Home / Socio-political / عافیہ کی رہائی قوم پر فرض بھی ہے اور قرض بھی

عافیہ کی رہائی قوم پر فرض بھی ہے اور قرض بھی

شفیق اجمل،  پاکستان

یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب پاکستان کے شہر ،قصبے اور ملک ”سب سے پہلے پاکستان “ کے نعروں سے گونج رہا تھا پاکستان اور پاکستانیت کے محافظ پاکستان کو سب سے آگے لے جانے کے دعوے کر رہے تھے آج سے ٹھیک 9سال پہلے 30مارچ 2003کا ایک اداس دن تھا ۔جب پاکستانیت کے چہرے پر کالک ملی گئی کراچی کے علاقے گلشن اقبال سے ایک خاتون اپنے 5سالہ بیٹے ، ساڑھے 3سالہ بچی اور چھ ماہ کے شیر خوار بچے کے ہمراہ اسلام آباد جانے کے لئے ایئر پورٹ کی طرف رواں دواں تھی کہ راستے ہی میں بچوں کے ہمراہ اغوا ہو جاتی ہے یہ ایک مسلمان عورت اورایک پاکستانی بیٹی تھی۔یہ عام خاتون نہیں تھی ۔ اسے ملک کے ذہین ترین افراد میں شامل کیا جا سکتا ہے ۔یہ خاتون دنیا اور امریکہ کے اعلیٰ ترین ادارے کی سند یافتہ تھی لیکن وطن ، اسلام ، اپنے معاشرے اور اپنے لوگوں کی محبت جو اس کی رگوں میں سمائی ہو ئی تھی سے امریکہ میں رہ کر ڈالر کمانے کی بجائے واپس اپنے ملک کے لئے آئی تھی یہ خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی تھی ۔ جو اپنے عوام کی خدمت کر نے اپنے ملک کا نام روشن کر نے اس دیس کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم سے بہرہ ور کر نے ملک کے فرسودہ نظام تعلیم کو بدل کر ملک میں حقیقی تعلیمی انقلاب بر پا کر نے کے جذبے سے سر شار تھی لیکن امریکی آقاؤں کے کہنے پر ہمارے غلاموں نے اپنا پاکستان ہی دے دیا ۔ سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے والے پاکستان ہی کو بیچ گئے عافیہ کے بدلے ڈالر ،اللہ کے بجائے امریکی غلامی کا طوق لے لیا سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ بلند کر نے والوں اپنے لگائے نعرے کی لاج بھی نہ رکھی اور ایک معصوم بے گناہ اور نہایت مہذب تعلیم یافتہ خاتون کو امریکی خفیہ اداروں کے سپرد کر دیا ۔

امریکی خفیہ اداروں کی قید میں معصوم عافیہ پر کیا بیتی ؟ اسے کن لوگوں نے بیچا اور کس نے قوم کی بیٹی کے بدلے ڈالر اور امریکی شہریت لی ۔ یہ سب تاریخ کا حصہ بنتا جا رہا ہے معلوم نہیں یہ داستان کبھی مرتب ہو پائے گی یا نہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ بیٹی فروش لوگ اس دنیا میں سکھ اور اطمینان کا سانس نہیں لے پائیں گے ۔ٍ

انہوں نے عافیہ پر دہشت گر دی میں ملوث ہو نے کے الزامات عائد کئے ، القاعدہ کا ایجنٹ قرار دیا اس کی حب الوطنی پر شکوک و شبہات ظاہر کئے اسے امریکی پاسپورٹ ہولڈر کہا لیکن جب جج نے عافیہ کے خلاف فیصلہ سنایا تو پاکستانیوں کو کنفیوز کر نے والی تمام باتیں غلط ثابت ہوئیں اور آج عافیہ کی امریکہ سے باعزت واپسی ہر چھوٹے ،بڑے غریب ،امیر پاکستانی کے دل کی آواز بن چکی ہے اگر پاکستان کے اداروں کے ذمہ داروں کو اس بات کا یقین نہیں آتا تو وہ عافیہ کی رہائی کے مسئلے پر ریفرنڈم کر واسکتے ہیں وہ عافیہ کے مسئلے کو پارلیمنٹ میں اٹھا سکتے ہیں کسی بھی عوامی جلسے کے شر کاء سے عافیہ کی واپسی کے متعلق سوال کر سکتے ہیں آج پوری قوم مل کر عافیہ کی امریکہ سے واپسی کا مطالبہ کر رہی ہے بلا شبہ یہ ہماری قوم کا المیہ ہے کہ ہمارے مقتدر لوگ ظاہر میں کچھ اور باطن میں کچھ ہیں عافیہ کی واپسی کا معاملہ کسی بھی حوالے سے ملک کے لئے سیکیورٹی رسک نہیں ہے انسانی ہمدردی کی بنیادروں پر عافیہ کی رہائی کا مسئلہ دنیا کے ہر پلیٹ فارم پر اٹھایا جا سکتا ہے اس سلسلے میں سعودی عرب ، تر کی اور دیگر دوست ممالک کا تعاون حاصل کر نا پڑے تو وہ بھی ممکن ہے انسانی حقوق کی خاطر کام کر نے والی دنیا کی بہت سی تنظیمیں حکومت پاکستان کے ایک مطالبے پر میدان میں آسکتی ہیں اور پوری دنیا کے میڈیا کے ذریعے وہائٹ ہاؤس تک عافیہ کی رہائی کا مطالبہ بھرپور دباؤ کے ساتھے پہنچایا جا سکتا ہے ایک غیر مسلم حج کے اپنے فیصلے میں لکھنے کے بعد کہ عافیہ کا کسی دہشت گرد تنظیم سے تعلق نہیں ہمارے حکمرانوں کے لئے عافیہ کی رہائی میں دلچسپی نہ لینے کا جواز نہیں بن سکتا حقیقت صرف یہ ہے کہ ہمارے سیاست دان ، ہمارے مقتدر لوگ ،ہمارے رہنما ، ہمارے بہت سے قائدین عافیہ کی رہائی میں سنجیدہ ہی نہیں ہیں ۔

ملکی میڈیا کے بہت سے بڑے لوگ جو عام آدمی کے مسائل کے حل کی خاطر قابل قدر طور پر دن رات ایک کر دیتے ہیں عافیہ کے مسئلے کو مستقل پسندی کے ساتھ اٹھائیں اور کوششیں کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ عافیہ با عزت طور پر واپس نہ آسکے ۔

عافیہ کی رہائی سے امریکی پالیسی ساز شاید اتنا تحفظ محسوس نہ کر تے ہو ں جتنا ہمارے ملک کے فیصلہ سازوں کو اندیشے لاحق ہیں حالانکہ ان پالیسی سازوں کو اس بات پر غورکر نا چاہیئے کہ اگر وہ ڈاکٹر عافیہ کو امریکہ سے لے آنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ملک میں جاری خانہ جنگی کی روک تھام کا ایک بڑا جواز مہیا ہو جائے گا ، خودمختاری اور آزادی کے جذبات اور محسوسات سے محروم ہو ئی قوم کی رگوں میں توانائی اورطمانیت کی ایک نئی لہر دوڑ جائے گی ۔ ملک میں جمہوریت ، عوام کے حقوق ، تعلیم اور صحت کے ساتھیوں کی بحالی اور قوم کے اتحاد اور یکجہتی کی خاطر جدو جہد کر نے والے تمام طبقات کو ایک نیا حوصلہ ، نئی فکر اور نئی ہمت میسر آئے گی عافیہ صدیقی کی واپسی سے پاکستان میں خواتین کے حقوق کی خاطر جدوجہد کر نے والی تنظیموں کو بھی نئی روشنی میسر آسکے گی ۔ جبکہ عمومی طور پر ملک کے مستقبل سے مایوس لوگوں کو بھی نئی امیدیں اور نئی روشنی نظر آنے لگے گی ۔

اس وقت ملک کے جو بھی حالات ہیں سب کے سامنے ہیں ہم مجموعی طور پر بزدلی کم ہمتی ، حق کو مصلحت کے نام پر پوشیدہ رکھتے اور دب کر خوف و ہراس کے عالم میں زندگی بسر کر نے پر مجبور ہیں یہ خوف ، یہ بزدلی ، یہ مایوسی اور ہماری باہمی خانہ جنگی اور آپس کی نفرتیں یہ سب ہم پر قدرت کا عذاب ہے ، فطرت ہم سے انتقام لے رہی ہے ۔30مارچ 2003کے بعد سے اب تک ہم پر کتنی ہی قدرتی آفات ٹوٹیں پس یاد کیجئے کہ کیا اس سے قبل ہم کبھی ایسے پے در پے بحرانوں ، عذابوں اور مسائل کا شکار ہو ئے تھے ؟ ہم ایک مچھر تک سے خوفزدہ اور ہمیں پینے کے پانی میں بھی بیماری اور موت کا پیغام مل رہا ہے یہ سب اس لئے کہ ہم نے ضمیر فروشی ہی نہیں ،دختر فروشی بھی کی ہے وہ طبقات جو عافیہ کے اغواء ، اس کی گرفتاری ، اس کو پاکستان سے غیر قانونی طور پر بگرام ایئر پورٹ پر منتقلی پر خاموش رہے وہ آج پوری قوم کے مجرم ہیں کیونکہ پوری قوم ان کا کیا بھگت رہی ہے ۔۔! لیکن انتہائی افسوس!!!!!

افسوس کی بات ہے کہ ہم سب لوگ بے حسی ، سنگ دلی اور لا پرواہی کی عادات چھوڑ کر اپنے حالات کو بہتر بنانے کے لئے مشترکہ کوشش کرنے پر آمادہ نہیں ہیں ۔

قدرت اس قوم کی حالت بدلنا پسند نہیں کرتی جو خود اپنی حالات بدلنا نا چاہتے ہماری بری عادات نے ہمیں برے حالات سے دو چار کر دیا ہے ۔ اس کا علاج صرف یہ ہے کہ ہم اپنی عادات کو بدلیں ۔ اپنے حالات کو بدلنے کے لئے کوشش کریں ۔ہم حق کی خاطر آواز بلند کرنے سے نہ شرمائیں اور کسی قسم کے تحفظ کا شکار نہ ہوں ۔ اگر قوم کے تمام نمائندہ طبقات قوم کی بیٹی کی رہائی اور واپسی کی خاطر مشترکہ جدوجہد کا عزم کرلیں ۔ تو ہمارے ارباب اقتدار اپنی ساکھ بچانے کی خاطر ہی سہی ، بہر حال امریکہ سے عافیہ کی حوالگی کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے اور یقین مانیے کہ امریکہ کو یہ مطالبہ تسلیم کرنا پڑے گا ۔ صرف عافیہ کے مسئلے کو پوری جرات اور ہمت کے ساتھ امریکہ کے سامنے اٹھانے کی دیر ہے یہ معاملہ دنوں کیا گھنٹوں میں حل ہو سکتا ہے ، لیکن عافیہ کی رہائی کے لئے ان کے اہل خانہ کو اپنی فیملی قرار دینے والے سیاست دان اور حکمران محض اپنی عارضی ساکھ کی خاطر امریکہ کے اہم افراد کے سامنے اس کا تذکرہ تک کرنے سے گریزہ ہیں ۔

اپنی صدا کے آخر میں ارباب اختیار ، سیاسی و عسکری قیادتوں اور ملک کے مذہبی و سیاسی قائدین کی خدمت میں عرض کرنا چاہو نگا کہ میری کچھ باتیں ممکن آپ کو گراں گزری ہوں لیکن دیکھئے کہ یہ محض میرا یا آپ کا یا عافیہ کے گھر والوں کا مسئلہ نہیں ہے ، یہ پوری قوم کا مسئلہ ہے ۔ ہم نے اپنے بہترین لوگ محض امریکی خوشنودی کی خاطر اٹھا کر جیلوں میں پھینک دیا یا امریکہ کے سپرد کر دیا ۔ اپنے ملک اپنی سڑکیں اپنے ائیر پورٹ اپنے لوگ سب کچھ امریکہ کے سپرد کر دیا کہ کہیں وہ ہمیں پتھر کے زمانے میں نہ دھکیل دے لیکن ہمیں حاصل کیا ہوا؟ آج ملک کی معیشت آخری سانسیں لے رہی ہے ۔ ریاست سے لوگوں کا اعتبار ختم ہو گیا ہے ۔ ہم دنیا کی مقروض ترین غریب ترین قوموں میں شمار ہونے لگے ہیں ۔ اور اپنے اثاثے کوڑیوں میں کے مول فروخت کرنے پر مجبور ہیں تو آخرہمیں اس جنگ میں حصہ لے کر کیا ملا؟

کیا اب یہ ضروری نہیں ہو گیا کہ جنگ ختم کر دی جائے ؟ اور امریکن جنگ میں شرکت کے فیصلے سے واپسی کی علامت کے طور پر عافیہ کو واپس لایا جائے ؟

جنگ کا خاتمہ اور عافیہ کی واپسی یہ علامت ہو گی پاکستان کی بحالی کے لئے جدو جہد کے آغاز کی اور جدوجہد میں قوم کے تمام طبقات کو بلا تفریق حصہ لینا چاہیے اور نئے محبت بھرے یکجہتی اور ملی جذبے سے سر شار پاکستان کی تعمیروترقی کا آغاز کریں۔

ظلم تجھ پر پڑا ظالموں نے کہا

استقامت پر تیری اسلام عافیہ

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *