جمہوریت کے پانچ برس مکمل ہو گئے ۔ عوام کے منہ پر پانچ انگلیاں پوری چھاپ دینے میں کامیابی حاصل کر لی گئی۔ پانچوں انگلیوں کا مجموعہ طمانچہ رسید کرنے میں کامیابی پر میری طرف سے تما م اکابر سیاستدان کارپوریشن کو مبارکباد ہو۔ بینظیر انتقام کے پانچ سال مکمل ہونے پر زرداری اور ان کے رفقاء کو خراج تحسین ہے۔ عوام کو سبز باغوں کی سیر کرانے میں کامیابی پر داد قبول فرمائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کا کوئی قصور نہیں اور آپ بے قصور ہیں۔ آپ بے رحم نہیں بلکہ انتہائی مشفق القلوب شخصیات ہیں۔ یہ اس قوم کا اپنا کیا دھرا ہے ۔ انہوں نے اپنے پائوں پر خود کلہاڑی ماری تو اس میں کسی سے کیا گلہ کیا جا سکتا ہے۔ انہیں خود پر رحم نہیں آتا تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔رسوائیوں کے متمنی کو عزت راس آ ہی نہیں سکتی۔ یہ قوم سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ مانتی ہے تو پھر صدا حق ان کے گوش گذار کیسے کی جا ئے ۔سرآب پیچھے بھاگنا اچھا لگتا ہے ۔پیاس سے جان بلب ہوتے ہوئے بھی انہیں سامنے کنواں نظر نہیں آتا ۔ انہیں صرف سونے کی نب سے لکھے ہوئے الفاظ پر یقین آتا ہے عام قلم سے لکھے سنہری حروف بھی ان کیلئے بے وقعت اور بے معنی ہیں۔ سوٹ ٹائی پہننے والا صاحب فراست کہلانے کا حقدار ہے۔ جس نے جتنا قیمتی سوٹ پہنا ہو گا وہ اتنا ہی بڑا فلاسفراور اتنا ہی بڑا مدبر ہے۔ صاحب ثروت اور دولت کے انبار پر بیٹھے کی دانش کا یقین ہے لیکن گدڑی کے لال کو لال بجکھڑ ہی قرار دیاجاتا ہے ۔ سفید چمڑی صاحب وصاحب دانش وصاحب تقلید ہونے کیلئے کافی ہے۔جو جتنا اونچا ہو کر ان سے دور ہو کر ان سے بلند ہو کر ان کی بے توقیری کرے وہ ان کیلئے اتنا ہی صاحب عزت ہے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ رتبے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودعیت ہوتے ہیں۔ پھر جمہوریت جمہور سے اور جمہور کیلئے ہے کا کیا معنی ہے۔ ووٹوں کی محتاجی کس لیے الیکشن کا ڈرامہ کس لیے؟عوام کو یہ باور کرانے کیلئے ضروری ہے کہ ہم ان پر مسلط نہیں ہم آمر نہیں ہیں۔ ہم خود ساختہ حکمران نہیں بلکہ خود عوام کی حقیقی منشا اور عوام کی محبتوں کے آمین ہیں۔ عوام نے اپنے ہاتھوں سے سوچ سمجھ کر ہمیں اس منصب کیلئے منتخب کیا ہے۔ ہم عوام کے نمائیندے ہیں اور ان کی آواز ہیں ۔ ہمیں کوئی نہیں پوچھ سکتا ۔ ان کا استحقاق مجروح ہوجاتا ہے جب ان کے احتساب یا جوابدہی کی بات کی جائے ۔ان کو اپنے آپ کے سوا کسی اور کی فکر نہیں ۔ اس کا مظاہرہ نگران سیٹ اپ کے موقع پر دیکھنے میں آ رہا ہے۔ عدلیہ کے ہر وہ فیصلہ جس سے ان کا احتساب یا ان کے رکاوٹ پیدا کرے وہ ان کو منظور نہیں ۔ نگران سیٹ اپ میں خود کو محفوظ بنانے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس میں مستقبل کا بھی سوال ہے اور ماضی کی کوتاہیوں اور غلطیوں کی پردہ پوشی بھی مقصود ہے۔الیکشن کمیشن کی خود مختاری کے نعرے اور دعوی اس وقت سامنے آ چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو خودمختاری دیتے ہوئے ٹھنڈے پسینے آ رہے ہیں۔ خود مختار اور آزاد اور جانبدار الیکشن کمیشن کی موجودگی اور ایک غیر جانبدار سیٹ اپ کا ہونا ان کیلئے سیاسی خودکشی کے مترادف ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے اور اس کیلئے آئینی ترمیم کی ضرورت بھی ہوگی کہ نگران سیٹ اپ کیلئے موجودہ حکمران اور اپوزیشن کیوں نامزدگیاں کریں۔ یہ ذمہ داری الیکشن کمیشن کے سپرد ہونی چاہیے۔ حکمران یا موجودہ سیاسی سیٹ اپ میں شامل لوگ تو اپنے مفاد کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے بندوں کو اگے لائیں گے۔ جن کی مدد سے وہ الیکشن میں کامیابی حاصل کریں گے اور ان کے بندے ان کے مفادات کی نگہداشت بھی کریں گے۔اس طرح تو کسی طور بھی غیر جانبدار الیکشن ہونا ممکن نہیں ہوگا۔ اگر سیاسی لوگ ہی نامزدگی کریں گے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے لیے کوئی دشواری کا سامان پیدا کریں۔ ایسے بندے کو وہ خود ہی نامزد کریں جو احتساب اور غیر جانبداری پر یقین اور ایمان رکھتا ہو۔ نگران گورنمنٹ کی غیر جانبداری کو معتبر بنانے کیلئے ضروری ہے کہ اس میں سیاسی مداخلت کے عنصر کو دور کیا جائے۔ الیکشن میں تاخیری حربے کے طور پر بھی نگران سیٹ اپ کے اعلان میں تاخیر کی جارہی ہے۔ حالات کے تناظر میں سیاسی مفادات کے حصول کیلئے یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ ضروری ہے کہ سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کی پشت پر عسکری قیادت بھی کھڑی ہو تاکہ سیاستدانوں کے پیدا کردہ ان خدشات کا تدارک ہو سکے۔ موجود ہ صورت حال کے دیکھتے ہوئے تجزیاتی طور پر میرا یہی خیال ہے کہ آرمی وقت پر انتخابات کی حمایت کررہی ہے۔ سپریم کورٹ کی موجودگی میں اور بالخصوص چیف جسٹس افتخار چوہدری صاحب کی موجودگی میں کسی بھی غیر آئینی اقدام کا تصور محال ہے۔ ایسے میں انتخابات کے التوا کا خدشہ بے معنی ہے۔البتہ کچھ بھی حتمی کہنے سے پہلے یہ بھی دیکھنا ہے کہ یہ پاکستان ہے ۔یہاں کسی وقت کچھ بھی کیا جا سکتاہے۔ جیسے مشرف صاحب اپنی آمد کی نوید عرصہ سے دے رہے ہیں لیکن میں نے یہی کہا تھا کہ وہ چیف جسٹس صاحب کی موجودگی میں کبھی آنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ جیسے ہی چیف سیٹ چھوڑیں گے پھر شاید ممکن ہے کہ مشرف صاحب کی واپسی کی راہ ہموار ہو جائے۔ اسی طرح الطاف حسین بھی کبھی نہیں آئیں گے ۔ اس وقت کا انتظار کیا جائے گا جب عدلیہ میں ان کے لیے تیار ہتھکڑی کی چابی ان کے ہاتھ میں نہ آ جائے ۔حب الوطنی کا درد اور عوام کی خدمت کے دعوی وطن سے دور رہ کر ہی کیے جائیں گے۔ سیاستدان اپنی زبان اور اپنے کردار میں عدم مطابقت کی وجہ سے منافقت کی انتہا کو چھور ہے ہیں ۔ اس کے باوجود خود کو وقت کے اولیا قرار دلوانے کیلئے میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ چمچے ا
ور ابن الوقت عناصر ان کے لیے رطب اللسان رہتے ہیں ۔ اس طرح ان کی شخصیات کا ایک بھرم اور خاکہ بنایا جاتا ہے جس سے عام آدمی کو متاثر کیا جاتا ہے۔ چند مفاد پرست عناصر کے مفادات کی نگہداشت کیلئے لٹیروں کو ولایت کے درجات عطاکرنے سے ہی ہمارے یہ حالات ہیں۔ اگر منتخب افراد کو الیکشن کمیشن نہیں روک سکتا تو کیا عوام کے ہاتھ بندھے ہیں جو اپنے ووٹ کے ذریعے ان دروغ گو اور دھوکا بازوں کو رد نہیں کرتے ۔عوام خود انہیں اپنا سردار منتخب کرتے ہیں تواس میں کسی اور کا قصور نہیں ہے۔ جب اقتداراور اختیار آ جاتا ہے تو بڑوں بڑوں کا نفس حاوی ہو جاتا ہے ۔یہ تو دنیادار لوگ ہیں ان کا کیا قصور جو یہ نفس کے غلام بن کر انسانیت کی ہر حد کو روند ڈالیں ۔جب عوام خود لیٹی ہوئی ہے تو پھر ان کو کچلنے والوں کو ذمہ دار ٹھہرانا کافی نہیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ اپنے بچائو کے اقدامات کی طرف بھی توجہ دی جائے۔ عوام کو اپنے بچائو کیلئے چاہیے کہ وہ ان سے دور رہیں اور ان کو اپنے قریب نہ آنے دیں۔ عوام ان کو جب محبتوں سے نوازتے ہیں تو پھر محبوب کے نخرے بھی تو اٹھانے چاہیں۔ پس اگر نہ محبوب ہو گا تو نہ نخرہ ہو گا اور نہ اس کا بوجھ ہوگا۔ اگر سیاسی منظر نامہ بدلنا چاہتے ہیں تو پھر اپنے آپ کو اپنی خواہشات اور مفادات کو بدلنا ہوگا۔ ضروری ہے کہ مسلمان بنیں اور پاکستانی بنیں اور اچھے انسان بنیں ۔ دوسرے کا بھلا سوچنے اور کرنے میں ہی اپنا بھلا ہے۔ بہتر ہوگا کہ بھلائی کی طرف اپنا رخ موڑیں نہ کہ ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے کی ہی سوچ رکھی جائے۔ سیاست اب خدمت کا نام نہیں رہا اسے خدمت کی طرف لانے کیلئے خدمت گار منتخب کریں نہ کہ آقا کو خدمت کیلئے منتخب کریں ۔ آقا تو خدمت کرائے گا خدمت کرنے سے تو رہا۔ ان آقائوں کی بجائے اپنے میں سے اچھے لوگوں کو چانس دیں اور انہیں قیادت کی ذمہ داری سونپیں شاید اللہ پاک بہتر فرمائے ۔