شاکر قریشی
سوچنا منع ہے
****************************
‘‘وہ’‘….. ہتھکڑی لگی ہونے کے باوجود بھی ….. غیر ملکی سرزمین پہ …. قانون کی گرفت میں …. اور ان لوگوں کے حصار میں بھی جو کہ اس سے نفرت کرتے ہیں ….. جو کسی وقت بھی بپھر کر اپنی نفرت کا اظہار ‘اس’ کی نس نس کو نوچ کر کر سکتے ہیں ….. مطمئن دکھائی دیا !!” تم مجھ پر اتنا دباو ڈالو جتنا تم خود سہہ سکتے ھو”، یقینن جب تفتیشی افسر نے ”ملزم” کی یہ تڑی سنی ھو گی تو کلیجہ تھام لیا ھو گا !! ہماری قوم کی ہمیت کو چیلنج کرنے کی انتہا دیکھیے کہ بظاہر ایک بغیر ویزا کے غیر ملکی سر بازار ہمارے نوجوانوں کو غیر لائسنس یافتہ ہتھیار سے قتل کر کے گولیوں سے روندھی ہوئی لاشوں کی تصویریں بنانے ”والا” خود کو خود ساختہ استثنیٰ یافتہ قرار دے رہا ہے. کیسا استثنیٰ ؟ کون دیتا ہے ایسا اختیار کسی غیر کو اپنے گھر کے لوگوں کے سرعام قتل کا ؟ خدایا یہ ہماری خودی سے اسقدر بد سلوکی آخر کیوں؟ بد سلوکی بھی ”اس” کے ہاتھوں جس کی کوئی ‘شناخت’ بھی نہےں ؟؟ ”وہ” ….. صدر زرداری کو یکے بعد دیگرے تابڑ توڑ ملنے کیوں کر آ رہے ہیں ؟ ڈاکٹر عافیہ کے واسطے تو صدر بش یا صدر اوباما نے کسی کو پاس بھی نہی پھٹکنے دیا !! آخر کیوں صدر زرداری مبینہ طور پر ”جانے دو … چھوڑ دو” کی پالیسی اپنانے کو پہلو بدل رہے ہیں ؟؟ وفاقی، صوبائی یا عدالتی تگ ودو کی بجائے اک متفقہ قومی و قانونی فیصلہ کے رجحان کا فقدان کیوں ؟
غالبا” انیس سو اسی کی دہائی کے ابتدائی سال تھے ”اس” کو مندرجہ بالا جرائم و حالات کی وجہ سے عدالت نے لگ بھگ پچاس سال کی قید کی سزا سنائی. فیصلہ کے بعد اپنی بی-گریڈ جیل میں پہنچا تو ”وہ” نہایت مطمئن تھا ، کوئی خوف کوئی ڈر کوئی ماتھے پہ شکن نا تھی. ایک ساتھی ”صحافی” قیدی نے اس قدر اطمینان کا راز پوچھا تو ”وہ” مسکرا کر با آواز بولا ” میرا کل رات کا کھانا امریکی صدر کے ساتھ طے پا چکا ہے ….. میں آج چلا جاوں گا”. بقول اس صحافی قیدی ساتھی کے اس دن شام کی چائے کے بعد مبینہ طور پہ اہلکار اس کو جیل سے لے گئے اور ”خصوصی” انتظامات سے امریکہ روانہ کر دیا گیا ……. امریکی صدر کے ساتھ ڈنر کے لئے !!! ”وہ” رکوڈک کے علاوہ پاکستان کے باقی تمام زیر زمین ذخائر کے حصول کے لئے صدیوں کی جستجو کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں …… ”وہ” اک نہی ، چند نہی ، سینکڑوں نہی ہزاروں ہیں …… کہاں کہاں ہیں …. پتا ہونے کے باوجود کوئی بتانے کی ہمت تو کجا ان کے ہونے کو ماننے کے لئے تیار نہی … ”وہ” ہماری اندرونی طاقت کو قطرہ قطرہ چوس کر … ہمارے حکمرانوں کو مدد کی لالچ ، غبن و کرپشن کے نشہ کی لت میں مبتلا کر کے عوام کو غربت و مہنگائی کے عفریت کے سامنے پھینک چکے ہیں ….. حکومت کوغریب تر اور عوام کو مجبور ترکرنے کی سازش انتہا کو آ چکی ہے !!! اس میں کوئی شک نہی ہمیں اس حالت تک لے آنے میں ہمارے اپنوں کا اور ہمارا خود کا ملک و قوم کے لئے خودغرضانہ رویہ اک اہم وجہ ہے. قارئین آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ ”وہ” کون ہے …. اللہ کا شکر ہے کہ آپ سوچ رہے ہیں …. حالانکہ ہمارا رویہ ”سوچنا منع ہے” …… سوچتے رہیے گا، زندہ قوم ہونے کی یہ پہلی نشاندھی ہے.حکمرانو …. آپ بھی سوچیے گا ………..قائرہ میں ‘ملین مارچ’ شروع ھو چکا ہے …. مصری لوگ ہم سے زیادہ مہذب ہیں تہذیب کا دامن نہی چھوڑیں گے لیکن انقلاب کی یہ سونامی پاکستان تک پہنچ گئی تو …. قیامت صغرا ھو گی …… خاکم بدھن