Home / Socio-political / شرمیں خیر

شرمیں خیر

سمعیع اللہ ملک

قصر سفید میں آخرشب کے مکیں بش نے اپنے قیام کے آخری مہینوں میں ا پنے متوقع جا نشین کو نصیحت کے انداز میں متنبّہ کیا تھا کہ آنے والے دنوں میں بد ترین خانہ جنگی کے شکار دو ملک عراق اور افغانستان کے چیلنج در پیش نہیں ہوں گے بلکہ عا لم اسلام کی واحد ا یٹمی طاقت‘دنیا کی مضبوط فوج رکھنے والا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان سب سے بڑا چیلنج ہو گا‘کیونکہ وقت گزرنے کے سا تھ سا تھ اس ملک کے حالات گھمبیر ہوتے چلے جا ئیں گے۔قصر سفید کے مکیں جارج بش نے اوبامہ کو عراق اور افغانستان کی بجائے پاکستان کو سب سے بڑا چیلنج قرار دیکر آنے والے حالات کی منظر کشی کی تھی اوریوں ہمارے فاسق کمانڈو صدرمشرف کا”سب سے پہلے پاکستان“ کا نعرہ‘اس کی رخصتی کے بعداب ایک نئے انداز سے جلوہ گر ہوچکاہے۔دوسرے لفظوں میں رخصت ہوتے ہوئے قصر سفید کے فر عو ن جارج بش نے عراق اور افغانستان کی بجائے آنے والے مکیں کو مشورہ دیاکہ تمہارا اصل دشمن پاکستان ہے۔

امریکہ کی رفو گیری بھی عجیب ہے ‘پہلے دا من میں خوب جی بھر کر چھید کرتا ہے پھر یہ چاک سینے کیلئے اپنی رفو گیری کے جوہر دکھاتا ہے۔عراق اور افغانستان دو ایسے ہی ملک ہیں جنہیں قصر سفید کے فر عو ن جارج بش نے بری طرح بھنبھوڑ کر ر کھ دیااب رفو گیری اور مسیحائی کے جو ہر دکھا نے کا جھوٹا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔لیکن ان ملکوں کو امریکی جارحیت اور حالات بہتر ہونے کے درمیانی عر صے میں جان‘مال‘عزت‘ آبرو اورا قتدار اعلیٰ کی جو قیمت چکانی پڑرہی ہے اس کا تاوان کس سے طلب کریں گے؟

جس پاکستان کا بش نے تشویش ا نگیز انداز میں تذکرہ کیا ‘امریکی جنگ کا ٹوکہ ا ٹھانے سے پہلے وہ بھی اتنی خراب حالت میں نہیں تھا ‘بلکہ بش کی صدارت سے پہلے تو یہ کرئہ ارض بھی خوف‘دہشت گرد ی اور و سائل کی لوٹ مار کا شکار نہیں تھا۔دہشت گرد ی کب اور کہاں نہیں ہوتی؟ہردور میں ہر جگہ اس کا دھڑکا لگا رہتا تھااور ہر جگہ اس سے بچنے کے انتظامات بھی کئے جاتے تھے لیکن اس عا لمی مہم جوئی نے جس طرح قوموں اور ملکوں کو خوفزدہ کرکے نفسیاتی مریض بنا کر رکھ دیا ہے اس کی مثال ما ضی میں کہیں نہیں ملتی۔تسخیر عالم کی مہم سے پہلے اور اس کے بعد یورپ اور امریکہ کا سفر کر نے والوں کو حالات کا یہ فرق بآسا نی د کھائی دیتا ہے۔اب توائر پورٹس پر ٹٹولنے کے انداز ”تلاشی“ کے طریقوں اور پوچھ گچھ کے نام پرذ ہنی اذیت سے ان آزاد معاشروں میں اکثر انسا نیت شرم سے پانی پانی ہو جا تی ہے۔

