صحافتی ادارہ میں فائرنگ!ذمہ دار کون؟
تحریر! محمد اکرم خان فریدی
akramkhanfaridi@gmail.com
ایک رات بادشاہ مملکت وفات پا گئے تو حکومت میں موجود تمام وزیروں اور مشیروں کے د،ل میں خواہش پیدا ہو گئی کہ آنے والا بادشاہ اُن کا قریبی ساتھی ہو۔ سینئر وزیروں پر مشتمل تین رُکنی سپریم کونسل نے فیصلہ کیا کہ اندرونی خلفشار سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ کل صبح سب سے پہلے جو شخص شہر میں داخل ہو اسکو مملکت کا بادشاہ بنا دیا جا۔حسنِ اتفاق سے صبح سویرے سب سے پہلے ایک تانگے کا کوچوان اپنا تانگہ لئے شہر کے دروازے میں داخل ہوا تو فوج کے سپاہی اُسے اُٹھا کر محل میں لے گئے جہاں سپریم کونسل کی ہدائیت پر اُس کوچوان کو نہلا دھلا کر شاہی لباس پہنایا گیا ،باقاعدہ دربار منعقد کیا گیا اور اِس کوچوان کو تاج پہنا کر تخت پر بٹھا دیا گیا اور اسکے بادشاہ ہونے کا اعلان کر دیا گیا۔اِس بادشاہ کو کاندھوں پر بٹھا کر پورا شہر گھمایا گیا ۔بادشاہ کی جان اندر سے ہوا ہو رہی تھی،جشن کے اختتام پر اُس نے اپنے وزیر اعظم کو کہا حضور اعلیٰ مرتبت مجھے آپ سے تخلیہ میں کچھ کہنا ہے ۔دیوانِ خاص خالی کرادیا گیا اور جب بادشاہ اور وزیر اعظم کے سوا وہاں کوئی نہ رہا تو نئے بادشاہ نے کہا آپ تو جانتے ہیں میں روزی کی تلاش میں حسبِ معمول شہر میں داخل ہوا تھا آپ نے مجھے بادشاہ بنا دیا ،میری تو اِس میں خطا تھی نہ اِس فیصلے میں کوئی حصہ تھا اب مجھے جان کا خطرہ لاحق ہے ،وزیر اعظم صاحب کوئی ایسی صورت نکالئے کہ میں یہاں سے چپ چاپ چلا جاؤں ۔وزیر اعظم نے بادشہ کی بات بڑے اطمینان سے سُنی اور کہا کہ یہاں ایک زمانہ سے یہی سلسلہ چلا آ رہا ہے میں خود مٹی کے برتن بیچتا تھا ،جِس طرح آپ بادشاہ بنے میں بھی اُسی طرح ہی وزیر اعظم بنا تھا اور اللہ کا شکر ہے کہ ایک سابق بادشاہ کی بنائی ہوئی سپریم کونسل کی عنائیت کے بعد اب تک اِس منصب سے فیض یاب ہو رہا ہوں ۔بادشاہ کی تشویش اور بڑہ گئی اُس نے کہا پھر تو معاملہ چوپٹ ہو گیا میں کوچوان اور تو مٹی کے برتن بیچنے والا،فوج کا سپہ سالار جب چاہے ہمیں سولی پر لٹکا دے گا ۔وزیر اعظم کو اِس بات میں وزن محسوس ہو ااور طے پایا کہ سپہ سالار سے ملا جائے ،سپہ سالار سے بات ہوئی تو وہ مسکرا پڑا اُس نے کہا کہ میں خود حجام کی دُکان کرتا تھا اور میں بھی آپ لوگوں کی طرح قابو آگیا اور مجھے سپریم کونسل نے سپہ سالار بنا دیا اور کہا کہ چُپ کرکے آرام کرو اور چین کی بسنی بساؤ۔بادشاہ ،وزیر اعظم اور سپہ سالار تینوں نے عوام سے تنقید کا حق چھین لیا ۔اُن افراد نے آئین میں انتخاب کی ضرورت کو محسوس کر لیا تھا مگر اُنکے نزدیک انتخاب کے ذریعے حکمران بدلنا ایک سیاسی سازش کے مترادف تھا ۔پھر سلسلہ آگے بڑھا ،لوگوں کو بیلٹ کے کاغذ تو دئیے جانے لگے لیکن اُن کاغذات پر حکمران کی حمائیت کا نشان یا دستخط پہلے ہی کرنے پر زور دیا جانے لگا اور سپریم کونسل بھی اِس عمل کو جائز قرار دے دیتی ۔بدقسمتی سے جو روائیت اُس وقت ڈالی گئی تھی آج بھی کہیں نہ کہیں ہمیں ملتی ہے۔اِس کی تازہ ترین اور ازیت دہ مثال چند روز قبل ہمیں پریس کلب شیخوپورہ میں ملی ،جہاں ایک انتخابات سے قبل ہی ایک گروپ کی جانب سے صدر کی حمائیت کے لئے دستخطی مہم شروع کر دی گئی جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ پریس کلب کے ایک اجلاس میں صحافیوں کے دو گروپس کا تنازعہ ہو گیا اور پریس کلب میں 4صحافیوں نے آنکھ جھپکنے سے پہلے اسلحہ نکالا اور گولی چلادی۔خوش قسمتی سے گولی اجلاس میں موجود کسی بھی صحافی کو چھوئے بغیر پریس کلب کی مغربی دیوار پر لگی ۔گولی چلنے سے کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا لیکن اِس سے بھی بڑا نقصان ایک تو یہ کہ اِس ادارے کی ساکھ خاک میں مِل گئی اور دوسرا یہ کہ چلنے والی گولی دیوار سے ٹکرا کر اِسی پریس کلب کے ایک بانی رُکن محترم جناب غلام حسین شامی صاحب مرحوم کی تصویر سے جا ٹکرائی اور اُس تصویر پر لگے کانچ کے کئی ٹکڑوں کے شور سے چندمرحوم تخلیق کاروں حاجی محمد اشرف ،رفیع نسیم،حمید راہی،عبالجبار شاکر،ڈاکٹر اکرام حیدر،یونس تبسم صدیق راہی اور میاں عزیز صاحب کی روحیں کانپ اُٹھیں اور شائد وہ بار بار اپنے ہم عمر ساتھیوں غلام احمد چوہدری،ملک محمد بوٹا اور دیگر ساتھیوں سے یہی سوال کر رہی ہوں گی کہ کیا ہم نے انہی لمحات کے لئے اِس پریس کلب کی بنیاد رکھی تھی جب ہمارے نوجوان بیٹے ہماری تصویروں پر گولیاں چلائیں،مرحومین کی روحیں یقینا یہ بھی پکار رہی ہوں گی کہ آج اگر اِس ادارے میں مرحومین کی تصویروں کے تقدس کو پامال کیا جانا تھا تو ہم اِسکی بنیاد رکھنے پر معذرت چاہتے ہیں ۔اِ س صحافتی ادارے اور اس ادارے کے بانی رُکن کی تصویر کی حُرمت کی پامالی کا ذمہ دار کون ہے؟ میں انتہائی معذرت کے ساتھ اِس ادارے کی سپریم کونسل کے اراکین کو اِس واقعہ کا ذمہ دار ٹھہراتا ہوں جِنکو نہ صرف اِس مقدس ادارے کے اراکین نے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اُنکے ہاتھوں میں ترازو دیکر جج کی حیثیت سے اِس ادارے کی سربراہی سونپی لیکن افسوس کہ سپریم کونسل کے کمزور فیصلوں کی وجہ سے آج مرحومین کی روحوں کو یہ دن دیکھنا پڑا ۔آج اگر سپریم کونسل نے فائرنگ کے اِس واقعہ کو مدنظر رکھتے ہوئے تاریخی فیصلہ نہ کیا تو شائد آنے والے وقت میں یہ ادارہ شیخوپورہ کے کسی چوہدری کا ڈیرہ بن جائے۔سپریم کونسل کو سکروٹنی کمیٹی کے فیصلوں کی پاسداری بھی کرنی چاہئے تاکہ اِس پاک ادارے کو شرپسند عناصر سے پاک کرکے قلم کی حکمرانی قائم کی جا سکے۔اِس ادارے کے تمام اراکین کو بھی چاہئے کہ وہ باہمی تا اتفاقی اور انتشار کو ختم کردیں کیونکہ اتفاق ہی میں اُنکی اور اِس ادارے کی ترقی کا راز پنہاں ہے ۔انہیں یہ بات مدِ نظر رکھنی چاہئے کہ اگ
ر ریت کے چند زروں کو یکجاں کر دیا جائے تو لق ودق صحرا وجود میں آتا ہے ،قطرہ قطرہ مل کر سمندر بنتا ہے ،چند گیسوں کے فضا میں مل کر چلنے سے طوفان آتا ہے،درجنوں صحافی لڑائی جھگڑے کرنے کی بجائے اگر مکمل تنظیم بن جائیں تو وہ ایک بہت بڑی قوت بن سکتے ہیں ۔لیکن افسوس کہ وہ با اثر قوتیں جنکا اِس ادارے اور شعبہ صحافت کے ساتھ دور دور کا کوئی رشتہ نہیں وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے صحافیوں کو استعمال کر رہے ہیں اور وہی عناصر اس ادارے کے امن کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہیں ۔بہر حال پریس کلب شیخوپورہ کے اراکین کو چاہئے کہ ذاتی مفادات کو پسِ پشت رکھ کر اِس مقدس ادارے کو مستحکم کرنے میں اپنا اپن کردار ادا کریں اور علاقائی سیاستدانوں اور چوہدریوں سے مشاورت کرنے کی بجائے آپس میں مل بیٹھ کر نہ صرف اپنے بلکہ اپنے شہر کے بہتر مستقبل کے لئے بھی فیصلے کریں ۔پریس کلب شیخوپورہ کے اراکین کی نظر ایک شعر ہے
”اک وہ وقت تھا کمال کہ دنیا میں تھا اونچا مقام ہمارا
آج کوئی تو خطا ہماری کہ ہوئے مبتلائے دکھ و درد میں“
پیارے صحافی بھائیو !آپ کے کاندھے پر آج بہت بڑا بوجھ ہے ،آپ نے اپنے شہر،صوبے اور ملک کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو پُرامن بنانے کے بارے میں سوچنا ہے یہاں یہ بات انتہائی قابلِ غور ہے کہ تیسری عالمی جنگ کے خطرے کو سب سے پہلے دانشور بھائیوں نے ہی محسوس کیا تھا اور 40ملکوں کے مشہور ادیب،دانشور،اور شاعر پولینڈ کے مشہور روکلا میں اکٹھے ہوئے اور 4/5دِن کی بحث کے بعد اُنہوں نے ایک قرار داد پاس کرکے ساری دنیا کے دانشوروں کو تیسر ی عالمی جنگ کے خطرے سے آگاہ کیا اور انسانیت کو تیسری عالمی جنگ سے بچانے کے لئے انہیں اپنے اپنے ملک میں امن کانفرنسیں منعقد کرنے پر زور دیا ۔آج ایک بار پھر دانشور کڑے امتحان میں ہیں اُنہیں آج دوبارہ دنیا کو امن کی جانب راغب کرنے کے لئے اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔آئیں مل کر دنیا میں امن کا نعرہ لگائیں اور لڑائی پسند طاقتوں سے گزارش کریں کہ ہمیں دنیا کو ہتھیاروں سے پاک کرکے اِسے پر امن بنانا ہے۔
محمد اکرم خان فریدی(کالم نگار)فون 302 4500098
36۔مجاہد نگر شیخوپورہ شہر
Email: akramkhanfaridi@gmail.com