Home / Socio-political / سیاسی مولاجٹ

سیاسی مولاجٹ

 

                           

سیاسی مولاجٹ

عباس ملک

  بدنصیبی کہ ہمیں مولا جٹ سٹائل لیڈر ملے ۔ نہ ان میں شائستگی ہے اور نہ ہی دلائل اور نہ ہی ان میں عمل کی کوئی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔عمران خان سونامی الطاف حسین ڈرون حملے طاہر القادری التحریر سکوائر برپا کرنے مشرف زلزلہ برپا کرنے کے چکر میں ہے۔للکار یں ، ڈینگیں اور اداکاری کے جوہر ہیں ۔سب مولا جٹ بننے کی ہی تمنا رکھتے ہیں ۔ مولا جٹ کا گیٹ اپ کوئی نہیں اپناتا۔سیاسی ، سماجی ، مذہبی قائدین سب ہی خون بہانے ، گردنیں اڑانے انقلاب لانے کی بات کرتے ہیں ۔کوئی امن اور سکون کی بات کرنے کاروادار نہیں ۔ ان جنونیوں کو تباہی اور بربادی کے افکار کی ترویج سے معاشرے کی بہتری کی توقع ہے ۔سکون امن سے یہ سمجھتے ہیں کہ معاشرے میں تبدیلی اور ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ پاک سرزمین کے حصول کا بنیادی مقصد اسلامی شریعت کی بالادستی ،ترویج وعمل تھا۔ اس سرزمین مقدس پر اصحابہ کی شان میں بھی گستاخ بستے ہیں اوراسی سرزمین پر سرکار کے افکار کی تزھیک کر کے اور سرکار پر انگشت نمائی کرنے والے مجدد بھی بستے ہیں۔ غرض نام ہونا چاہیے خواہ بدنام ہی کیوں نہ ہونا پڑے ۔حصول نیک نامی کی جدوجہد اصولوں پر مبنی ہے۔ ہمارے مزاج سے متابقت نہیں رکھتی ۔محنت طلب ایثار قربانی اور صبر کو اپنانا پڑتا ہے۔ ہم شارٹ کٹ تندی چھین  چھپٹ سے حاصل کرنا دلیری اور جوانمردی گردانتے ہیں۔ اصولوں پر چلنا بزدلی اور اصولوں کی راہ یعنی شرافت ہمیں زیب نہیں دیتی۔ عصر حاضر میں شریف کہہ دینا گالی دینے کے مترادف ہو چکاہے ۔ دیندار ی اور زرداری میں سے جنس دوئم کی اہمیت اور ضرورت زیادہ اور اہم قرار پاتی ہے ۔ دین کی بجائے زر کو اولیت اور شرافت کونظر انداز کر دیا جاتاہے۔اس سے روایت اور اخلاقیات میں خلیج بڑھ کر اب ان میں فاصلہ ناقابل عبور ہو نے کے قریب ہے ۔ اب شہرت یا مفادات کیلئے باپ کو بھی گالی دینے سے گریز نہیں رہا۔ وعدہ مسلمان کی پہچان ہے کی کوئی اہمیت نہیں ۔ سیاسی عمائدین قوم سے وعدہ کرتے ہیں پھر یہ کہہ کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں کہ یہ کوئی قرآن کا حرف تو نہیں تھا۔ عقل سے بے بہرہ مفادات کے دیوانے ان اکابرین کو یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ قرآن ہی کا حرف تھا جس کی نفی تم نے کر دی ۔ قرآن ہی ہے کہ وعدہ پورا کرو۔ اکابرین کے سوچنے ، سمجھنے اور عمل کرنے کا سارا دارومدار اپنے مفادات سے نتھی ہے ۔جہاں انہیں اپنے مفادات پر زد آتی نظرآتی ہے وہاں یہ تمام اخلاقیات روایات اور اصول وضوابط کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیتے ہیں۔ ہمارے ایک سیاسی ان داتا نے انتہا کر دی کہ جس کو اس کے اجداد نے قائد اعظم اور بابائے قوم کا خطاب دے کر تسلیم کیا ۔جس کے متعلق اس کے کٹر مخالفین نے امتیازی شان کے ساتھ تعریف کی ۔ جس کی آئین پرستی ، روایت پرستی، اور جس کے دلائل سے انگریز سلطنت ہل گئی ۔ اس کو مفادات کی دیوانگی میں ڈرون حملے کا نشانہ بنا دیا ۔الطاف حسین کی دماغی حالت پر اب شک ہونے لگا ہے۔کم علمی تو اپنی جگہ پر ظاہر ہو ہی گئی۔ اب تو جناح پور کے خواب کی پشت پناہی کرنے والوں کی بھی نشاندہی ہو گئی۔اگر الطاف حسین قائد اعظم کی ذات پر کیچڑ اچھال کر اپنی ڈوبتی نائو کو بچانے کی کوشش کر سکتا ہے تو پھر یقینا وہ پاکستان کے خلاف بھی ایسا کر سکتا ہے۔اب انڈیا میں اس کی تقریر کے اقتباسات پر یقین ہونے لگا ہے۔نجیب نے نادانی میں یہ کردار ادا کیا تھا لیکن الطاف حسین جان بوجھ کر اس گیم کا حصہ بن رہا ہے۔ پاکستان کے عد م استحکام اور اس کے ٹکڑے کرنے کی سازش اور تمنا کرنے والوں کا ساتھ دینے میں اور کیا کسر رہ جاتی ہے۔ سیاست چمکانے کیلئے قومی عصبیت کا جن جس انداز میں نکالا جاتا ہے اس سے بھی معاشرتی جدوجہد کی بجائے مقاصد کچھ اور نظر آتے ہیں۔ سیاسی معاشرتی جدوجہد اور سیاسی تحریک کا مقصد واضح ہے ۔ تحریک کسی سے علیحدگی یا حتجاج کی علامت جبکہ معاشرتی جدوجہد میں حقوق کے حصول و اگاہی کو بنیاد بنایا جاتا ہے ۔ اگر معاشرتی حقوق کے متمنی ہوتے تو پھر وہ دیگر سیاسی جماعتوں کے خلاف مسلح محاذ کھڑا کرنے کی بجائے اپنے تین دھائیوں کے اقتدار میں مہاجر بھائیوں کیلئے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنا چکے ہوتے ۔ ان کیلئے آئین میں کوئی ضابطہ کوئی آرٹیکل یا کوئی شق شامل ہو چکی ہوتی ۔ سیاسی سفر کی بجائے مہاجر قومیت کو اپنی چرچا کیلئے استعمال کر کے انہوں نے اپنا آپ تو بنا لیا لیکن مہاجر آج بھی منتظر ہے ۔الٹا مہاجر قومیت کو پاکستان اور دیگر پاکستانی قومیتوں کے خلاف کھڑا کر دیا گیا۔ اب مہاجر کراچی میں بسنے والی دیگر پاکستانی قومیتوں کا مخالف ہے ۔اس بات میں کسی شک کی گنجائش نہیں او ر یہی سچ ہے کہ مہاجرین نے تحریک پاکستان میں بنیادی کردار ادا کیا۔ تحریک پاکستان کیلئے خون دینے والوں میں ان کا نام صفحہ اول پر ہے۔ مگراس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تحریک پاکستان کیلئے دیگر قوموں نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ کیا پنجاب کے مسلمانوں کا کوئی کردار نہیں ۔ بلوچستان ، سرحد کے مسلمانوں کا کوئی کردار نہیں۔ کشمیر کے مسلمان نے تحریک پاکستان کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ یہ بات تلخ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر پاکستان پر استحقاق کی بات کی جاتی ہے توپھر اس کیلئے مہاجر یا موجودہ پاکستانیوں سے زیادہ ان انڈین مسلمانوں کا حق ہے جنہوں نے اس کیلئے قربانی تو دی اور دے رہے ہیں لیکن انکی پاکستان میں بسنے کی تمنا آج بھی اسی طرح تشنہ ہے ۔  پاکستان پر ہر پاکستانی کا حق ہے خواہ وہ مہاجر ہے یا مقیمی ہے۔عوام میں حقوق کی بیداری اور ان کے حصول کی جدوجہد کا طریقہ متعارف کرانے کی بجائے
ان میں نفرتوں کیے بیج بونے کو سیاست کا نام دیا گیا ہے ۔یہی فریضہ ڈاکٹر پروفیسر شیخ الاسلام طاہر القادری صاحب بھی سرانجام دینے چلے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے مطالبات سے کوئی اختلاف نہیں لیکن انہوں نے اس کیلئے جو طریقہ اور جس وقت کاانتخاب کیا ہے اس سے اختلاف کی گنجائش ہے۔ اس وقت ان مطالبات کی بجائے اگر قبل از وقت پیش بینی کی جاتی تو اس وقت تک کچھ نہ کچھ بہتری کی صورت پیدا ہونے کا امکان تھا۔ موجودہ صورت حال میں ایک ہفتہ کے وقت میں کس طرح امید کی جا سکتی ہے کہ الیکشن سے متعلق تمام قانون سازی کو حتمی شکل دی جا سکتی ۔اب اس کا نتیجہ صرف یہ ہی ہو سکتا ہے کہ وفاقی دارلحکومت کا گھیرائو قادری صاحب کرکے کشت وخون کو دعوت دے رہے ہیں۔ اس سے عوام کی پچھلے ساڑھے چار سال کی قربانیاں رائیگاں ہونے اور جمہوری سیٹ اپ کے متاثر ہونے کا امکان بھی ہے۔ اگر کوئی بڑا اجتماع ہوگیا تو اس کو سنبھالنے کیلئے وفاقی پولیس تو اہل ہی نہیں ۔ لا زمی امر ہے کہ اہم تنصیبات کی حفاظت کیلئے آرمی حرکت میں آئے گی۔ آرمی عوام کو روکے گی اور مشتعل ہجوم آرمی سے ٹکرائے گا ۔ نتیجے میں پیپلز پارٹی کے گلے سے ڈھول تو اتر جائے گا اور سیاسی شہادت پھر اسکے حصے میں آئے گی۔ اسکے نتیجے میں ملک کے دیگر علاقوں میں بھی اس قسم کی اشتعال انگیزی سے انارکی کی صورت حال پیدا ہوگی جو کہ موجود صورت حال میں کسی طور بھی سود مند نہیں۔ سخت الفاظ میں لکھا جائے تو یہ نادانستہ پاکستان دشمن عناصر کے ایجنڈے کو پورا کرنے میں کردار ادا کرنے کے مترادف ہوگا۔میں امید نہیں کرتا کہ پاکستان کے عوام ابھی اتنے جاہل ہیںکہ وہ اپنے پائوں پر خود ہی کلہاڑی مار لیں۔ دوسرا خودکشی اسلام میں حرام ہے اور سیاسی خودکشی کرنے میں عوام ڈاکٹر صاحب کی مدد نہیں کریں گے۔

 

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *