Home / Socio-political / طرز فکر بدل لینا چاہیے

طرز فکر بدل لینا چاہیے

                      

طرز فکر بدل لینا چاہیے

عباس ملک

اس وقت ملک اور معاشرے میں انقلابات کی ایک لہر آئی ہوئی ہے ۔ہر سیاسی جماعت ملک میں انقلاب لانے کی دعویدار ہے ۔ یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اتنے سارے انقلابات کا یہ معاشرہ کیسے متحمل ہو گا ۔ ہر کسی کی اپنی ترجیحات کا انقلاب ہے ۔ کوئی سیاسی جمہوری انقلاب کا نعرہ بلند کر رہا ہے ۔ کوئی انصاف کے نام پر انقلاب کی دہائی دے رہا ہے ۔ کسی کو مذہبی انقلاب کا علم تھامنے کا دعوی ہے ۔کوئی صنعتی اور معاشی انقلاب لانے کی تمنا کو بنیاد بنا کر عوام سے پیروی اور حمایت کی طلب گا ر ہے ۔عوام اس گو مگو کی کیفیت میں ہیں کہ وہ کس کو حق پر جانیں اور کس کو راستی پر جانیں ۔ معاشرے کو کسی ایک سمت میں یکسو ہونے ہی نہیں دیا جاتا ۔ عوام کو سمجھ نہیں آتی کہ وہ مذہبی بنیں یا جمہوری اقدار کی پیروی کریں ۔

انہیں یہ معلوم نہیں کہ مذہب اور جمہوریت کا آپس میں کیا تعلق یا رشتہ ہے ۔ پروفیسر طاہر القادری صاحب کے علم کے سامنے ہم ابھی طفل مکتب کہلانے کے بھی لائق نہیں لیکن تضاد بیانی باہر سمجھ آجاتی ہے ۔ ان تضادات کی تردید نہ کر کے وہ مزید اہل سنت اور حنفی عقائد کے متعلق لوگوں کے شکوک کو گہرا کر رہے ہیں ۔ ایک مذہبی عالم ہونے کے ناتے انہیں جمہوریت یا ریاست کی بجائے مذہب اور مذہبی روایات بچانے کی زیادہ فکر کرنی چاہیے تھی ۔ اب جب وہ کہتے ہیں کہ سود کینڈا میں حلال ہے تو یہ استدلال وہ کہاں سے لائے اور اس کیلئے ان کے پاس جانے کیا منطق ہے ۔ میں اپنے ناقص علم ومنطق کی بنیاد پر صرف یہ کہ سکتا ہوں کہ قرآنی احکامات کیا صرف مسلم معاشرے پر ہی لاگو ہوتے ہیں ،یا مسلمان اگر غیر مسلم معاشرے میں بسر کر رہا ہو تو اسے اس سے استثنا حاصل ہو جاتاہے ۔ اس کے بعد انہوں اپنی اس تصویر جو سوشل میڈیا نیٹ ور ک پر عام ہو چکی ہے کی کوئی تردید نہیں کی جس میں ایک آدمی انہیں بھری محفل میں سجدہ کر رہا ہے ۔ سجدہ کرنے والا تو جاہل تھا لیکن کیا پروفیسر صاحب جن کا یہ دعوی ہے کہ وہ بشارت رسول پاک ہیں کو یہ زیب دیتا ہے ۔ کیا انہیں جانتے ہوئے کہ غیر اللہ کو سجدہ ، تعظیمی سجدہ ممنوع ہیں ،شرک ہیں کی اجازت دینی چاہیے تھی۔ اگر اس عمل پر انہوں نے کراہت کا اظہار نہیں کیا اس شخص کو منع نہیں کیا اس محفل کو اگاہ نہیں کیا کہ اس شخص نے یہ غلط کیا تو کیا وہ خود کو باعلم اور باعمل مسلمان قرار دینے اور اس امت کی راہنمائی کا فریضہ سرانجام دینے کے دعویٰ اور بشارت رسول کے دعویٰ میں سچے ہیں۔ اس کے بعد مذہبی کتب میں یہ بار ہا لکھا ہے کہ جھوٹا ،فریبی اور منافق ہی قسمیں اٹھا کر اپنی بات کا یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس بات کو جانتے ہوئے بھی انہوں نے اپنی تقریر میں قسم اٹھا کر کسی سے اپنے تعلق اور لاتعلقی کا اظہار کیا ۔ مذہبی اور سماجی خدمت کے دعوی میں سچے ہونے اور انقلاب لا نے اور ریاست کو بچانے کے عمل میں وہ ایسے عناصر کی ہم نشینی کی کیا توجیہ پیش کریں گے جو انڈیا میں کھڑے ہو کر پاکستان کو ایک گناہ قرار دے چکے ہیں ۔ جن کے ہاتھ عوام کے خون میں رنگے ہیں۔ جو پاکستان اور معاشرہ کے مخالف سرگرمیوں میں پوری طرح ملوث ہیں ۔ اس کے بعد وہ آئین کی سربلندی کے دعوی کر کے آرٹیکل 62کا حوالہ دیتے ہیں تو پھر وہ خود کو کیا اس معیار پر پورا کیسے کریں گے ۔کیا یہ سچ نہیں کہ عوام نے انہیں اپنی نمائیندہ بنا کر قومی اسمبلی میں بھیجا اور وہ مستعفی ہو کر اس جمہوریت سے برآت کا اظہار کر کے ہاتھ کھڑے کر چکے ہیں۔ آج انہیں پھر کیسے خیال آیا کہ یہ جمہوریت ہی عوام کے زخموں کا مرہم اور وہ خود اس جمہوریت کے چمپیئن ہیں۔انہوں نے تو پاکستان کی شہریت چھوڑ کر کینڈا کی شہریت اختیار کر ثابت نہیں کیا کہ ان کیلئے اب پاکستان کوئی اہمیت نہیں رکھتا ۔ پھر انہیں اچانک کیسے یاد آگیا کہ پاکستان اور پاکستان کے عوام اور جمہوریت کو ان کی ضرورت ہے ۔ اس سے پہلے جاوید ہاشمی صاحب بھی ایسا ہی ارشاد فرما چکے ہیں کہ وہ مصلحتوں کے آسیر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر دو کو دراز عمر عطا فرمائے لیکن کیا انہیں زندگی کا بیشتر حصہ یہ ہی سمجھ نہیں آئی کہ وہ کیا کررہے ہیں کیوں کر رہے ہیں کس کیلئے کر رہے ہیں تو پھر یہ کیسے مان لیا جائے کہ اب وہ اپنے دعویٰ میں سچے ہوں گے ۔ پروفیسر صاحب بشارت رسول ہونے اور نبی پاک کا ان کا نام طاہر تجویز کرنے کے بعد کیا اس یہ سمجھا سکتے ہیں کہ کیا سرکار دو جہاں نے انہیں جمہوریت کی خدمت کیلئے نامزد فرمایا تھا کہ اپنے دین کی خدمت کیلئے ان کی بشارت دی ۔ اگر سرکار نے جمہوریت کے انہیں نامزد کیا تھا تو انہوں نے اپنی قومی اسمبلی کی نشست کے مستعفی ہو کر سرکار کے فرمان کی تکذیب تو نہیں کی ؟ اگر دین کی خدمت کیلئے سرکار نے آپ کو منتخب فرمایا تو آپ جمہوریت کے کھیل میں شریک ہو کر سرکار کے فرمان کے متضاد کیوں کر رہے ہیں ؟

ہرگز مقصود نہیں کہ آپ کی تکذیب کی جائے لیکن آپ کو سرکار کے فرمان کے برعکس کرنا کیا زیب دیتا ہے ۔اس زیب دستان میں مخالفت برائے مخالفت کی بجائے صرف مخالف عناصر کے ذہنوں کو الجھاتے سوالوں پر اکتفا کیا ہے ۔ اس سے سیاست نہیں ریاست بچائو کے نعرے کی بھی نفی ہوتی ہے ۔ اگر سیاست نہیں تو پھر ریاست بھی لولی لنگڑی ہے ۔اس کو سیاست کامحتاج بنانے کی بجائے کس کا محتاج بنانے کی سوچ ہے ۔ موروثی سیاست کی مخالفت ضرور ی ہے لیکن کیا نواز شریف اور پنجاب ہی میں سب برائیاں ہیں۔ ایک عالم دین ہونے کے ناتے ، آپ کو اور کسی میں کوئی برائی نظر نہیں آئی۔ عمران خان صاحب کے ہمرکاب کیا سب زم زم نہا گئے ہیں ۔پیپلز پارٹی نے تو ملک میں دودھ شہد کی نہریں بہا رکھی ہیں۔ ایم کیوایم نے کراچی کو بین الاقوامی شہر سے گروہی ولسانی فسادات کی آماجگاہ بنا کر سعادت مندی کا ثبوت دیا ہے۔ اے این پی او رمولانا فضل الرحمان زرداری نوازی میں جس حد تک گئے ہیں وہ بھی قابل معافی ہے ۔ اس ملک کو نوازشریف سے ہی خطرہ ہے اور باقی سب اس کے نگہبان ہیں ۔نواز شریف نے بھی غلطیاں کی ہیں لیکن ان کا تناسب اور ان کے عوامی اثرات کو اگر تقابلی طور پر دیکھا جائے تو وہ ان کے مقابلے میں عشر عشیر بھی نہیں جو زرداری اینڈ کو نے پاکستان اور پاکستانیوں کو پہنچائے ہیں۔پاکستان کو لسانی اور گروہی سیاست کا اکھاڑا بنانے والوں کی ہمرکابی سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ عوام دشمن عناصر کا ساتھ آپ کو بھی عزیز ہے ۔ کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا ہوتا ہے ۔ جاننے کے باوجود بھی اگر قادری صاحب آپ نے اس میں ہاتھ ڈالا ہے تو پھر شاید آپ کے مقاصد تو پورے نہ ہوں کیونکہ عوام کو اب سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ کون کس کا مہرہ بن کر سامنے آ یا ہے ۔ اس سے البتہ اگر نقصان ہو ا تو دین کا ہوا ہے ۔ دین کے ایک پیش بند نے دین کو دنیا کی خریداری میں استعمال کیا ہے ۔عوام الناس کا علماء دین پر اعتماد مجروح ہو اہے ۔ پہلے مولانا فضل الرحمان نے دین کے نام پر دنیا کو ترجیح دیکر عوام میں علماء دین کے وقار کو دھچکا دیا ۔ اب آپ نے اس گرتے ہوئے وقار کو مزید گرا دیا ۔ دین کے پیش بند اگر اس طرح دین کے ساتھ کھیلتے رہے تو پھر دین کا محافظ کون ہو گا ۔ عوام الناس کی راہنمائی کیلئے دین کی اخلاقیات سے روگردانی کا نتیجہ ہی تو یہ ہے کہ آج ریاست کو خطرہ ہے ۔ آج جمہوریت کو خطرہ ہے ۔ ریاست اور جمہوریت کو بہروپیوں سے خطرہ ہے ۔ منافقین سے خطرہ ہے۔

انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان میں آپ جیسے صاحب علم لوگ ، بے علم اور بے عمل ہو کر گھنائونا کردار ادا کر کے تاریخ میں قاضی بغداد کی یاد تازہ کر رہے ہیں۔ عوام تو پہلے بھی پس رہی ہے اور بعد میں بھی اس کا اللہ مالک ہے لیکن یاد رہے کہ پاکستان کا دشمن کبھی عزت کی موت سے ہمکنار نہیں کیا گیا۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *