اسلامی سال کاآغازماہ محرم الحرام سے ہوتاہے۔امم سابقہ میں بھی اس کوماہ معظم سمجھاجاتاتھااور آج بھی ماہ ِمحرم کی عظمتوں سے کسی کوانکارنہیں اورخصوصاً یوم عاشورہ محرم کی دس تاریخ توملت اسلامیہ کاناقابل فراموش دن ہے گواس کی وجہ تسمیہ میں علماء کا اختلاف ہے اوراس کی وہ مختلف توجیہات بھی بیان فرماتے ہیں ۔بعض کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے جوبزرگیاں دنوں کے اعتبار سے امت محمدیہ کوعطاکی ہیں اس میں یہ دن دسویں بزرگی کاہے اوربعض کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرب انبیاء پر مختلف انعامات اسی دن فرمائے! اس حدیث سے یومِ عاشورہ کی اہمیت قدرے واضح ہوجاتی ہے کہ:
سیدناابی عباس رسول اکرم ﷺسے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عاشورہ کے دن آسمانوں زمینوں اور پہاڑوں کو پیدا فرمایا ‘حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق بھی اسی دن فرمائی‘حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ بھی اسی دن باریاب ہوئی‘اسی دن ان کو جنت میں داخل فرمایاگیا۔سیدنا ابراہیم خلیل اللہ بھی اسی دن پیدا ہوئے‘ اوران کے بیٹے کافدیہ قربانی بھی عاشورہ کے دن دیا گیا ۔ فرعون کوبھی اسی دن دریائے نیل میں غرق کیاگیااورحضرت ایوب علیہ السلام کی تکلیف بھی اسی دن دورفرمائی گئی ۔ حضرت داوٴد علیہ السلام کی لغزش بھی یوم عاشورکومعاف فرمائی گئی اورحضرت عیسیٰ علیہ لسلام ابن مریم کی ولادت بھی اسی دن ہوئی اورقیامت بھی یوم عاشورہ کے دن ہی واقع ہوگی(غنیة الطالبین)
اسلامی سال اس جانبازانسان کی شہادت سے بھی شروع ہوتاہے جس نے۲۲لاکھ ایکڑ وسیع وعریض خطے پراسلامی حکومت قائم کی،جواپنے دورمیں راتوں کواٹھ کراپنی رعایاکی خبرگیری کرتاتھا،جس کے قدموں کی آہٹ سن کرشیطان میلوں دوربھاگ جاتاتھا،جوحکمران ہونے کے باوجودبھی سوکھی روٹی کھاتا تھا اور جس کے خوف سے کفار کوہمت نہ تھی کہ اسلامی ریاست میں کسی کوبیجاتنگ کرسکتے،جن کورسول اکرم ﷺ نے اسلام کی تقویت کیلئے اللہ سے خصوصی دعاکرکے مانگا وہ اسلام کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر ہیں جن کے بارے میں یہ ارشاد ہوا کہ میرے بعداگرکوئی نبی ہوتاتوحضرت عمر ہوتے ،جن کے بارے میں مشہورعیسائی موٴرخ نے یہ لکھاکہ اگر ایک اورعمر ہوتا تو دنیاسے کفرکاخاتمہ ہوجاتا، جنہیں یکم محرم ۲۴ھ کوایرانی نژادغلام فیروزلولونے نماز کی حالت میں خنجرکے وارکرکے شہیدکر دیاتھا۔
لیکن پاک وہنداورچنداسلامی ممالک میں محرم الحرام کی ان تمام عظمتوں کے علاوہ اس کی وجہ تسمیہ شہادتِ حسین بھی ہے بلکہ اس عظیم واقعہ کی چھاپ ہماری اسلامی تاریخ پراس قدرزیادہ ہے کہ اس کے علاوہ اب عملاً ہمارے لئے کسی اور واقعے کی اتنی اہمیت ہی نہیں رہی اورنہ ہی ہم اس سے واقف ہیں۔شہادت حسین حق کی ایسی تصویرکی نشاندہی کرتی ہے کہ اس کے مقابلے میں اس دن کی دوسری عظمتوں کانہ توہم ذکرکرتے ہیں اورنہ ہی اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔
اسلام کی روح یہ ہے کہ وہ ناحق اورباطل کے سامنے سرکٹادے لیکن ہرگزاس کو جھکنے نہ دے‘اس عظیم عمل کوشہادت کہتے ہیں اوراس شہادت کی اعلیٰ ترین مثال اورتکمیل کانام بلاشبہ”شہادتِ حسین‘ہے جنہوں نے چھ ہزارکے لشکرکے سامنے عام روایت کے مطابق بہتر(۷۲) مجاہدوں کے ساتھ ٹکرلی اوران ظالم حکمرانوں کے سامنے سرجھکانے کی بجائے لڑکراپنی جاں جانِ آفریں کے سپردکردی۔یہی وہ کردارہے جس کی بناء پرہم یوم عاشورہ کی یادمناتے ہیں۔لیکن تاریخ کے جھروکوں کوبغوردیکھیں توہمیں حضرت حسن اورحضرت حسین علیہم السلام دومختلف قسم کے طریقہ کارکی علامت نظر آتے ہیں۔ہمیں جہاں حضرت حسین سیاسی طریقہ کارکے علمبردارنظرآتے ہیں وہاں حضرت حسن غیرسیاسی طریقہ کار کی حکمت کے میناردکھائی دیتے ہیں ۔ حضرت حسین نے حاکم وقت کے ساتھ جنگ کرکے جو سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی وہاں یہی مقاصد امام حسن نے جنگ کے میدان سے واپسی کے ذریعے حاصل کئے۔اس اہم اورلظیف فرق کوسمجھنے کیلئے ہمیں تاریخ کی اس تصویرکے ہرپہلو کو بڑی ایمانداری سے دیکھناہوگااوران تاریخی واقعات کوسامنے رکھ کران عظمتوں کے مینارہٴ ہدائت کواپنی قوموں کی زندگی کیلئے مشعلِ راہ بناناہوگا۔
تاریخ سے ہمیں پتہ چلتاہے کہ مکہ میں قدیم زمانے سے قریش کے دوخاندان بنوہاشم اوربنوامیہ آبادتھے اوران میں خاندانی رقابت بھی چلی آرہی تھی۔لیکن جب بنوہاشم کے ایک فرزندنے نبوت کادعویٰ کیاتومخالفت میں بنوامیہ سب سے آگے تھے۔لیکن فتح مکہ(۸ھ)کے بعدعرب کے دوسرے قبائل کی طرح بنو امیہ بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے اورعہدرسالت میں اورخلافتِ راشدہ میں بنوامیہ کے لائق افراد نے مختلف اسلامی عہدے بھی حاصل کئے جس کی ایک درخشاں مثال حضرت عثمان ابی عفان ہیں۔اس دورمیں(۲۵ھ تا ۳۵ ھ )میں بنوامیہ کااثرورسوخ تمام دوسرے قبائل سے کہیں زیادہ ہوگیا۔اس کے بعد جب حضرت علی ابن طالب کاانتخاب بطورامیرالمومنین ہواتواس وقت بنوامیہ نے محض شہادت عثمانکے مسئلہ کو بنیادبناکرپہلے ہاشمی خلیفہ کے خلاف پرانی رقابت کوازسرنوزندہ کردیاجس کی وجہ سے حضرت علیکرم اللہ وجہہ کاپورازمانہ خلافت(۳۵ھ تا۴۰ھ)باہمی خانہ جنگیوں اورشورش میں گزرا‘اورآخراس کی انتہاء ایک جنونی عبدالرحمان ملجم کے ہاتھوں شہادت کے ذریعے ہوئی۔
حضرت علی کی شہادت کے بعدآپ کے لختِ جگرحضرت حسن کے ہاتھ پرخلافت کی بیعت ہوئی ۔اس وقت صورتحال یہ تھی کہ صرف عراق اورخراسان کی خلافت امام حسن کے حصے میں آئی جبکہ شام ‘فلسطین‘یمن‘حجاز اورمصروغیرہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان اموی کے زیرقبضہ تھے جنہوں نے خونِ عثمان کے مسئلے کی بناء پرحضرت علی کی بیعت سے انکارکردیاتھا۔وہ بھلااب حضرت امام حسن کوخلیفہ کیسے تسلیم کرلیتے۔ربیع الاوّل ۴۱ھ کوصورتحال اس نوبت کوآن پہنچی کہ امام حسن کے ساتھ چالیس ہزار سے زائدمسلح افراد تھے اوردوسری طرف حضرت امیرمعاویہ کے جھنڈے تلے ساٹھ ہزارکالشکرمرنے مارنے کیلئے ایک اشارے کامنتظرتھا۔یہاں پرحضرت امام حسن کاوہ تاریخی‘غیرسیاسی کردارسامنے نظرآتاہے جس کے متعلق عام قاری تو کجا ہمارے دانشوراورعلماء حضرات بھی بے خبرنظرآتے ہیں اوریہی وجہ ہے کہ امام حسن کایہ عظیم کردارلوگوں کے سامنے ابھی تک کھل کرسامنے نہیں آسکاجس طرح امام حسین کی شہادت کاواقعہ ہے۔
حضرت حسن نے اپنے والد کے پانچ سالہ خلافت کے پرآشوب زمانے میں مسلمانوں کوخودبھائیوں کی تلواروں سے ذبح ہوتے دیکھاتھااس لئے باہمی خون خرابہ اورنہ ختم ہونے والے سلسلے کوہمہشہ کیلئے ختم کرنے کیلئے خودمیدان سے ہٹ گئے اورخلافت کاعہدہ حضرت امیر معاویہ کے حوالے کرد یا‘اگرچہ حضرت حسن حق پر تھے اورامت کے جائزخلیفہ تھے۔
اس کے بعد دوعشرے(۴۱ھ تا ۶۰ ھ ) تک حالات پرسکون رہے اوراسلامی سلطنت کی سرحدوں میں بھی خاصی توسیع ہوئی ۔امیرمعاویہ کے انتقال (رجب ۶۰ ھ) تک حالات بڑے پرسکون رہے لیکن جب خلافت کامسئلہ دوبارہ کھڑا ہوا توامام حسین جواپنے باپ کی شہادت اور بھائی کی خلافت سے دستبرداری سے خوش نہ تھے ‘انہوں نے یزید کی خلافت سے اسی طرح انکارکیاجس طرح اس سے پہلے حضرت معاویہ نے ان کے والد محترم حضرت علی کی خلافت تسلیم کرنے سے انکارکردیاتھا۔یہیں سے امام حسین (۴ ھ تا۶۱ھ)کاوہ کردارشروع ہوتاہے جس کی یاداب یوم عاشورہ کومنائی جاتی ہے۔
عتبہ بن ابی سفیان نے جب مدینے میں یزیدبن معاویہ کیلئے لوگوں سے بیعت لینے کاسلسلہ شروع کیاتوامام حسین نے معذوری کااظہارکردیااورخاموشی کے ساتھ اپنے اہل وعیال کولیکرمکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔یہاں آپ کی آمد سے قبل مکہ کے لوگ عبداللہ بن زبیر پربیعت کرچکے تھے اوریہ صورتحال حضرت حسین کوقابل قبول نہیں تھی۔یہی وجہ ہے کہ حضرت حسین اورآپ کے اہل خانہ ان کے پیچھے نمازنہیں پڑھتے تھے جو عملاً اس وقت مکہ کے حاکم تھے۔شہادت حضرت عثمان کے بعدحضرت علی کیلئے مکہ و مدینہ کے حالات سازگارنہیں تھے جس کی بناء پراسلامی ریاست کادارلخلافہ ۳۶ ھ میں مدینہ سے کوفہ منتقل ہوگیاتھا۔اس طرح امام حسن نے بھی خلافت سے دستبرداری کے بعد۴۱ھ میں کوفہ کو خیر باد کہہ دیاتھااورمدینہ میں مستقل رہائش اختیارکرلی تھی ۔اب جب یزید کو خلافت ملی تواہل کوفہ کی محبت اہل بیت کیلئے جوش میں آئی اورانہوں نے خطوط کے ذریعے امام حسین کوخلافت کیلئے مجبورکرناشروع کردیا۔امام حسن اہل کوفہ کی نفسیات اورصورتحال کی نزاکت کو اچھی طرح جان چکے تھے ‘اسی لئے اپنے بھائی کو وصیت میں اہل کوفہ کے بارے میں اپنی آراء سے آگاہ کرچکے تھے کہ:
”کوفہ والوں کے فریب میں مت آنا اور میں اچھی طرح جان چکاہوں کہ نبوت اورخلافت دونوں ہمارے خاندان میں جمع نہیں ہوسکتیں اس لئے تمہارے حق میں بہتر یہی ہے کہ تم اس معاملے میں خاموش رہو“۔
لیکن حضرت حسین اپنے لئے ایک کردار کاانتخاب کرچکے تھے وہ تھا”خلافت منہاج نبوت کاتحفظ“اوراس ادارے کے انہدام سے اہل اسلام کوجن مصائب کاسامناکرناپڑرہاتھااس سے بھی امت مسلمہ کے اعصاب پربہت برا اثر پڑ رہا تھا۔ان کے سامنے شہادتِ عثمان کاواقعہ رونماہوا‘ان شورشوں نے حضرت حسین کے اعصاب پربھی بہت گہرا اثر چھوڑاتھا۔اس میں شک نہیں کہ مختلف فتنوں نے پہلے اموی خلیفہ کے زمانے میں قصرِ خلافت کوبری طرح اپنے گھیرے میں لے لیاتھا۔حضرت عثمان نے بھی مسلمانوں کوباہم خانہ جنگی سے بچانے کیلئے اپنی جان قربان کردی حالانکہ اس وقت مدینے کے وفادار مسلمانوں کی جماعت آپ کے مکان پر موجودتھی اوربنوہاشم کی توایک بڑی جماعت ان کی معاون ومددگاربھی تھی لیکن حضرت عثمان نے ان سب کوقسم دلا کر اپنے مسلمان بھائیوں پرحملہ سے روک رکھاتھااوراپنے گھر بیٹھ کرقرآن کریم کی تلاوت فرماتے رہے۔دراصل وہ بھی شریعت کے حکم کی تعمیل کررہے تھے کہ:
”اپنی طرف سے جارحیت کاآغازبندہٴ مومن کیلئے کسی طورپربھی جائزنہیں کہ مسلمان دعوت ونصیحت کے ذریعے کوئی خیرکی راہ نکالتاہے نہ کہ قتال کاراستہ اختیار کرکے‘اس کے بعداگردوسروں کی طرف سے جارحیت کاآغازہو تودو صورتیں ہیں‘جارحیت کاآغازاگرکفارکی طرف سے ہوتوپھربھی مخصوص شرائط کے تحت اس کے دفاع کاحکم ہے“(سورة بقرہ۔۱۹۰)
لیکن اگرجارحیت کاآغازاگرمسلمان کی طرف سے ہوتوایسی صورت میں حکم یہ ہے کہ دفاع کے طورپربھی اپنے دینی بھائی پروارنہ کیاجائے۔”اگرتونے مجھے مارنے کیلئے اپنے ہاتھ کوبڑھایاتومیں تجھے کومارنے کیلئے اپنے ہاتھ نہیں بڑھاوٴں گا“(سورة المائدہ۔۲۸)
ابوموسیٰ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے آنے والے فتنے سے جب ڈرایاتولوگوں نے پوچھاکہ ہم کوآ پ کا کیا حکم ہے؟توآپﷺ نے فرمایا:
”اس میں اپنی کمانوں کوتوڑڈالو’اپنی تانت کوکاٹ ڈالو‘اپنی تلواروں کو پتھر پر پٹک دو‘اپنے گھروں کے اندربیٹھے رہو‘ اگرتم کومارنے کیلئے کوئی تمہارے گھرمیں گھس آئے توتم آدم علیہ السلام کے دولڑکوں میں سے بہترلڑکابنو‘قتل ہو جاوٴ مگر قتل نہ کرو “۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت عثمان بن عفان نے اصول شریعت کی اتنی بڑی عملی مثال قائم کردی اوروہ حضرت آدم علیہ السلام کے بہتر بیٹابن گئے لیکن حضرت امام حسین کے سامنے اس عظیم المرتبت کارنامے کے بعدآنے والے واقعات نے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح کردی کہ اگر حضرت عثمان ”خلافت علیٰ منہاج نبوت “ کا دفاع کرتے (اور اس ادارہ خلافت کی حفاظت کی خاطر چند ہزار انسان ماردیئے جاتے تویقیناً خلافت کا ادارہ انتشاراورانارکی سے محفوظ رہتا اور حضرت علی جوساری توانائیوں کے باوجوداپنے دورخلافت کے پانچ سال ان شورشوں اورباہنی جنگ وجدل پرقابو نہ پاسکے اوربالآخران منہ زورفتنوں نے ان کی جان لے لی)توآج خلافت کیلئے مسلمانوں میں آپس میں ایسی خونریزی نہ ہوتی اورتاریخ اسلام میں جنگ جمل اور جنگ صفین اوربعدکے سانحات کیلئے کوئی جگہ نہ ہوتی۔
اسی طرح حضرت حسن کومسلمانوں نے اپنی آزادمرضی سے بلاجبرواکراہ خلیفہ مقررکیاتھا‘وہ نہ صرف برحق خلیفہ تھے بلکہ ان کی خلافت بھی منہاج نبوت پر قائم تھی ‘ ان کے مقابلے میں حضرت امیرمعاویہ کادعویٰ خلافت ویساہی بلا جواز تھاجیساحضرت علی کے مقابلے میں ، کیونکہ خلیفہ کے انتخابات اورتقرر کا اختیار اہل شوریٰ یعنی اہل حجازکے جلیل القدر صحابہ رضوان علیہم کوحاصل تھا۔حضرت امیرمعاویہ کاشمارطلقاء میں تھا‘اس لئے طلقاء کوخلافت کے تقررمیں کوئی عمل دخل حاصل نہ تھا۔حضرت معاویہ کا حضرت علی کے خلاف محاذآرائی ‘تصادم‘اطاعت سے انکاراوربغاوت کاکوئی جوازنہ تھا ۔ وہ مرکزی حکومت میں بطورماتحت خدمات انجام دے رہے تھے۔ان کا شوریٰ سے کوئی تعلق نہ تھا‘اس طرح حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی خلیفہ برحق تھے۔وہ خلافت کے ادارے کے محافظ تھے ۔ اس ادارے کے تحفظ اوردفاع کیلئے جوجنگیں لڑیں ان میں حضرت علی حق پرتھے‘اوران جنگوں کے نتیجے میں جو خون خرابہ ہوااس کی بھی ذمہ داری حضرت علی پرہرگزعائدنہیں ہوتی۔
حضرت حسین کواس بات کابخوبی علم تھا کہ حضرت معاویہ کے اس طرزِعمل نے حضرت حسن کوبھی اسی دوراہے پر کھڑ اکردیاتھا جہاں وہ آج ہیں‘یاتووہ خلافت کے ادارے کاتحفظ فرماتے یامسلمانوں کوخانہ جنگی کے منہ زورفتنے سے بچالیں۔حضرت حسن نے امن پسندی کاراستہ اختیارکرتے ہوئے مسلمانوں کوتوخانہ جنگی سے بچالیالیکن انہیں ”خلافت علیٰ منہاج نبوت “ کے انہدام کاصدمہ یقیناً برداشت کرناپڑا۔اس حکمت عملی نے امت سے بڑی بھاری قیمت وصول کی اوربعدمیں حضرت حسین اوراہل حجازکوبھی اس کاخمیازہ بھگتنا پڑا ۔ حضرت حسین نے اپنے والد گرامی حضرت علی کوبھی خلافت کے ادارے کی حفاظت کی خاطر شہیدہوتے دیکھا تھا۔یہ الگ بات ہے کہ حضرت حسن نے ان تمام حالات کاعملی مشاہدہ کرتے ہوئے اپنے لئے غیرسیاسی طریق کار کا انتخاب کیا‘اس پرنہ صرف عمل کیابلکہ اپنے بھائی کوبھی اس کی وصیت کی لیکن حضرت حسین نے اپنے لئے سیاسی طریق کارکاراستہ منتخب کرکے اپنے والد حضرت علی کی سنت پر عمل کیا۔
یہاں امام حسن کے غیرسیاسی طریق کار کی وضاحت ازحدضروری ہے۔اس کیلئے پہلے ہمیں مستنداحادیث اوراسلامی تاریخ کی بے شمار مستندکتابوں سے مدد لیناہوگی۔یزید کے مقابلے میں جو صورتحال حضرت حسین کو پیش آئی اس سے کہیں زیادہ مشکل حضرت حسنکو حضرت معاویہ کے مقابلے میں پیش آ چکی تھی مگرآپ نے اس سے مختلف ردعمل کااظہارکیاجس کانمونہ ہمیں حضرت حسین کے آخری خطبہ سے بھی ملتاہے جہاں حضرت حسین نے بھی جنگ وجدل سے بچنے کیلئے تین شرائظ پیش کی تھیں ۔ (طبری جلد۴صفحہ ۳۱۳)
احادیث کی کتب میں حسنین کے بارے میں بہت سے روائتیں ملتی ہیں جن میں حضرت حسین کیلئے زیادہ تر”محبت “ کا ذکر ہے جونواسہ ہونے کی حیثیت سے آپ کیلئے بالکل فطری ہے اوردوسری طرف امام حسن کے بارے میں جو روایات نہ صرف سنداً زیادہ قوی ہیں بلکہ فطری محبت سے آگے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔مثلاً حضرت انسبن مالک فرماتے ہیں کہ:حسن بن علی سے زیادہ کوئی شخص نبی اکرمﷺسے مشابہ نہ تھا“ ۔طبعی مشابہت کے علاوہ یہ ایک واقعہ بھی ہے کہ صحیح روایات میں امام حسین کیلئے کوئی پیشگی کردارکاکوئی ذکر نہیں ملتا اور دوسری طرف یہ ثابت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے امام حسن کے بارے میں ایک عظیم کردار کرنے کی پیشین گوئی ارشاد فرمائی تھی ۔
حضرت ابوبکر صدیقفرماتے ہیں کہ ”میں نے رسول اکرمﷺ کومنبر پر دیکھا جہاں حسن بن علی اآپ کے پہلومیں تھے ۔ایک بار آپ ر ﷺلوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اوردوسری بار ان کی طرف‘ اورفرماتے تھے یہ میرالڑکاہے ‘ہوسکتاہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دوبڑے گروہوں میں صلح کروادے ۔ (بخاری)
رسول کریم ﷺ کی یہ پیش گوئی امام حسن کی زندگی میں حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی ۔حضرت امام حسن کی بیعت ۴۰ ھ میں اس حال میں ہوئی کہ مسلمانوں کی باہمی لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔بنوامیہ اور بنوہاشم کی رقابت عروج پرتھی‘نہ تویہ ایک دوسرے کوختم کرسکے تھے اورنہ ہی ہار ماننے کوتیارتھے ۔حضرت حسن نے جب بیعت لی توآپ نے لوگوں سے یہ اقرار بھی لیاکہ”میں جس سے جنگ کروں گا تم اس سے جنگ کروگے ‘جس سے میں صلح کروں گاتم اس سے صلح کرو گے“۔ اب امام حسن کی خلافت گویاحضرت معاویہکیلئے نیاچیلنج تھی ۔ اس کے مقابلے کیلئے میدان میں جہاں حضرت معاویہ کاساٹھ ہزارکالشکر دمشق سے چلتامدائن کے میدان میں پہنچا تھا وہاں امام حسن بھی اتنی ہی قوت کالشکرکوفہ سے لیکرمقابلے میں آن کھڑے ہوئے تھے۔گویاپہاڑوں کالشکرآمنے سامنے تھا بلکہ امام حسن کے سپاہی توحضرت علی کے ہاتھ پرموت کی بیعت بھی کرچکے تھے اورلڑنے مرنے سے کم کسی چیزپربالکل آمادہ نہ تھے۔
مدائن کے میدان میں معاویہ بن سفیان نے امام حسن بن علی کویہ پیغام بھیجا کہ ”جنگ سے بہترصلح ہے‘مناسب یہ ہے کہ آپ مجھے خلیفہ تسلیم کرلیں اور میرے ہاتھ پربیعت کرلیں“۔امام حسن نے غوروفکرکے بعداس پیشکش کومنظور فرما لیا اورخلافت امیرمعاویہ کے سپردکردی حالانکہ امام حسن کے پرجوش حامیوں کویہ ”بات“قبول نہ تھی۔آپ نے ایک تاریخی فقرے میں اپناجواب دیا:
خلافت اگرمعاویہ کاحق تھاتوان کوپہنچ گیا‘اگرمیراحق تھاتومیں نے ان کوبخش دیا“۔
اس صلح کے بعد حضرت امیرمعاویہ نے حضرت امام حسن کیلئے ایک لاکھ درہم سالانہ وظیفہ مقررکردیا(حافظ ذہبی ۱لعبر جلد ۱صفحہ ۴۸)
اس طرح امام حسن کے پیچھے ہٹ جانے سے مسلمانوں کاباہمی اختلاف باہمی اتفاق میں تبدیل ہوگیااورمدائن کا میدان اسلامی تاریخ میں جمل وصفین کے بعد تیسری خونریزی کے عنوان سے بچ گیااورامت مسلمہ کی وہ قوت جوخلیفہ ثالث کے زمانے سے باہمی جنگ و جدل میں مصروف تھی اورجن کی وجہ سے اسلامی فتوحات کا سلسلہ بھی ختم ہو چکا تھا ‘ اب دوبارہ اسلامی فتوحات کی خبریں بہم پہنچا رہا تھا اوراسلام کی اشاعت وتوسیع جوان خانہ جنگیوں کی وجہ سے رک گئی تھی ‘ اس کابھی بنددروازہ جس نے کھولا وہ حضرت امام حسنہی تھے ۔ حقیقت یہ ہے کہ پیچھے ہٹناسب سے بڑی بہادری ہے ۔اگرچہ بہت کم لوگ ہیں جو اس بہادری کیلئے اپنے آپ کو تیار کر سکیں‘ بظاہر تویہ میدان سے واپسی کافیصلہ تھا‘ اس سے مسلمانوں کی قوت باہم مقابلہ آرائی سے بچ گئی اوراسی طاقت نے مسلمانوں کی فتوحات کاخارجی میدان میں سکہ بٹھادیا۔اگراس وقت حضرت امام حسن خلافت پراصرار کرتے توعجب نہیں مسلمان پہلی صدی ہجری میں آپس کی خانہ جنگیوں میں برباد ہوجاتے اور اسلام جوآج ایک عالمگیرمذہب چین سے لیکر مراکش تک اپنی برکات سے ہمیں فیض یاب کررہا ہے اس کی شکل کچھ اور ہوتی توگویاغیرسرکاری طریق کار سے اختلاف کرنے کی ہمت پیدانہیں ہوتی کیونکہ بعد کے حالات نے حضرت حسن کے اس کردارکوبلاشبہ امت محمدیہ پر ایک گراں قدراحسان ثابت کیاہے۔
لیکن اس کے ساتھ حضرت حسین کے کردارپرنگاہ ڈالیں توان کے بھی طریق کارکوایسی تقویت ملتی ہے کہ جس نے ”خلافت علیٰ منہاج نبوت“کے تحفظ ‘دفاع اوراس کے احیاء کیلئے قربانیوں کی ایک ایسی پرعزم تاریخ رقم کی ہے جو قیامت تک مظلوموں کیلئے مشعلِ راہ ثابت ہوگی۔
حضرت امام حسین نے خلافت کے ادارے کوبچانے کیلئے کوفہ کے لوگوں کے سخت اصرارپراپنے چچازادبھائی حضرت مسلم بن عقیل کوکوفہ روانہ کیا‘گو حضرت مسلم بن عقیل اس منصوبے سے متفق نہ تھے تاہم حضرت حسین کے اصرارپرکوفہ چلے گئے۔تاریخی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ تقریباًاٹھارہ ہزارآدمی نیابتاًان کے ہاتھ پربیعت ہوچکے تھے لیکن جب یزید کے حکم پر عبیداللہ بن زیادنے حضرت مسلم بن عقیل اوران کے کوفی میزبان ہانی بن عروہ کومحل کی چھت پر کھڑاکرکے قتل کردیاتوکوفہ والوں کوگویا یزید کا پہلا پیغام تھاکہ حضرت حسین کی بیعت کی قیمت کیاہوگی۔اسی وقت کوفہ والے خاموش اپنے گھروں میں دبک گئے اور حضرت حسین جوکہ ان بے وفالوگوں کی قیادت کیلئے آدھے سے زیادہ سفرطے کرچکے تھے ‘اپنے سفرسے بالکل واپس نہ لوٹے حالانکہ مکے میں تمام جلیل القدر صحابہ رضوان اللہ علیہ اجمعین نے ان کو اس سفر سے منع کیاتھا۔عبداللہ بن عمر ،عبداللہ بن عباس،عمروبن سعدبن العاص،عبدالرحمٰن بن حارث اور مکہ کے دوسرے بزرگوں نے شدت سے امام حسین کومنع فرمایابلکہ حضرت عبداللہ بن زبیر نے کہاکہ آپ کوفہ جانے کی بجائے مکہ کی حکومت قبول فرمائیں‘ آپ ہاتھ بڑھائیں میں سب سے پہلے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتاہوں ۔ عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب نے مدینہ سے خط لکھ کر بااصرارمنع کیالیکن حضرت امام حسین کی اولوالعزم طبیعت اس پرکسی طورراضی نہ ہوئی ‘حتیٰ کہ انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس کی اس آخری بات کوبھی ماننے سے انکارکردیا کہ عورتوں اوربچوں کومکہ میں چھوڑ کر سفر کریں یاکم ازکم حج کے بعد روانہ ہوں جس میں صرف چنددن باقی ہیں۔
امام حسین ذوالحج۶۰ھ کے پہلے ہفتے میں کوفہ کے راستے میں حضرت عبداللہ بن مطیہ سے جب ملے توانہوں نے بصد احترام حضرت امام حسین سے کہا:”میں آپ کوقسم دلاتاہوں کہ آپ واپس مکہ تشریف لے جائیں‘اگرآپ بنوامیہ سے خلافت چھیننے کی کوشش کریں گے تووہ ضرورآپ کوقتل کرڈالیں گے اورپھرہر ایک ہاشمی ہرایک عرب اورہرایک مسلمان کے قتل پردلیر ہوجائیں گے“ ۔ لیکن حضرت امام حسین نے واضح الفاظ میں اپنے رفقاء کوبتادیاتھاکہ ان کے پیش نظر ”خلافت علیٰ منہاج نبوت“کے احیاء کے سواکچھ نہیں۔اسلامی نظام اطاعت میں خلافت کی جواہمیت ہے اس سے حضرت حسین پوری طرح باخبر تھے۔ اسلامی نظام اطاعت کے استحکام کیلئے اولی الامرکے ادارہ کوجس اندازمیں رسول اکرمﷺ اورخلفائے راشدین نے قائم فرمایاتھا‘اس کے تحفظ اوردفاع کیلئے حضوراکرمﷺ نے جوتاکیدفرمائی تھی وہ بھی حضرت حسین کے علم میں تھی۔معاویہ بن ابی سفیان کے مقررکردہ خلیفہ یزیدبن معاویہ نے اس ادارہ کی تعظیم اورتقدس کوختم کرکے رکھ دیاتھا ۔ اس ادارہ کے انہدام سے اسلامی معاشرہ کو دینی اورسیاسی نقصان جوپہنچ رہاتھااس کودیکھ کرحضرت حسین جیسی شخصیت کا بیٹھ جانابڑامشکل تھا۔
تاہم آخر وقت میں کربلا کے میدان میں حضرت حسین کوصورتحال کااندازہ ہو گیا تھا۔حضرت مسلم بن عقیل کی شہادت‘ کوفہ کے لوگوں کی بے وفائی ‘یزید کے لشکر جرار کے مقابلے میں آپ کامختصر قافلہ بظاہرپہاڑاورچیونٹی کامقابلہ لیکن حضرت حسین نہائت بہادر‘جرأت مند اورانتہائی شریف النفس تھے۔وہ موت سے بالکل خوفزدہ نہیں تھے مگراپنے ساتھ نیزعورتوں اوربچوں کیلئے اپنے دل میں جذبہ رحم کی پیدائش کوروکناان کیلئے ممکن نہ تھاچنانچہ آخری دن محرم الحرام کی دس تاریخ ۶۱ھ کربلا کے میدان میں یزیدکی فوج کے سامنے جوتقریرفرمائی وہ فصاحت وبلاغت کابے نظیر شاہکارہے ۔ آپ نے دیگرباتوں کے علاوہ یہ بھی فرمایا:
”عیسیٰ کاگدھا اگر باقی ہوتاتو تمام عیسائی قوم قیامت تک اس کی پرورش کرتی ‘تم کیسے مسلمان اورامتی ہوکہ نبی ﷺکے نواسے کوقتل کرناچاہتے ہو!“
دراصل کوئی دوسری قسم کامسئلہ ہوتاتوکوفی مسلمان شائدعیسائیوں سے چارہاتھ آگے ہوتے لیکن یہاں یزیدکے لشکرکے سامنے نواسہ رسولﷺ ان کے سیاسی حریف کے طورپرکھڑے تھے اورسیاسی حریف کونہ مسلمان بخشنے کوتیارہوتے ہیں نہ عیسائی ۔وہی یزیدجس نے ۶۴ھ میں مدینہ پرچڑھائی کی تھی اس نے مسلم بن عتبہ کوتاکیدی حکم دیاتھاکہ حضرت امام حسین کے صاحبزادے حضرت زین العابدین کاپوراپوراخیال رکھناکیونکہ وہ مدینے میں سیاسی زندگی سے الگ ہو کر مدینہ کے نواح میں الگ تھلگ زندگی گزاررہے تھے کیونکہ یزیدنے اپنے باپ سے سیاست کاایک اصول ورثے میں جولیاتھااس پربڑی سختی سے کاربند تھا : ”میں لوگوں اوران کی زبانوں کے درمیان اس وقت تک حائل نہیں ہوتا جب تک وہ ہمارے اورہماری سلطنت کے درمیان حائل نہ ہوں“۔(ابن تاثیر کامل جلد۴صفحہ۵)
چنانچہ تاریخ بتاتی ہے کہ آخروقت میں امام حسین یزیدسے صلح کیلئے راضی ہوگئے تھے ۔انہوں نے یزیدکے نمائندے عبید اللہ بن زیادکے سامنے تجاویز پیش کیں:
۱۔میں مکہ واپس چلاجاوٴں اوروہاں خاموشی کے ساتھ عبادت الٰہی میں مشغول ہوجاوٴں۔
۲۔مجھے کسی سرحدکی طرف نکل جانے دوکہ وہاں کفارسے لڑتاہوا شہید ہو جاوٴں
حضرت حسین کے رویے میں تبدیلی سے یزیدکی فوجوں میں خوشی کی لہردوڑ گئی‘ ا گرچہ کربلاکے میدان میں وہ ایک دوسرے کے خلاف صف آراء تھے ‘اس کے باوجودنواسہٴ رسول کے احترام کایہ حال تھاکہ دونوں طرف کے لوگ مل کر نمازاداکرتے تھے اوراکثرحضرت حسین ہی کی اقتداء میں نمازاداکرتے تھے ۔ عبیداللہ بن زیادکے پاس جب یہ پیغام پہنچاتووہ بھی بغیرلڑائی کے اس عمدہ حل پر بہت خوش ہوالیکن اس کامشیرشمرذی الجوشن جوکہ حضرت حسین کاپھوپھااور انتہائی بری طبیعت کامالک تھا‘اس نے عین وقت پر عبیداللہ بن زیادکاذہن پھیر دیا۔اس نے حضرت حسین کے لوٹنے کے سارے راستے بندکردیئے اوربالآخر کربلاکاوہ معرکہ جس میں عمروبن سعد نے پہل کرکے حضرت حسین کے قافلے پرپہلاتیرپھینک کراس کاآغازکیاتھاجس کاانجام حضرت حسین کی شہادت پرمنتج ہوا۔یہاں قابل ذکربات یہ ہے کہ عمرو بن سعدحضرت حسین کارشتے میں ماموں اور شمرذی الجوشن پھوپھاتھا۔
تاریخ کے ان دوکرداروں پر ملت اسلامیہ قیامت تک جتنابھی فخرکرے کم ہے۔گوحضرت حسین نے بھی آخری وقت میں حضرت حسن کے غیرسیاسی طریقہ کار کوبھی عمل میں لانے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ کوحضرت حسین سے ”خلافت علیٰ منہاج نبوت“کے تحفظ اور دفاع کاکام لیکر ان سے بے مثال قربانی لینا مقصود تھی اوران کی شہادت سے امت مسلمہ تک یہ پیغام پہنچانا مقصود تھاکہ حالات کیسے ہی پرآشوب اور دگرگوں ہوں ‘اسلامی نظام حکومت ‘اسلامی نظام اطاعت کے قیام ونفوذ جو کہ ایمان کے اوّلین تقاضوں میں سرفہرست ہیں کی کوشش ہروقت ‘ہر زمانے میں جاری رکھنی چاہئے جب تک خلافت کے ادارہ کو مکمل اس کی اصلی شکل میں بحال نہ کرلیاجائے ۔اس کے علاوہ بھی ان کرداروں میں بے شماردوسرے اسباق ہمارے لئے موجودہیں‘صرف شرط یہ ہے کہ ہم خودمخلص ہوں۔
خوشاوہ آبلہ پاکارواں اہل جنوں لٹاگیاوہ بہاروں پہ اپنی سرخیٴ خوں
بروزمنگل۱۰ محرم الحرام۱۴۳۳ھ۶ دسمبر۲۰۱۱ء