پاکستان میڈیا میں ایک بار پھر یہ خبر تیزی سے گردش کر رہی ہے کہ طالبان مذاکرات کی میز پر آنا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اس خبر میں یہ لاحقہ بھی لگا ہے کہ یہ مذاکرات غیر مشروط نہیں ہونگے بلکہ اس مذاکرات کے لئے شرط یہ ہے کہ نواز شریف، منور حسین اور مولانا فضل الرحمن ضمانت دیں۔ پاکستان کے موجودہ حالات کو دیکھیں اور اس میں طالبان کے شدت پسند رویے کا جائزہ لیں تو یہ بات فطری نظر آتی ہے کہ کسی ملک کے اپنے ہی لوگ اگر کسی مسلح جد و جہد میں ملوث ہوں اور کسی وقت مذاکرات کے ذریعہ اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیں تو حکومت کو چاہئے کہ وہ ان کی حوصلہ افزائی کرے اور تشدد کی راہ چھوڑنے والوں کو اپنے گلے سے لگا کر ان کی محرومی کا ازالہ کرے۔ اس بات کو اب ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ گھریلو مسائل کو حل کرنے کے لئے ہتھیاروں کا چاہے جس قدر استعمال کیا جائے بالآخر انہیں مذاکرات کی میز پر ہی حل کیا جاتا ہے۔ طالبان بھی اگرپاکستان کے اپنے لوگ ہیں اور اپنی حکومت سے بات کرنا چاہتے ہیں تو اس اقدام کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ جہاں تک بات مولانا فضل الرحمن ، نواز شریف اور منور حسین کے ضمانت کی ہے تو بظاہر اس میں بھی کچھ برائی نہیں ہے کیونکہ وہ اس ملک کے بڑے لیڈران ہیں جنہیں عوامی حمایت کے ساتھ ساتھ سیاسی قوت بھی حاصل ہے اور یہ لوگ بہتر ثالثی کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اب بات رہ جاتی مذاکرات کی اس دعوت پر حکومتی رد عمل کی تو اس بار حکومتی رد عمل بے حد محتاط ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ کیا بات ہوئی ایک طرف تو طالبان مذاکرات کی دعوت دے رہے ہیں اور دوسری طرف حکومت اس قدر محتاط کیوں ہے؟ آخر وہ بھی تو پاکستان کے اپنے بچے ہیں۔ اور بقول رحمان ملک Son of the Soil ہیں۔ تو پھر یہ جھجک چہ معنی دارد؟
پاکستان کے اس محتاط رویے سے لوگوں میں حیرت اس لیے نہیں ہونی چاہیے کہ ماضی میں طالبان کا اپنا رویہ مخلصانہ نہیں رہا ہے اور ایسے میں دودھ کا جلا چھاچھ پھونک کر نہ پیے تو اور کیا کرے۔ طالبان جو بظاہر حکومت پاکستان سے اس حوالے سے بات کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اسی سرزمین کے لوگ ہیں اور حکومت ان کی باتوں پر غور کرے در حقیقت اس مذاکرات کی آڑ میں خود کو اور مستحکم کرنا چاہتی ہے تاکہ آنے والے وقت میں وہ پاکستان اور افغانستان میں اپنے کردار کو یقینی بنا سکے۔ یہ پاکستان کے وہ لوگ ہیں جو اپنی ہی حکومت کے ساتھ ہوئے سمجھوتے کو اسی حکومت کے خلاف خود کو طاقتور کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی وفا داریا ں ہمیشہ مشکوک رہی ہیں اور بجا رہی ہیں۔ ایسے لوگوں سے مذاکرات کے نام پر حکومت محتاط نہ ہو تو کیا ہو۔ حکومت کو چاہئے کہ طالبان سے مذاکرات کے درمیان ان کی نقل و حرکت پر بھی نظر رکھے اور پھر سے سوات ، مالاکنڈ اور وزیرستان کے ان علاقوں سے فوج ہٹانے کی غلطی نہ کرے کیونکہ اس طرح طالبان کو پھر سے اپنی طاقت مجتمع کر کے فوج اور حکومت کے خلاف محاذ آرائی کا سنہری موقع مل جائے گا اور پاکستان کے اوپر ایک بار پھر ان علاقہ جات پر قبضے کے لئے کی جانے والی جنگ کا بوجھ آن پڑے گا۔ اس لئے حکومت پاکستان کا یہ محتاط رویہ ہی دراصل بہتر اور مستحسن رویہ ہے۔