تب خود کش حملے بارش کے قطروں کی ما نند کہیں کہیں کمزوروں کا توانا ہتھیار تھے لیکن اب تو گویا سیلاب ہی آگیا ہے۔لوگ اپنے وجود کو دھماکوں اور دھوئیں میں اڑا کر لطف لینے لگے ہیں۔اس سے پہلے مغرب بہت سے اخلاقی حوالوں سے بر تر نظر آتا تھا‘جن میں انسا نی حقوق ‘ مساوات اور کچھ دوسری اقدار نمایاں تھیں لیکن تند خو اور جنگجو بش کی آمد کے بعد تو د نیا کا منظر ہی بدل گیا۔اس کے بعد تو دنیا کے امن کو نظر سی لگ گئی۔معقو لیت‘اعتدال اورامن عالمی سیاست کے با زار میں متروک سکوں کا روپ اختیار کر گئے ہیں۔اس کی جگہ تند خوئی‘تکبر‘طاقت‘کچلنے‘مسلنے‘دبانے‘گرانے‘جلانے کی زبان کا دستور ا مریکی سیاست کا اسلوب بن کر رہ گیا ہے۔سرد جنگ ختم ہو چکی تھی‘کیمونزم لینن گراڈمیں زمیں بوس ہو چکا تھا‘خیال تھا کہ دنیا کے نقشے سے سویت یونین نام کا ملک ختم ہو جا نے کے بعد شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پا نی پینے لگیں گے۔ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اسلحہ کے ا نبار لگا نے کی سوچ قصہ پا ر ینہ بنے گی۔اب قوموں کے وسا ئل ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈہ مواد اور تشہیری مہمات کی بجائے تعلیم‘صحت اور ترقی پر خرچ ہونگے۔یوں دنیا جنت نہ سہی مگر جنت نما ضرور بنے گی۔لیکن اب تو امریکی جنگجووٴں نے چند دن بھی دنیا کو آئیڈیل نہیں ر ہنے دیا۔

سرد جنگ ختم ہو تے ہی ا مریکی سفیر نے صدام حسین کے کان میں کیا پھونک ما ری کہ وہ سیدھے کویت پر چڑھ دوڑے اور پھر بڑے بش صاحب صدام کو کویت سے نکالنے کے نام پر خلیج میں آن دھمکے۔آمد کا مقصد یہ بیان کیاگیا کہ صدام کو کویت سے نکالنا ہے لیکن آنے کے بعد ان کے پر پر زے نکلنے لگے اور وہ نیو ورلڈ آرڈر کا پکا راگ چھیڑ کربیٹھ گئے اور یوں ”حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے “کے مصرعے کی عملی تصویر بن گئے۔عراق کی فوجوں کو ادھ مووأ کر کے کویت سے نکال دیاگیا‘اس کی فوج کی کمر توڑ کر رکھ دی گئی‘ا قتصا دی پا بندیوں کی تلوار مستقل طور پر اس کے سر پر لٹکا دی گئی۔ا قوام متحدہ کی پا بند یوں میں جکڑا ہوا عراق اب کسی کیلئے کیاخطرہ بن سکتا تھا‘اسے تو اپنی بقأکا مسئلہ در پیش تھالیکن اس خلیجی مہمان نے مستقل طور پر اپنے ڈیرے لگا دئیے۔ ۔کویت اور سعودی عرب کی خود مختاری کی منہ مانگی قیمت سینکڑوں ارب ڈالر بھی وصول کی گئی جو کہ امریکی بینکوں میں ہی پڑی تھی۔

 اس خلیجی مہمان نے کویت اور سعودی عرب کو ہی اپنا مستقر بنا لیا۔صاف د کھا ئی دے ر ہا تھا کہ آزاد تجارت اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا دور شروع کر نے کے نام پر خلیج کے تیل کو ہتھیانے کا پر وگرام پہلے سے طے تھا ۔ملٹی نیشنل کمپنیوں کے درمیان ٹھیکوں کی مسابقت چل پڑی تھی۔ایران کا تیل دسترس سے با ہر تھا،عراق نے بہانہ فرا ہم کر دیا تھااس لئے سیال دولت کو للچا ئی ہوئی نظروں سے د یکھنے کا عمل عروج پر تھا۔اسی کھیل سے اسامہ بن لا دن نے رد عمل کے طو ر پر جنم لیا ۔آج مغرب اسامہ کو ا فغانستان کے حا لا ت کی پیداوار قرار دیکر اقوام عا لم کے سا منے غلط تصویر پیش کر رہا ہے۔در حقیقت اسامہ کی جدوجہد اور کر دار کے دوسرے فیز نے خلیج کی جنگ اور سعودی عرب میں امریکہ کے غیر معینہ مدت تک قیام کے ارادوں سے جنم لیاہے۔

