Home / Socio-political / سماجیاتی طنزپر مبنی نصیحت آمیز علمی و ادبی لطیفے

سماجیاتی طنزپر مبنی نصیحت آمیز علمی و ادبی لطیفے

سماجیاتی طنزپر مبنی نصیحت آمیز علمی و ادبی لطیفے

ابرار احمد اجراوی

ظاہری بینائی بند کرکے ذار چشم تصور واکیجیے اورعہد الست کی یاد تازہ کرتے ہوئے، اپنے تخلیقی پس منظر پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ انسان اس دنیا میں روتاہوا آتا ہے۔ مگر وہ باغ دنیا کے پر فریب لالۂ و گل میں اس قدر محو ہو جاتا ہے کہ وہ ہنستا ہنساتا، مسکراتا اور کھلکھلاتاہی رہتا ہے ، اسی لیے کسی فلسفی نے انسان کو ایک ہنسنے والا جانور کہا ہے۔ہنسنا ہنسانا اور خندہ پیشانی کا عمل اسلامی اعتبار سے بھی محبوب ہے، مگر انسان ہنسنے ہنسانے میں اس قدر مصروف ہوجاتا ہے کہ اسے مقصد تخلیق کے بارے میں سوچنے اوراپنی نارسائیوں پر رونے کا موقع ہی نہیں ملتا۔حالاں کہ دنیا تو صرف مومن ہی کیا، پوری انسانیت کے لیے قید خانہ ہے،جہاں کی مدت بڑی مختصر اور زود رخصت واقع ہوتی ہے۔ انسان ان پہلؤوں پر کبھی غور نہیں کرتا، بلکہ وہ صرف رنگین مزاجی اور سیر و تفریح کے مواقع کی تلاش میں رہتا ہے۔

پھر یہ ہنسنا بھی اعجوبۂ روزگار اور متضاد شے ہے۔ انسان کبھی اپنے آپ پر ہنستا ہے تو کبھی دوسروں پر۔ ہنسی کا عمل کبھی احساس برتری کا نتیجہ ہوتا ہے تو کبھی احساس کمتری کا۔ یوں تو ہم انسان اناپ شناپ باتوں پر ہنستے مسکراتے رہتے ہیں لیکن اگر یہ کھلکھلاہٹ کسی علمی یا ادبی لطیفے کے نتیجے میں ہو، تو اس سے نہ صرف یہ کہ ہماری زندگی کا وہ لمحہ ظاہری طور پر مسرت آمیز بن جاتاہے، بلکہ ہمیں ایک قسم کی روحانی لذت اور باطنی تسکین بھی حاصل ہوتی ہے۔ اس سے ہمارے باطنی اعصاب پر ضرب لگتی ہے،  ہمارا ضمیر بیدار ہوتا ہے،  اس سے ہم نصیحت پکڑتے ہیں، اس سے ہماری عقلوں کے بند دریچے بھی کھلتے ہیں اور ہم تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی، اس کی روشنی میں اپنی زندگی کے شب و روز کا جائزہ لینے پر ضرور مجبور ہوتے ہیں۔

سلیقے سے کہی گئی بات گر چہ وہ بظاہر تلخ کیوں نہ ہودیر پا اثر چھوڑ جاتی ہے۔ اور بے سلیقہ بات گرچہ وہ کتنی شیریں اور مصری اور شکرمیں ڈھلی کیوں نہ ہو ، تاثیر سے عاری ہوتی ہے۔ بزرگوں کے علمی اور ادبی لطائف کی یہی خصوصیت ہے کہ اس میں اتنے سلیقے سے طنز کا پہلو نکالا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر ہمارے دل و دماغ کو اپیل کرتے ہیں اور اس میں ناگواری کا پہلو ہونے کے باوجود ہم اس کو گوارا کرلیتے ہیں۔

