Home / Socio-political / شریف بمقابلہ سیاسی شرفاء

شریف بمقابلہ سیاسی شرفاء

                      

شریف بمقابلہ سیاسی شرفاء

عباس ملک

میاں صاحب کو ہم سمجھتے تھے کہ وہ انتہائی سیدھے سادھے آدمی ہیں اور ان کے مقابلے میں شہباز شریف صاحب تیز اور وقت کے زیادہ نباظ ہیں ۔ ہمارے مفروضے اور اور چہرے شناسی اور مردم شناسی میاں صاحب کے بیانات پڑھ کر اوندھے منہ گر چکی ہے ۔میاں صاحب کا تازہ بیان جو نظر سے گذرا ہے وہ تو ان کی سادگی کا ثبوت اور عکاس ہے ۔ نہ جانے کس ترنگ میں اور کس کے کہنے پر میاں صاحب نے یہ بیان ارشاد فرمایا کہ پہلی بار حکومت فوج کی چھتری کے بغیر اپنی آئینی مدت پوری کر رہی ہے ۔ ہر صاحب نظر وہوش کو صاف نظرآتا اور معلوم ہے کہ حکومت کن سہاروں کے ساتھ چل رہی ہے ۔ ان میں سب سے بڑا سہارا میاں صاحب خود اور ان کے بعد فوج ہے ۔ نہ حکومت کو میاں صاحب نے کچھ کہا اور نہ فوج نے اس کی طرف ٹیڑھی نظر سے دیکھنا گوارا کیا ۔ حکومت کی آئینی مدت میں اس حکومت کو آئینہ دکھانے کے کتنے مواقع آئے یہ کسی سے بھی مخفی نہیں ۔ اس حکومت نے خود کتنی بار اس بار گرآں سے جان چھڑا کر اسے منتقل کرنے کی کوشش کی یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔ہر ایسا کام کیا گیا اور ہر طریقہ اور حربہ استعمال کیا گیا جس سے حکومت سے خلاصی حاصل ہو ۔ عدلیہ کے خلاف محاذ کس لیے کھڑا کیا گیا ۔ پنجاب حکومت کے خلاف کس لیے پیالی میں طوفان اٹھائے گئے ۔ فوج کو ملک میں مختلف حساس نوعیت کے مقامات پر اپریشن کرنے اور امریکہ کی ناز برادری میں حد کراس کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی ۔ ملک میں بجلی گیس کا بحران کس لیے پیدا کیا گیا ۔ اداروں میں لوٹ مار کس لیے مچائی گئی ۔ بدامنی اور مہنگائی کو بے لگام کیا گیا ۔ اس کے باوجود بھی حکومت کے خلاف اپوزیشن نے بس کھانس کر ہی گذارا کیا ۔ کوئی لانگ تو کیا شارٹ مارچ نہیں ہوا۔ زرداری ٹولے کو ہر طرح سے آزادی دی گئی تاکہ وہ دل کے ارمان اور محترمہ کی جدائی کا غم غلط کر سکیں۔ انہوں نے قاتل لیگ سے لے کر قاتلوں سے مل کر عوام کو خاک و خون کر دیا لیکن پھر بھی کسی نے انہیں اف نہیں کہا ۔ میثاق جمہوریت کو مذاق جمہور کی شکل دے دی گئی پھر بھی ان کی طرف ٹیڑھی انگلی سے بھی اشارہ نہیں کیا ۔ فوج کو بھی کتنی بار با آواز بلند آوازیں دی گئی لیکن انہوں نے خود ہی اس کو شجر ممنوعہ قرار دے کر صرف نظر کی ۔جرنل کیا نی نے تو باقائدہ یہ بیان دیا تھا کہ فوج سیاست سے دور رہے اور تمام فوجی حضرات کو سول اداروں سے واپس یونٹس میں رجوع کرنے کا حکم بھی دیا۔ میاں صاحب کہتے ہیں کہ الیکشن کی ڈیٹ دے دی جانی چاہیے ۔ حضور اب تو مزا آیا ہے ۔ابھی تو ہاتھ رواں ہوا ہے ۔ رموز حکمرانی اب عیاں ہوئے ہیں تو کیسے آپ کہتے ہو کہ اس کو چھوڑ دو۔ یہ سب فرینڈلی اپوزیشن اور میثاق جمہوریت کے نام پر آپ کی طرف سے دی ہوئی چھوٹ کا نتیجہ ہے ۔  اسی طرح فوج کی طرف سے دی گئی چھوٹ نے اس حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع دیا ہے ۔ اس میں فوج کے کردار کی تعریف نہ کرنا چھوٹے پن ہوگا۔ عدلیہ کی طرف سے دی گئی چھوٹ کا ذکر نہ کرنا تاریخ مسخ کرنے کی کوشش ہو گی ۔بڑا پن یہی ہے کہ ہر اس ادارے کی تعریف کی جائے جس نے جمہوریت کی ترویج اور تدوین میں کردار ادا کیا ۔ اس طرح تو یہ ہی ثابت ہوتا ہے کہ زرداری ایسوسی ایشن نے جمہوریت کی ترویج اورتدوین کی ۔ باقی کسی کا کوئی کردار نہیں ۔ جمہوریت کے اس دور کی تکمیل میں اتنے کردار ہیں جو اس سے پہلے کسی کو میسر نہیں آئے ۔ اس کے باوجود اگر ان کے کردار کی تعریف نہ کی جائے اور اس کو تسلیم نہ کیا جائے تو عین ممکن ہے کہ وہ آنے والے دور میں مشکلات کا سبب بننے ۔ میڈیا نے جمہوریت کی تکمیل میں کردار ادا کیا۔ اس نے ہر اس رکاوٹ سے حکومت کو اگاہ کیا جو اس کیلئے مشکل کا سبب بن سکتی تھی یا بن رہی تھی ۔ اس کیلئے مباحثوں میں حکومت کیلئے راہیں تجویز ہوتی رہیں اور ان کی روشنی میں حکومت نے اپنی راہیں متعین کیں ۔ اصل میں یہ ہماری معاشرتی کمزور ی ہے کہ ہم کسی کے کردار کی تعریف کرنے میں کنجوسی کر جاتے ہیں ۔ اس سے دوسرے کی دل آزاری ہوتی ہے اور وہ آنے والے وقت میں اپنا کردار صیح ادا نہیں کرتا ۔ کیونکہ وہ یہ جان چکا ہوتا ہے کہ اس کو اس کا کریڈٹ نہیں دیا جائے گا تو وہ کیوں اپنی توانائی اس میں خرچ کرے ۔یہ بنیادی سبب ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں دلجمعی سے کام نہیں کیا جاتا ۔ کام کارکن کرتا ہے اور کریڈٹ کمانڈ یا لیڈر شپ کو جاتا ہے ۔ ایسے میں کارکن کے جذبات مجروح ہو کر اسے آنے والے وقت میں کمزور کردار کی طرف مائل کرتے ہیں ۔ جس کا کریڈٹ ہے اس کو دینے میں بخل کی عادت ترک کرنی ضروری ہے ۔ عدلیہ اور میڈیا نے حقیقت میں اپوزیشن کا کردار ادا کیا ۔ فوج نے سپورٹنگ رول پلے کیا۔ مسلم لیگ ن نے تحمل اور بردباری سے حکومت کو کار حکومت چلانے کی آزادی دی ۔ یہ حقائق ہیں اور انہیں تسلیم کیا جانا چاہیے ۔فوج نے سول حکمرانوں کو جمہورکے نمائیندے قرار دے کر ان کے احکامات کے تابع رہ کر جو کردار ادا کیا وہ قابل تعریف ہے۔ اس طرح عدلیہ نے حکومت کو آئین اور قانون کے دائرے میں رکھنے کیلئے انتہائی اہم کردار ادا کیا ۔ چیف جسٹس کو اس سلسلے میں کئی طرح کے مسائل بھی درپیش رہے لیکن اس کے باوجود ان کی ثابت قدمی کو خراج عقیدت پیش کیا جانا چاہیے ۔انہوں نے اچھی روایات قائم کی ہیں ۔ ان روایات کو قائم رکھنے کی کوشش کی جانی چاہیے ۔اس کٹے پھٹے معاشرے میں روایات کی طرف پیش قدمی کو سراہا جانا ضروری ہے ۔ اس کیلئے جمہوریت کے پاسداروں کو داد دینی پڑے گی اس عوام کی جن نے انہیں برداشت کیا۔ عوام نے اس جمہوریت کے دور میں جن الام کا سامنا کیا وہ میاں نوازشریف صاحب سے مخفی نہیں پھر کیوں میاں صاحب عوام کے کردار کو سراہنا بھو

ل گئے ۔ خود ستائشی تو اچھی نہیں لیکن میاں صاحب نے باقی کردار نظر انداز کر کے کوئی اچھا قدم نہیں اٹھایا۔ چند لوگ جمہوریت کے ٹھیکیدار قرار دینے سے دوسروں کی حق تلفی ہوئی ہے ۔میاں صاحب کو فکر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ جمہوریت کے پاسداروں کے ہاتھ میں عنان حکومت ہے ۔ اب الیکشن بھی وقت پر ہونگے اور انتہائی شفاف اور کسی بھی دھاندلی سے مبرا و پاک ہوں گے ۔عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی کے مصدق خالی بیانات سے کچھ نہیں ہوتا ۔ عمل کرنا پڑتا ہے ، قربانی دینی پڑتی ہے اور ایثار کی مثالیں قائم کرنی پڑیں گی ۔ لیڈر شپ جب تک خود ستائشی اور خود نمائی سے پرہیز نہیں کرے گی اس وقت تک معاشرے میں کسی بھی طرح کی ترقی کے اثرات ہرگز اثر انداز نہیں ہونگے ۔شریف لکھ دینے  سے شرافت کے اثرات معاشرے میں نفوذ نہیں کرتے بلکہ شرافت کا عملی مظاہرہ کرکے ثبوت دینا پڑتا ہے ۔اس سے مثال قائم ہوتی ہے اور پھر کوئی اور اس مثال پر عمل کرتا ہے اور یوں دیکھا دیکھی اس کی ترویج ہوتی ہے ۔تدوین کرنے کیلئے تھوڑی سی ہمت کی ضرورت ہوتی ہے ۔  ابھی وقت ایسی امثال قائم کرنے کا ہے جس معاشرے کے کٹاؤ میں کمی آئے نہ کہ اس میں مزید کٹاؤ پیدا ہو۔ سیاست کو کھیل اور کاروبار بنانے کی بجائے اس کو ایک مشن اور عبادت کا درجہ دیا جائے ۔ عبادت اور مشن میں کوئی جھوٹ ، فریب ، دغابازی ، فریب کاری دھوکہ دہی اور پاسداری عہد سے ہٹنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔ سیاستدان جو جلسے اور جلوسوں میں کہتے ہیں اس کی عملی تصویر بھی پیش کریں ۔ جمہوریت کی تدوین اور ترویج کے بعد تکمیل کے مراحل بھی آسان ہو جائیں گے۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *