Home / Socio-political / صلیب اورمصلوب

صلیب اورمصلوب

سمیع اللہ ملک

نہیں، نہیں یہ جو نظر آرہا ہے دھو کا ہے فریبِ نظر ہے اور کچھ نہیں ۔ یہ ایسا نہیں ہے جیسا نظر آرہا ہے ۔ اندر کی آنکھ کھول تب نظر آئے گا۔ وہ جو تیرے سامنے بیٹھا ہے ، جو کہہ رہا ہے وہ ایسا نہیں ہے ‘ہاں!جو کہہ رہا ہے وہ ایسابالکل نہیں ہے ۔ جو کہہ رہا ہے بس سن لے ایسا ہے نہیں ‘اور اگر اندر کی آنکھ کھل جائے ، نظرآنے لگے تو شکر کر نا کہ یہ تو فیق ہے ۔ رب کی عنایت ہے۔ مداری مت بن جا نا کہ ہر ایک کو کہتا پھرے جھوٹ بولتا ہے تُو ۔ اندر سے تُو تویہ ہے ۔ پر دہ پوشی کر نا ‘مرض سے لڑناہے مر یض سے نہیں ۔ پھر جب اندر کی آنکھ بینا ہو جا ئے تو اشکوں سے دھو تے رہنا کہ یہی ہے اسے مطہر کرنے کا پانی ۔ آنکھ کوناراض مت کرنا کہ اگر یہی ناراض ہو گئی تو سب کچھ بر باد ہو جائے گا۔ آنکھ خفا ہو جائے تو برے مناظر دکھاتی ہے ۔ برے مناظر تو ہو تے ہی برے ہیں ‘ وہ تو اچھے منظر کو ، اچھے چہر ے کو بھی میلا کر دیتی ہے۔ تیرے اندر کی آنکھ کھلے تب تو تُو پہچان پائے گاناں ! کھلے گی کب؟ جب رب راضی ہو جائے ۔ رب کرم کردے تو اندر کی آنکھ کو بینا کر دیتا ہے ۔ نہیں ، نہیں ……… جو نظر آرہا ہے دھوکا ہے، فریبِ نظر۔
بس رب سے جڑ ے رہنا ہر حال میں ………. غربت میں بھی اور تو نگری میں بھی۔ صحت مندہو جب بھی اور بیمار ہو تب بھی۔ ہر حال میں سر پا تسلیم رہنا ۔ راضی برضائے الٰہی رہنا کہ یہی ہے بندگی اور کچھ نہیں ۔ اپنا دامن بچانا کمال نہیں ، دوسروں کو بچا نا اصل ہے۔ دوسروں کی مدد کر تو وہ تیری مدد کو آئے گا’ اوروں کا دکھ بانٹ تو سکھی رہے گا۔ اندر کا سکون چاہیے تو دوسروں کے آنسوپو نچھ ۔ احسان کرکے مت جتلا نا ‘لیکن خبر دار رہنا ۔ بہت نا زک ہے یہ کا م ۔اپنے ذاتی مقصد کے لئے یہ سب مت کرنا ، اس لئے کرنا کہ رب کی مخلوق ہے اور مخلوق رب کو بہت پیاری ہے۔ تصویر کی تعریف مصور کی تعریف ہے۔ تخلیق کو سر اہنا خالق کو سر اہنا ہے۔ مخلوق میں رہ اور رب تک پہنچ ۔ جنگل ، بیاباں میں کچھ نہیں رکھا ‘مرنا تو بہت آسان ہے، زندہ رہنا کمال ہے۔ اپنے لئے نہیں پا بر ہنہ مخلوق کے لئے ، خاک بسر بندگانِ خدا کے لیے جی ، ٹوٹے دلوں سے پیار کر ، بے آسرا کے لئے سایہ بن شجرِ سایہ دار ‘ پھول بن ، خوشبوبن خلوص بن ، وفابن، جب رب خوش ہو تو مخلوق کے دلوں میں اُتارتا ہے تیری محبت، تجھے کیا خبر پھرکتنے ہاتھ رب کے حضور اٹھتے ہیں تیرے لئے۔
دیکھ رب خفا ہو جائے تو سب کچھ برباد ہو جا تا ہے۔ ہاں انسان کے اپنے اعضا بھی خفا ہو جا تے ہیں ۔ کان خفا ہو جائیں تو بری باتیں سنتے ہیں ٹو ہ میں لگ جا تے ہیں ، زبان خفا ہو جائے تو غیبت کرنے لگتی ہے مخلوق کی برائیاں بیان کرتی ہے ، چغلی کرتی ہے بہتان طرازی کرتی ہے، لوگوں کو آپس میں لڑاتی ہے حق کو چھپا تی ہے خوبیاں چھوڑ کر کو تا ہیاں بیان کرتی ہے، دلوں کو اجاڑتی ہے فساد برپا کر تی ہے۔ یہ زبان بہت کڑوی بھی ہے اور میٹھی بھی۔ یہ دلوں کو جو ڑتی بھی ہے اور تو ڑتی بھی۔ خفا ہوجائے تو اس کے شر سے کوئی نہیں بچ سکتا ، کوئی بھی نہیں ۔ جھوٹے وعدے کرتی ہے، بس رب ہی اس کے فساد سے بچا سکتا ہے ۔ پاؤں خفا ہو جائیں تو دوسروں کو آزار پہنچانے کے لئے اٹھتے ہیں ، برائی کی جگہ جاتے ہیں ہاتھ خفا ہو جائیں تو لوٹ مار کرتے ہیں قتل وغارت گری کرتے ہیں چھینا جھپٹی کرتے ہیں ۔ مارپیٹ کرتے ہیں خلق خدا کے حق میں تو نہیں اٹھتے بس مخلوق کو تباہ کر نے والوںکا ساتھ دیتے ہیں، ان کے ہاتھ اور بازوبن جا تے ہیں ۔ ذہن خفا ہو جائے تو بری باتیں سوچتا ہے ، بیہودہ خیالات کی آماج گاہ بن جا تا ہے، سازشیں کرتا ہے منصوبہ بندی کر تا ہے فساد کی ۔ اور دیکھ اگر دل خفا ہو جائے تو مُردہ ہو جا تا ہے اور تجھے معلوم ہے مرُدہ شے سڑنے لگتی ہے اس کی بدبوسے رب بچائے ، بے حس ہو جا تا ہے نیکی قبول ہی نہیں کر تا، برائی کی طرف بڑھتا ہے تفرقہ پھیلا تا ہے جو ڑ تا نہیں تو ڑنے لگتا ہے بس رب بچائے ان امراض سے اور رب ہی تو بچا سکتا ہے ۔ کچھ ہی لمحے تو جینا ہے ۔ ابھی آتے ہوئے اذان ہوئی تھی اور پھر جاتے ہوئے نماز، وہ بھی اگر نصیب ہو جائے تب۔
دوپل کے جینے کے لئے اتنے منصوبے ، اتنی جان ماری، اتنی ذلت، دردرکی بھیک ، خوشامد اور چا پلوسی ‘ کس خسارے میں پڑگیا میں ۔ رب تو فیق دے ، کر م کردے ، تب ہی تو میں پہچا ن پاؤں گا چیزوں کی اصل کو ۔ انسان کے اندرد یکھنا عنایت ربی ہے۔ پھل پھول تو سب کو نظر آتے ہیں ، جڑ کون دیکھے گا؟ وہ نظر کہاں سے لاؤں ! بس یہ تو فیق پر ہے، رب سے جڑنے میں ہے۔ جناب رسالت مآ بۖ نے فرمایا ہے ناں ” مومن کی بصیرت سے ڈر وہ خدا کے نور سے دیکھتا ہے”۔
کب پہچا نوں گا خود کو ، اپنے رب کو ، اپنے پالن ہارکو….. کب انکار کروں گا جھوٹے خداؤں کا……کب سہار ا بنوں گا خاک بسر مخلوق کا…… کب دوست بنیں گے میرے اپنے اعضا ۔ موت سے پہلے رب سے کیوں نہیں ما نگتا میں یہ سب کچھ ، کیوں آہ وزاری نہیں کرتا ۔ کب ہوش آئے گامجھے ؟ میرا رب بچائے اُس وقت سے جب مجھے ہو ش آئے اور وقت پورا ہو گیا ہو۔ کوئی چارہ نہ ہو بے بسی ہو۔ دیکھئے وہ میرا ساتھ نہیں چھوڑ تے ، پھر آگئے کیا خو بصورت بات کی ہے ، واہ میرے مالک کیسے نادر ونایا ب بندے پیدا کئے ۔ نہ کر تا تو ہم کتنے محروم رہ جاتے ۔
”نصیحت کرنے والوں کا ، ڈر انے والوں کا انجام یہی کیا ہے دنیا نے، کبھی صلیب پر چڑھا دیتے ہیں ، کبھی دار پر، کبھی اس پر کر بلائیں نا فذ کر دیتے ہیں ،کبھی وادیٔ طائف سے گزار دیتے ہیں ،کبھی کوئی صعوبت ، کبھی کوئی …. لیکن سلام ودرود ہو نصیحت کرنے والوں پر جن کے حوصلے بلند اور عزائم پختہ ہو تے ہیں ۔ جو گا لیاں سن کر دعائیں دیتے ہیں اور جوغافلوں سے غفلت کی چادریں اتاردیتے ہیں ، اور انہیں بے حسی کی نیند سے جگا تے رہتے ہیں ۔ تو کیا کتا بیں پڑھ لینا ہی کا فی ہے ؟ نہیں اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے بہت کچھ ۔ دنیا وقت کا عبرت کدہ ہے ، یہاں آنکھیں کھول کر چلنا چاہئے ۔ اپنی من مانی نہیں کرنی چاہئے پہلے من مانیاں کرنے والے کہاںگئے۔ ؟ عشرت کدے ، عبرت کدے کیوں بن گئے ؟ محلات کھنڈرات کیوں ہو گئے؟ دنیا میں جھوٹ بولنے والے کیا کیا نشانیاں چھوڑ گئے۔ ویرانیاں ہی نشانیاں ہیں” ۔
چنددن پہلے انہی صفحات پرقوم کوآگاہ کیاتھاکہ آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے اپناسیاسی سفرشروع کرنے والا حسین حقانی سفیربرائے امریکا کیسے بنا،کن آقائوں کی آشیرباد حاصل رہی اوراب قومی سلامتی کے مشیربننے کی یقین دہانی کے بعدوزیراعظم کی سیڑھی پرقدم جمانے کی خواہش نے ساراتماشہ چوپٹ کردیالیکن کیااس تمام ڈرامے کاتخلیق کاراب بھی چھپارہے گا؟محموددرانی کے بعدحسین حقانی سے استعفٰی طلب کرکے وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے اپنے چیف ایگزیکٹو ہونے کاثبوت توفراہم کردیالیکن کیااستعفے کے بعدمعاملہ اندھے کنوئیں میں غرق کرنے سے ختم ہوجائے گا؟شائد اب ایسا نہ ہوسکے گا، کون کب تک کسی کی صلیب پرمصلوب ہوگا؟اس کافیصلہ اب ہوجاناچاہئے!

جہاں میں ہم بھلا کب تک رہیں گے
تماشا ختم ہو گا، چل پڑیں گے
کسی کی آگ میں ز ندہ رہے تو
ہم اپنی آگ کب روشن کریں گے

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *