Home / Socio-political / شکاگو کانفرنس اور پاکستان

شکاگو کانفرنس اور پاکستان

شکاگو کانفرنس اور پاکستان

امریکہ میں افغانستان میں نیٹو افواج سے متعلق ایک  بڑے اجلاس کا منعقد ہونا اور اس میں پاکستان کو آخری وقت میں ہزار کاوشوں کے بعد دعوت دیا جانا اپنی کہانی آپ سناتا ہے۔ پاکستان جو افغان مسئلے پر ایک فریق کی حیثیت رکھتا ہے اور وقتاً فوقتاً اس کا دعوی بھی کرتا ہے اسے اس طرح نظر انداز کرنے کی وجوہات پر غور کریں تو ان کی ایک طویل فہرست ہمارے سامنے آ جاتی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ پاکستان میں مضبوط حکومت کا نہ ہونا ہے۔ نیٹو کی سپلائی لائن بند کرنے کا ہی اگر واقعہ لیں تو یہ قضیہ بھی پاکستان کی  کمزور اور لچر خارجہ اور داخلہ پالیسی کی نشاندہی کرتا ہے۔ سلالہ پوسٹ پر حملے کے بعد ہی پاکستان نے سپلائی لائن بند کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن پاکستان میں دفاع پاکستان اور دوسری طاقتوں کے ذریعے یہ کوشش  سانحہ ایبٹ آباد کے بعد ہی شروع ہو گئی تھی۔ حکومت دباو میں آ بھی گئی اور سپلائی لائن بند کرنے کی ابتدا میں ہی ایسے ایسے بیانات دئیے گئے جو جو سفارتی پختگی سے عاری تھے۔ خاص کر وزیر دفاع چودھری احمد مختار نے ابتدا میں کئی بیانات دئیے جو بہت سخت تھے لیکن اب جو بیان دے رہے ہیں وہ اتنے ہی نرم  ہیں۔  اب حکومتی کابینہ میں بیٹھے ہوئے لوگ عوام کو اس بات پر قائل کرنے میں لگے ہیں کہ پاکستان اس رد عمل کا متحمل نہیں ہو سکتا جو نیٹو سپلائی بند کرنے کی صورت میں ساری دنیا کی طرف سے آئے گی جب کہ یہی قائدین ابتدا میں ٹی۔ وی چینلوں پر چیخ چیخ کر کہتے تھے کہ ہمیں کوئی پروا نہیں ہے کسی کی مخالفت کی اور اب ہمیں کشکول توڑ دینے چاہئیں۔ بات اس کی نہیں ہے کہ کس نے کیا کہا، بات یہ ہے کہ کیوں کہا۔ جواب صرف یہ ہے کہ پاکستان میں کبھی بھی کوئی واضح داخلہ یا خارجہ پالیسی نہیں رہی ہے اس کی وجہ کچھ تو فوجی آمریت کا بار بار پاکستان پر مسلط ہونا ہے اور زیادہ وہاں کے قائدین کی لوٹ کھسوٹ کی پالیسی ہے۔ اس ملک کے آئین کی دوسرے کیوں عزت کرنے لگے جب اس ملک کا وزیر اعظم یہ کہتا پایا جاتا ہو کہ وہ قانون شکنی کا مرتکب ہو سکتا ہے لیکن آصف علی زرداری کے خلاف خط نہیں لکھ سکتا۔ دراصل یہ باتیں بہ نظر غائر صرف داخلی امور سے متعلق لگتی ہیں لیکن حقیقتاً یہ باتیں خارجہ امور کو بھی اسی قدر متاثر کرتی ہیں۔  اس وجہ یہ ہے کہ جب عوام کا ذہن ان کی بنیادی ضروریات سے ہٹا کر ان کی دفاع اور قومی وقار کے پروپیگنڈہ کی طرف موڑا جائے گا تو اس کی قیمت وہی ہوگی جو پاکستان کو چکا رہا ہے۔ شکاگو کانفرنس میں صدر آصف علی زرداری کی باڈی لینگویج بتا رہی تھی کہ وہ سبکی محسوس کر رہے ہیں۔ ان کو وہ اہمیت نہیں مل رہی ہے جو انھیں ملنی چاہئے۔ خاص کر ایک ایسی کانفرنس جس میں پاکستان کا بہت کلیدی کردار ہونا چاہئے اور جس کے اعلان سے قبل پاکستان سے کئی سطح پر بات ہونی چاہئے اس کانفرنس میں پاکستان کے صدر کو امریکی صدر ملاقات تک کا وقت نہیں دیتا یہ پاکستان کی کمزور خارجہ پالیسی کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ آج نہیں تو کل نیٹو سپلائی کو کھلنا ہے اور وہ کھل جائیگا لیکن اس دوران پاکستان کو جو نقصان پہونچا ہے اس کی تلافی کبھی بھی ممکن نہیں ہوگی۔  یہ وقت پاکستان کے لئے خود احتسابی کا ہے کہ وہ اپنی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں پر نظر ثانی کرے اور اپنے طویل المدتی مفادات کی حفاظت کرے نہ کہ صدر زرداری کی۔ اپنے وسائل کو اپنے لوگوں پر خرچ کرے تاکہ غریب عوام کو مذہب اور کشمیر کے افیم کی ضرورت نہ  ہو۔ جب پاکستان مستحکم اور پر امن ہوگا تو ساری دنیا اس کی بات سنے گی اور تب اس کے مسائل بھی بہتر طور پر حل ہو پائیں گے۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *