شہر ہرات اور ہندستان کا روحانی رشتہ
ہندستان اور افغانستان کا رشتہ بہت قدیم ہے ۔ یہ دو ممالک اگر چہ فاصلے کے اعتبار سے بہت نزدیک نہیں اور کوئی سرحد بھی آپس میں نہیں ملتے لیکن کئی لحاظ سے ان کے مابین جو رشتہ ہے وہ یقینا تا قیامت برقرار رکھے گا ۔ ان رشتوں کو کوئی سرحد پابند بھی نہیں کر سکتی ، ان رشتوں میں سب سے اہم رشتہ سلسلہٴ چشتیہ کا ہے جس کا آغاز اسی صوبے کے شہر ’’چشت ‘‘ سے ہوتا ہے جس کی ایک اہم کڑی اجمیر شریف ہے ۔اس طرح سلسلہ ٴ چشتیہ ہرات سے اجمیر تک ایک ایسا روحانی پُل ہے جو ہر حال میں قائم و دائم رہے گا ۔ ان دو ملکوں کے درمیان یہ ایسا رشتہ ہے جس کا تعلق روحانیت اور تصوف سے ہے ۔ہرات افغانستان کا ایسا سوبی ہے جس کو مدینة الاولیا بھی کہاجاتا ہے ۔ یہاں بزرگان دین کی متعدد آرمگاہیں ہیں ۔ افغانستان میں مشہور ’’ پیر ہرات ‘‘ یعنی خواجہ عبد اللہ انصاری کا سلسلہ نسب نویں پشت میں مشہور صحابی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔ آ پ نے اس پورے خطے کو دینی ، اسلامی اورروحانی تعلیمات سے روشن کیا ۔ مولانا جامی جن کے متصوفانہ فارسی اشعار ساری دنیا میں پڑھے جاتے ہیں بالخصوص اردو اور فارسی جاننے والے ان کو تصوف کے حوالے سے ہمیشہ اپنی تحریروں اور تقریروں میں بیان کرتے ہیں اورخانقاہوں میں ان کے کلام پڑھے جاتے ہیں ۔ان کا مزار بھی اسی شہر ہرات میں موجود ہے ۔ان کے علاوہ اہل سلوک کی بڑی تعداد ہے جو یہاں مدفون ہیں ۔ اولیا کرام کے فیوض و برکات کے سبب ہی یہ شہر آج بھی زمانے کے نشیب و فراز کے بعد بھی آباد اور مرفع حال ہے ۔ اس شہر کا یوں تو دینا کا کئی ممالک سے براہ راست تجارتی اوت ثقافتی روابط رہے ہیں لیکن ہندستان کا سب سے مضبوط تعلق خواجہ ٴ اجمیری کے سبب ہے ۔ حالانکہ حالیہ دنوں میں ایک اور رشتہ استوار ہوا ہے وہ جسے سلمیٰ ڈیم یعنی بند دوستی ہند وافگان کے نام سے جانتے ہیں ۔
اس شہر کی اسی معنویت کے پیش نظر ابھی میں پانچ دن کے دورے پر ہرات میں موجود تھا اور ان متبرک و مقدس مقامات کی زیارت کا شرف ملا۔ اس سفر کا وسیلہ ایک بین الاقوامی ادبی کانفرنس تھا۔انسٹی ٹیوٹ آف انڈو پرشین اسٹڈیز( آئی آئی پی ایس ) جو عالمی سطح پر علمی و ادبی پروگراموں کا انعقاد کراتا ہے ۔ ہندستان میں فارسی زبان کی ترویج و ترقی کے لیے مختلف ادبی اور علمی سرگرمیوں کا انعقاد اس تنظیم کے ذریعے ہوتی رہتی ہے ۔ اس تنظیم نے ان ’’ سلسلہ ٴ چشتیہ کا تسلسل ہرات سے اجمیر تک ‘‘ کے عنوان سے ستمبر کے پہلے ہفتے میں ہند افغان فاونڈیشن اور نو اندیشان کلچرل ، سوشل آرگنائزیشن کے اشتراک سے منعقد ہوا۔ اس کانفرنس میں ہندستان سے بارہ افراد کا وفد پروفیسر سید اختر حسین کی قیادت میں موجود تھا ، افغانستان کے نائب وزیر اطلاعات و نشریات ، صوبہ ہرات کے گورنر اور ہندستانی قونصلیٹ جناب کمار گورو بھی موجود رہے ۔ اس سیمنار میں نئی نسل کی بڑی تعداد نے حصہ لیا اور سیمنار میں پڑھے گئے مقالوں میں ہندو افغان تعلقات بالخصوص تصوف اور روحانیت کےسلسلے پر باتیں ہوئیں لیکن زیادہ تر مقالوں میں اس بات پر زور دیا گیا کہ نئی نسل کو ماضی کی ان روایات سے واقف کرایا جائے کیونکہ موجودہ صارفیت کے دور میں یہی تصوف امن و امان کا واحد راستہ ہے ۔اس سیمنار سے جو سب سے اہم پیغام گیا وہ یہ تھا کہ ہندستان اور افغانستان ایک اچھے دوست ملک ہیں ۔ ہندستان افغانستان کی از سر نو بازآباد کاری میں بہت معاون بھی جس کے لیے افغان قوم شکر گزار ہے ۔ لیکن اس رشتے کو مزید مستحکم کرنے کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہرات اور اجمیر کے درمیان جو سلسلہ ٴ چشتیہ کے ذریعے ایک روحانی پُل بنا ہے اس پر محبت اور امن کے قافلوں کی آمد و رفت میں اضافہ اہونا چاہیے ۔کی سب سے اہم ہے ۔
اسلام علیکم
آپ کا مضمون پڈھا ہے بہت عمدہ لگا۔ آپ سے اس مضمون کی بابت کچھ بات کرنی تھی۔ برائے کرم نمبر عنایت فرمادیں۔
8439670828