سپریم کورٹ نے موجودہ پارلیمنٹ کی طرف سے بنائے گئے توہین عدالت کے نئے قانون کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ۲۰۰۳ء کے توہین عدالت کے قانون کو بحال رکھنے کا حکم دیا ہے۔عدالت کا کہنا ہے کہ توہین عدالت کا پرانا قانون۱۲جولائی سے ہی نافذ العمل ہوگا جس دن سے توہین عدالت کا نیا قانون لاگو کیا گیا تھا۔جمعہ کو نئے قانون کے خلاف دائر درخواستوں پر مختصر فیصلے میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے کہا ہے کہ اس قانون میں جو بھی ترامیم کی گئی ہیں وہ پاکستان کے آئین سے متصادم ہیں۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے فوری بعد ایوان صدر اسلام آباد میں صدراور وزیر اعظم کی سربراہی میں اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کا اجلاس منعقد ہواجس میں مسلم لیگ قاف کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین، عوامی نیشنل پارٹی کے حاجی عدیل، افراسیاب خٹک، متحدہ قومی موومنٹ کے فاروق ستار اور دیگر نے شرکت کی۔۔اس اعلیٰ سطحی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ پارلیمان کے قانون سازی کے آئینی حق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور آئین کے تحت قانون سازی پارلیمنٹ کا حق ہے اور موجودہ صورتحال میں تمام چیلنجز کا مل کر مقابلہ کیا جائے گا۔جس کے بعدصدر نے آئینی وقانونی ماہرین کی کمیٹی اوروفاقی وزیرقانون ایچ نائیک سے طویل مشاورت کے بعد۸اگست سے پہلے سپریم کورٹ میں دواپیلیں دائرکرنے کافیصلہ کرلیاہے گویازرداری صاحب نے مزیدوقت حاصل کرنے کیلئے عدلیہ کے فیصلے کے خلاف طبل جنگ بجانے کاعندیہ دے دیاہے۔
لیکن دوسری طرف پچھلے چنددنوںسے بڑی خاموشی کے ساتھ انتخابات کومؤخرکرنے کی تدابیرپربھی عملدرآمدشروع ہوگیاہے۔ایک طرف توصدرزرداری صاحب نے سندھ میںانتخابابات کے حوالے سے قوم کو یقین دلایاہے کہ وہ اپنے وقت پرہونگے لیکن زرداری صاحب کی سابقہ قلابازیوںکوجاننے والے اب ان کے کسی بھی وعدے پریقین کرنے کواس لئے تیارنہیںکہ وہ خودہی اپنے وعدوںسے منحرف ہوکریہ بیان دے چکے ہیںکہ یہ کون سے کوئی قرآن وحدیث ہیںکہ ان پرعمل کیاجاناضروری ہے۔لیکن اگرانتخابات کو مؤخرکرنے کی خواہش پایہ تکمیل تک نہیںپہنچتی توپھر وہ پوری کوشش کریںگے کہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی ریٹائرمنٹ تک وہ استثنیٰ کی چھتری کی پناہ میںرہیں۔اگرصدارت کی کرسی قائم رہتی ہے تووہ آئندہ مدت کیلئے اتحادیوںکے جوڑتوڑسے ایک مرتبہ پھر حکومت بنانے کی کوشش کرسکتے ہیںیاکم ازکم آنے والی حکومت کومصروف رکھ سکتے ہیں۔
زرداری صاحب کواس بات کابہت حدتک ادراک ہے کہ آئندہ انتخابات کے بعداگراقتدارمیںان کاحصہ نہ رہاتوپارٹی پربھی ان کی گرفت نہیںرہے گی بلکہ یہ پارٹی کئی حصوںمیں بٹ جائے گی۔ذرائع کادعویٰ ہے کہ صدرزرداری اس سلسلے میںامریکیوںکوپہلے ہی اعتمادمیںلے چکے ہیں اورکہایہ جاتاہے کہ امریکی بھی نہیںچاہتے کہ ۲۰۱۳ء میںجب وہ افغانستان سے واپسی کی راہ اختیارکررہے ہوںتوپاکستان میںاینٹی امریکاماحول ان کیلئے مسائل پیداکرے ۔صدرمملکت کی اس خواہش کودوسری حمائت ان کے اتحادیوںکی جانب سے ملی ہے جن میںسے اے این پی اورمسلم لیگ قاف اچھی طرح سے جانتی ہے کہ آئندہ انتخابات میںان کے پلے کچھ بھی نہیںبچے گااورآنے والی حکومت نے اگراحتساب کادروازہ کھول دیاتوبہت سے مسائل پیداہونگے،چونکہ ان کی بقاء بھی صدرمملکت کے عہدے سے منسلک ہے لہنداوہ بھی اس پر قائل ہیںالبتہ متحدہ اپنی یرغمال کردہ سیٹوں کے بارے میںپرامیدتوہے مگردوسری جانب اسے یہ خطرہ بھی لاحق ہے کہ اس دفعہ درپردہ پیپلزپارٹی اوراے این پی کااتحادان کی لٹیانہ ڈبودے ،اس لئے وہ بھی صدرزرداری کی حمائت حاصل کرنے کیلئے انتخابات کے التوا کیلئے نت نئے ڈھونگ رچارہے ہیں تاکہانتخابات سے قبل صدرسے اپنے دہشتگردوںکی معافی کااعلان اوردیگرکئی فوائدحاصل کرلئے جائیںاورمتحدہ اس کی پہلی قسط گلگت بلتستان میںاپنے اکلوتے رکن کواختیارات کے ساتھ وزیربنائے جانے کی صورت میںوصول بھی کرچکی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ پچھلے دنوںصدرمملکت کے ساتھ طویل ملاقاتوںکے بعدطے پایاکہ ’’ متحدہ‘‘ اپوزیشن جماعتوںکوقائل کرے گی اورایک گول میزکانفرنس بلاکرانتخابات کے التواکافیصلہ کرائے گی اوراگر ایسا ہو جاتا ہے تو اس کے بدلے میںموجودہ سیٹ اپ میںمتحدہ کومنہ مانگاانعام دینے کاوعدہ کیاگیاہے جس پرمتحدہ نے بھاگ دوڑشروع کردی ہے۔اس مہم کاآغازالطاف حسین نے ۲۰جولائی کوایک ’’طوطافال‘‘ والے اندازمیں بیان دیکرپاکستانیوںکوخوفزدہ کرنے کی کوشش کی کہ امریکی بحری بیڑے حرکت میںآچکے ہیںاورپاکستان کاسمندری گھیراؤکیاجارہاہے اوردوسری جانب افغانستان سے افغان فورسز اور نیٹو حملہ کرنے والے ہیں۔الطاف حسین کی اس فال کولیکرمتحدہ کاوفداپوزیشن قائدین سے مل کر انہیںگول میزکانفرنس پرقائل کرنے کی کوششیں کررہاہے کہ ملک میںہنگامی صورت
حال ہے، ملک کی سلامتی خطرے میں ہے لہندافوری انتخابات کی بجائے اس میں سال چھ ماہ کی توسیع کرلی جائے توبہترہوگا۔
اطلاعات کے مطابق ابھی تک متحدہ کوکسی بھی جانب سے مثبت جواب نہیںمل سکاسوائے اے این پی کے حاجی عدیل کے جوایک مشترکہ پریس کانفرنس میںایسے بیٹھے ہوئے تھے کہ جیسے ان کی ٹانگ کے ساتھ کسی نے ٹائم بم باندھ کربٹھایاہواتھاکہ ان کے منہ کھلتے ہی یہ پھٹ جائے گا۔تاہم یہ بات اب بڑی حدتک واضح ہوچکی ہے کہ گول میزکانفرنس کا اصل ایجنڈہ انتخابات کوالتواکاشکارکرنااورموجودہ حکومت کی مدت بڑھاناہے۔متحدہ کاوفد اس سلسلے میںجماعت اسلامی کے مرکزی دفترمنصورہ بھی گیاجہاںاس کا اعلیٰ سطح کے وفدجس کی قیادت خودسیدمنورحسن جوکراچی کے حالات کے بہت بڑے رازداںاورامین ہیں نے نہ صرف بڑی گرمجوشی کے ساتھ کیا بلکہ بڑی مروت کے ساتھ فاروق ستارکے ساتھ اس پریس کانفرنس میںشرکت کی جس میںفاروق ستار نے کراچی کے حالات کوایک سازش کے تحت خراب کئے جانے کی دہائی دی۔ایک ذریعے نے یہ بھی انکشاف کیاکہ مذاکرات میںکراچی کاتوذکرتک نہیںآیااورنہ ہی جماعت نے ذکرچھیڑکرمہمانوںکوشرمندہ کیا۔منصورہ میںبھرپورپذیرائی کے باوجودمتحدہ کی دال تک نہیںگلی جبکہ جماعت نے دوٹوک اندازمیںکہاکہ جس مقصدکیلئے گول میزکانفرنس کی دعوت دی جارہی ہے دراصل یہ ایشوہی گول میزکے نہیںاورہمیںیہ شک ہے کہ یہ گول میزکانفرنس انتخابات کے التواکیلئے منعقدکی جارہی ہے جس میںہم قطعاً تعاون نہیںکرسکتے۔
متحدہ وفدنے بعدازاںمسلم لیگ نون سے بھی ملنے کی کوشش کی مگرانہیںوقت نہ مل سکا۔اسحاق ڈارنے توفاروق ستارکووقت دینے سے بھی انکارکردیاجبکہ پارٹی قیادت کاکہناہے کہ اے پی سی میںن لیگ کاکوئی رہنمانہیںجائے گابلکہ نوازشریف نے تویہاںتک کہاکہ اگرانتخابات کے التواکی کوئی سازش ہوئی توہم ڈٹ کرمقابلہ کریںگے۔ تحریک انصاف نے بھی فاروق ستارکویہ کہہ کرٹال دیاکہ پارٹی جب فیصلہ کرے گی توآپ کواطلاع دے دی جائے گی۔متحدہ کے ساتھ سب سے زیادہ دلچسپ ہاتھ شیخ رشیدنے ایک افطاری پارٹی میں یہ کہہ کرکیاکہ نوازشریف اورعمران کے بغیریہ گول میزکانفرنس بالکل ناکام تصورکی جائے گی۔متحدہ کی گول میزکانفرنس کی بظاہرتمام کوششیں ناکام ہوچکی ہیںمگربڑے انعام کی لالچ میںوہ ہارماننے کوتیارنہیںاوراب بھی صبح وشام ملاقاتوںمیںمصروف ہیں۔
دراصل متحدہ کی تمام کوششیںاس بات کی غمازہیںکہ اپنے بڑے نام والے دہشت گردرہاکروائے جائیںاورمزیداختیارات حاصل کئے جاسکیں۔یہی خوف متحدہ کواڑائے پھررہاہے مگردکھائی یہ دیتاہے کہ یہ معاملہ اتناآسان نہیںہے بلکہ متحدہ اوراس کے قائدامریکی زبان بول رہے ہیں جس کااظہاربھی منگل کے روزنیویارک ٹائمزنے کھل کرشائع کر دیاکہ اگرحقانی نیٹ ورک نے امریکاپرکوئی بڑاحملہ کیا تو امریکا جواب میںپاکستان پرحملہ کردے گا۔امریکاجوحقانی گروپ کے حملوںسے اس قدرپریشان اورعاجزآچکاہے کیا وہ واقعی پاکستان میںنیامحاذکھولنے کامتحمل ہوسکتاہے؟اب خطرہ یہ ہے کہ خدانخواستہ امریکایااس کے اتحادی پاکستان میں کوئی ایسابدامنی کاواقعہ پیداکرنے کی کوشش ضرورکریںگے جس سے انتخابات ملتوی کرنے کاکوئی جوازضرورنکل آئے اوراس حوالے سے سب سے زیادہ خطرہ بلوچستان،کراچی اور فاٹا میں محسوس کیاجارہاہے۔کیاحزب اختلاف اورعسکری قیادت اس خطرے سے آگاہ ہے؟