Home / Litrature / سید الہند اور ہندستان میں اسلام کی ترویج و اشاعت

سید الہند اور ہندستان میں اسلام کی ترویج و اشاعت

سید الہند اور ہندستان میں اسلام کی ترویج و اشاعت

ہندستان  میں اسلام کی آمد اور اس کی نشر و اشاعت کے سلسلے میں  علماء اور صوفیا کا بڑا کارنامہ رہا ہے ۔ ابتدائی دنوں میں  علما اور امرا ء نے  دین مبین کی تبلیغ و اشاعت کی لیکن    جب ہندستان میں صوفیا کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا تو دیکھتے ہی دیکھتے لوگ جوق در جوق حلقہ ء اسلام میں داخل ہونے لگے ۔ اس   کی سب بڑی وجہ یہ ہے کہ صوفیا  نے جس طریقہ کار کو اختیار کیا وہ  اپنے اندر بہت کشش رکھتا تھا ۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ان صوفیا  نے انتہائی سادگی کے ساتھ  اسلامہ تعلیمات کے ساتھ ساتھ روحانیت کا درس دیا ۔ انھوں نے دین کی تبلیغ کے لیے بالواسطہ طریقہ کار  کواپنایا۔ انھوں نے   اپنی طرز زندگی سے لوگوں کو  متوجہ کیا اور عملی نمونہ بن کر لوگوں کو اس جانب  مائل کیا۔ہندستانی معاشرے میں صوفیا اس لیے مرکز ثقل  تھے کہ یہاں  ذات پات ، اونچ نیچ اور مذہب کے نام پر اس قدر تعصبات اور ترجیحات تھیں اور ان کے درمیان اتنے طبقات تھے کہ لوگ مذہب  سے بیزار ہورہے تھے یا مذہب کو جبر کے طور پر قبول کرنے پر مجبور تھے ، ہندستانی معاشرے میں انسانوں کی شناخت  کنبہ ، خاندان ، ذات اور علاقے سے ہوتھی تھی ایسے میں عام آدمی کے لیے عرصہ حیات تنگ ہوچکا تھا۔ بدامنی ، بے راہ روی  عام تھی ۔ بنت پرستی اگرچہ ان کا مذہب تھا لیکن اسی بت پرستی کی آڑ میں ہر طرح کی برائیاں موجود تھیں ۔اسی لیے اس عہد میں کئی  نئی تبدیلیاں کروٹ لے رہی تھیں ، لیکن ان کو صحیح سمت دینے والا کوئی نہیں تھا ۔ اگر چہ گوتم بدھ نے ان حالات کو دیکھتے ہوئے  بر ہمن ازم کے خلاف آواز بلند کی اور نئےمذہب کی  بنیاد ڈالی لیکن  ۔ ہندستان میں اسلام کی آمد کے بعد سے پہلی دفعہ اس سرزمین میں کسی نے انسانیت کو  تمام   تر تعصبات اور ترجیحات کی جکڑ بندیوں سے آزاد کرایا۔ اسلام کا پیغام جس نے پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا وہ دراصل پیغام انسانیت ہی تو ہے ۔ کیونکہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو انسان کو  بہ حیثیت انسان سمجھ کر ہر طرح  کے تعصبات سے بالاتر کرتا ہے اور عبودیت کا احسا س دلاتا ہے ۔اسی احساس کے طفیل انسان خالق حقیقی کو پہچانتا ہے۔ اور جب یہاں تک پہنچتا ہے تب اسے سرفرازی ملتی ہے۔اسلام کے اسے  پیغام  کوصوفیا  نے اپنے عمل سے ہندستان میں عام کیا۔ اسی لیے آج بھی صوفیا کے دربار ہندستان کی تاریخ میں قومی یگانگت اور اصلاحی اور فلاحی ادارے کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ جنھوں نے ہندستان کی تعمیر وتشکیل میں نمایاں کردار اداد کیا ہے۔ صوفیا کی خانقاہیں  ا س لیے مرجع خلائق بنیں  کیونکہ انھوں نے اپنے دربار کو ہر خاص و عام کے لیے کھلا رکھا اور اس طرح محبت کا درس دیا کہ جو یہاں آیا وہ مشرف بہ اسلام ہوکر ہی گیا اور صرف گیا ہی نہیں بلکہ اس نے بھی اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں نمایاں خدمات  انجام دیں ۔ اسی لیے صوفیا کے کے جتنے سلاسل ہندستان مین ملتے ہیں دنیا کے کسی اور  ملک شاید اتنے سلاسل موجود نہیں ہیں۔

جہاں تک ہندستان میں اسلام کی آمد  کی بات ہے تو اس سلسلے میں مختلف تاریخیں ہیں جو قدرے اختلاف سے یہی بتاتی ہیں کہ ہندستان میں ا سلام کی آمد کے سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ  پہلی صدی ھجری میں ہی ہوئی ۔ تاریخ پاک و ہند کے مصنف لکھتے ہیں کہ :

‘‘ اسلام مذھب کی حیثیت سے پہلے جنوبی ہند پہنچا- مسلمان تاجرو اور مبلغین ساتویں صدی عیسوی میں (رسول اکر مﷺکی وفات 632ء میں ہوئی تھی- یعنی آپ کی وفات کے بعد جلد ہی مسلمان)مالابار اور جنوبی سواحل کے دیگر علاقوں میں آنے جانے لگے- مسلمان چونکہ بہترین اخلاق و کردار کے مالک اور کاروباری لین دین میں دیانتدار واقع ہوئے تھے- لہذا مالابار کے راجاؤں، تاجروں اور عام لوگوں نے ان کے ساتھ رواداری کا سلوک روا رکھا- چنانچہ مسلمانوں نے برصغیر پاک و ہند کے مغربی ساحلوں پر قطعہ اراضی حاصل کرکے مسحدیں تعمیر کیں- (یاد رہے کہ اس وقت حانقاہوں کی تعمیر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا) اور اپنے دین کی تبلیغ میں مصروف ہوگئے- ہر مسلمان اپنے اخلاق اور عمل کے اعتبار سے اپنے دین کا مبلغ تھا نتیجہ عوام ان کے اخلاق و اعمال سے متاثر ہوتے چلے گئے- تجارت اور تبلیغ کا یہ سلسلہ ایک صدی تک جاری رہا یہاں تک کہ مالابار میں اسلام کو خاطر خواہ فروغ حاصل ہوا اور وہاں کا راجہ بھی مسلمان ہوگیا- جنوبی ہند میں فروغ اسلام کی وجہ یہ بھی تھی کہ اس زمانے میں جنوبی ہند مذھبی کشمکش کا شکار تھا- ہندو دھرم کے پیروکار بدھ مت اور جین مت کے شدید مخالف اور ان کی بیخ کنی میں مصروف تھے- ان حالات میں جب مبلغین اسلام نے توحید باری تعالی اور ذات پات اور چھوت چھات کی لا یعنی اور خلاف انسانیت قرار دیا، تو عوام جو ہزاروں سال سے تفرقات اور امتیازات کا شکار ہورہے تھے- بے اختیار اسلام کی طرف مائل ہونے لگے- چونکہ حکومت اور معاشرہ کی طرف سے تبدیلی مذھب پر کوئی پابندی نہیں تھی- لہذا ہزاروں غیر مسلم مسلمان ہوگئے-(تاریخ پاک وہند، ص:390)
پہلی صدی ہجری میں برصغیر پاک وہند میں جن جن مقامات پر اشاعت اسلام ہوئی اس کی مزید تفصیل درج ذیل اقتباس میں ملاحظہ فرمائيے:
برصغیر پاک وہند میں عربوں کے تجارتی مراکز میں سراندیپ، مالدیپ، مالابار، کارومنڈل، گجرات اور سندھ قابل ذکر ہیں- ان کی علاوہ جنوبی ہند اور ساحلی علاقوں میں بھی جابجا عرب تاجروں کی نوآبادت موجود تھیں- جہاں عراق اور عرب کے تاجر موجود تھے- ظہور اسلام کے بعد عربوں کی سیاسی، مجلسی اور اقتصادی سرگرمیاں تیز تر ہوگئيں- اب وہ تبلیغ اسلام کے شوق سے سرشار، اخلاق و اطوار کے لحاظ سے بلند معیار کے حامل اور صداقت و دیانت کے پیکر تھے- ان میں سے اکثر نے برصغیر میں ہی رہائش اختیار کرلی۔ آہستہ آہستہ جنوبی ہند کی اکثر مقامات پر مسلمانوں کی نوآبادت قائم ہوگئيں- انہوں نے مقامی لوگوں کو مشرف بہ اسلام کرنا شروع کردیا- مقامی راجاؤں سے مسلمان تاجروں کے تعلقات نہایت خوشگوار تھے اور انہیں تبلیغ اسلام اور عبادت کی پوری آزادی حاصل تھی (تاریخ پاک وہند ص)17،18)

اس عہد سے اسلام کی آمد اگر چہ تاریخوں میں درج ہے لیکن اسلام کا اصل فروغ اس وقت ہوتا ہے جب صوفیا کی آمد ہندستان میں ہوتی ہے۔ یہ ہندستان کی خوش نصیبی ہے کہ یہاں سلطا ن الہند خواجہ غریب نواز کی آمد  حضور اکرم ﷺ کی حکم سے ہوئی ۔ اس کے علاوہ حضرت غوث اعظم جو سلطان الاولیا ء ہیں ، ان کی اولادیں بھی ہندستان میں تبلیغ واشاعت اسلام اور رشد و ہدایت کے لیے تشریف لائیں ۔ یہ ہندستان کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ ان قدوم میمنت لزوم سے ہندستان کو سرفرازی ملی ۔اس کے علاوہ تقریباً ہر علاقے میں صوفیا نے اپنا مسکن بنایا اور لوگوں کو دین اسلام کی روشنی سے  منور کیا۔ہندستان میں صوفیوں کا ایک بڑ ا سلسلہ ہے جو جنوب سے شمال تک اور جنوب سے مغرب تک پھیلا ہوا۔ کہیں حضرت داتا گنج ہجویری ( غیر منقسم ہندستان ) ہیں تو کہیں خواجہ اجمیری ، کہیں مخدوم بہاری، کہیں خواجہ بندہ نواز گیسو دارز  اور کہیں  حضرت سید الہند سید محمد قادری  بغدادی  ۔ ہندستان کی ہر وہ سرزمین جہاں دین کی روشنی نہیں تھی ان صوفیا کی محنت شاقہ  کی وجہ سے وہ سرزمین دین اسلام کی رشنی سے جگمگا اٹھی۔

صوبہ بہار (موجودہ جھارکھنڈ اور اڑیسہ بھی اس میں شامل ہے )جسے ہندستان کا سب سے پسماندہ علاقہ تصور کیا جاتا ہے ۔ جہاں قبائلی لوگ  بھی بڑی تعداد  میں آباد ہیں ۔ اس علاقے کا یہ المیہ ہے کہ یہ اب بھی اقتصادی ارعتبار سے پسماندہ ہے ۔ لیکن یہی وہ سرزمین بھی ہی جہاں نالندہ  یونیورسٹی بھی تھی جسے ہندستان  میں اعلیٰ تعلیم کی سب سے پہلی اور باقاعدہ یونیورسٹی تصور کیا جاتا ہے ۔ لیکن یہ  یونیورسٹی بھی تعلیم کے ذریعے  علاقے اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے وہ کچھ نہ کرسکی جو بہار کے صوفیا نے اپنی خانقاہوں سے کیا۔ علم و فضل اور انسانیت و محبت کا جو پیغام صوفیا نے دیا اس کے آگے اس یونیورسٹی کے کارنامے کہیں سامنے نہیں آتے ۔ حالانکہ ان صوفیا کے پاس نہ تو اس طرح کا کوئی ادارہ تھا اور نہ ہی ان کے پاس اس طرح کی سہولیات تھیں ۔ لیکن بے سرو سامانی اور سادگی کے ساتھ انھوں نے خانقاہوں سے جو کام کیا وہ فیض آج بھی جاری وساری ہے۔

انھیں صوفیا میں سید الہند حضرت سید محمد بغدادی ہیں جو حضور اکرام ﷺ کے حکم سے  شمالی ہندستان  کی سرزمین امجھر شریف تشریف لائے ۔ ہندستان میں  سلسلہ ء  قادریہ کے فروغ میں آپ کے نمایاں خدمات ہیں ۔ دنیا  میں اور بالخصوص ہندستان اور بر صغیر میں  صوفیا کے کئی سلاسل موجود ہیں ۔ لیکن ان میں سلسلہ قادریہ سب سے وسیع  سلسلہ ہے ۔ اس سلسلے سے منسلک صوفیا کی ایک بڑی تعداد ہےجنھوں نے پوری دنیا میں اسلام کی تعلیمات کو عام کیا۔ ہندستان میں اس سلسلے کو فروگ دینے والوں میں سید الہند کا نام اولیت کا حامل ہے۔ سید الہند نے جس علاقے  رشد وہدایت کے لیے اپنا مسکن بنایا وہ علاقہ ہر اعتبار سے پسماندہ تھا ۔ دور دور تک علم وآگہی کا نام و نشان نہیں تھا۔ آپ  کا کمال یہ ہے کہ آپ نے نہ صرف اس علاقے کو فیضاب کیابلکہ پورے ہندستان میں آپ نے اس سلسلے کو فروغ دیا ۔

صوفیا کی خانقاہوں کی خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنے یہاں کسی طرح کا امتیاز ی سلوک روا نہیں رکھا۔ فقیر اور بادشاہ دونوں  اس دربار میں ایک ہی صف میں ہوتے تھے ۔ یہ سلو کاور رویہ حالانکہ پوری دنیا میں کشش کا سبب بنا لیکن خاص طور پر ہندستان کے پس منظر میں یہ زیادہ ہی باعث کشش تھا کیونکہ یہاں ہندو دیو مالائی تصورات کے سبب ذات پات اور نسلی امتازات ان کی شرست میں شامل تھی ۔اس کے بر عکس صوفیا  نے ہر کہہ ومہ کو انسانیت اور اخوت کے ایک دھاگے میں پرو کر اسلام کی روح کو سلوک کے راستے سے لوگوں کے دلوں تک پہنچایا۔ سیدالہند  نے بھی اپنے اسلاف کے اس رویے کو عام کرتے ہوئے ہزراہا افراد کو مشرف بہ اسلام کیا اور آج بھی ان کے فیوض وبرکات جاری و ساری ہیں۔

لیکن میں یہاں جملہ معترضہ کے طور پر ایک بات کہنے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں بلکہ اس حوالے سے مجھے حیرت ہوتی ہے کہ سید الہند کے اتنے کارنامے ہیں اور اس کے سلسلے میں اتنے اعلیٰ پایے کے بزرگ گزرے ہیں ۔ لیکن جب میں نے اس حوالے سے کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہا تو بڑی مایوسی ہوئی کہ ہم نے اپنے اسلاف کے کارناموں کو بہت کم تاریخ کا حصہ بنایا ہے ۔  سید الہند کے بارے میں میرا خیال ہے سینہ بہ سینہ جتنا علم منتقل ہو رہا ہے ، اتنی معلومات شاید کتابوں میں موجود نہیں ہیں۔ یہ ہمارا عام رویہ رہا ہے کہ برسوں اور صدیوں کے گزرنے کے بعد بھی عقیدت تو کم نہیں  ہوئی لیکن جن سے عقیدت ہے ان کے کارناموں کو ہم نے عوام تک لانے میں ہمیشہ  تساہلی سے کام لیا ۔ صوبہ ء بہار میں تبلیغ و اشاعت دین اوررشد و ہداہت کے حوالے سے سید الہند کا ذکر ضرور تاریخ کی کتابوں میں ہوا ہے مگر سلسلہ وار اور تاریخی اصولوں کو سامنے رکھتےہوئے بہت کم کام ہوا۔ خود اس خاندان سے جڑے بزرگوں نے کچھ تالیفات میں ان کے حالات اور کارنامے کو محفوظ کیا ہے اور اب یہ سیمنار اور خصوصی شمارے کی اشاعت اس سمت میں ایک اہم پیش رفت ہے ۔ میں امید کرتا ہوں کہ اس حوالے سے مبسوط تاریخی کام سامنے آئے گا۔

About admin

Check Also

یوروپی ممالک کی جامعات میں اردو کی تدریس

پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین یوروپی ممالک کی جامعات میں اردو کی تدریس یوروپی ممالک میں اردو …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *