سکونِ قلب اور اطمینا ن کیا ہے ؟ یہ کیسے حاصل ہو تا ہے ؟ کیا یہ خواہشات کو دل سے نکا لنے کا نا م ہے یا خواہشات کے سیراب ہو جانے کا نام ہے ؟ اس کے حصول کے لیے کیسے اور کس طرح جد وجہد کرنی ہو گی ؟ پھر اس جدوجہد کی کا میابی کے امکانات کس حد تک ہیں ؟ بھلا یہ اس دنیا میں حاصل ہو تا بھی ہے یا محض سراب ہی ہے ؟ یہ اور ایسے ہی ڈھیروں سوالات دل میں پیدا ہوتے ہیں ۔ دماغ جدوجہد کر تا ہے لیکن جواب کے حصول میں کا میاب نہیں ہو تا ۔ اگر ہو جا تا ہے تو دل مطمئن نہیں ہو تا ۔ اور اگر دل ودماغ دونوں متفق ہو جاتے ہیں تو احساس کی دنیا اس کی سیرابی سے محروم رہتی ہے ، کھوج ، کرید ، تجسس ، سوال علم کی بنیاد ہیں ۔ سو ہم بھی اس سوال کو لے کر دربدر پھر ے ‘ سوجواب ملا :
سکون قلب کسی چیز کانام نہیں ،یہ تو اللہ کے فضل کو کہتے ہیں ۔اللہ فضل کرے تو آپ سکون ِ قلب حاصل کر سکتے ہیں محسوس کر سکتے ہیں ۔ اللہ کے فضل سے سیرابی اطمینان فراہم کر تی ہے ۔لیکن اللہ کا فضل تو آج کل کسی اور ہی معنوں میں لیا جا تا ہے وہ تو مزید بے سکونی اور بے اطمینانی کا با عث بنتا ہے ۔ کیا وہ ؟نہیں وہ نہیں ۔ اللہ کے فضل اور اس کی نعمتوں کی گنتی نا ممکن ہے لیکن انسان کی کو تاہ نظر جن چیزوں کو اللہ کا فضل سمجھتی ہے اکٹھا کر تی ہے ان کو ہی لے لیں ۔ سکونِ قلب کے حصول کا سادہ سا طریقہ یہ ہے کہ اب انہیں تقسیم کر نا شروع کریں مال کی صورت میں ‘اشیاء کی صورت میں ، وقت کی صورت میں ۔ میٹھے بو ل کی صورت میں‘ پیار اور محبت کی صورت میں ۔ جس کو جس چیز کی ضرورت ہو فراہم کریں ورنہ فراہم کرنے کی کوشش کریں ، تعاون کریں ، اس کے مشکل وقت کو آسان بنائیں یا بنانے کی کوشش پورے خلوص اور درد مندی کے ساتھ کریں اس کے لیے دعائیں کریں ۔
آپ کو سکون مل جائے گا ‘ یہی اللہ کا فضل ہے ‘ اللہ کے فضل کی خواہش دل میں پیدا ہوجائے تو انسان سکون حاصل کر لیتا ہے ‘ یہ وہ خواہش ہوتی ہے جو دل کی باقی تمام خواہشات کو اپنا اسیر کر لیتی ہے ‘ان پر حاوی ہو جاتی ہے ۔ انجام کا ریہ ہو تا ہے کہ ساری تمنائیں اور خواہشات اسی ایک خواہش پر نثار ہو جاتی ہیں۔ یہ عشق کی راہ گزر ۔۔۔۔۔۔۔۔پھر یوں بھی ہو تا ہے کہ : ’’عشق کی ایک ہی جست نے کر دیا قصہ تمام‘‘
ْقصہ تمام تو ہو نا ہی ہے لیکن عشق کی یہ جست مٹی سے بنے خطا کے پتلے کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہے۔دم تو ڑتا انسان بھی امید پر زندہ رہتا ہے‘چاہے چند لمحات ہی کیوں نہ ہوں۔امید ایک چراغ روشن ہے‘امید نشان راہ ہے‘آس ہے‘لاکھ بلائیں راہ روکے کھڑی ہوں‘امید سہارا بن کر ساتھ کھڑی رہتی ہے۔آگے بڑھنے پر اکساتی ہے امید‘محبت ‘فاتح عالم ہے‘ دلوں کو تسخیر کرتی ہے محبت۔انسان ہار کر بھی خوش رہتا ہے، ایثار سکھاتی ہے محبت۔قیام کرنا ‘ڈٹے رہنا سکھاتی ہے محبت۔جو امید و محبت کا پیکر ہوں ‘انہیں کون تسخیر کر سکتا ہے!وہ زیر ہو کر بھی سر بلند رہتے ہیں‘سر خرو ٹھہرتے ہیں‘زندگی کا پیغام لاتے ہیں‘زندگی پر اکساتے ہیں۔لیکن کیا وجہ ہے کہ اب امید بھی خشک ریت کی طرح مٹھی سے نکلتی محسوس ہو رہی ہے جہاں اداروں کی بجائے افراداپنی پسند اور نا پسند پر فیصلے کریں‘وہاں پر ہر مسئلہ ایک مذاق یا ایک معمہ بن کر رہ جاتا ہے۔
دنیا ایک نئے روشن اور آزاد مستقبل کی راہیں تلاش کر رہی ہے مگرہم پر اس قدر مظالم اور تمام تر تذلیل کے باوجود امریکہ کے عشق یا مخالفت کا ایسابھوت سوار ہے کہ طاقت کے بل بوتے پراپنے نظریات کوپھیلانے کی راہ اختیار کرلی ہے اوربڑی بیدردی سے دن دیہاڑے بے گناہ اورمعصوم لوگوں کی جانیں لیکر اپنی فتوحات کا علم بلندکرتے ہوئے فخر محسوس کررہے ہیں ۔آخر کب تک؟تاریخ گواہ ہے کہ خون خرابہ ،جنگ وجدل سے کبھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوابلکہ بالآخرمسائل کا حل ہمیشہ میز پرباہمی گفتگو اورروادی سے حاصل ہوا۔اب بھی وقت ہے کہ اپنے ربِ کائنات کی رضا وخوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایک دوسرے کوختم کرنے اور گلے کاٹنے کی رسم کو ترک کرتے ہوئے ایک دوسرے کو گلے لگائیں سو میرے عزیزو!
اپنے مالک سے تعلق کی نئی راہیں بھی ڈھونڈ
صرف سجدوں ہی سے روشن اپنی پیشانی نہ کر