(نام کتاب :عبدالصمد کے افسانے (سماجیاتی مطالعہ
مصنف /ناشر : ڈاکٹر حیدر علی
2016:سن طباعت
117:قیمت
تقسیم کار :الھدی پبلی کیشنز ،۲۹۸۲ کوچہ کنٹھ ، قاضی واڑہ ، دریا گنج ، نئی دہلی۲
مبصر : نوشاد منور عالیؔ
ریسرچ اسکالر جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی 110067
معاصراردو افسانہ نگاروں پر بہت ساری تحقیقی وتنقیدی کتابیں وقتاًفوقتا ً منظرعام پر آتی رہتی ہیں اور قارئین سے داد وتحسین وصول کر معیارتحقیق وتنقید میں اپنی جگہ متعین کرنے میں کامیابی سے ہم کنار ہوتی رہی ہیں ۔ بیشتر معاصر افسانہ نگاروں کی تخلیقی کاوشوں کو مختلف زاویہ نگاہ سے پرکھنے اور جانچنے کا سلسلہ ہنوز جا ری ہے ۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی ’’ عبدالصمد کے افسانے ‘‘ (سماجیاتی مطالعہ) بھی ہے ۔ تحقیق و تنقید کا یہ سلسلہ ایک خوش آئن بات ہے اردو ادب کی آبیاری میں بالخصوص جواں سال محقق ونقاد کوشا ںنظر آرہے ہیں اور اپنی ژرف نگاہی سے معاصر افسانہ نگاروں کی تخلیقات کے تعین قدر میں اہم رول ادا کر رہے ہیں ۔ انہیں جواں سال میں سے ایک نام ڈاکٹر حید ر علی کا بھی ہے ۔ ان کی یہ پہلی کاوش ’’ عبدالصمد کے افسانے ‘‘ ( سماجیاتی مطالعہ ) کے روپ میں حالیہ دنوں منظر عام پر آئی ہے ۔
اردو فکشن نگاری میں عبدالصمد کی حیثیت صرف ایک فکشن نگارکی ہی نہیں بلکہ وہ اپنی نسل کے فکشن نگاروں کے سرخیل بھی ہیں ۔ معاصر افسانہ نگاروں میں انہوں نے اپنی ایک انفرادی پہچان قائم کی ہے ۔ اردو فکشن نگاری میں عبدالصمد کو یہ امتیازی وصف ان کی شخصیت کی بدولت ہاتھ نہیں آئی ہے بلکہ انہوں نے اپنی تخلیقیات میں جودت طبع کا ثبوت فراہم کیا ہے ۔ عبدالصمد کا فن غم جاناں سے ہوکر غم دوراں پر محیط ہے۔ان کے یہاں موضوعات کا تنوع ملتاہے،عصری حسیت کی تمازت، سیاست کے گلیاروںکی ریشہ ودوانیاں،سماجی،اقتصادی،تہذیبی اورمعاشرتی مسائل کا بھرپور انعکاس ہوتاہے۔ عبدالصمد کی خاص پہچان یہ ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو کسی ایک محدود دائرے میں مقید نہیں کیا ہے بلکہ وسعت خیالی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے فن پارے کو وسیع پیمانے پر رکھ کر پیش کیا ہے۔ اگرچہ انہوں نے جدیدیت کے زیرے سایہ اپنے افسانوی سفرکا آغاز کیا ہے اور کچھ دیر ان پر بھی جدیدیت کا خمار طاری تھا مگر جلد ہی اس حصار سے باہر نکل آئے اور اپنے پیش رو افسانہ نگاروں کی طرف مراجعت کی مگر کلی طور پر نہیں بلکہ اسی حدتک جتنی ان کے فن کو جلابخشی کی ضرورت تھی انہوں نے ترقی پسندی اور جدیدیت کو محلول کر کے اپنا ایک مرکب تیار کیا جس میں ان کو کامیابی بھی ملی کیونکہ انہوں نے دونوں نظریات کی پیروی کرتے ہوئے انسانیت کے بنیادی ڈھانچے کو اہمیت دی بلکہ مشرقی اقدار حیات کے تحفظ کو اپنا ادبی فریضہ اور اپنے فن کو سرچشمہ بنایا۔ جس کی وجہ سے ان کے افسانوں میں ہی نہیں ان کے ناولوں میں بھی ان کے تخلیقی جوہر کی کارفرمائی نظر آتی ہے اور ساتھ ہی ان کے یہاں موضوعاتی تنوع پایا جاتا ہے ۔
زیر تبصرہ کتاب ’ عبدالصمد کے افسانے ‘( سماجیاتی مطالعہ )ڈاکٹر حیدر علی کی پہلی تنقیدی کاوش ہے ۔ موصوف نے عبدالصمد کی حیات وشخصیت ، عہد اور ان کے افسانہ نگاری کے تمام گوشوں کا عمیق مطالعہ کے ساتھ ساتھ سماجیاتی تناظر میں تنقیدی نقطۂ نظر سے جائزہ لیا ہے بالخصوص عبدالصمد کے نمائندہ افسانوں کا سماجیاتی مطالعہ کیا ہے ۔ جس عرق ریزی سے ڈاکٹر موصوف نے اس کام کو انجام دیا ہے اس ان کی کی بالغ نظری کا پتہ چلتا ہے اور ساتھ ہی ان کی سعی پیہم سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے تنقید کے تمام مراحل کو کامیابی کے ساتھ طے کیا ہے ۔
زیر نظر کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے ، ابواب کی درجہ بندی کچھ اس انداز سے کی گئی ہے ۔ پہلا باب’ عبدالصمد : شخصیت ، عہد اور ادبی کارنامے‘ سے معنون ہے ۔ دوسرا باب بعنوان’ عبدالصمد کا سماجی شعور‘ ہے ۔ تیسرا اور آخری باب ’ عبدالصمد کے نمائندہ افسانوں کا سماجیاتی مطالعہ ‘پرمشتمل ہے ۔ کتا ب کے آخر میں ’حاصل مطالعہ‘ کے ساتھ’ عبدالصمد سے گفتگو ‘پر کتاب تکمیل کو پہنچتی ہے ۔
کتاب کے پہلے باب کے مطالعہ سے عبدالصمد کے حیات وشخصیت پر جہاں روشنی پڑتی ہے وہیں پر ان کی طبیعت کے میلان کا بھی پتہ چلتا ہے ساتھ ہی ان کی شخصیت کے بہت سے عقدہ کھلتے ہیں ۔ ادبا کے متعلق عام تصور یہ ہوتا ہے کہ وہ دین بے زار ہوتے ہیں مگر عبدالصمد اس سے پرے نظر آتے ہیں اس لیے کہ وہ صوم وصلوۃ کے پابند اور اسلاامی شعار کو حرزجاں بنائے ہوئے ہیں یہ خصوصیت شاذونادر ہی ادبا وشعرا میں پائی جاتی ہے ۔ علاوہ ازیں اس باب کا وہ حصہ جو ’عبدالصمد کے ادبی کارنامے (اجمالی جائزہ )پر مبنی ہے قابل مطالعہ ہے ۔ کیونکہ اس کی ورق گردانی سے جہاں عبدالصمد کی فکشن نگاری میںان کی سماجی ، سیاسی ، تہذیبی ، معاشی، معاشرتی ، مشرقی اقدار اور انسانیت کے تحفظ کی عکاسی جس طرح سے ابھر کر سامنے آتی ہے اس سے ان کی عصری حسیت کا پتہ چلتا ہے ۔ وہیں پرڈاکٹر حیدر علی کی تنقیدی بصیرت کا بھی انعکاس ہوتا ہے ۔