 اسامہ نے ا فغان جنگ کے بعد پہلا نعرہ سعودی عرب سے امر یکی افواج کے ا نخلا کا بلند کیا اور بعد میں اسامہ کا کردار پھیلتا چلا گیا۔آج تک بش کے دست راست ڈک چینی کی کمپنی عراق کے تیل کو شیر مادر سمجھ کر غٹا غٹ نوش فر ما رہی ہے۔اب تو کھیل کو سمجھنا اور بھی آسان ہو گیا ہے۔کا رو با ری مفادات کو امن عالم کے قیام کا جا مہ پہنا کر دنیا کو فساد سے بھر دیا گیا ہے اور پا کستان بھی اس کی لپیٹ میں آگیا ‘ اس کمزور وفا قی ڈھا نچے ‘نیم جمہو ری اور لا تعداد سیا سی تنا زعات کے حامل ملک کے زخم تیزی سے کھلتے چلے گئے۔ابھی سرد جنگ کی آخری معرکہ آرائی میں اگلے مورچے کا کردار ادا کرنے کے اثرات مو جود تھے کہ نیویارک کے جڑواں مینا روں کا ملبہ بھی اسی پر آن گرا۔سو ویت یونین کے خلاف بندوق ابھی کندھے سے اتری ہی تھی کہ اسامہ کے خلاف ٹوکہ ہا تھ میں پکڑا دیا گیاجبکہ ایٹم بم کی مو جودگی نے اسے عا لمی نظر التفات کا مر کز بنا دیا۔کل تک فوجی حکومت کی و جہ سے پاکستان کا نام برما کے سا تھ آتا تھااوراب موجودہ سیاسی حکومت بھی ملک کے حالا ت سنوارنے میں بری طرح ناکام ہوگئی ہے۔بیرون ملک میں ر ہنے وا لے ہم جیسے پا کستانیوں کو ندامت سی ہونے لگتی ہے اور ہم اس کا اکثر برملا اظہار بھی کر تے ہیں کہ اب پا کستان کا موازنہ روانڈا سے جیسے قحط زدہ خانہ جنگی کا شکار ‘معیشت کے د یوالیہ پن کے قریب تر ا فریقی ملک سے ہو نے لگا ہے‘تو ہما رے کرب کا کوئی کیا اندازہ لگا سکتا ہے؟

حالیہ ایبٹ آباد آپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی خبرکے بعداب حالات میں ڈرامائی اندازمیں تبدیلی آگئی ہے اوربہت سے نئے ایسے سوالات نے جنم لیاہے جنہوں نے ملکی سلامتی کوداوٴ پرلگادیاہے۔پچھلے کئی سالوں اسامہ بن لادن کی موت کی افواہیں گشت کررہی تھیں جن کی تصدیق خودپرویزمشرف نے کی لیکن کیااس حالیہ آپریشن نے ساری دنیاپر واضح کردیاکہ ہمارے ادارے غلط بیانی سے کام لیتے رہے؟خود بے نظیربھٹونے اپنے ایک ویڈیوانٹرویومیں شیخ عمرکے ہاتھوں(جواس وقت Daniel Perlڈینئل پرل کے قتل میں ملوث پاکستانی جیل میں بندہے)اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی تصدیق کی جوآج بھی یوٹیوب پرملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ایک طرف وزارتِ خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ چالیس منٹ پر مبنی یہ آپریشن امریکی فورسزنے خودسرانجام دیا ہے ،توکیاایک خودمختارملک میں امریکا کی رسائی کایہ عالم ہے کہ وہ جہاں چاہے اپنی مرضی سے ایسے آپریشن کرسکتاہے اور دوسری طرف ہمارے وزیراعظم اس آپریشن کوعظیم کامیابی قراردیتے ہوئے ملکی انٹیلی جنس کاکارنامہ قراردے رہے ہیں؟امریکانے افغانستان سے جولائی میں اپنی افواج کے انخلاء کوجوپروگرام دیاتھا کیایہ خبراس کاپیش خیمہ ہے تاکہ امریکی عوام کومطمئن کیاجاسکے کہ امریکااپنے مشن میں کامیاب رہا ہے؟کیاپاکستانی عوام اور سیکورٹی اداروں کے خلاف دہشتگرد تنظیموں کی جوابی کاروائی کاخدشہ مزیدبڑھ نہیں گیااوراس کے تدارک کاکوئی بندوبست کیاگیاہے؟کیاپاکستان کوان حالات میں خطرناک حدتک تک خانہ جنگی کی طرف تودھکیل نہیں دیاگیا؟ اگر امریکی صدر اوبامہ نے فوری طورپراپنی قوم کو خطاب کرکے اعتمادمیں لیاہے توپھرکیاوجہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اپنی قوم کواس تلخ حقیقت سے مطلع کرنے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی؟

کیااب وقت نہیں آگیاکہ اندرونی بحرانوں میں الجھی ہوئی پاکستانی قوم اپنے دشمنوں کوپہچان کران سے اپنی جان چھڑالے اور یہ زحمت ہما رے لئے رحمت بن جا ئے ۔مجھے قطعی یقین ہے کہ ا مریکہ اور ہما رے آستینوں کے سانپوں کے اس شر میں ہما ری خیر کا پہلو ضرور نکلے گا۔اب ضرورت اس امرکی ہے کہ ہمیں اس ڈوبتے جہازکے کپتان امریکہ یا اس کے کسی نمائندے سے گھبرا کر یا نظریں جھکا کر بات کر نے کی ضرورت نہیں بلکہ برملاان سے اب افغانستان سے رخصتی کامطالبہ کرناچاہئے۔

 

 

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *