Home / Socio-political / شہادت محتاج تمغہ نہیں

شہادت محتاج تمغہ نہیں

                       

شہادت محتاج تمغہ نہیں
                  عباس ملک

شہید چوہدری اسلم ایس پی سی آئی ڈی کے شہادت کی خبر میں انہیں اردو اخبارات نے شہید لکھا اور کچھ انگریزی اخبارات میں انہیں ہلاک لکھا گیا۔ یہ انگلش اور اردو میڈیا کا تضاد ایک ملک اور ایک ہی پریس گروپ پبلکیشن میں دیکھنے میں آیا ۔ ایک ہی پبلیکیشن گروپ جو اردو اور انگریزی میں اخبار چھاپ رہا ہے وہ اردو میں انہیں شہید لکھ رہا ہے اور انگریزی میں انہیں ہلاک قرار دے رہا ہے۔ مجھ سے سوال کیا تو میں نے جواب دیا کہ بھائی چونکہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے اس لیے اس وہ مسلمانوں کے نزدیک شہید ہیں جبکہ انگریزی چونکہ دیا ر غیر اور غیر مسلم اقوام کی زبان ہے اس لیے اس میں شہادت نہیں پائی جا سکتی ۔ میڈیا کا یہ دوہرا کردار میڈیا کی توقیر کم کر رہا ہے۔ پہلے اخبار میں جو خبر چھپتی تھی تو وہ لوگوں کیلئے ایسی ہی سچی قابل یقین اور باعث اعتبار ہوتی تھی جیسے حدیث یا قرآن پاک کا کوئی حرف ہو(اللہ پاک معاف کرے صرف استعارتی طور پر یہ لفظ استعمال کر رہا ہوں )۔ میڈیا اپنا اعتبار اور وقار دونوں کھو رہا ہے۔ عوام کو خبر پڑھ کر بھی یقین نہیں ہوتا کہ یہ سچ ہے وہ اب گومگو کی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں ففٹی ففٹی والا معاملہ ہوگا۔ پاکستان میں اب ففٹی ففٹی کا تصور بہت راسخ ہوچکا ہے۔ جہاں چلے جائو ففٹی ففٹی کے طنزیہ خاکے منتظر ہوتے ہیں۔

 چوہدری اسلم شہید کے حوالے سے مقصود یہ تھا کہ میڈیا اچھے لوگوں محب الوطن لوگوں اور عوام معاشرے اور وطن کی خاطر قربانی دینے والوں کو بہت جلد ہی پرانی خبر بنا دیتا ہے۔ میڈیا ہی ایسا زریعہ ابلاغ ہے جو لوگوں کے اند ر سچائی اور اچھائی و استقامت کی روح پیدا کرنے میں بنیادی کردار ادا کر سکتا ہے۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ چوہدری اسلم جیسے کرداروں کو زندہ رکھے ۔اعتزاز حسن شہید جیسے طالبعلم کے جذبے کو دھرتی کے شانوں پر افتخار کی علامت میڈیا ہی بنا سکتا ہے۔ میڈیا میرا اور وینا ملک اور انڈین وانگریز اداکارئوں کی تو رنگین تصویریں شائع کرتا ہے لیکن ان وطن کے سجیلے جوانوں کے رنگین خون کی مقدس تصویریں کالی ہوتی ہیں۔ ان کے شب وروز سے باخبر عوام کو ان کے بارے میں ان کے جذبوں سے آشنا کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی ۔

حکومت پاکستان نے شہید کے ساتھ انتہائی قابل احترام سلوک اپنا کر ایسے جذبوں کو تقویت دی ہے۔ خوشی ہوئی کہ اس دھرتی کے بیٹے کو سلامی دینے کیلئے ا فواج پاکستان کے سربراہ وزیراعظم وصدر پاکستان کے نمائیندے موجود تھے ۔ ان کے پسماندگان کیلئے جو اعلانات کیے گئے ہیں وہ اعلانات نہیں بلکہ عملا ابھی تک ان کی شریک حیات تک پہنچ جانے چاہیں تھے۔ اعتزاز کے لیے تمغہ شجاعت کا اعلان وزیر اعظم کا بہت ہی بروقت فیصلہ ہے۔ میاں صاحب نے دہشت گردوں کے سامنے چھاتی تان کر کھڑے ہونے والے اس بچے کی جرآت کو سرکار ی اور قومی سطح پر تسلیم کر کے اس قوم میں حب الوطنی کے مرتے ہوئے جذبے کو نئی روح عطا کی ہے۔ اس بچے کو تمغہ شجاعت دینے کا اعلان کرنے کے ساتھ ہی اس کے اعزاز میں تقریب منعقد کر کے یہ تمغہ شہید کو پیش کرنے میں تاخیر اس کی اصل مقاصد کو مجروح کرے گی۔ شہید اعتزاز کیلئے مالی امداد بھی ضروری ہے کہ وطن اور دھرتی کیلئے جان قربان کرنے والوں کو یہ نہ سوچنا پڑے کہ ان کے پسماندگان کا کیا ہوگا ۔ اس تصور کو راسخ کیا جائے کہ وطن اور دھرتی کیلئے گرنے والا خون ٹھنڈا ہونے سے پہلے قوم اس کو اپنے جان ومال سے خراج عقیدت پیش کرنے میں کوئی تامل نہیں کرے گی ۔ اگر ان شہیدوں نے وطن کی خاطر جان کا نذرانہ دینے میں تامل اور دیر نہیں کی تو انہیں ان کا حق دینے میں تامل اور تاخیر ان کے جذبوں اور انکی قربانی کی توہین کرنے کے مترادف ہے۔ اس کیلئے 23مارچ یا 14اگست کا دن آنے کا انتظار غلط سوچ ہوگی۔ ان کی شہادت دن یا مہینوں کی محتاج نہیں ستائش وتقلید کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے وقت اور گھڑیا ں نہیں بلکہ فوری طور پر ان کی قربانیوںکو تسلیم کرنے اور قومی سطح پر قوم کی طرف سے انہیں خراج عقیدت پیش کرنے میں کوئی تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔

معاشرے میں بڑھتی گھٹن سے وطن پرستی کے جذبات میں سردمہری آرہی ہے وہیں پر انسانیت اور اخلاقیات کی قدریں بھی گہنا رہی ہیں۔ جمہوری حکمران جمہوریت کے ثمرات کا فیض عوا م تک پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے۔ جمہوریت اور آمریت کے ادوار کا معاشی تناسب سے موازنہ کیا جائے تو آمریت کے اداوار میں جمہوریت کے پاسدار ادیبوں شاعروں صحافیوں کو چھوڑ کرسب کے سر کڑاہی اور پانچوں گھی میں رہی ہیں ۔آمریت کے دور میں عوام کو اتنی معاشی ومعاشرتی مشکلات کا سامنا نہیں رہا جتنا انہیں جمہوری ادوار میں ہے۔ عوام سیاستدانوں کے واویلا و دہائی پر آمریت کے خلاف سر اٹھائیں تو یہ سیاستدان اپنے جلسے جلوسوں میں شامل خلق خدا پر فخر کرتے ہیں۔ جب یہی عوام اپنے کسی حق کی عدم دستیابی پر اسی سیاستدان کے دور حکمرانی میں سر اٹھائے تو باغی کہلاتے ہیں۔ سیاستدانوں کی یہ سیاست عوام کو چکی کے دو پاٹوں میں رکھ کر پیسنے کے مترادف ہے۔جب عوام کو بجلی پانی گیس کی عدم دستیابی پر سابقہ حکومت کے خلاف احتجاج کیلئے موجود ہ حکمران باہر آنے کیلئے برابر مجبور کر رہے تھے تو اس وقت تو یہ عوام کاحق تھا لیکن اب جب عوام نے اس حق کیلئے آوازبلند کی تو یہ حکمرانوں کی عزت وانا مجروح ہونے کا مسلہ کیوں بن گیا ہے۔

اسی سوچ وطرز عمل کے سبب ملک اور معاشرے پر جان دینے والے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ انہیں معلوم ہے انکی قربانی کو خراج عقیدت کی بجائے احمق قرار دیا جائے گا۔ صداء حق کو خاموش کرانے کیلئے گماشتوں کے دھمکی آمیز فون پیغامات اعیال کو ہراساں کرنے کی بلیک میلنگ سے عوام کی آوازبلند کرنے والوں کو خاموش کرنے میںپہلے کب کامیاب ہوئے جو آج کے حکمران اس کیلئے کوشاں ہیں۔ چوہدری اسلم اور اعتزاز چلا گیا تو کیا حق کی شمع بجھ گئی اور اس ملک وقوم کیلئے جان کی بازی لگانے والے ختم ہوگئے ۔ ایک چراغ کیا بجھا سو چراغ جل اٹھیں گے۔ دہشت گرد طالبان ہوں یا حکمران یاانکے گماشتوں کی طرف سے عوام پر مسلط کی جانے کی کوشش ہر دور میں چوہدری اسلم او راعتزاز جیسے محب اور حق کے پیروکار وں کو خود کے سامنے فولادی دیوار موجود پائیں گے۔ ملک اشرافیہ کیلئے ہی تو نہیں بننا اس پر عوام کا بھی حق ہے۔ عوام کو زندگی کی نعمتوں سے فیض یاب ہونے کا حق دیا جائے۔ اشرافیہ کی جنت اور عوام کیلئے جہنم بنانے کا اقدامات جمہوریت کے دامن پر داغ بن چکے ۔ یہ داغ مٹانے کیلئے ضروری ہے کہ عوام پر عوامی دور میں حقوق کی صدا بلند کرنے پر پولیس تشدد کی روایت ترک کی جائے ۔ عوام کو اپنے حقوق کی صدا بلند کرنے سے جبرا روکنا اور ان پر تشدد آئین اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

عوا م کو حقوق کیلئے آواز بلند کرنے کا آئینی اورقانونی حق دینے میں تامل جمہوریت اور جمہوریت کے نام لیوائوں کیلئے حزر جان کیوں ہے ۔ نام تو شیطان فرعون ویزید کا بھی زندہ ہے لیکن معلوم تو ہو گا کیسے لیا جاتا ہے۔ زرداری نے بھی حکومت کی اور آپ بھی کر رہے ہو نام اس کا بھی لیا جاتا ہے اور نام آپ کا بھی لیا جائے گااور جا رہا ہے۔ وقت کسی کا ساتھ نہیں دیتا وقت کا ساتھ دینا پڑتا ہے اور پڑے گا گر تو زندوں میں ہے ۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *