ڈاکٹر خواجہ اکرام
طالبان اور القاعدہ الگ سمجھنے کی کوشش:
دہشت گردی کو ختم کرنا ہے یا دہشت گردی کے آگے سر جھکانا
دنیا بھر میں طالبان اور القاعدہ کے دہشت گردانہ واقعات نے لوگوں کو عرصے سے دہشت زدہ کر رکھا ہے ۔ لیکن دہشت کی زد میں آنے والے ممالک اور افراد اور اداروں نے کبھی بھی ان کو الگ کر کے نہیں دیکھا ۔ جب بھی طالبان کا نام آیا تو ساتھ میں القاعدہ کا بھی نام آیا۔اس کی ابڑی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ دونوں تنظیموں نے کئی کاروائیوں میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا اور کئی بار ایک فرد کو دنوںٕ تنظیموں کا رہنما سمجھا گیا۔ اس تصور نے ایک طرف امریکہ اور دہشت گردی کے خلاف لڑنے والے اتحادی ممالک کو نقصان پہنچایا تو دوسری جانب اس ان جماعتوں کو تقویت بھی بخشی ۔تقویت اس طرح ملی کہ اگر کوئی دہشت گردانہ عمل سامنے آیا تو آنکھ بند کر کے حکام نے کبھی اسی ایک معاملے کے لیے طالبان کو ذمہ دار ٹھہرایا تو القاعدہ کو بھی اس کے لیے ملزم قرار دیا۔ اکثر امریکہ اور اتحادی ممالک نے دونوں کو ایک ہی سمجھا اور ایک ہی جیسا برتاؤ بھی کیا ۔ جس کے نتیجے میں یہ دونوں تنظیمیں ایک ساتھ ہوگئیں اور با لخصوص افغانستان کے معاملے میں دونوں نے مل کر امریکہ کا مقابلہ کیا ۔شاید یہی وجہ تھی کہ اسامہ بن لادن کا افغانستان میں طالبان نے خیر مقدم کیا اور افغان جنگ کی کمان ان کے ہاتھوں میں سونپ دی۔ اس کے بعد یقینی طور پر اپنے اپنے اہداف حاصل کرنے کے لیے یہ دونوں تنظیمیں ایک ہوگئیں اورآج بھی بہت حد تک ایک ہیں ۔ ان تنظیموں میں شامل افراد کو بھی شاید ان کے الگ الگ ہونے کا فرق نہیں معلوم ہوگا ۔ کیونکہ دونوں تنظیموں نے امریکہ کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے ۔ ساتھ ہی پاکستان میں ان فوجیوں اور تنظیموں کو بھی نشانہ بناتے رہے ہیں جو ان کے مفادات میں رکاوٹ سمجھے جاتے ہیں ۔اسی لیے آج تک ایک عام آدمی یہ مسجھ نہیں سکا کہ ان دونوں میں بنایدی فرق کیا ہے ۔ کیونکہ آج جس بنیاد پر ان کو الگ الگ تصور کیا جا رہا ہے وہ صرف یہ ہےکہ القاعدہ کا ہدف عالمی جہاد ہے جبکہ طالبان کا ہدف افغانستان میں مزاحمت ہے۔ جبکہ کئی یوروپی ممالک او ر دوسرے ملکوں میں دہشت گردانہ واقعات کے لیے کبھی طالبان کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تو کبھی القاعدہ کو مورد الزام بنایا گیا۔ اس سے یہ غلط فہمی اور عام ہوئی ۔ اس لیے ابھی اقوام متحدہ کے ذریعے دونوں کو الگ سمجھنے کی جو کوشش ہوئی ہے اس کو بھی سمجھنا ضروری ہے کہ کیا واقعی اس تفریق سےکوئی مقصد حل بھی ہوگا؟۔اس کو سمجھنے سے پہلے اقوام متحدہ کی اس پہل سے متعلق مختلف اخبارات کی رپورٹ ملاحظہ فرمائیں ؛‘‘اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے متفقہ طور پر طالبان اور القاعدہ پر پابندیوں کی فہرستوں کو الگ الگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں طالبان اور القاعدہ پر پابندیوں کے لیے ایک ہی کمیٹی تھی لیکن اب متفتہ طور پر اتفاقِ رائے ہوا ہے کہ دونوں کے ساتھ علیحدہ علیحدہ نمٹا جائے۔سفارتکاروں کے مطابق اس فیصلے سے سلامتی کونسل نے طالبان کو پیغام بھیجا ہے کہ سیاسی نظام کا حصہ بننے کا یہی موقع ہے۔اس کے علاوہ طالبان اور القاعدہ کو الگ کرنے کا مقصد افغانستان میں مصالحت کی کونسل کی حمایت بھی ہے جو طالبان سے مذاکرات میں مصروف ہے۔مغربی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد ایک ایسا موقع سامنا آیا ہے کہ طالبان کو اس بات کی طرف راغب کیا جائے کہ وہ القاعدہ سے ناطہ توڑ کر سیاسی عمل کا حصہ بن جائیں۔پابندیوں کے اطلاق کے لیے القاعدہ کو الگ کرنے سے یورپی عدالتوں کا اعتراض بھی دور ہو گیا ہے جن کا کہنا تھا کہ طالبان اور القاعدہ ایک ہی کشتی کے سوار نہیں ہیں۔اقوام متحدہ کے سفارتکاروں کے مطابق سلامتی کونسل کی نئی قرارداد کے ذریعے تسلیم کیا گیا ہے کہ دونوں گروہوں کے الگ الگ اہداف ہیں۔القاعدہ کا ہدف عالمی جہاد ہے جبکہ طالبان کا ہدف افغانستان میں مزاحمت ہے۔لیکن اس قرارداد پر عمل درآمد سے پہلے طالبان کی طرف سے واضح پیغام کا انتظار ہے کہ انہوں نے القاعدہ کے ساتھ تعلقات ترک کر دیے ہیں، تشدد کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور آئین کو تسلیم کرتے ہیں۔طالبان رہنماؤں پر یہ پابندیاں دس سال پہلے عائد کی گئی تھیں۔ جن طالبان رہنماؤں پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں ان میں ساڑھے چار سو ایسی شخصیات یا ادارے شامل تھے جن کا تعلق طالبان اور القاعدہ سے تھا۔ اس فہرست میں طالبان سے منسلک افراد اور اداروں کی تعداد ایک تہائی سے بھی کم بتائی جاتی ہے۔’’
ظاہری طور پر ایسا لگتا ہے کہ اس کے پیچھے صرف ایک منشا ہے کہ کسی طرح افغانستان میں موجود طالبان اور القاعدہ کےلوگوں کے درمیان ایک فصیل کھڑی کردی جائے تاکہ یہ منتشر ہو جائیں اور ان کی طاقت بٹ جائے ۔اور افغانستان سے امریکہ کے انخلا سے پہلے کوئی ایسی صورت نکل آئے کہ موجودہ حکومت یا آنے والی حکومتیں اس طاقت کو امریکی مفاد کے لیے یا افغانی مفاد کے لیے استعمال کر سکیں ۔ لیکن عملا ایسا ممکن نظر نہیں آرہا ہے کیونکہ اس کی تہہ میں کئی اور حقائق ہیں جن کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہےکہ اب طالبان کے کئی گروپ ہیں جو افغانستان اور پاکستان کے سر حدی علاقوں میں سر گرم ہیں ، اور ان کے بھی الگ الگ اہداف ہیں ۔مقامی طالبان کے حوالے سے گذشتہ مہینے کئی خبریں آئیں جن میں یہ کہا گیا کہ وہ پاکستان کی موجودہ حکومت اور فوج کے خلاف اس لیے ہیں کہ وہ انھیں اپنے راستے میں پہلی رکاوٹ سمجھتے ہیں ۔اس کے علاوہ سر حدی علاقوں میں الگ الگ گروپ کی شکل میں موجود تنظیموں کے حوالے یہ بھی کہا گیا ہے کہ در اصل وہ بھی القاعدہ اور طالبان کے ہی بنائے ہوئے ہیں ۔ اگر یہ سہی ہے تو اب ایک اور مسئلہ یہ ہوگا کہ جب یہ گروپ بنے تھے تو ان کے دست نگر رہے ہوں گے لیکن اب وہ اتنے طاقتور ہوچکے ہیں کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہیں اور کئی جگہ سے ان کو سر پرستی بھی حاصل ہے۔ایسے میں صرف طالبان اور القاعدہ کو الگ الگ تصور کرنے سے بات تو نہیں بنے گی ۔
بہت ممکن ہے کہ کچھ ہی دنوں پہلے یہ خبر آئی تھی کہ امریکہ نے ملا عمر کے ساتھ رابطہ قائم کر لیا ہے اور رابطہ کا مطلب یہ ہے کہ کچھ ڈیل ہورہی ہے ۔ اگر ملا عمر کے ساتھ ڈیل نہیں ہورہی ہے تو عین ممکن ہے کہ افغانستان میں موجود کچھ گروپہ کے ساتھ ڈیل کر کے ان طاقتوں کو منتشر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔حالانکہ یہ طاقتیں اتنی شکلوں میں موجود ہیں کہ ان کو سمجھنا ، ان کو الگ کرنا اس وقت تک ناممکن ہوگا جب تک ان کے تمام چھوٹے بڑے گروہوں سے بات نہ کر لی جائے کیونکہ صرف یہ کہہ دینا کہ ایک کا مقصد عالمی سطح پر جہاد ہے اوردوسرے کا مقصد افغانستان ہے ، کافی نہیں ہوگا ۔ پھر ایسی صورت میں جو گروہ ہندستان کے زیر انتطام کشمیر میں جہاد کا نعرہ دیتے ہیں اور ہندستان میں امن کو بگاڑنے کا کام کر رہے ہیں ان کو کیا کہا جائے گا؟ یا اسی طرح جو گروہ باجوڑ ایجنسی اور سرحدی علاقوں میں پاکستان کی سر زمین پر قتل وغارتگری کر رہے ہیں ، ان کو کیا کہا جائے ؟ابھی مولوی فقیر محمد کے بیانات اتنے دنوں کے بعد پھر سے سامنے آنے لگے ہیں ۔ ان کے بیان کو کس زمرے میں رکھا جائے گا ؟ابھی باجوڑ ایجنسی کی تحصیل ماموند کے ایک گاؤں پر سینکڑوں افغان دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے حملے میں دو خواتین سمیت 5افراد جاں بحق جبکہ 8شدید زخمی ہوگئے۔اس حملے کو کیا کہا جائے گا؟کیونکہ شدت پسندوں نے امن لشکر کے 25رضاکاروں کو اغوا کرلیا اور اپنے ساتھ لے گئے ۔ یہ شدت پسند کون ہیں ؟ جو مسجدوں میں پناہ گزینوں کو بھی نہیں بخشتے اور امام سمیت نمازیوں کو بھی گولیوں سے بھون ڈالتے ہیں اور قرآن پاک کی بھی بے حرمتی کرتے ہیں ۔اس کے علاو ہ اور بھی کئی تنظیمیں ہیں جو خود پاکستان کے اندر موجود ہیں جو کبھی پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو کبھی پاکستان کے پڑوسیوں پر اپنا قہر برساتے ہیں ۔
اس اقوام متحدہ کی صرف یہ پہل جس میں لفظی تعبیر وتشریح کی گئی اور اس بنیاد پر ان کو الگ کر کے دہشت گردی کو ختم کرنے کا اگر یہ منصوبہ ہے تو ادھورا ہے کیونکہ صرف ان دو تنظیموں کو نہیں بلکہ اس حوالے سے جتنی بھی تنظیمیں ہیں ان کو سمجھنا ہوگا اور ان کو ختم کرنے لیے اگر مذاکرات کرنے کا اردادہ ہے تو ان کی بھی سننی ہوگی اور ان کے دائرہ کار کو بھی سمجھنا ہوگا ۔ کیونکہ یہ تمام دہشت گرد بنیادی طور پر اپنے مقصد اور منشا کے اعتبار ایک ہیں ۔کسی کا دائرہ کار بڑا ہے تو کوئی کسی خاص ملک پر نگاہیں گڑائے بیٹھا ہے تو کوئی صرف ایک علاقے تک محددو ہے ۔اس لیے اگر اقوام متحدہ صرف یہ منشا ہے کہ وہ اس طرح افغانستان میں امن قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے تو یہ خیال خام ہوگا اور دوسرے معنوں میں دہشت گردوں کے آگے سر جھکانا ہی سمجھا جائے گا۔