Home / Socio-political / سول شہنشاہ بے لباس ہوگیا

سول شہنشاہ بے لباس ہوگیا

چاردہائیاں قبل ایک مشہورامریکی دانشورر برزنسکی نے سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کی پیشگوئی کرتے ہوئے اپنے ایک کالم میں تحریرکیاتھا کہ عنقریب امریکا دنیا کی اکلوتی سپرپاور بن جائے گا اوراسی کالم میں اس نے امریکاکویہ مشورہ بھی دیاتھاکہ امریکاکوابھی سے ایشیائی خطے میں اپنی برتری قائم کرنے کیلئے کسی بھی اہم پیش رفت سے گریزنہیں کرناچاہئے کیونکہ ایشیادنیاکاسب سے بڑابراعظم ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی اہم سیاسی اہمیت کاحامل ہے۔جوبھی ایشیامیں اپنی قوت کے بل بوتے پراپنی برتری قائم کرنے میں کامیاب ہوگیااس کیلئے افریقہ کوبھی زیرکرناانتہائی آسان ہوگا۔ کامیابی کی صورت میں آدھی دنیاکا اوراس سے ملحقہ سمندروں پربھی اس کوبرتری حاصل ہوجائے گی اورمستقبل میں ہونے والی دنیاکی تمام تجارت پرکنٹرول حاصل ہوجائے گاجس سے ایشیا پر برتری اور عالمی سطح پر امریکا کواپنی حاکمیت برقرار رکھنے میں آسانی ہوجائے گی۔
اس حکمت عملی کو یقینی بنانے کے لیے برزنسکی نے یوریشیا کے خطے میں عسکری طاقت استعمال کرنے کی تجویز دیتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ روس کی طاقت کو محدود کرنے کے لیے ایک طرف یورپی یونین اوردوسری طرف ایشیا میں ایشیائی یونین قائم کرناازحد ضروری ہے۔ اسی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے مشرقی یورپی ممالک کو بھی یورپی یونین میں ضم کرکے مغربی محاذ قائم کردیا گیااورایشیامیں سارک جیسی تنظیم کودرپردہ مکمل اعانت فراہم کی گئی۔ اگرچہ یورپی یونین میں وسعت کے بعد نیٹو کی ضرورت باقی نہ رہی تھی لیکن مغربی محاذ کی سا لمیت قائم رکھنے اورایشیائی محاذ کے قیام کی خاطر نیٹو کو بھی برقرار رکھا گیا جس سے بعدازاں افغانستان کی جنگ میں نیٹوکی طاقت کواستعمال کرنامقصودتھا ۔ بالآخر نیو ورلڈ آرڈر پر عملدرآمدکرتے ہوئے ایشیائی محاذپراپنی برتری قائم کرنے کیلئے۲۰۰۱ء کے سانحہ نائن الیون کے پس پردہ افغانستان پر حملے اور پھر قبضے کی راہ ہموار کی گئی جس کے بعد ۲۰۰۳ء میں عراق کو تاراج کردیاگیااوراس طرح اس محاذکومستحکم کرنے کی خاطر عالمی امن کو تباہ کرنے کی پالیسی اپنائی گئی، لیکن یہ پالیسی عراق سے پسپائی کی صورت میں الٹی ہوگئی اوراسی طرح اب افغانستان میں امریکا بری طرح پھنس چکا ہے اور وہاں سے پرامن انخلاکا راستہ ڈھونڈنے میں ناکام ہوکر اب طالبان سے مدد کا طلبگار ہے۔
امریکااوراس کے مغربی اتحادی ایشیائی محاذپربری طرح ناکام ہوچکے ہیں اوراس نیوورلڈآرڈرکی ناکامی کے بعدان کی اقتصادی حالت بھی بری طرح تباہی کے دہانے پرپہنچ چکی ہے۔صرف امریکاکو ۱۶ ٹریلین ڈالر خسارے کا سامنا ہے اور ۱۴ٹریلین ڈالر گھریلو صارفین کی دولت برباد ہوچکی ہے۔ امریکا میں بیروزگاری عروج پر ہے جس سے غربت میں اضافہ ہورہا ہے جس کا اظہار جرائم کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں سے ہوتا ہے۔ عالمی بالادستی کا نشہ ٹوٹ چکا ہے جس سے امریکی استعمار کی بنیادیں ہل چکی ہیں۔ بقول کرک پاٹرک سول شہنشاہ اور رعایا دونوں بے لباس ہوچکے ہیں۔امریکااوراس کی تمام مغربی اتحادیوں کواب دن رات یہ فکرکھائے جارہی ہے کہ وہ اپنی عوام کے سامنے اس عالمی برتری کے منصوبے کی ناکامی کاملبہ کس پرڈالیں۔امریکااوراس کے اتحادیوں نے اب یہ فیصلہ کرلیاہے کہ دنیامیں ابھرتی ہوئی طاقت اسلام اورجہاکوموردِ الزام ٹھہراتے ہوئے وہ دین اسلام کے خلاف میڈیاوارمیں اپنی برتری ثابت کرتے ہوئے جہاں اپنی ناکامی اورشکست کابدلہ اتاریں وہاں اپنی عوام کے سامنے بھی سرخروہوسکیں ۔
ہم سب جانتے ہیں کہ امریکااوردیگرمغربی ممالک جب کسی معاملے پر تحقیق کرنے پر آتے ہیں تو س کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور بہت سے مواقع پر پہنچ بھی جاتے ہیں۔ اسلام وہ مذہب ہے جس پراس وقت سب سے زیادہ تحقیق امریکا میں ہورہی ہے اور امریکی اسلام کے بارے میں امت ِمسلمہ کے بہت سے لوگوں سے زیادہ جانتے ہیں۔نائن الیون کے بعدہالی وڈ کی فلموں میں جنت، جہنم ،عذاب اور ثواب کے اکژمناظر بھی اب دکھائے جاتے ہیں اور ان کو بھرپور انداز میں فلمایا جاتا ہے۔تھرڈجہادنامی فلم ہالی وڈکا ایک ایساتازہ ترین کارنامہ ہے جو نیویارک پولیس کے جوانوں کو دورانِ تربیت دکھائی جاتی رہی ہے۔ فلم کا آغاز ہولناک موسیقی سے ہوتا ہے اور اسکرین پر دکھایا جاتا ہے کہ مسلمان دہشت گرد عیسائیوں کو ان کے سروں میں گولیاں مار کر قتل کررہے ہیں، کاربم دھماکے ہورہے ہیں، مردہ بچے چادروں میں لپٹے ہوئے پڑے ہیں اور وہائٹ ہاوس پر اسلامی پرچم لہرا رہا ہے۔ گویا ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت ہولناک مناظرسے بھرپوریہ فلم مسلمانوں کی خلاف پروپیگنڈہ کے طورپراستعمال کرتے ہوئے نئے پولیس آفیسرزکے ذہنوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کازہرگھولاجارہاہے ۔
اس فلم میں یہ بتایا جاتا ہے کہ امریکا میں مسلمانوں کا سب سے بڑا ایجنڈا یہی ہے اور ان کویہ باورکرایاجاتا ہے کہ یہ وہ جنگ ہے جس کے بارے میں امریکی نہیں جانتے۔ اس فلم کو ایک غیر منافع بخش امریکی سماجی گروپ نے فنڈز دے کر تیار کروایا ہے اور نیویارک پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ایک ہزار سے زیادہ افراد کو دورانِ تربیت یہ فلم دکھائی جاچکی ہے۔ جب اس سازش کا انکشاف ہوا تو نیویارک پولیس کے ایک افسر نے یہ عذر تراشا کہ ایسا نہیں ہوا ہے پھر بتایا کہ بس کچھ افراد کے سامنے یہ ایک دو مرتبہ غلطی سے چلا دی گئی تھی۔ لیکن جب اطلاع تک رسائی کے قانون کے تحت اس حقیقت تک لوگ پہنچے تو پتا چلا کہ یہ فلم باقاعدہ تین ماہ سے ایک سال تک کی ٹریننگ کا حصہ رہی ہے۔ اس میں نیویارک پولیس کے جیف ریمنڈ ڈبلیو کیلی کا انٹرویو بھی شامل ہے اور اس عرصہ میں ہرسطح کے ۱۴۸۹پولیس افسران نے یہ فلم دیکھی اور اس قسم کی فلم دورانِ تربیت دیکھنے کے بعد جو ہوناتھا وہی ہوا۔
نیویارک پولیس نے اس کے بعد مسلم گروپوں کی بھرپورجاسوسی کرتے ہوئے ان کوخوب ہراساں کیا اور ان کے سول حقوق پرکافی ضرب لگائی۔حال ہی میں ایک دفعہ پھر انکشاف ہوا کہ اس فلم کو بنانے کیلئے کلیئر ٹین فنڈ نامی گروپ نے سرمایہ مہیاکیا جس کے بورڈ میں سی آئی اے کا ایک سابق افسر اور صدر ریگن کا نائب وزیر دفاع شامل ہے۔ اسی گروپ نے اس سے قبل مسلمانوں کے خلاف ایک اور فلم ”وار آن دی ویسٹ “تیار کی تھی جس نے اسرائیل نواز گروپ کیسنو میگنیٹ کی ہمدردیاں حاصل کرلی تھیں۔ اس گروپ نے ری پبلکن صدر کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ تھرڈ جہاد کے بارے میں میئر نیویارک بلوم برگ نے حال ہی میں ہدایت کی ہے کہ اب یہ فلم نہ دکھائی جائی، اور معذرت بھی کرلی ہے لیکن اس فلم کے بنانے والوں اور اس کو فنڈز دینے والوں کا سلسلہ مسلسل جاری ہے اوروہ اسلام دشمنی میں مزیدخطرناک فلمیں بنانے کانہ صرف ارادہ رکھتے ہیں بلکہ ایسی ہی کئی اور دستاویزی فلموں پرکام جاری ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس” کلیئر ٹین فنڈ نامی گروپ“کوکہاں سے یہ سرمایہ موصول ہورہاہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ کلیئرٹین فنڈ کے کئی افسران کا تعلق اسرائیل نواز گروپ ”ہاتھورا “سے بھی ہے۔ یہ وہی گروپ ہے جو فلسطینیوں کو مغربی کنارہ واپس کرنے کی مخالفت کرتا ہے اور تھرڈ جہاد کا پروڈیوسر رافیل شور اس ہاتھورا گروپ کے ساتھ کام کرتا ہے۔ مزید تحقیق کریں تو پتا چلے گا کہ اس فلم کو بنانے والے گروپ کی فنڈنگ بھی پراسرار ہے۔ اس کا عمومی حساب کتاب، آمدن و خرچ کئی ملین ڈالر کا ہے جس میں عطیات، گرانٹس اور دیگر ذرائع شامل ہیں۔ لیکن ۲۰۰۸ء میں اسے ۳․۸ملین ڈالر یعنی ۸۳لاکھ ڈالر ملے۔ یہ وہی سال ہے جب اس گروپ نے” وار آن دی ویسٹ “بنائی تھی۔ اس فلم کی ڈی وی ڈی کی کروڑوں کاپیاں ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں پورے امریکا کے طول و عرض میں فروخت کی گئیں اوراس فلم کی فروخت کے بعدعطیات کی شکل میں بھی ان کوکافی رقوم حاصل ہوئی اور یہ آمدنی بھی کہاں استعمال ہوئی ہوگی اس کے لیے زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں۔
دراصل اس فلم میں یہ بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کے تین جہاد ہیں۔ ایک حضور پاکﷺ کے دور میں ہوا، دوسرا قرونِ وسطی میں ہوا اور تیسرا خفیہ طریقے سے پورے مغرب میں آجکل ہورہا ہے۔ یہ ہے وہ خوف اور وہ بات جس نے پورے مغرب کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ اس جہاد کی غلط تصویر دکھاکر مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کی جارہی ہے۔ وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ خوف اور دہشت پھیلا کر مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرکے وہ دنیا بھر میں جہاد کو روک لیں گے لیکن اسلام پر تحقیق کرنے والے جانتے ہیں کہ اسلام میں بچوں کا قتل، جنگ میں عورتوں کا قتل، اور ہتھیار ڈالنے والے کا قتل جائز نہیں، اسی لئے وہ مسلمانوں کو وہ سارے مظالم کرتے ہوئے دکھا رہے ہیں جن سے ہر انسانیت دوست کو نفرت ہوتی ہے۔ اس قسم کی فلم سے دوسرا اثر بھی ہورہاہے، وہ یہ کہ خود امریکی پولیس میں بھی اسلام کے بارے میں معلومات کے حصول کا شوق پیدا ہوگیاہے، بالکل اسی طرح جس طرح نائن الیون کے بعد امریکیوں میں اسلام پھیلا تھا، اسی طرح اب نیویارک پولیس میں بھی دراڑیں پڑیں گی۔ کسی نے کیاسچ کہا:
یقیں سے اس طرف ہے اورگمانوں سے پرے ہے کوئی بیٹھا ہو ا ان آسمانوں سے پرے ہے
کوئی اسم حسیں ہر پل مرے ورد زباں ہے مری تسبیح کے بے فیض دانوں سے پرے ہے
بروزسوموار۲۷ربیع الاوّل۱۴۳۳ھ۲۰فروری۲۰۱۲ء
لندن

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *