معاشرے میں اس وقت جو کرپشن موجود ہے ظاہر ہے کرکٹرز بھی اسی سے متاثر ہو رہے ہیں وہ اپنے اردگرد دولت کی ریل پیل اور ناجائز ذرائع آمدنی دیکھتے ہیں ،تو لالچ میں یہ بھول جاتے ہیں کہ اس کا انجام کتنا برا ہوتا ہے وہ اپنے مختصر سے کیرئیر میں بہت تیزی سے پیسہ بنانے کی سوچ میں راہ سے بھٹک جاتے ہیں۔پاکستانی کرکٹ ٹیم اور پی سی بی جو گزشتہ چند سالوں سے بھرپور اورشدید تنازعات کا شکار ہے،کل (جمعرات)کو عدالتی فیصلے کے بعد شدید دباؤ کا شکار ہوگئی ہے۔پاکستانی کھلاڑیوں کے خلاف سپاٹ فکسنگ کا مقدمہ سننے والی برطانوی عدالت نے فیصلہ جاری کرتے ہوئے دو سابق کھلاڑیوں سلمان بٹ اور محمد آصف کو دھوکہ دہی اور بدعنوانی کے مقدمے میں مجرم قرار دے دیا ہے۔گزشتہ برس پاکستان کرکٹ ٹیم کے دورہ انگلینڈ کے دوران ”لارڈز“ میں کھیلے گئے چوتھے ٹیسٹ میچ میں سپاٹ فکسنگ کی تھی۔اگست2010عسے جاری سپاٹ فکسنگ اور میچ فکسنگ کے مقدّمے میںلندن کی ”ساﺅتھ ورک کراﺅن“ عدالت نے سابق کپتان سلمان بٹ، فاسٹ باؤلر محمد آصف اورمحمد عامر کو مجرم ٹھہراتے ہوئے تمام معافی کی اپیلیں مسترد کردیںاورسزائیں سنائیں۔پاکستانی کرکٹرز کے خلاف سپاٹ فکسنگ کے مقدمے کی سماعت کرنے والی لندن کی عدالت نے کل (جمعرات) کوکرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سلمان بٹ کو دو سال چھ ماہ، فاسٹ باؤلر محمد آصف کو ایک سال، فاسٹ باؤلرمحمد عامر کو چھ ماہ جب کہ ان کے ایجنٹ مظہر مجید کو دو سال آٹھ مہینے کی قید کی سزا سنائی گئی۔
لندن کی ساؤتھ وارک کراؤن کورٹ کی جیوری کے 12 اراکین نے شواہد پر تقریباً 17گھنٹے کے غور و خوض کے بعد سلمان بٹ کو پہلے الزام یعنی دھوکہ دہی پر بالاتفاق رائے قصور وار ٹھہرایاجب کہ دوسرے الزام یعنی بدعنوانی کے ذریعے رقوم حاصل اور وصول کرنے کے الزام پر انہیں کثرت رائے (2 کے مقابلے میں 10) کے تحت مجرم قرار دیا گیا۔ محمد آصف پر رقوم حاصل کرنے کے الزام پر جیوری کے اراکین پہلے متفق نہیں ہو سکے تھے اور اس لیے عدالت نے انہیں مزید غور کے لیے وقت دیا گیا جس کے بعد وہ اس حتمی فیصلے تک پہنچے کہ محمد آصف نے بھی بدعنوانی کے ذریعے رقم حاصل کی البتہ سابق تیز گیند باز کو پہلے صرف دھوکہ دہی کا قصور وار ٹھہرایاگیا تھا۔محمد آصف اور محمد عامرپر گزشتہ سال اگست میں لارڈز ٹیسٹ کے دوران جان بوجھ کر نو بالز پھینکنے،سابق کپتان سلمان بٹ پر جان بوجھ کر آؤٹ ہونے جب کہ اس کے بدلے میں مبینہ سٹے باز مظہر مجید سے بھاری رقوم وصول کرنے کے الزامات کے تحت مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔
گزشتہ سال ماہ اگست میں کھیلے گئے ٹیسٹ میچ کے دوران انگلستان کا ایک اخبار ”نیوز آف دی ورلڈ“سامنے لے کر آیا تھا، جس نے ایک صحافی مظہر محمود کے ذریعے ایک خفیہ آپریشن کرتے ہوئے سٹے باز مظہر مجید کے ذریعے پاکستانی کھلاڑیوں سے معاملات طے کیے اور بعد ازاں اس کی تصاویر اخبار میں شایع کر دیں اور انٹرنیٹ پر وڈیوز بھی جاری کر دیں۔استغاثہ کے بقول تینوں پاکستانی کرکٹرز نے مقررہ اوورز میں ”نو بالز“ کرانے کے عوض مظہر مجید کے ذریعے ہزاروں پاﺅنڈز رشوت وصول کی تھی، جس کا ادا کرنے والا برطانوی اخبارنیوز آف دی ورلڈ کا ایک رپورٹر مظہر محمود تھا۔مذکورہ اخبار کے رپورٹر نے ایک متمول بھارتی تاجر کے بھیس میں کھلاڑیوں کے ایجنٹ سے ملاقات کی تھی اور بعد ازاں کھلاڑیوں کے ایجنٹ سے ہونے والی گفتگو اور رقم کے تبادلے کے تمام دستاویزی ثبوت اور تفصیلات اپنے اخبار میں شایع کردی تھیں۔مُلک کے معروف نجّی چینل کے مطابق پاکستان کرکٹ بورڈ کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے برطانوی اخبار نیوز آف دی ورلڈ کا ایک رپورٹر مظہر محمود کو میچ فکسنگ کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔
لندن کی ساﺅتھ ورک کراﺅن عدالت میں بدھ کو ہونے والی سماعت کے دوران محمد عامر اور مظہر مجید کے وکلاءنے اپنے موکلین کی اعترافی بیانات سے جج جرمی کک کو آگاہ کرتے ہوئے رحم کی اپیل کی اور دونوں ملزمان کو کم سے کم سزا سنانے کی درخواست کی۔مظہر مجید کے وکیل نے کمرہ عدالت میں اپنے موکل کا اعترافی بیان پڑھ کر سنایا جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سلمان بٹ کے ساتھ ایک چوتھا پاکستانی کھلاڑی بھی سپاٹ فکسنگ میں ملوث تھالیکن عدالت میں اس کھلاڑی کا نام ظاہر نہیں کیا گیا۔اپنے اعترافی بیان میں مظہر مجید نے دعویٰ کیا کہ سلمان بٹ نے میچ فکسنگ کے لیے ان سے2009ء میں از خود رابطہ کیا تھا جب کہ فکسنگ کے منصوبہ بندی کے لیے دونوں نے 2010ءمیں کھانے پر ایک ملاقات کی تھی جس میں مذکورہ پاکستانی کھلاڑی بھی شریک تھا۔
عامر نے 16 ستمبر کو اپنے وکیل کے ذریعے قبل از سماعت اقبالی بیان ساؤتھ وارک کراؤن کورٹ میں پیش کیا تھا۔ عامر کے وکیل بین ایمرسن نے کہا تھا کہ میرے موؤکل عامر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ وہ جان بوجھ کو دو نو بالز پھینکنے کے اپنے اقدامات کی مکمل ذمہ داری لینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 18 سالہ یہ نوجوان زبردست دباؤ کا شکار تھا۔ وہ پاکستان کرکٹ کو پہنچنے والے نقصانات کو سمجھتے ہیں اور خواہشمند ہیں کہ وہ اس کو بہتر بنانے کے لیے اپنی بساط کے مطابق کچھ کریں گے۔کھلاڑیوں کے خلاف یہ فیصلہ 4 اکتوبر کو مقدمے کی سماعت کے آغاز کے بعد تقریباً 4 ہفتوں میں سامنے آیا ہے۔ جب فیصلے کا اعلان کیا گیا تو سلمان بٹ اور محمد آصف جذبات سے عاری اور سپاٹ چہروں کے ساتھ فیصلہ سنتے رہے۔ انہوں نے اس موقع پر نہ کوئی منہ سے لفظ ادا کیا اور نہ ہی کسی اور طرح جذبات کا اظہار کیا۔
بائیس روزہ سماعت کے دوران کب کیا ہوا؟
کاروائی کا پہلا دِن(4اکتوبر2011ءمنگل): 12رکنی جیوری نے حَلف اٹھایا،وکیل استغاثہ آفتاب جعفرجی اور سلمان بٹ کے وکیل علی باجوہ اورمحمد آصف کے وکیل میلین کے درمیان قانونی امور پر تبادلہ خیالات ہوئے۔
کاروائی کا دوسرا دِن(5اکتوبر2011ء بدھ): وکیل استغاثہ آفتاب جعفرجی نے جیوری کے سامنے مقدّمہ پیش کرنا شروع کیا اور فون ریکارڈنگز،SMSپیغامات بطور شواہد پیش کیے۔
کاروائی کا تیسرا دِن(6اکتوبر2011ءجمعرات): جیوری نے لارڈز ٹیسٹ میں ہونے والی نو بالز کی ویڈیوزدیکھیں۔وکیل استغاثہ آفتاب جعفرجی نے سابق کپتان سلمان بٹ کے کمرے کی تلاشی کے دوران برآمد رقم کی تفصیلات پیش کیں۔
کاروائی کا چوتھادِن(10اکتوبر2011ءپیر): عدالت نے رپورٹر مظہر محمود اورایجنٹ مظہر مجید کے درمیان ہونے والی گفتگو کی ریکارڈنگزسنیں،جس میں دونوں کے درمیان مذکورہ لارڈز ٹیسٹ میں نو بالز کے عوض رقم کا لین دین طے ہوا۔
کاروائی کا پانچواں دِن(11اکتوبر2011ءمنگل): مظہرمجیدنے بیان دیاکہ شاہد آفریدی اُن کی سکیم کا حصّہ نہیں بنے،اس لیے انھیں راستے سے ہٹانے کا پلان بنایا گیا تاکہ سلمان بٹ کو کپتان بنانے کے لیے راہ ہموار کی جائے۔
کاروائی کا چھٹا دِن(12اکتوبر2011ء بدھ): وکیل استغاثہ آفتاب جعفرجی اور محمد آصف کے وکیل میلین نے صحافی مظہر محمود سے جِرح کی اور اُن پر فون ہیکنگ کا الزام لگایا،جس سے مظہر محمود نے انکار کردیا۔
کاروائی کا ساتواںدِن(14اکتوبر2011ءجمعہ): پولیس نے سلمان بٹ کے انٹرویوز کی ریکارڈنگ پیش کی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ انھوں نے کبھی بھی عامر یا آصف کو نوبالز کا نہیں کہا، اسی روز مظہر مجید کے اثاثہ جات پر بحث ہوئی۔
کاروائی کا نواں دِن(17اکتوبر2011ءپیر): سلمان بٹ نے عدالت کو بتایامظہر مجید کی جانب سے میچ فکسنگ کی آفر پر اُنھیں جھڑکا جب کہ سلمان بٹ کے وکیل علی باجوہ نے جیوری کو بتایا کہ مجرمانہ سازش میں مظہر مجید اور محمد عامر تو ملوث ہو سکتے ہیں لیکن سلمان نہیں۔
کاروائی کا دسواں دِن(18اکتوبر2011ءمنگل): وکیل استغاثہ آفتاب جعفرجی نے سلمان بٹ پر دو بار جھوٹ بولنے کا الزام لگایاجب کہ نوبالز کی ویڈیو ز پر محمد آصف کے وکیل نے سلمان بٹ پر الزام لگایا کہ نو بالز کرنے کے لیے محمدآصف پر غیر ضروری دباؤ ڈالا گیا تھا۔
کاروائی کا گیارہواں دِن(19اکتوبر2011ع بدھ): وکیل استغاثہ آفتاب جعفرجی نے سلمان بٹ سے جرح مکمل کی اور عدالت کو بتایا کہ میچ سے ایک رات قبل سلمان بٹ نے مظہر مجید سے رقم وصول کی اور اِن کے درمیان20کالز اورsmsکا تبادلہ ہوا۔
کاروائی کا بارہواں دِن(20اکتوبر2011ءجمعرات): محمد آصف نے گواہوں کے کٹہرے میں آکر سلمان بٹ پر الزام لگایاکہ اِن کی ڈانٹ ڈپٹ سے نو بالز ہوئیں۔
کاروائی کا تیرہواں دِن(21اکتوبر2011ءجمعہ): محمدآصف نے خیال ظاہر کیا کہ سلمان بٹ نو بال فکسنگ میں ملوث ہو سکتے ہیں ،یہ فیصلہ کپتان کرتا ہے کہ کس موقع پرکس باؤلر کو لانا اور کیا کروانا ہے۔
کاروائی کا چودہواں دِن(24اکتوبر2011ءپیر): مقدّمے کی اختتامی جِرح ہوئیں جس میںوکیل استغاثہ آفتاب جعفرجی نے سلمان بٹ اور محمد آصف کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے جیوری کے سامنے13پوائنٹس رکھے۔
کاروائی کا پندرہواں دِن(25اکتوبر2011ءمنگل): محمد آصف کے وکیل میلین نے کہا کہ وہ رقم جو محمد آصف کے کمرے سے برآمد ہوئی،وہ کہاں گئی کیوں کہ برآمدہ رقم نشان زدہ نہیں تھی۔دوپہر کے سیشن میں جسٹس کک نے مقدّمے پراختتامی رائے دینا شروع کی۔
کاروائی کا سولہواں دِن(26اکتوبر2011ء بدھ): جج نے جیوری پر واضح کیا کہ محمدآصف نے نو بالز کروانے کاجو عُذرعدالت میں پیش کیا وہ اُس نے پولیس کو ابتدائی انٹرویو میں نہیں بتایا تھا۔
کاروائی کا سترہواں دِن(27اکتوبر2011ءجمعرات): جج نے جیوری کو فیصلہ کرنے پر غور کرنے کے لیے کہا اور کاروائی شام ڈھلے ختم کردی کیوں کہ جیوری کسی جلد بازی میں فیصلہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔
کاروائی کا اٹھارہواں دِن(28اکتوبر2011ءجمعہ): جیوری نے پورا دِن غور کیا اورمبینہ بکی مظہر مجید اوررپورٹر مظہر محمود کی ریکارڈنگز دوبارہ سنیں۔
کاروائی کا انیسواں دِن(31اکتوبر2011ءپیر): جیوری نے جسٹس کک کو بتایا کہ جیوری کسی متّفقہ فیصلے پر نہیں پہنچ پارہی،جس پر جسٹس کک نے کہا کہ12میں سے10اراکین کا متّفق ہونا بھی مناسب رہے گا۔
کاروائی کا بیسواں دِن(یکم نومبر2011ءمنگل): جیوری نے محمدآصف اور سلمان بٹ پر مقدّمے کے دونوں الزامات دھوکا دہی اور کرپشن کو درست قرار دیااور سلمان بٹ پررقم لینے کا الزام بھی درست قرار دیااور دونوں کو قصوروار ٹھہرایا۔
پاکستان کے سابق کپتان سلمان بٹ نے عدالت میں تسلیم کیا کہ ان کے ایجنٹ مظہر مجید نے انہیں میچ فکسنگ کے لیے کہا تھا لیکن انہوں نے اس درخواست کو نظرانداز کر دیا تھا۔سلمان بٹ نے لندن کی عدالت میں سپاٹ فکسنگ کے مقدمے میں اپنا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ایجنٹ مظہر مجید نے انہیں گزشتہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دوران کہا تھا کہ وہ دانستہ طور پر اپنی وکٹ گنوایں اور انگلینڈ کے خلاف سیریز کے ایک میچ میں ایک اوور میں کوئی رنز سکور نہ کریں۔
سلمان بٹ نے کہا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں ایسا کوئی کام نہیں کیا اور انہوں نے کبھی میچ کو’ مخصوص انداز‘ میں نہیں کھیلا۔ ’میں نے ہمیشہ اپنی صلاحیت کے مطابق بہترین کھیلنے کی کوشش کی۔اپنے دفاع میں گواہی دیتے ہوئے سلمان بٹ نے کہا کہ ان کے ایجنٹ نے گزشتہ برس اوول کے میدان میں کھیلے جانے والے میچ کے آخری روز انہیں فون کیا تھا۔سلمان بٹ سے جب پوچھا گیا کہ ان کا ایجنٹ مظہر مجید نے کیوں ایسا کہا ہے کہ سلمان بٹ میچ فکسنگ میں مدد کرے گا تو انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ (مظہر مجید) کسی کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے ایسا کہہ رہا تھا۔سلمان بٹ نے کہا مظہر مجید جھوٹ بول رہا تھا۔سلمان بٹ نے عدالت میں تسلیم کیا کہ ان کے ایجنٹ نے انہیں کہا تھا:’آپ کو پتہ ہے نا کہ ہم پہلا اوور میڈن کھیل رہے ہیں۔ اور تیسرا اوور جو تم کھیلو گے اسے بھی میڈن کھیلنا ہے۔سلمان بٹ نے کہا کہ اس پر انہوں نے ایجنٹ کو کہا تھا’ بھائی بس چھوڑ دو، ٹھیک ہے‘۔اپنے جواب کو تشریح کرتے ہوئے سلمان بٹ نے کہا کہ اس کا مطلب یہ تھا کہ میں نے آپ کی باتیں سن لی ہے اور میں اس گفتگو کو وہیں ختم کرنا چاہتا ہوں۔استغاثہ کے الزام کے مطابق ایجنٹ مظہر مجید نے اگلے روز پھر سلمان بٹ کو یادہانی کرائی کہ گزشتہ رات طے ہونے والی بات پر عمل کرنا ہے۔ جس کے جواب میں سلمان بٹ نے کہا تھا کہ ’ٹھیک ہے‘۔
سلمان بٹ نے اپنے جواب ’ٹھیک ہے‘ کی تشریح کرتے ہوئے کہ وہ کسی کو ناراض کیے بغیر اس بات کو وہیں ختم کرنا چاہتے تھا۔مجھے اس بات سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ وہ کیا کہہ رہا تھا۔عدالت میں گزشتہ ٹوئنٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دوران ایجنٹ مظہر مجید اور سلمان بٹ کے مابین ہونے والی گفتگو کا بھی ذکر ہوا۔ پاکستان کو جب سیمی فائنل میں پہنچنے کے لیے جنوبی افریقہ کو ہرانا تھا، اس میچ سے پہلے مظہر مجید نے سلمان بٹ کو ٹیکسٹ میسج کیا تھا جس میں کہا تھا:’دوسری بات کے بارے میں کیا خیال ہے۔ ساتویں اوور میں ایک اور آٹھویں میں بھی ایک گرنی چاہیے‘۔سلمان بٹ نے کہا کہ انہوں نے مظہر مجید کے ٹیکسٹ میسج کا کوئی جواب نہیں دیا تھا اور نہ ہی انہوں نے آئی سی سی کو اس سے مطلع کیا تھا۔سلمان بٹ نے کہا کہ جب ٹورنامنٹ کے دوران مظہر مجید سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اس سے دریافت کیا تھا کہ اس نے ایسا ٹیکسٹ میسج کیوں کیا تھا تو مظہر مجید کا جواب تھا کہ وہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ ہم اس کے لیے ایسے کام کرتے ہیں یا نہیں۔ سلمان بٹ نے کہا کہ انہوں نے اپنے ایجنٹ کی بات پر یقین کر لیا تھا۔
کاروائی کا اکیسواں دِن(2نومبر2011ع بدھ): مقدّمے کی سماعت کے دوران پہلی بار محمد عامر اور مظہر مجید عدالت حاضر ہوئے۔ نہایت غورو خوض کرنے کے بعدجیوری کے12میں سے10اراکین میںایک متّفقہ فیصلے پراتفاق ہوااور فیصلہ جمعرات تک محفوظ کرلیا گیا۔
بدھ کو اپنے اعترافی بیان میں محمد عامر نے کمرہ عدالت میں جذباتی تقریر کرتے ہوئے میچ فکسنگ میں اپنے کردار پر تمام پاکستانیوں اور کرکٹ کے مداحوں سے معافی طلب کی۔ عامر کا کہنا تھا کہ وہ اپنی بے وقوفی کے باعث خوف زدہ ہوکر اس معاملے میں ملوث ہوئے۔انہوں نے تاخیر سے اعترافِ جرم پر بھی معافی مانگتے ہوئے کہا کہ کاش وہ یہ پہلے کرلیتے۔مظہر مجید اور محمد عامر بدھ کو پہلی بار عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ اس موقع پر محمد عامر کی جانب سے کئی صفحات پر مشتمل ایک بیان عدالت میں جمع کرایا گیا تھا جس کے مطالعے کے لیے جج نے کاروائی ڈیڑھ گھنٹے کے لیے ملتوی کردی۔وقفہ کے بعد کاروائی کا آغاز ہوا تو مظہر مجید کے وکیل نے عدالت سے رحم کی اپیل کرتے ہوئے اپنے موکل کو کم سزا سنانے کی درخواست کی۔ وکیل کا کہنا تھا کہ مظہر نے کرکٹ کے کھیل کو دھوکا دیا ہے اور اسے اپنے کیے پر شرمندگی ہے۔بدھ کو مظہر مجید کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل نے اخبار کے رپورٹر سے میچ فکسنگ کے لیے ڈیڑھ لاکھ پاﺅنڈز وصول کیے تھے جن میں سے انہوں نے 65 ہزار محمد آصف، 10 ہزار سلمان بٹ اور ڈھائی ہزار محمدعامر کو دیے۔مظہر مجید کے بقول آصف کو اتنی زیادہ رقم دینے کا مقصد اسے میچ فکسرز کے ایک دوسرے گروہ سے رابطے سے روکنا اور اس کی وفاداری یقینی بنانا تھا۔
کاروائی کا بائیسواںدِن(3نومبر2011ءجمعرات): لندن کی عدالت نے سپاٹ فکسنگ میں ملوث پاکستان کے تین کھلاڑیوں اور ان کے ایجنٹ مظہر مجید کو قید کی سزائیں سنائیں۔کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سلمان بٹ کو دو سال چھ ماہ، فاسٹ باؤلر محمد آصف کو ایک سال، فاسٹ باؤلر محمد عامر کو چھ ماہ جب کہ ان کے ایجنٹ مظہر مجید کو دو سال آٹھ مہینے کی قید کی سزا سنائی گئی۔لندن کی ساؤتھ ورک کراؤن عدالت میں جمعرات کو فیصلہ سناتے ہوئے جج جرمی کک نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کھلاڑیوں کی اس حرکت سے کرکٹ کے کھیل کی ساکھ کو نقصان پہنچا اور انھوں نے شائقین کرکٹ کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ ان کا کہنا تھا کھلاڑیوں نے تنخواہوں اور مراعات کے باوجود لالچ میں آکر یہ کام کیا اور اس کے بعد ہر میچ کو شک کی نظر سے دیکھا جائے گا۔ایجنٹ مظہر مجید کے بارے میں جج نے کہا کہ وہ صحافی کو اپنے انٹرویو میں بتا چکے ہیں کہ وہ اڑھائی سال سے یہ کام کررہے ہیں۔ عدالت نے مظہر مجید کو اس مقدمے میں سب سے بڑا ملزم قرار دیا ہے۔جسٹس کک نے سابق کپتان سلمان بٹ سے متعلق ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس سارے معاملے کے منصوبہ ساز ہیں اور انھوں نے عامر کو کرپشن پر مجبور کیا۔ جج نے بٹ کی طرف سے سزا میں نرمی کے لیے کی جانے والی درخواست بھی مسترد کردی۔
نوجوان فاسٹ باؤلر محمد عامر کے بارے میں جج نے کہا کہ ان کی طرف سے اعتراف جرم ایک حوصلہ افزا بات ہے اور عدالت کو یہ بھی احساس ہے کہ عامر ان پڑھ اور گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں۔فیصلے کے بعد سلمان، آصف اور مظہر مجید کو پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا جب کہ عدالتی حکم کے مطابق محمد عامر اپنی سزا” یوتھ افینڈرانسٹی ٹیوٹ‘ ‘میں پوری کریں گے۔قید کی سزاؤں کے علاوہ سلمان بٹ کو30,937 پاؤنڈز، محمد آصف کو 8,120 پاوؤنڈز اور محمد عامر کو9,389 پاوؤنڈز جرمانے اور مقدمے کی سماعت کے اخراجات کی ادائیگی کی سزا بھی سنائی گئی۔اسپاٹ فکسنگ کیس میں یہ تینوں پاکستانی کھلاڑی پہلے ہی کرکٹ کی عالمی تنظیم آئی سی سی کی طرف سے پابندی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اِن سزاؤں سے قبل رواں سال فروری میں آئی سی سی نے سلمان بٹ پر دس، محمد آصف پر سات اور محمد عامر پر پانچ سال تک کسی کرکٹ کے کھیل میں شرکت پر پابندی عائد کی تھی۔
سلمان بٹ اور محمد آصف مقدمے کی کاروائی میں شرکت کے لیے رواں ماہ کے آغاز میں خصوصی طور پر لندن پہنچے تھے جہاں انہوں نے عدالت کے روبرو اپنا دفاع کیا تھا۔ عدالتی کاروائی کے دوران دونوں کھلاڑی صحتِ جرم سے انکار کرتے ہوئے اپنی بے گناہی پر اصرار کرتے رہے۔بدھ کو ہونے والی عدالتی کاروائی کے دوران چاروں ملزمان کو کٹہرے میں بٹھایا گیا تھا۔ عدالتی کاروائی کے دوران سابق کپتان سلمان بٹ ایک موقع پر آب دیدہ بھی ہوگئے۔سماعت کے موقع پر کمرہ عدالت صحافیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا جب کہ عدالت کے باہر لندن میں مقیم پاکستانی شہریوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔
مقدمے کے فیصلے کے بعد حکومت برطانیہ کی کراؤن پراسیکیوشن سروس کے میٹ ہارن نے عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کھلاڑیوں نے کرکٹ کی عزت پر داغ لگایا اور ان تمام لوگوں کا سر شرم سے جھکا دیا ہے جو ان کے مقابلے دیکھنے میدانوں کا رخ کرتے تھے اور ان بچوں کا بھی جو انہیں اپنا ہیرو سمجھتے تھے۔ انہوں نے اس موقع پر تفتیشی صحافت کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنی نظریں اس امر پر مرکوز رکھنی چاہئیں کہ کھیل اپنی اصل روح کے مطابق کھیلا جائے۔
فیصلے پر ردِّعمل
سابق چیئرمین شہریار خان کے لیے سلمان بٹ کا سپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونا بہت تکلیف دہ تھا جس کا اظہار وہ بوجھل دل کے ساتھ کرتے ہیں،جب سپاٹ فکسنگ سکینڈل میں ان تینوں کرکٹرز کے نام سامنے آئے تو مجھے سب سے زیادہ حیرانی اور افسوس سلمان بٹ کا ہوا تھا کیونکہ وہ ایک اچھی فیملی سے تعلق رکھتا ہے خود پڑھا لکھا نوجوان ہے اور اپنی پراعتمادی سے وہ پاکستان کے لیے طویل عرصے کھیل سکتا تھا۔پہلے تو میں یقین کرنے کے لیے بالکل تیار نہ تھا لیکن آئی سی سی کے ٹریبونل کے سامنے جو شواہد پیش کیے گئے مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی ماننا پڑا کہ یہ تینوں کرکٹرز سپاٹ فکسنگ میں ملوث تھے۔پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین کے مطابق سلمان بٹ کو انہوں نے ہمیشہ باادب اور تمیز دار پایا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اسی متنازعہ لارڈز ٹیسٹ کے موقع پر میں بھی لندن میں تھا۔ ایک دن میری سلمان بٹ اور چ
ند دوسرے کرکٹرز سے ملاقات ہوئی تو میں نے اچھی کپتانی پر سلمان بٹ کو مبارکباد بھی دی اور کہا کہ اسی طرح کھیلتے رہیے کیونکہ پاکستان کی عزت اب آپ کے ہاتھ میں ہے مجھے نہیں پتہ تھا کہ وہ جال میں اس بری طرح پھنس جائیں گے جو انہیں لے ڈوبے گا۔
پاکستان کے سابق کپتان عمران خان نے کہا ہے کہ تین کھلاڑیوں کو سپاٹ فکسنگ میں ملوث پائے جانے کی خبر سن کر انہیں دلی صدمہ ہوا ہے۔عمران خان نے کہا کہ انہیں سزا پانے والے کھلاڑیوں کےخاندان والوں سے ہمدردی ہے۔’مجھے کھلاڑیوں پر افسوس ہوتا ہے کیونکہ وہ پاکستان سے ہیں جہاں ملک کے صدر کے خلاف کرپشن کے بڑے بڑے مقدمات ہیں اور انہوں (کھلاڑیوں) نے بھی سوچا ہوگا کہ جرم کرنا فائدہ ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ برطانوی عدالت کا فیصلے سے پاکستانی کرکٹ کی آنکھیں کھل جانی چاہیں اور اب انہیں بہت احتیاط کرنی چاہیے۔عمران خان نے سابقہ کرکٹ بورڈ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملے کو ختم کرنے کی بجائے دبانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔عمران خان نے کہا کہ مجھے نوجوان فاسٹ بولر محمد عامر کا دکھ ہے۔وہ شاید اپنے اردگرد کے ماحول سے متاثر ہوگیا تھا۔
پاکستان کے ایک اور سابق کپتان رمیز راجہ نے کہا کہ انہیں سزا پانے والے کھلاڑیوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔
”میرا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ جب باقی ٹیم میچ جیتنے کی کوشش کر رہی ہو ہے تو ان میں سے کچھ کھلاڑی اپنی ضمیر کا سودا کرنے کی کوشش کر رہے ہوں تو ایسے کھلاڑیوں کو برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔“
رمیز راجہ نے کہا کہ ان کھلاڑیوں نے پاکستانی کرکٹ اور پاکستان کے شیدائیوں کے اعتماد کو مجروح کیا ہے۔رمیز راجہ کے خیال میں اس فیصلے سے پاکستان کی کرکٹ کو فائدہ ہوگا۔ رمیز راجہ نے کہا کہ انہیں ان کھلاڑیوں کے خاندانوں سے ہمدردی ہے لیکن ایسے عناصر سے چھٹکارا ضروری ہے۔رمیز راجہ نے کہا پاکستان کی کرکٹ کو ایسے کھلاڑیوں کی ضرورت ہے جو اپنے ملک کی باوقار انداز میں نمائندگی کر سکیں۔
سابق کپتان اور کوچ وقار یونس نے کہ یہ کرکٹ کا بدنما پہلو ہے۔ وقار یونس اس وقت کرکٹ ٹیم کے کوچ تھے جب یہ واقعہ پیش آیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ یہ کھلاڑی اس فعل میں مبتلا ہوں گے۔اگر مجھے ذر بھی اندازہ ہوتا تو ہم ایسا نہ ہونے دیتے۔‘وقار یونس نے کہا کہ انہیں برطانیہ کے فوجداری نظام کا پتہ نہیں ہے لیکن کرکٹ کے کھلاڑیوں کوجیل بھیجنا کرکٹ اور پاکستان کے لیے افسوس ناک ہے۔
قارئین پاکستانی کرکٹ پر یہ ایک بَد نما داغ لگ چکا ہے جس کا ازالہ اَب پاکستان کے کھلاڑیوں اور پی سی بی کے حکاّم مثبت اور دیرپا پالیسیوںکے ساتھ ساتھ قانون سازی کی بدولت کرسکتے ہیں۔ممکن ہے کہ مستقبل قریب میںپاکستان کرکٹ ٹیم اور نوجوان کھلاڑی اِس مثال کو یاد رکھتے ہوئے احتیاط برتیں۔
….٭٭٭….
E-mail: peghaamnews@gmail.com
—