ہنسنے ہنسانے کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں۔ اچھا بھی اور برا بھی۔ تلخ بھی اور شریں بھی۔ اگر یہ کام حسین پیرایے میں انجام دیا جائے تو اسی کو ظرافت اور خوش دلی کا نام دیتے ہیں۔ جو ہمیشہ سے کیا عربی، کیا فارسی اور کیا ارود، بلکہ دنیا کے تمام ادب میں مقبول رہا ہے۔اور اگر اس ہنسنے ہنسانے کے عمل میں ادب و سنجیدگی کا پہلو نہ ہو تو وہ ایک بھونڈا مذاق اور تنازع انگیز طنز بن جاتا ہے۔ اور بسا اوقات وہ باہمی دشنام طرازی پر منتج ہوتا ہے۔ جس کی کسی بھی سنجیدہ مساج میں گنجائش نہیں ہوتی۔علمی وادبی لطائف سے جہاں ہماری رگوں میں سرور و انبساط کی لہر دور جاتی ہے، وہیں اس سے انسانی خرابیوں اور کم زوریوں سے بھی پردہ اٹھتا ہے۔ اور پھر یہ بھی کھلی حققیت ہے کہ سنجیدہ نصیحت کے بجائے ظرافت آمیز بات زیادہ اثر انگیز ہوتی ہے۔

فارسی میں اس قسم کے بے شمار علمی، ادبی، مذہبی اور سماجی لطائف موجود ہیں جن سے ہمارے دلوں میں ایک گدگدی بھی پیدا ہوتی ہے اور نصیحت کا پہلو بھی برآمد ہوتا ہے۔ شیخ سعدی کی گلستاں اس کی بہترین مثال ہے۔ لیکن اس زوال آمادہ اور قحط الرجال کے مرض میں گرفتار دور میں کسی کو فارسی سے اتنی رعبت کہاں ہے کہ وہ اس زبان کی پہنائیوں میں سر کھپائے اور وہاں سے علمی اور ادبی جواہر پارے برآمد کرے۔اللہ جزائے خیر دے عبد الرحیم احمد پروانی کو کہ انھوں نے بڑی عرق ریزی سے کام لے کر انھیںبزبان فارسی ایک کتابی شکل میں جمع کردیا ہے۔ یہ کتاب مسمی بہ ’’گنجینۂ نفائس‘‘ کتاب کیا ہے، علم و معرفت کا خزانہ ہے۔ کتاب کو ایک بار پڑھنا شروع کیجیے تو اس کے مضامین ہمارے دل و دماغ پرکچھ ایسی ساحری کرتے ہیں کہ پھر ختم کیے بغیر اس کورکھنے کو جی نہیں چاہتا۔ لطیفہ بڑا مختصر ہے، جو کچھ ہے وہ میری عقلی نارسائی کا ثمرہ ہے۔ راقم الحروف نے بعض لطائف کی روشنی میں کچھ سمجھنے کی کوشش کی ہے اور آپ کو بھی اپنی ناقص فہم سے آگاہ کرنا چاہتا ہے۔

غافل مشو،ہشیار باش:

 بغداد کا خلیفہ بڑا بربولا اور کہنا چاہیے کہ باتونی تھا۔ بات بات میں یہ بول پڑتا ہے کہ اگر اس شہر میں ایک بھی عقل مند ملا تو میری بیوی کو تین طلاق۔غصہ فرو ہوا،  اپنی بات پر ندامت ہوئی۔ بیوی ہاتھ سے نکلی جارہی تھی۔ مفتیوں سے دریافت کیا ، سبھی نے فتوی دیا کہ تمھاری بیوی تمھارے ہاتھ سے گئی۔ کیوں کہ اس شہر میں کچھ نہیں،  تو کم ازکم ایک ہزار عقل مندلوگ تو ضرور ہوں گے۔

رفتہ رفتہ یہ خبر بہلول تک پہنچی۔بہلول فارسی زبان کا بڑا عقل مند کردار رہا ہے۔ وہ خلیفہ کے پاس بن بلائے گیا اور عرض کیاکہ اس ملک کے عقل مند ترین شخص کو مجلس میں حاضر کیا جائے۔ خلیفہ کے وزیر با تدبیر سے زیادہ عقل مند مملکت میں بھلا اور کون ہوسکتاتھا۔ اس کو بلایا گیا، بہلول بڑا حاضر جواب اور جز رس تھا، اس نے وزیر سے پوچھا کہ تم خلیفہ کے دست راست ہو،  تم نے اپنی اس دوروزہ زندگی کے لیے تو اتنے سارے عیش و عشرت کے سامان مہیا کر رکھے ہیں، بتاؤ اپنی آخرت کے لیے کیا ذخیرہ کر رکھا ہے۔ خلیفہ نے کہا کہ دنیا کا عشر عشیر بھی نہیں ہوسکتا۔ بہلول نے کہا کہ جب اس ملک کے سب سے بڑے عقل مند کا یہ حال ہے تویہاں کے بے عقلوں کا کیا حال ہوگا؟بس بہلول نے یہیں سے یہ نکتہ دریافت کرلیا اور پھر خلیفہ سے کہا کہ جائیے، آپ کی بیوی کو طلاق نہیں پڑی کیوں کہ اس ملک میں کوئی عقل مند ہے ہی نہیں۔

قصہ ختم ہوگیا، ذرا سوچیے کہ آج کل ہمارے سماج میں بڑبولے پن اور زود کلامی کی یہ برائی کتنی تیزی سے سرایت کر رہی ہے کہ آدمی طیش میں آکرصرف واہ واہی لوٹنے کے لیے نہ جانے کیا کیا بول بیٹھتا ہے۔ اور اس کے انجام کے بارے میں کچھ بھی نہیں سوچتا۔ اسلام میں خاص طور سے دو چیزوں کی حفاظت اور ان کے صحیح استعمال کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔ ایک زبان اور دوسرے شرم گاہ۔ اس دنیا میں خاص طور سے اس ترقی یافتہ دور میں، چوری، مکاری، فریب، دھوکہ دہی، بڑوں کی ناقدری جتنی برائیاں پھیل رہی ہیں عموما ان کا سبب یہی دو چیزیں ہیں۔ اور اس میں زبان تو خاص طور پر کچھ زیادہ ہی شر انگیز واقع ہوئی ہے۔ اس لیے ہر صبح جسم کا ایک ایک عضو زبان سے پناہ مانگتا ہے اور دست بستہ یہ درخواست کرتا ہے کہ اگر تم نے کچھ غلط کہا تو تمھارا تو کچھ نہ بگڑے گا، لیکن ہماری خیر نہیں۔

ہمیں اپنی زبان پر کچھ بھی لانے سے پہلے اس کے انجام وعواقب پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ تا کہ پشیمانی کی ذلت نہ اٹھانی پڑے۔ اور اس کی تاویل کے لیے ادھر ادھر منھ نہ مارنا پڑے۔صرف طلاق کی بات ہی لے لیجیے، توآج یورپی ممالک کے ساتھ وطن عزیز ہندستان میں بھی طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کا سبب یہی ہے کہ ہم اپنے منھ سے نکلنے والے کلمات پر مرتب ہونے والے اثرات پر عور نہیں کرتے۔ اور پھرجب غصہ فرو ہونے کے بعد اپنے عمل پر پچھتاوا ہوتا ہے تو مفتیوں کے دروازے کھٹکھٹاتے پھرتے ہیں۔ اور بے جا تاویل کے لیے ان پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ اور کوئی راہ نکلتی نہ دیکھ کر اپنا مسلک تک تبدیل کرلیتے ہیں اوراس طرح اپنے دین کے ساتھ بھی مذاق کر بیٹھتے ہیں۔مجھے مسالک سے کوئی بیر نہیں، لیکن تبدیلی مسلک کا اسلام سے کوئی مطلب نہیں، یہ صرف خواہشات نفسانی کا اتباع ہے۔ علامہ اقبال نے شاید ایسے ہی لوگوں کے لیے یہ شعر کہا ہے:

خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں

ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق

آگے بڑھیے اورذرا سوچیے کہ اگر طلاق کا اختیار صنف نازک کو دے دیا جائے، جیساکہ آج کے روشن خیال اور تانیثیت کے علم برادر ، خواتین کی اختیار کاری کے جھوٹے پروپگنڈے کی آڑ میںیہ تحریک چلا رہے ہیں تو طلاق متاع کوچۂ وبازر بن جائے، اورہر گلی نکر پر طلاق طلاق کے الفاظ سے کان پھٹے پڑیں،کیوں کہ نہ صرف فطرت سے یہ پتہ چلتا ہے، بلکہ دنیا کی اسکرین پر روزرونما ہونے والے واقعات یہ بتاتے ہیں کہ مردوں کے مقابلے میں عورتیں زیادہ عجلت پسند اور عاقبت ناندیش واقع ہوئی ہیں۔

حسن و قبح کا مدار:

 پاگل سے کسی نے یہ سوال کرڈالا کہ تم اچھے ہو یا کتا؟ پاگل بھی بڑا حاضر جواب تھا، اس نے کہا کتا مجھ سے بہتر ہے۔ چوں کہ وہ نافرمانی نہیں کرتا اور ہم لوگ نافرمانی کرتے رہتے ہیں۔ اسی لیے ہم انسان بہتر ہیں یا کتا فیصلہ، آپ خود فیصلہ کرلیں۔

کوئی بھی چیز خواہ وہ جان دار ہو یا غیر جان دار ، اس کی قدر وقیمت کامدار اس کا عمل ہوتا ہے۔ عمل اچھا ہو، دوسروں کے لیے فائدہ مند ہو اس میں کسی کی نافرمانی کا عنصر نہ ہو تو ہزاروں ذاتی خرابیوں کے باوجود ایک جان دار لائق ستائش ہے۔ ایک زہریلا سانپ کسی کو کاٹے نہیں بلکہ اپنے مالک کی دیکھ ریکھ کرے تو کوئی کیوں اس کو لاٹی لیر مارنے آئے گااور ایک انسان اگر درندگی کا لباس پہن کرکسی بے قصور کو مار ڈالے تو کون ایسا ہوگاجو صرف اس بنیاد پر اس کی ستائش کرے کہ وہ اشرف المخلوقات ہے اورعام انسانوں کی طرح ہاتھ اور ناک کان رکھتا ہے۔

آج ہم میں کتنے لوگ ایسے ہیں جو اپنے ظاہری جسم و جثے کے اعتبار سے توانسان کہلاتے ہیں لیکن اپنے باطن،  اپنے روز کے اعمال اور اپنی ایذا رسانی کی وجہ سے خوں خوار جانور سے بھی بدتر معلوم ہوتے ہیں۔آج اگر انسان نے خدا کی عطا کردہ صلاحیتوں سے کام لے کر، نئی دریافتوں کے بل پر دنیا کو ترقی کے بام عروج پر پہنچا دیا ہے تو اسی انسان نے ان صلاحیتوں کا علط استعمال کر کے انسانیت کی تباہی و بربادی کی نئی نئی راہیں بھی کھول ڈالی ہیں۔ ہیروشیما اور ناگاساکی میں تباہی مچانے والے ایٹم بم کس کے دہنوں کی ایجاد ہے۔ افغانستان اور عراق پر بادل کی طرح گرجنے اوربارش کی طرح برسنے والے طیارے اوربھانت بھانت کے ہتھیار کس نے بنائے ہیں۔ کتے اپنے مالک کی بھی نافرمانی نہیں کرتے اور ہم انسان اپنے دنیاوی مالک کیا اپنے پیدا کرنے والے مالک حقیق کی کتنی باراور کس کس طرح نافرمانی کرتے ہیں۔میر صادق اور میر جعفر کو حکیم الامت علامہ اقبال نے ننگ آدم، ننگ دیںاور ننگ وطن کا ذلت آمیز لقب اس لیے دیا تھا کہ انھوں نے چند دنیاوی ٹکوں کے عوض اپنے محسنوں کے ساتھ بے وفائی اور غداری کی تھی۔غالب کی نظر میں وفاداری کی اتنی اہمیت تھی کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے:

وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے

مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو

لوہا لوہے کو کاٹتا ہے:

کسی بزرگ کے علاج کے لیے خلیفہ نے ایک آتش پرست ڈاکٹر کو بھیج دیا۔ ڈاکٹر نے بزرگ صاحب سے پوچھا، بتائیے آپ کا دل کیا چاہتا ہے۔ انھوں نے کہا یہی کہ تو اسلام قبول کرلے۔ ڈاکٹر نے کہا، اگر میں مسلمان ہوجاؤوں تو کیا آپ اچھے ہوجائیں گے، بزرگ نے کہا ہاں! کیوں نہیں۔ چناں چہ اس کے سامنے اسلام پیش کیا گیا، مگر اس پر کوئی اثر نہیں ہوا ، سارا قصہ خلیفہ کو معلوم ہوا تو اس نے کہا میں نے تو یہ سمجھا تھا کہ میں  نے ڈاکٹر کو مریض کے پاس بھیجا ہے،اب معلوم ہوا کہ میں نے مریض کو ڈاکٹر کے پاس بھیج دیا تھا۔

سچ کہا ہے کہ لوہالوہے کو کاٹتا ہے۔ جو خود مریض ہو وہ دوسروں کا علاج کیسے کرسکتا ہے۔ آج بہت سارے مصلحین وواعظین کی زندگی میں جھانک کر دیکھیے تو وہ چوں کہ خود علم و عمل سے عاری ہوتے ہیں اس لیے ان کی نصیحت اور وعظ و تبلیغ بھی رائیگاں جاتی ہے۔ان کی زندگی خودرا فضیحت اور دیگراں را نصیحت کی تصویر ہوتی ہے۔ ہمیں کسی کے سامنے کوئی پیش کش رکھنے سے پہلے یہ صرور سوچ لینا چاہیے کہ اس کے اندر اس کو قبول کرنے کرنے کی صلاحیت بھی ہے یا نہیں؟جب اندر کی دنیا میں اندھیرا ہو، وہ کوئی بھی روشنی قبول کرنے پر آمادہ نہ ہو، تو لاکھ وعظ اور نصیحت کرتے رہیے اس پر کچھ بھی اثر نہ ہوگا۔ کیا بنجر زمین میں بھی کاشت کاری کا عمل کیا جاسکتا ہے۔ اور اگر کوئی کاشت کاری کرنے پر مصر ہی ہو تو کیا اس سے کسی پیداوار کی توقع کی جاسکتی ہے۔

کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے:

انگریزی شاعر و ڈرامہ نگارشکسپیئر اکثر یہودیوں کا مذاق اڑایا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ اس نے یہ لطیفہ سنایا کہ ایک سمندری سفر میں کشتی کے سامنے ایک دیو قامت مچھلی آگئی۔ اس کے شر سے بچنے کے لیے ملاح نے ہیرے جواہرات سے بھری ایک ٹوکری اس کے سامنے ڈال دی۔ جس کو وہ چٹ کرگئی۔ اس نے پھر سر باہر نکالا، اس بار کشتی والوں کے مشورے سے ایک یہودی کو ڈال دیا گیا۔ مچھلی نے اس کو بھی نگل لیا۔ تیسری باراس نے سر باہر نکالا ،اس بار مشورے سے ایک عیسائی کو ڈال دیا گیا۔ مچھلی اسے بھی ہضم کرگئی۔ اب چوتھی بار اس نے سر نکالا تو ملاح نے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق اس کا شکار ہی کرلیا۔ اور پیٹ چیر کر جو دیکھا تو پایا کہ یہودی ہیرے جواہرات والی ٹوکڑی کو پکڑے ہوا ہے اور عیسائی سے اس کا مول تول کر رہا ہے۔

اس واقعے سے یہودیوں کی مادہ پرست دہنیت کی عکاسی ہوتی ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ وہ دنیا میں جہاں بھی رہتے ہیں، اپنی اسی ذہنیت کے سبب،مالی اعتبار سے انتہائی مضبوط ہوتے ہیں۔ تعدا دمیں ان کا کوئی شمار نہیںہوتا مگر طاقت میں وہ سب پر فائق ہوتے ہیں۔اسرائیل کی بات تو چھوڑ دیجیے کہ یہ فلسطین میں زور زبردستی سے بسائے گئے ہیں اور روز بروز اپنی ناجائز ریاست کی توسیع کرتے جارہے ہیں،  لیکن سپر پاور امریکہ میں یہودی تو صرف دو فیصد ہیں، مگر وہاں کے سارے معاشی ذرائع پر ان کا کنٹرول ہے۔ کوئی بھی پالیسی ان کی اجازت کے بغیر تشکیل نہیں دی جاسکتی۔صدر امریکہ کوئی بھی ہو، وہ یہودیوں کے چشم و ابرو کے اشارے پر ناچتا ہے۔ یہ سب کچھ یہودیوں کی اسی فطری مکاری اور عیاری کا نتیجہ ہے۔ شکسپئیر نے بڑے پتے کی بات کہی ہے۔

دنیا اور عقبی کا فرق:

ایک شخص کی بیوی کا نام حور تھا۔ جب اس نے جہاد میں دیکھا کہ پوری جماعت شہید ہوگئی تو وہ ڈر کے مارے بھاگنے لگا۔ ایک شخص نے اس کو بھاگتا دیکھ کر کہا، میاں کہاں بھاگے جارہے ہو، اگر شہید ہوگئے تو آخرت میں حورعین ملے گی۔ وہ بڑا حاضر جواب تھا، اس نے جواب دیا، بھائی حور تو میرے گھر میں ہی ہے۔ صرف ایک عین (آنکھ) کے لیے اپنے کو موت کے منھ میں ڈالنا کہاں کی عقل مندی ہے۔

یہ واقعہ فرضی ہوسکتا ہے، مگر اس سے ہم انسانوں کی عجلت پسندی اور دنیا پرستی کا علم ہوتا ہے۔نصیحت اندوزی کے لیے واقعیت کی اصلیت کا علم ہونا ضروری نہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم میں سے ہر شخص وقتی فائدے کے سامنے ابدی راحت و سکون کو قربان کردیتا ہے۔ یہ ہماری عقلوں کا قصور ہے۔ جنت میں ملنے والے حور و غلماں سے یہاں کے خوب رو مردو عورت کو کیا نسبت۔ ہم انسانوں کو ہمیشہ لازوال اور پائے دار مفاد کو دھیان میں رکھنا چاہیے۔ اور چند روزہ سکون کے لیے ہمیشہ ہمیش کے راحت و آرام کو غارت نہیں کرنا چاہیے۔

۔۔۔علم ہے کچھ اور شے:

ایک جواں سال شاعر یہ چاہتا تھا کہ وہ سو سال کا سفر رات بھر میں طے کرلے اور صاحب دیوان شاعر بن جائے۔ ایک دن اپنا دیوان اپنے استاد کی خدمت میں پیش کیا اور عرض کیا کہ میرے کمزور اشعار کے سامنے صلیب کا نشان بنا دیں۔اصلاح کے بعد استاد کے پاس سے جب اپنا دیوان لے کر دیکھا تو اس میں کہیں بھی صلیب کا نشان نہیں پایا۔اپنے علم وفہم پر بڑا خوش ہوا اور اپنے استاد سے فخریہ کہا کہ کیا میرا کوئی شعر لائق اصلاح نہیں ہے۔ استاد نے جو بڑے ظریف الطبع اور نکتہ سنج تھے ، جواب دیا کہ اگر میں تمھاری خواہش کے مطابق علط اشعار کے سامنے صلیب کا نشان بناتا تو تمھارے دیوان اور عیسائیوںکے قبرستان میں کوئی فرق باقی نہ رہتا۔

زندگی بہت مختصر ہے اور ہر آدمی اسی مختصر زندگی میں سالوں کا سفر منٹوں میں طے کرلینا چاہتا ہے۔ راتوں رات دولت و ثروت کا انبار لگالینا چاہتا ہے۔ پل بھر میں شہرت کی بلندیوں کو چھو لینا چاہتا ہے۔ اور اگر کوئی پڑھا لکھا ہے تو وہ رات بھر میں ہی صاحب کتاب بن جانا چاہتا ہے۔ مگر ہوتا وہی ہے جو مقدر ہوتا ہے۔ خاص طور سے علم و فن کی راہ کا سفر اور بھی مشقت آمیز ہوتا ہے۔یہاں تو’ کوہ کنی کے بعد بھی کاہ بر آوردنی‘ کا مقولہ صادق آتا ہے۔ عمر کے ایک خاص مرحلے میںہی آدمی علم و فن کی بلندیوں کو چھو پاتا ہے۔ جو لوگ اپنے منھ میاں مٹھو بنتے رہتے ہیں ان کا واسطہ جب کسی اہل علم سے پڑتا ہے تو اس کے پندار اور’ہم چوں دیگرے نیست‘ کاسارا بھرم کھل جاتا ہے۔ اگر کوئی آدمی کسی کی غلطی کو نظر انداز کردے تو اس سے یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اس کے اندر کوئی عیب نہیں ہے۔علم کے لیے کتنی دماغ سوزی کرنی پڑتی ہے، علامہ اقبال کی زبان نکتہ شناس سے سنیے:

زندگی کچھ اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے

 زندگی سوز جگر ہے علم ہے سوز دماغ

عطار ہو ،رومی ہو ،رازی ہو ،عزالی ہو

کچھ ہاتھ نہیں آتا، بے آہ سحر گاہی

فضول خرچی سے اجتناب:

فقیر نے ایک راہ گیر سے گریہ و زاری کے ساتھ سوال کیا،  تھوڑے پیسے سے میری مدد کرود، خدا تمھیں اجر دے گا۔ راہ گیر پر اس کا بہت اثر ہوا، اس نے سو افغانی روپے فقیر کو دے دیے۔ اور کہا بھائی، تم اتنے صحت منداور توانا ہو ، یہ غربت تم پر کیسے آگئی۔ فقیر نے جواب دیا میں بھی تمھاری طرح فصول خرچی کیاکرتا تھا۔

آدمی کے پاس جب مال و دولت کی فروانی ہوتی ہے تو اسے آگے پیچھے کسی چیز کی فکر نہیںہوتی۔ وہ دریادلی سے لٹاتا پھرتا رہتا ہے۔اور نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ ایک دن وہ خود دوسروں کے دروازوں کی خاک چھاننے پراپنے کو مجبورپا تا ہے۔ اس قسم کی مثالوں سے تاریخی کتابیں بھری ہیں۔ کفایت شعاری اور میانہ روی ایک محبوب عمل ہے۔ دوسرے کو دینا ضرور چاہیے مگر اتنا ہی جس سے اس کی ضرورت پوری ہوجائے۔ زیادہ دینے سے کئی خرابیاں لازم آتی ہیں۔ اس سے جہاں فصول خرچی کی لعنت میں وہ گرفتار ہوجاتا ہے وہیں دوسرے ضرورت مندوں کا حق بھی مارا جاتا ہے۔ اور ایک دن وہ خود بھی دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوتا ہے۔اور ’یک نہ شد دو شد‘ والا محاورہ ثابت آتا ہے۔

٭٭٭

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *