عابد انور
قدرت کا نظام ہے کہ جوملک جس درد کا انتخاب وہ دوسرے ملکوں کے لئے کرتا ہے ایک دن اسی درد کا شکار اسے بھی ہونا پڑتا ہے۔ یہی حال آج امریکہ اور مغربی ممالک کا ہے۔ طاقت کے زعم میں دوسرے ممالک کے انسان کو کیڑے مکوڑوں کی طرح سمجھنے والے ان مغربی ممالک کے احتساب کا وقت قریب آگیا ہے اور وہ اسی طرح کے احساس ذلت اور احساس ہزیمت سے دوچار ہونے والے ہیں جس سے وہ دوسرے ممالک کو دوچار کراتے آرہے ہیں۔ آج مغربی ممالک زبردست اتھل پتھل، اخلاقی اور معاشرتی زوال، اقتصادی بحران اور قدرت کے قہر کے زبردست نشانے پر ہیں۔ انہوں نے تقریباً دو سو برسوں میں وہ تمام غیر انسانی، غیر اخلاقی، انسانیت کو شرمسار کردینے والے مظالم اور وحشیت و درندگی کے تمام حدوں کو پارکرنے والے کام کئے جس کی اجازت ان کے مذہب (عیسائیت اور یہودیت) میں بھی نہیں ہے۔ غیر فطری سکون حاصل کرنے اور اپنے بے جا مفادات کی تکمیل کے لئے کسی طرح کی نیچھ حرکت کرنے سے کبھی گریز نہیں کیا۔ جھوٹی انا کی تسکین کے لئے انہوں نے کئی ممالک کو تخت و تاراج کرکے وہاں کی بنیادی سہولت کے ڈھانچے کو تباہ و برباد کردیا اور اس ملک کے خزانہ کو لوٹنے کے لئے تعمیر نوکے نام پر یہ ممالک اکٹھا ہوتے رہے۔ یہی حال عراق ، افغانستان اور لیبیا کا کیا ہے۔ ان ممالک نے اپنی گرتی معیشت کو سہارادینے کے لئے بڑے بڑے ٹھیکے حاصل کئے۔ افغانستان، عراق کا کیا حال ہے یہ کسی کو معلوم ہو یا نہ ہو لیکن اقتصادی بحران کے اس دور میں بھی مغربی ممالک کی کرنسی خوب چمک رہی ہے۔ امریکہ اوربرطانیہ جو اپنے ناجائز اولاد اسرائیل کی پرورش میں اس طرح ڈھیل کی اور اتنی چھوٹ دی ہے کہ نہ صرف اسرائیل ان ممالک کی بدنامی کا سبب بنا ہوا ہے بلکہ ایک بوجھ بھی بن چکا ہے اگر ان ممالک سے اگر مسلمان نفرت کرتے ہیں اس کی وجہ اسرائیل کی بیجا حمایت بھی ہے اور جب یوم احتساب آئے گا پورا پورا حساب لیاجائے گا ان ممالک کے پاس اس سے بچنے کے لئے کوئی دلیل نہیں ہوگی۔ مغرب کی دوغلی پالیسی، دوہرا معیار اور ان کے مظالم کے شکار سب سے زیادہ مسلم ممالک ہی ہوئے ہیں۔ فلسطینی گزشتہ سات دہائی سے اپنے وطن کے لئے ترس رہے ہیں اور اب تک لاکھوں فلسطینی اپنی جان کی قربانی دے چکے ہیں پورا فلسطین ایک بڑے قید خانے کی شکل میں تبدیل ہوچکا ہے لیکن مغربی ممالک اورخاص طور پر امریکہ نے ہر اس قرارداد کوویٹو کردیا جس میں اسرائیل کو نکیل کسنے کی بات کہی گئی تھی۔ اس طرح تقریباً ساٹھ قراردادوں پر امریکہ اپنے حق تنسیخ (ویٹو پاور) کا استعمال کرچکا ہے۔ بے شرمی کی حد تو دیکھئے کہ یہی ملک دوسرے ممالک کو انسانیت کی پاٹھ پڑھاتا ہے۔گزشتہ پانچ چھ برسوں کے دوران ایسٹ تیمور اور شمالی سوڈان نامی ملک کا وجود عمل میں آگیا ہے لیکن فلسطین کو مشق ستم کے لئے چھوڑ دیا گیا ۔اب یہی کھیل نائجیریا میں شروع کردیا گیا ہے ۔ اس کے لئے مغربی ممالک وہاں کے عیسائی اور دوسرے فرقے کوتشدد اور بغاوت کے لئے سامان فراہم کر رہے ہیں جس سے اس ملک کی تقسیم کی راہ ہموار ہوسکے اور پھر ایک نیا عیسائی ملک وجود میں آسکے۔ان چیزوں کو مشرق وسطی کے ممالک کے حکمرانوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وہ عیش پرستی میں اس قدر مگن اور اندھے ہوگئے ہیں کہ امریکہ یا مغرب جو دکھاتا ہے وہ وہی دیکھ پاتے ہیں۔ سب سے اچھی بات رہی کہ امریکہ اور ویٹو پاور کے حامل مغربی ممالک اسی تکلیف سے اس وقت گزرنا پڑا جب روس اور چین نے پہلی پار مردانگی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے اپنے ویٹو پاور کا استعمال کیا۔
امریکہ اور یوروپ روس اور چین کے اس قدم سے بوکھلا گئے ہیں اب انہیں انسانیت، انسان، ظلم وستم ، جور و جفا سب کچھ یاد آرہے ہیں جوانہوں نے گزشتہ دو سو برسوں سے روا رکھا ہے۔امریکہ اور مغرب ممالک کی بوکھلاہٹ دیکھتے بنتی ہے۔ آج انہیں شام میں انسانیت کی یاد آرہی ہے اس وقت اس کی انسانیت اور اس کی انسانی حقوق کی تنظیمیں کہاں گئی تھیں جب امریکی اور مغربی افواج نے عراق میں لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ افغانستان کو کھنڈر میں تبدیل کردیا۔ پاکستان میں ہزاروں لوگوں کو ڈرون حملے میں قتل کرچکا ہے۔ سیکڑوں بار عوامی مقامات پر بمباری کرکے ہزاروی افغانستانیوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا اور ان ممالک کے چہرے پر شرمندی کی ہلکی سی لکیر بھی نظر نہیں آئی۔افغانستان میں ناٹو افواج نے معصوم بچوں اور خواتین کو بھی نشانے بنانے سے باز نہیں آئے۔طالبان کو انسانیت دشمن کہنے والے ممالک کے ان افواج نے اتنے افراد کو قتل کرچکا ہے جتنے طالبان اور یا دیگر حملے میں نہیں مارے گئے ہیں۔ شام کے معاملے میں اگر روس اور چین نے ایک موقف اختیا ر کیاہے تو قابل ستائش ہے۔ اگر ان ممالک نے دوسرے معاملات میں بھی یہی موقف اختیار کیا ہوتا تواس وقت دنیا کتنی حسین ہوتی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ان دونوں ممالک پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ شام کو اس بات کے لئے راضی کرے وہاں حقوق انسانی کا احترام کیا جائے آمریت جو دور گزشتہ پچاس برسوں سے جاری ہے اس کے خاتمہ کے لئے مثبت قدم اٹھائے۔ بشار الاسد کو تخت کے بجائے شامی عوام کے بارے میں سوچنا چاہئے۔عرب لیگ نے شام کے لیے اصلاحات کا ایک ڈھانچہ تیار کیا ہے جس پر وہ چاہتی ہے کہ دمشق تشدد کے فوری خاتمے کے لیے عمل کرے۔ قاہرہ میں وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بعد عرب لیگ نے شامی حکام سے مطالبہ کیا کہ ملک میں دو ماہ کے اندر قومی اتحاد کی حکومت تشکیل دیں جس میں حزبِ اختلاف کو بھی شامل کیا جائے۔اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرارداد میں عرب لیگ کے اس منصوبے کی حمایت کی بات کی گئی تھی جس کے تحت صدر الاسد سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔اسد اقتدار کے لئے شام کو کھنڈر میں تبدیل نہ کریں۔ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائے جس کی تپش پورے عرب دنیا کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کردے۔
شام میں حالات اس وقت بہت دگرگوں ہیں۔ بشار الاسد کی یقین دہانی کے باوجود عوامی ہلاکت میں کوئی کمی نہیں آرہی ہے۔ شامی فوج یہاں کے عوامی تحریک کوبے دردی سے کچل رہی ہے۔ گزشتہ گیارہ ماہ کے دوران پانچ ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ حالیہ کارروائی میں اب تک سیکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔یہ کارروائی حمص میں اس وقت کی گئی تھی جب روسی وزیر خارجہ دمشق کے دورے پر تھے۔ حمص اور دیگر ایسے شہروں میں کارروائی جاری رکھی تھی جو اپوزیشن کا گڑھ ہیں۔ آزاد میڈیا وہاں نہیں ہے اس لئے کسی تعداد ہلاکت کے بارے میں صحیح اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے۔ حمص شہر میں زمینی حملے کا خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔میڈیا رپورٹ کے مطابق راکٹوں کے زوردار دھماکے سے ایک چھوٹی بچی کا سر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔حمص کے بابا عمرو علاقے میں راکٹ اور مارٹرسے اندھا دھند حملے ہو رہے ہیں۔ بابا عمرو کا ہر گھر نشانے پر ہے۔ اگر آپ بچ گئے تو آپ بہت خوش قسمت ہوں گے۔انسانی حقوق کے کارکنوں نے حمص میں تشدد کی کارروائیوں کو قتلِ عام قرار دیا ہے اور فوج پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے گزشتہ گیارہ ماہ سے جاری بغاوت کے اس تلخ ترین باب میں خواتین اور بچوں کو بھی نشانہ بنایا۔عام لوگوں کا اعتماد بشارالاسد حکومت سے اٹھ چکا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے والد حافظ بھی 1963 میں فوجی بغاوت کے ذریعہ برسراقتدار آئے تھے جس اب ان کا بیٹا بشار الاسد قابض ہے۔ اس سے پہلے بھی عوامی بغاوت کو کچلنے کے لئے حافظ اسد نے چالیس ہزار سے زائد لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ دیگر عرب ممالک کی طرح شام میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ کوئی شخص حکومت کے خلاف لب کشائی کی ہمت نہیں کرسکتا تھا۔
شام کے سنگین حالات کے پیش نظر خلیجی عرب ریاستوں نے شام کے سفیروں کو بے دخل کرنے اور شام میں موجود اپنے سفارتکاروں کو واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔خلیجی تعاون کونسل کا کہنا ہے کہ شام نے گیارہ ماہ سے جاری خون ریزی کو روکنے اور بحران کے حل کے لیے عرب لیگ کی تجاویز کو مسترد کر دیا ہے۔ کونسل نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’رکن ممالک نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ شام سے اپنے سفیروں کو واپس بلائیں گے اور اسی طرح شام کے سفیروں سے کہا جائے گا کہ وہ فوری طور پر واپس چلے جائیں۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ شامی حکومت کی جانب سے بحران کے حل کے لیے تمام کوششوں کو مسترد کرنے اور خونریزی کے خاتمے کے لیے عرب لیگ کے تمام پرخلوص کوششوں کو ضائع کردینے کے بعد ان لوگوں (شام کے سفیروں) کے لیے یہاں رْکنے کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں چین اور روس کی جانب سے شام میں تشدد کے خاتمے کے بارے میں قرارداد کو ویٹو کیے جانے کے بعد سفارتکاروں میں سخت جملوں کا تبادلہ ہوا ہے۔ امریکیوں کا کہنا تھا کہ دو ممالک نے شام کے لوگوں کو بیچ دیا ہے۔ فرانس نے الزام عائد کیا کہ یہ ممالک دمشق کی حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں جبکہ برطانیہ کا کہنا تھا کہ چین اور روس نے عرب دنیا کی جانب پیٹھ موڑ لی ہے۔ اس کے جواب میں روس کے سفارتکاروں نے الزام عائد کیا کہ مغربی ممالک شام میں اْس انقلاب کے ذریعے حکومت بدلنا چاہتے ہیں جس کی پشت پناہی وہ خود کر رہے ہیں اور جسے عرب لیگ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ چین کا موقف ہے کہ اس طرح دباوٴ ڈالنے سے شام میں تفرقہ اور بڑھے گا اور یہ مسئلے کے حل میں کسی طرح مددگار ثابت نہیں ہوگا۔ سلامتی کونسل میں پیش کی گئی اس قرارداد میں عرب لیگ کے اْس مطالبے کی حمایت کی گئی تھی کہ شام کے صدر بشارالاسد اقتدار کی منتقلی کے عمل میں اپنے نائب کے حق میں دستبردار ہو جائیں۔پہلی بار امریکہ کو اس تلخی کا احساس ہوا ہے ۔ ورنہ امریکہ نے ہمیشہ اپنے ویٹو پاور کا استعمال ظلم کو بڑھاوا دینے اور مسلم حکومت کا قافیہ تنگ کرنے کے لئے کیا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اب امریکہ سے اس کے تمام کردہ گناہوں کا سود سمیت حساب لیا جائے اور ان کے شہریوں کو محض قتل کے شبہے میں 80 سال کی سزا دی جائے اور درجنوں مرتبہ سزائے موت سنائی جائے۔
مغربی طاقتیں ہمیشہ اس تاک میں رہتی ہیں کب اپنا داخلی انتشار بہت خوبصورتی کے ساتھ دوسرے ممالک میں منتقل کردیتی ہیں عرب ممالک کو احساس تک نہیں ہوتا۔ اقتصادی بحران کا معاملہ یوروپ میں چھایا ہوا ہے لیکن وہاں کوئی ہنگامہ نہیں ہے۔ نیویارک میں تحریکیں چلیں لیکن کوئی ان تحریکوں کو کیش کرنے والا نہیں تھا اس لئے وہ دم توڑ گئیں اور اگر جاری ہیں تو مغربی میڈیا اسے قابل اعتنا نہیں سمجھتا۔اس کے مسلم ممالک کے بحران کو ہوا دینے میں مغربی ممالک میں اپنی پوری طاقت جھونک دیتی ہیں۔لیبیا، سوڈان اور دوسرے ممالک میں ایسا ہی ہوا ہے ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ پڑوسی ممالک اس سازش کو سمجھتے ہوئے انجان بن جاتے ہیں اور عمداََ یا نسیاناََ اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔ مسلم ممالک کو چاہئے ایسے حالات کا خود مقابلہ کریں اور بیرونی طاقت (مغربی ممالک) کو کسی مداخلت کا موقع نہ دیں۔ امریکہ اس وقت زبردست مالی بحران کا شکار ہے اور لوگوں کو اپنی نوکریاں گنوانی پڑرہی ہیں۔ریٹنگ گریڈ کم کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اگر امریکہ کی قرضہ لینے کی حد کو چودہ اعشاریہ تین کھرب ڈالر تک نہ بڑھایاگیا تو امریکی کریڈٹ ریٹنگ خراب ہو سکتی ہے ۔امریکہ کا بجٹ خسارہ ایک اعشاریہ پانچ کھرب ڈالر ہے اور وہ اسے پورا کرنے کے لیے بونڈز اور سیکوریٹز جاری کرتا ہے۔ امریکہ کا کل قرض چودہ اعشاریہ تین کھرب ڈالر ہے۔ امریکی صدر براک اوباما کے 2009 میں عہدہ صدارت پر فائز ہونے کے وقت امریکی قرضہ دس اعشاریہ چھ کھرب ڈالر تھا۔ امریکہ بے گھر رہنے والوں اور خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ امریکہ اب اسی تاک میں ہے کس ملک کو شکار بنایا جائے تاکہ وہاں تعمیر نو اور اسلحہ فروخت کرکے اپنا مالی خسارہ کو کم کیا جاسکے۔
پیٹرولیم مصنوعات کو تمام ممالک کی رفتاری میں محوری حیثیت حاصل ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات پر قبضہ کرنے کے لئے خلیجی ممالک کو آپس لڑانے کا مغربی ممالک کا کھیل کافی پرانا ہے۔جس نے بھی تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش کی وہ اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھا۔سعودی بادشاہ شاہ فیصل بھی اسی کا شکار ہوئے۔ مسلم ممالک جب تک اپنے پڑوسیوں پر اعتبار کرنا نہیں سیکھتے اس وقت تک انہیں بیرونی مداخلت سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ روس اور چین نے ویٹوپاور استعمال کرکے شام کو کچھ دن کے لئے راحت کا سامان فراہم کردیا ہے اور شام کو اس کا فائدہ اٹھانا چاہئے لیکن فائدہ اٹھانے کے بجائے اس نے عوام پرظلم و ستم کا سلسلہ دراز کردیا ہے ۔شام میں بشارالاسد اپنی حکومت روس اور چین کی مدد سے کچھ دن تک قائم رکھ سکتے ہیں لیکن ہمیشہ کے لئے نہیں۔ انہیں ہر حال میں شامی عوام کی آرزوؤں کی تکمیل کرنی ہوگی اور یہ تکمیل بندوق سے ممکن نہیں ہے۔ حکومت میں شراکت سے ہی ممکن ہے ۔عرب لیگ کوبھی چاہئے کہ وہ مغرب کا کھلونا بننے بجائے اسلامی اخوت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے ایسے لائحہ عمل تیار کریں جس میں کسی کی خجالت نہ ہو۔ اس کا مقصد کسی کی حکومت کا خاتمہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ حکومت میں عوامی شراکت ہونا چاہئے۔ اس کے علاوہ عرب لیگ ،خلیجی تعاون کونسل کو اور تنظیم اسلامی کانفرنس کو مثبت سمت میں قدم اٹھاتے ہوئے کوئی ایسا میکانزم تیار کرنا چاہئے جس میں اس طرح کے حالات سے نمٹنے کا طریقہ موجود ہو۔ مسلم ممالک کو اپنی مشترکہ فوج بھی ناٹو کے طرز پر تشکیل کرنی چاہئے تاکہ اسلام دشمن طاقتوں کا مقابلہ کرنے میں آسانی ہواور اسلامی ممالک پر آنے والے ہر طوفان کا وہ ڈٹ کر مقابلہ کرسکیں۔اس کے لئے ان ممالک کو آپسی اختلافات کو فراموش، انانیت کو طاق پر رکھ اور صرف اسلامی اخوت کی بنیاد پر آگے قدم بڑھانا ہوگا۔ ان ممالک متحد ہونے کے لئے تمام وجہیں موجود ہیں اور نااتفاقی اور انتشار کے لئے کوئی وجہ نہیں ہے۔ صرف قرآن و حدیث کو اپنا ہتھیار بنانا ہوگا اور اسلامی اخوت ، غیرت و حمیت کو بیدار کرنا ہوگا ورنہ آج شام کی باری ہے کل ایران کی ہوگی، اس کے بعد پاکستان، سعودی عرب اور دوسرے مسلم ممالک کو اسی طرح بغاوت کی آگ جلاکر راکھ کردیا جائے گا کیوں کہ کوئی احتجاج یا مقابلہ کرنے والا نہیں ہوگا۔
ڈی۔ 64 فلیٹ نمبر 10, ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر ، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵
abidanwaruni@gmail.com