Home / Socio-political / شکاری

شکاری

سمیع اللہ ملک، لندن

دنیا امن و سلامتی کی آرزومند ہے ‘کم سے کم زبان سے تو سب اسی امن اور سلامتی کے دعویدار ہیں لیکن اس امن و سلامتی کی ایک شرط ہے ایک بنیاد ہے اگر یہ شرط پوری نہ ہو اور یہ بنیاد میسر نہ آئے تو ہماری اس انسانی دنیا کا امن اور سلامتی فقط ایک دعویٰ اور خالی آرزو ہی رہے گی۔وہ شرط اور بنیاد عدل و مساوات ہے ۔جب تک عدل و قائم نہ ہو اور سب کے ساتھ برابر کاسلوک نہ ہوسکے تو امن و سلامتی کا دعویٰ بھی جھوٹا ہے اور اس کیلئے آرزو بھی خام خیالی ہے کیونکہ امن و سلامتی سے پہلے عدل و مساوات ضروری ہے اور عدل و انصاف کے بغیر قیامِ امن نا ممکن ہے۔

سوئے اتفاق اور بد قسمتی سے دنیا میں تصادم کی فضا ہے ‘ظلم و نا انصافی ہے اور سب سے یکساں سلوک مفقود ہے۔یہ بھی عجب ستم ظریفی ہے کہ یہ ظلم اور ناانصافی صرف مسلمانوں سے روا رکھی جا رہی ہے ۔ظالمانہ تصادم کی فضا کا عملی شکار بھی مسلمان ہیں۔اس سے بھی عجیب ترین بات یہ ہے کہ اس تصادم اور ظلم و فساد کی جڑ بھی مسلمانوں کو ٹھہرایا جا رہا ہے اور عجیب ترین بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے یہ کیفیت چپ چاپ برداشت کر لی ہے ‘کم سے کم دنیا بھر کے مسلم حکمران تو بالکل چپ ہیں‘اس پراحتجاج بھی نہیں کر رہے جیسے کچھ دیکھتے نہ ہوں ‘جیسے کچھ سمجھتے نہ ہوں۔اس المناک صورت حال کا سبب یہ ہے کہ یہاں عوام اور حکمرانوں کے درمیان وسیع خلیج حائل ہے ۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے یہ حکمراں اسلام مخالف قوتوں کے رحم و کرم پر ہیں اور عالمِ اسلام ظالم لٹیروں کی زد میں ہے۔

اگر صحیح جمہوری فضا ہوتی تو دنیا بھر کے مسلم عوام اور اسلامی دنیا کی یہ حالت نہ ہوتی۔ آج بھی اگر مسلم عوام اوران کے حکمراں متحد ہو کر اس امتیازی سلوک کے خلاف زوردار آوازیں اٹھائیں تو یہ فضا بدل سکتی ہے ۔امن و سلامتی کے جھوٹے دعویدار اپنی اپنی قوم کے سامنے رسوا ہو کر بے اثر ہو سکتے ہیں کیونکہ حسنِ اتفاق سے ان کے اپنے اپنے ملک کے عوام جمہوری قوتوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اور یہ عوامی جمہوری قوتیں جس طرح اپنے جھوٹے حکمرانوں کو برداشت نہیں کرتیں ‘وہ پسماندہ قوموں سے ظلم وناانصافی اور ڈبل معیار کی بھی مخالف ہیں اس لئے ضرورت ہے کہ اسلامی دنیا کے عوام دنیا کے جمہوری عوام تک رسائی اور ربط کی صورت پیدا کریں تو پھر وہی ہو سکتا ہے جو عراق میں بش اور ٹونی بلیئر کے ساتھ ہوا۔

گو عراق ابھی تک آزاد نہیں ہوا لیکن عراقی عوام آزاد ہو گئے ہیں کیونکہ انہوں نے ظلم کو مسترد کردیا ہے اور ان کی اور ان کے قاتل کی حقیقی صورتحال دنیا کے جمہوری عوام تک پہنچ گئی ہے جو اپنے حکمرانوں سے حساب لے سکتے ہیں اور لیتے ہیں۔اگر آپ کی نظر تاریخ پر ہے تو آپ محض مسلمان ہونے کے سبب اس ظالمانہ تہمت اور تصادم سے بچ بھی سکتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ پر جارحانہ چڑھائی سے صلیبی جنگوں کا آغاز کس نے کیا بلکہ یہ بھی کہ یہ کس نے کروایا؟چارسوسال تک انسانیت کا خون پانی کی طرح بہتا رہا جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی ‘مال لوٹا گیا ‘ملک چھینے گئے ‘یہ سب سلوک مسلمانوں سے تھا اور یورپ کے صلیبیوں نے کیا تھا ۔پہلی اور دوسری عالمی جنگیں کس نے شروع کیں ؟پرانے سامراجیوں نے ۔ آج یہ ظالمانہ تصادم کی فضا کس نے پیدا کی؟آج کے نئے سامراجیوں نے۔مگر یہ سب کچھ کس نے کرایا؟مسلمانوں کے اصلی دشمن یہودیوں نے ‘جی ہاں!خفیہ و سیہ کاریوں میں یہودیوں کا جواب نہیں۔

یقین نہیں آتا تو دیکھ لیجئے ہٹلر کے آنے تک مسیحی دنیا خصوصاً یورپ یہودیوں کا دشمن تھا‘ان سے نفرت کرتا تھا ‘اپنے معاشرے سے انہیں نکال باہر کرنا چاہتا تھا۔دونوں عالمی جنگوں میں اگر سود خوروں کے قرضے نہ ہوتے تو یہ جنگیں ایک قدم بھی آگے نہ بڑھ سکتی تھیں ۔سودی کاروبار کس کے پاس تھا؟انہی یہودیوں کے ہاتھ میں۔دونوں جنگوں میں لگنے والے یہودی سرمائے نے مغرب کو پنجہٴ یہود میں جکڑ دیا تھا۔دوسری عالمی جنگ سے اور بعد کے حالات سے تو ساری دنیا سود کے جال میں پھنس گئی ہے اور یہ جال یہودیوں شکاریوں کے ہاتھ میں ہے!

گزشتہ صدی کے دوران سود خوروں نے سودی پیسے سے مسلمان حکمرانوں کو خریدنا چاہا تھے مگر منہ کی کھائی ‘یہی پیسہ مغرب کے حکمرانوں کوجکڑنے کیلئے دیا گیا ۔پہلے یورپ کو پھر امریکا کو‘چنانچہ آج سب پنجہ یہود میں ہیں لیکن یہودی و سیہ کاری ملاحظہ ہوکہ وہ انہی پرانے اور نئے سامراجیوں سے مسلمانوں کوپٹوا رہا ہے اور مسلمان سوتے رہے یا سلادیئے گئے ‘ آج بھی سو رہے ہیں یا سلائے جا رہے ہیں ۔اسلام اور مسلمانوں سے یہودی عداوت اور حسد ایک فطری ردعمل ہے ۔اس عداوت اور حسد کی ایک لمبی تاریخ ہے جو طویل بھی ہے اور تلخ بھی۔ایک وقت تھا جب مکہ اور عرب کے تمام بت پرست اور یہودی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف متحد تھے ‘آج بھی متحد ہیں ‘پہلے مشرکین مکہ اور یثرب و خیبرکے یہودی اسلام کے خلاف متحد تھے۔آج بھی تل ابیب اور نئی دہلی نے ایک مدت کے بعد ایک دوسرے کو پہچان لیا ہے ۔پہلے اتحاد خفیہ تھا لیکن ایڈوانی اور شیرون نے اسے ایک کھلی حقیقت بناکر مسلمان دنیا کو پیغام دیا ہے کہ کہ کل بھی دونوں کا دشمن مشترک تھا اور آج بھی مشترک ہے۔

اس اشتراک ‘عداوت اور حسد نے یہودو ہندو کو مسلمانوں کے خلاف ایک بنا رکھا ہے ۔یہود و ہنود دونوں کی خواہش ہے کہ نئے اور پرانے سامراجی انہیں تعاون کیلئے اپنے مہرے بنائیں تو خونِ مسلم میں ہاتھ رنگ کر من کو شانتی ملے اور لوٹ مار میں سے کچھ حصہ بھی ملے مگر قدرت نے نئے سامراجیوں کو ننگا کر دیا ہے اور امریکا اور مغرب کے جمہوریت پرست عوام انہیں تاریخ کی گمنامی میں دھکیل رہے ہیں مگر یہ یہود و ہنود اب بھی نہیں بدلے ۔وہ عدل و انصاف کی ہر آواز پر تلملا اٹھتے ہیں ‘وہ ہر صورت میں کچھ نہ کچھ لے مرنے کی فکر میں رہتے ہیں کہ فلسطین اور کشمیر میں کسی نہ کسی بہانے مسلمانوں کا خون بہاتے رہیں۔

مسلمانوں کیلئے یہ موقع ہے کہ مغرب کے امن پسند اور انصاف کے داعی تنظیموں سے اپنا رابطہ ازسرِ نو مرتب کریں۔اسی خدشے کے پیشِ نظر مسلم ملکوں کیلئے داخلی‘علاقائی اور عالمی مسائل پیدا کرکے الجھانے کی سر توڑ کوشش موجودہ و سیہ کاری اور خفیہ سازش کا حصہ ہے ۔صہیونیوں کو پہلے خطرہ صرف پاکستان کے ایٹمی اسلحے سے تھامگر اب تازہ خطرہ ایران سے ہے۔اگر عراق میں شیعہ اکثریت کے حق کو تسلیم کر لیا جاتا ہے تو اس سے ایران کو یقیناتعاون اور فائدہ ہو گا اور اس سلسلے میں اس نے ایک طرف عرب ممالک کو ممکنہ ایرانی خطرے کے پیش نظر اس خطے کے مسلمانوں کی حمائت حاصل کرنے کی کوشش شروع کر رکھی ہے لیکن عراق میں مسلمانوں کے تمام دھڑے صہیونی سازشوں سے باخبر ہو گئے ہیں اور ان کی یہ پالیسی بظاہر ناکام ہو گئی ہے۔

عراق میں مسلمانوں کے تمام دھڑوں کے اس اتفاق نے صہیونی طاقتوں کو از حد پریشان کر رکھا ہے۔اس علاقے میں مسلمانوں کا اتحاد کل فلسطین کی آزادی کا سبب بھی بن سکتا ہے اور کشمیر کو بھی بھارتی ظالم ہندو استبداد سے بھی نجات مل سکتی ہے۔صہیونی تو اس علاقے میں اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتے ہیں اور اسی طرح وہ ساوٴتھ ایشیا میں ہنود کی بالادستی میں ان کی مدد کررہے ہیں اس لئے اب ضروری ہو گیا ہے کہ مسلمان عالمی امن پسند قوتوں سے رابطہ قائم کرکے یہود و ہنود کے ان ناپاک ارادوں کو ناکام بنادیں۔

ساوٴتھ ایشیا میں لالہ لبھورام کشمیر میں وہی کھیل کھیل رہا ہے جو اسرائیل کا جنونی دہشت گرد فلسطین میں کھیل رہا ہے ۔آزادی مانگنے والا ہر کشمیری بھارت کے نزدیک پاکستان کا ایجنٹ ہے اس لئے اسے سات لاکھ فوج مارنے میں حق بجانب ہے ۔پاکستان کے حکمراں تو اقتدار کی کرسی کیلئے کشمیریوں کی ہر قربانی کو پس پشت ڈالتے ہوئے بھارت کے ساتھ مذاکرات کیلئے انتہائی بے چین نظر آتے ہیں جب کہ بھارت انتہائی مکاری اور ہوشیاری کے ساتھ پاکستان کو دباوٴ میں رکھنے کیلئے اصل مسائل پر مذاکرات کرنے کی بجائے دوسرے مسائل میں پاکستان کو الجھا رہا ہے۔لیکن کشمیری اب اس بات سے آگاہ ہو چکے ہیں کہ اگر افغانستان جیسا ملک دنیا کی سب سے بڑی سپر طاقت اور اس کے اتحادیوں کو شکستِ فاش پر مجبور کر سکتا ہے تو بھارتی بنیاتو اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔کشمیریوں نے اپنے خون کے ساتھ جو حریت کی داستانیں رقم کی ہیں اور اپنی آزادی کی خاطر جو بیش بہا قربانیاں دی ہیں ‘وہ کبھی رائیگاں نہیں ہو سکتیں اور وہ دن بہت قریب ہے جب کشمیری اپنی اس فصل کو آزادی کی نعمت میں وصول کرکے رہیں گے انشاء اللہ!

 

 

 

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *