس درمیان یہ محسوس کیا کہ واقعی سفر نامے ہمارے لیے جام جم کا درجہ رکھتے ہیں۔ لندن سے سمیع اللہ ملک نے اسکائپ کے ذریعے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کے سفر کے بغیر کوئی بھی سفرنامہ نا مکمل ہے۔
اس عظیم تقریب کا افتتاح شایان شان ہو ا۔ اس کا افتتاح ہندستان کے اہم فکشن نگار اور ماہر تعلیم جناب سید محمد اشرف نے کیا ۔ کی اس افتتاحی تقریب میں
”سفر ناموں میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی عکاسی“ پرسہ روزہ بین الاقوامی سیمینار کا افتتاح 12 مارچ کی صبح جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے کنوینشن ہال میں ہوااس سمینار میں مختلف ممالک کے مندوبین نے شرکت کی ۔ سیمینار کا آغاز ممتاز فکشن نگار اور ماہر تعلیم سید محمد اشرف کے افتتاحی خطبے سے ہوا۔ سید محمد اشرف نے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی رنگارنگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سفر کا آغاز حضرت آدم سے ہوتا ہے ۔ انہوں نے مختلف مذہبی شخصیات مثلا حضرت نوح ، حضرت محمد اور رام چندر جی کے سفر کے مقاصد پر روشنی ڈالی ۔پروفیسر خلیل طوقارجو ترکی سے اس خصوصی سیمنار میں تشریف لائے انہوں نے سیمنار کی اہمیت اور افادیت پر بھرپور روشنی ڈالی ۔ انھوں نے اپنے خصوصی خطبے میں دنیاکے ابھرتے ہوئے سپر پاور ملک ہندوستان میں تہذیب و ثقافت پر اس طرح کاسیمنار خوش آئند بات ہے۔ سیمنار کے مہمان خصوصی امیر حسن ذکرگو اس اہم سیمنار میں ملیشیا سے تشریف لائے ۔انھوں نے ہندوستان کو اپنا محبوب ترین ملک بتایا۔ امیر حسن ذکر گو نے ہندوستان کی رنگا رنگی کو دیکھتے ہوئے اسے تاریخ و ثقافت کا عجائب خانہ بتایا۔ اپنے خطبے میں انہوں نے مزید کہا کہ سفر ناموں میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی عکاسی پریہ اپنی نوعیت کا پہلا سیمنار ہے جو اس طرح کے موضوعات کا احاطہ کر رہا ہے۔ پروفیسر دپتی ترپاٹھی ، ڈائریکٹر نیشنل مینوسکرپٹ مشن ، نئی دہلی نے بحیثیت مہمان اعزازی شرکت کی۔ پروفیسردپتی ترپاٹھی نے بتایا کہ سفر نامے قدیم ادبی ، تہذیبی و تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پروفیسر پروین حسن، وائس چانسلر ومن سینٹرل یونیور سٹی ،ڈھاکہ نے صدارتی خطبہ پیش کیا ۔ انہوں نے سمینار کے متعلق کہاکہ جدید نسل اس سے گزشتہ تاریخ، تہذیب اور ثقافت سے واقف ہوگی۔پروفیسر معین الدین جینابڑے نے شکرانہ کلمات ادا کیے۔معین الدین جینابڑے نے اپنے خطبے میں کہا کہ سفر نامے تاریخ، تہذیب اور ثقافت کا منبع ہوتے ہیں۔ڈاکٹر خواجہ اکرام نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے سفرنامے کی ادبی اور تہذبی اہمیت پر روشنی ڈالی اور یہ کہا کہ ہمیں یہ فخر ہے کہ ہمارا شعبہ اس حوالے سے سبقت لے گیا اور ہم نے اس موضوع پر ہندستان میں پہلی دفعہ اس طرح کے سیمنارکا انعقاد کرایا ۔واضح ہو کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا سیمنار ہے جو اس طرح کے موضوعات کا احاطہ کر رہا ہے۔ اس سیمنار کا مقصد ہندستان کی ناقابل تسخیر تہذیب وثقافت کے مختلف پہلووں کو اجاگر کر نا ہے۔ اس سمینار میں موضوع کی انفرادیت کے پیش نظر سامعین کا ایک جم غفیر دیکھنے کو ملا۔سامعین کا ذوق وشوق دیکھنے کے قابل تھا۔ ہندوستانی زبانوں کا مرکز جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ” سفر ناموں میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت“ پر بینالاقوامی سمینار کا آج دوسرا دن نہایت کامیاب گزرا۔ سمینار دو حصوں میں منقسم تھا۔ پہلے سیشن کی صدارت پروفیسر نعمان خان، پروفیسر ابن کنول، پروفیسر محمد شاہد حسین اور اقتدار حسین نے کی۔ پہلے سیشن میں قومی اور بینالاقوامی مقالہ نگاروں نے اپنے مقالے پیش کیے۔ خلیل طوقار ترکی ، وفا یزدفان منش ایران، جمیل اصغر پاکستان، پروین حسن بنگلہ دیش، نومی ورڈنسویزر لینڈ نے شرکت کی۔دوسرے سیشن میں پانچ بینالاقوامی مقالہ نگاروں اپنے مقالے پیش کیے۔
دوسرے دن آج ایک خصوصی سیشن کا انعقاد ہوا۔ یہ خصوصی سیشن ”ہندوستان کی تہذیب و ثقافت صوفیا کرام کی نظر سے“ پر مشتمل تھا۔ اس خصوصی سیشن کا آغاز پروفیسر آنند کمار کے افتتاحی خطبے سے ہوا۔ پروفیسر آنند کمار نے اس انوکھے موضوع پر سیمنار کا انعقاد کرنے پر منتظمیں کو مبار ک باد دی۔ا ٓنند کمار نے صوفی سنت اور ہندوستانی ذہن و تہذیب پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ صوفی اور سنتوں نے انسانیت اور روحانیت کی تعلیم گھوم گھوم کر پھیلائی۔ انہوں نے اپنے اس خطبے میں مزید کہا کہ صوفیائِ کرام نے بغیر کسی اسلحہ اور فوج کے ہندوستان پر حکومت کی۔ اس سیمنار میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک مرکزی وزیر برائے سیرو سیاحت سبودھ کانت سہائے نے کہا کہ صوفی سنتوں کی تعلیمات ہندوستان کا بیش قیمت خزانہ ہیں اور اس کی حفاظت ہم سب کا اولین فرض ہے اور یہ سیمنار اسی کی ایک کوشش ہے۔ سیمنار کے ڈائرکٹر ڈاکٹرخواجہ اکرام نے اس خصوصی سیشن کے تعارفی کلمات میں صوفیا کرام کی علمی اور ادبی اور تہذیبی خدمات کا مفصل جائزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کی تہذیب و تمدن متنوع ہے ۔ انہوں نے اپنے تعارفی خطبے میں مزید کہا کہ تصوف وہ واحد ذریعہ ہے جس کی وجہ سے پورا ہندوستان مختلف و متنوع پھولوں کا ہار معلوم ہوتا ہے۔ سیمنار کے اس خصوصی سیشن کی صدارت روحانی پیشواسید محمد قاسم اشرف صاحب کچھوچھوی نے فرمائی۔ اشرف صاحب کچھوچھوی نے اپنے صدارتی خطبے میں فرمایا کہ ہندوستان کے امن و آشتی کی تہذیب کو آگے بڑھانے میں صوفیاءکرام نے بیش بہا خدمات انجام دی ہیں۔ اانہوں نے اپنے خطبے میں مزید کہا کہ ہندوستان ایک عظیم تہذیبی ملک ہے جس کی شناخت تہذیبی رنگا رنگی میں مضمر ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں جے این یو کو مبارک باد پیش کرتا ہوں ہوں جنھوں نے اس انوکھے اور اچھوتے موضوع پر سیمنار کا انعقاد کیا ۔ کیوں کہ ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کو صوفیوں کی نظر سے دیکھنے کی آج تک کوئی شایان شان کوشش نہیں کی گئی،جب کہ ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کو آگے بڑھانے اور پھیلانے میں صوفیوں نے بہت بڑا رول ادا کیا ہے-میں جے این یو کو مبارک باد دیتا ہوں کہ اس نے اس اہم جہت پر سیمینار کا ایک اسپیشل سیشن رکھ کرایک بھولے ہوئے سبق کو یاد دلانے کی کوشش کی ہے۔ اس موضوع پر یہ پہلا قدم ہے ، ہمیں مزید آگے پڑھنے کی ضرورت ہے۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ صرف اس موضوع پر باضابطہ الگ سے سیمنار کرنے کی ضرورت ہے۔ میں یہاں شری سبودھ کانت سہائے صاحب کے ذریعے حکومت ہند سے گزارش کروں گا کہ وہ ”ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی تشکیل میں صوفیوں کی خدمات “ پر ایک سہ روزہ انٹرنیشنل کانفرنس کرے تاکہ ہندوستان کی منفرد اور مشترکہ تہذیب کا یہ اہم پہلو پوری دنیا کے سامنے آسکے۔
آج کے اس سیشن میں جو مقالے پڑھے گئے وہ یقیناً معلوماتی تھے ، ہر مقالے میں نئے نئے پہلووں کو اجاگر کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ ان پر تبصرہ کرنے کے بجائے میں انھیں مبارک باد پیش کرتا ہوں اور اس موقعے کو مناسب سمجھتے ہوئے سفرنامے اور ہندستانی تہذیب وثقافت کے حوالے سے بالخصوص ہندستانی تہذیب و تمدن کی تشکیل میں صوفیا کے رول کے بارے میں چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔
تہذیب کا لفظ ایک وسیع لفظ ہے جو درا صل کئی قوموں ، نسلوں کے اشتراک سے بنائے گئے معاشرتی اصول و آداب کی وضاحت اور نشاندہی بھی کرتا ہے۔ دنیا بھر کی تہذیبں جو اپنی انفرادیت کے لیے جانی جاتی ہیں وہ اسی بنا پر ہے کہ ان میں اس علاقے کے عناصر شامل ہوتے ہیں ۔ جہاں تک ہندستان اور ہندستانی تہذیب کی بات ہے تو یہ آپ سب جانتے ہیں کہ ہندستان ایک عظیم تہذیبی ملک ہے جس میں معاشرتی زندگی کے ہزار رنگ موجود ہیں ۔ ہندستان کے جس خطے میں چلے جائیں وہ خطہ اپنی معاشرتی زندگی کے اعتبار سے دوسرے خطے سے بالکل الگ ہے۔اس تہذیبی رنگارنگی اور تنوع کے باوصف پوری دنیا میں ہندستان کی شناخت یہی ہے یہاں کثرت میں وحدت ہے ۔ ہندستان کی تہذیبی تشکیل کے ان عناصر میں صوفیوں کا بڑا رول ہے ۔ صوفی کا مطلب یہ ہے کہ جنھوں نے زندگی گزارنے کے مقاصد کے ساتھ ساتھ زندگی کے طور طریقے بھی بتائے ، یہ طریقے رواداری ، محبت اور اخوت کے ہیں ۔ صوفی صرف محبت کرتے ہیں وہ یہ نہیں دیکھتے کہ سامنے کون ہے ۔ان کےیہاں کوئی بھید بھاو نہیں ہوتا ان کے دروازے سبھوں کے لیے بغیر کسی امتیاز کے کھلا رہتا ہے۔ صوفی روحانیت کی تعلیم کے ذریعے خدا کی محبت کو حاصل کرنےکا راستہ بتاتے ہیں ۔ اسی لیے ان کے یہاں دنیا وی آلائش نہیں ہوتی ۔یہ سب سے بڑی وجہ ہے کہ جس سے انسان مکر وفریب اور ظلم وستم سے بچتا ہے ۔ صوفی ظلم کا جواب محبت سے دیتے ہیں ۔ ہندستان میں صوفیوں اور سنتوں کا ایک بڑا سلسلہ ہے جنھوں نے اس ملک کو رواداری اور بھائی چارگی سیکھایا۔ انھوں نے نفرت کا جواب محبت سے دینے کے سبق کو عام کیا۔انسانیت کے اقدار کو عام کیا۔ شیخ ہجویری سے خواجہ غریب نواز تک اور نظا م الدین اولیا سے مخدوم پاک تک یہ ایسے صوفی اور خدا بھگت ہیں جنھوں نے ہندستانی تہذیب کو سنوارنے اور بنانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ انھوں نے ایک خطے سے دوسرے خطے تک کا سفر کیا ان کے اس سفر نے ہی ہندستان کو جوڑنے کا کام کیا ہے بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ ان کے ہر اٹھتے قدم کے ساتھ تہذیب بنتی گئی اور سنورتی گئی۔اس خصوصی سیشن کا موضوع ”ہندوستان کی تہذیب و ثقافت صوفیا کرام کی نظر سے“ تھا جس کے تحت کل چار مقالے پیش کیے گیے۔ سویڈن سے شگوفے تقی، ملیشیا سے لیلی تاجیر اور دہلی سے خوشتر نورانی اور اسید الحق نے اپنے مقالے پیش کیے ۔ اس سیشن میں نظامت کے فرائض سید اختر حسین نے انجام دیے اور ڈاکٹر رضواج الرحمن نے کلمہ تشکر ادا کیا۔ اس خصوصی سیشن میں صوفیاءکرام کی تہذیبی و ثقافتی خدمات پر ان کے اسفار کے حوالے سے بھرپور روشنی ڈالی گئی اور تہذیب و ثقافت کی تشکیل میں ان کی خدمات کو جان کر سامعین بے حد محظوظ ہوئے ۔
سمینار کے آخری دن اردو ، ہندی، عربی، فارسی اور انگریزی زبان میں کل ۵۰مقالے پیش کیے گئے۔ آج کا سمینار دو حصوں میں منقسم تھا۔ ایک حصہ عربی اور فارسی کے لیے مختص تھا اور دوسرا حصہ اردو ہندی کے لیے۔ ہر حصہ تین سیشن پر مشتمل تھا۔ سمینار کے ڈائرکٹر ڈاکٹر خواجہ اکرام نے مہمانوں، مقالہ نگاروں اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔خواجہ محمد اکرام نے اپنے شکرانہ کلمات میں سمینار کی کامیابی کے لیے مندوبین ، حاضرین اور اپنے نائبین ڈاکٹر اختر حسین اور رضوان الرحمٰن کو مبارکباد دی۔آج کے اس سمینار میں لندن کے مشہور صحافی ، کالم نگار اور دانشور سمیع اللہ ملک نے ٹیلی کانفرنس کے ذریعہ مندوبین اور سامعین سے خطاب کیا۔ سمیع اللہ ملک نے کہا کہ ہندوستان تاریخ و تہذیب کے اعتبار سے نہایت متمول ملک ہے اور یہاں کی تہذیب و ثقافت نہایت متنوع اور رنگارنگ ہے۔ سمیع اللہ ملک نے مزید کہا کہ ہندوستان کے سفر کے بغیر سفرنامہ مکمل نہیں ہو سکتا۔ آج کے اس سمینار میں پاکستان کی ایک مقالہ نگارپروفیسر تنظیم الفردوس نے اپنے مقالے میں ہندوستان کی متنوع تہذیب و ثقافت بھر پور روشنی ڈالی۔۔” سفر ناموں میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت “ پر یہ سہ روزہ بین الاقوامی سمینار اپنے مقصد میں کامیاب رہا۔سمینار کے تینوں دن سامعین کی بڑی تعداد موجود تھی اور سامعین نے اس سمینار کے تمام مقالے بغور اور دلچسپی کے ساتھ سنے۔سمینار کے تینوں دن سوال و جواب کا خصوصی سیشن مخصوص تھا۔ سامعین نے مقالے سے متعلق مختلف و متعدد سوالات کیے جن کا مقالہ نگاروں نے تسلی بخش جواب دیا۔ آج کے اس سمینار میں پروین حسن، نورین خان، اشرف لون، سید قمر صدیقی، خلیق الزماں، محبوب حسن ، غفران راغب، کفیل احمد نسیم، محمد ظفرالدین، اقبال مسعود، سلیم شہزاد، اقلیمہ خاتون، نصرت امین، محمد محسن، محمد کاظم، کوثر مظہری، شمیم احمد ، زرنگار یاسمین اور علی جاوید وغیرہ نے بحیثیت مقالہ نگار شرکت کی اور اپنے اپنے مقالے پڑھے۔ ان تمام مقالہ نگاروں کے مقالے بے حد معلوماتی تھے اور ہندوستان کی تہذیب و تمدن، سماج اور تاریخ کی رنگارنگی کو سفر ناموں کے حوالے سے اجاگر کر نے میں کامیاب رہے۔
اس سہ روزہ بینالاقوامی سمینار کا اختتام بنگلہ دیش کے ہائی کمیشنر برائے ہندوستان عزت مآب طا رق احمد کریم کے اختتامی خطبے سے ہوا۔ طارق احمد کریم نے اختتامیہ خطبے میں ہندوستان کی اخوت و بھائی چارے کی تعریف کی اور انتظامیہ کو تہذیب وثقافت کے حوالے سے اس طرح کے سمینار کے انعقاد پر مبارکباد دی۔ انہوں نے مزید کہا کہ سفر نامے ہمیں صدیوں کے سفر میں باندھتے ہیں اور اس سے صدیوں کی تاریخ و تہذیب ،اورسماج کا اندازہ ہوتا ہے۔