کتاب کے دوسرے باب میں عبدالصمد کے سماجی شعور کی بالیدگی کو دکھایا گیا ہے ۔عبدالصمد کی سیاسیات پر گہری نظرہونے کے باوجودمصنف نے ان کے سیاسی شعور کے بجائے سماجی شعور کو فوقیت دی ہے ۔ جس سے ڈاکٹر موصوف کی تنقیدی نظر کا ہی نہیں بلکہ ان کی سماجی ژرف نگاہی کا بھی قائل ہونا پڑتا ہے ۔ اس لیے کہ سماجی شعور میں ہی سیاسی شعور کو نمو ملتی ،سماج ہے تو سیاست ہے ۔ڈاکٹر حیدر علی نے عبدالصمد کے سماجی شعور پر سیر حاصل بحث ہی نہیں کی ہے بلکہ جابہ جا ان کے افسانوں کے اقتباسات بھی نقل کیے ہیں اور پھر اس کی روشنی میں ان کے سماجی شعور کی بالیدگی کو اجاگر کیا ہے ۔ ایک جگہ ان سماجی شعور کے متعلق لکھتے ہیں :
’’ عبدالصمد کو سماج اور سماج کے اندر جینے والے افراد سے کس قدر محبت ہے ۔ وہ اپنی تحریروں کا مواد سماجی صورت حال اور ان انجانے کرداروں کو بناتے ہیں جن پرسب کی نظر نہیں جاتی۔ یہ عبدالصمد کے سماجی شعور کا نتیجہ ہے کہ وہ سماجی ، سیاسی ، معاشی اورتہذیبی پہلوؤں کے ان باریک گوشوں پر نگاہ رکھتے ہیںاور ان کی نبض پر انگلی رکھ کر حقیقت کو منظر عام پر لاتے ہیں۔‘‘ ص:۶۱
یہ باب خاص اہمیت کا حامل اس لیے ہے کہ موصوف نے عبدالصمد کے بیشتر افسانوں کو سامنے رکھ کر ان کے سماجی شعور کی تلاش وجستجوکی ہے اور وہ اس غوطہ زنی میں کامیاب نظر آتے ہیں ۔
زیر تبصرہ کتاب کا تیسرا باب اس معنی میں اہمیت کا متحمل ہے کہ مصنف نے ’’ عبدالصمد کے نمائندہ افسانوں کا سماجیاتی مطالعہ ‘‘ کے تحت سماجیاتی نقطۂ نظر سے ان کے افسانوں میں اس کی نشاندہی کردی ہے ۔ اس باب کی شروعات تمہید کے طور پر ادیب اور سماج کے باہمی رشتے کو پیش کیا ہے ،مابعد افسانہ نگار کے تخلیقی محرکات کو نشان زد کیا ہے ، بعدہ ان کے افسانوی مجموعوں پر مختصراً تبصراتی قلم فرسائی کی گئی ہے ۔ مثلاً پہلا مجموعہ ’’ بارہ رنگوں والاکمرہ ‘‘ دوسرا ’’ پس دیوار ‘‘ تیسرا ’’ سیاہ کاغذکی دھجیاں ‘‘ چوتھا ’’ میوزیکل چیر ‘‘ اور پانچواں ’’ آگ کے اندر راکھ‘‘وغیرہ اس اجمالی جائزے سے مصنف نے عبدالصمد کے موضوعاتی تنوع کے ساتھ ساتھ جو ان کے یہاں فنی ارتقا ملتا ہے اس کو دکھانے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ اس کے ان کے نمائندہ افسانوں کے فنی وفکری تجزیہ نگاری کے ساتھ ان منتخب افسانوں کے سماجیاتی پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے اور ان پر اپنا تنقیدی ڈسکورس بھی قائم کیا ہے ۔ جن نمائندہ افسانوں کا سماجیاتی مطالعہ کیا گیاہے ۔ ان میں ’سمندرکیا کہتا ہے ‘ ’بارہ رنگوں والاکمرہ ‘ ’درماں ‘ ’تہہ آب ‘ ’ نوشتہ دیوار ‘ ’ کرچیاں ‘ ’ صبح کا بھولا۔۔۔۔‘ ’ دیوی ‘ ’ پیوندکاری ‘ ’رکے ہوئے قدم ‘ ’آگ کے اندر راکھ ‘ ’ وسیلہ ‘ اور ’ نجات ‘ وغیرہ شامل ہیں ۔
ڈاکٹر حیدر علی نے جن نمائندہ افسانوں کا سماجیاتی مطالعہ کیا ہے ۔ ان کی ہر ممکن کوشش رہی ہے کہ سماج سے ان افسانوں کا تعلق کتنی گہرائی وگیرائی تک قائم ہے اس کو نمایاں کیا ہے اور پھر اپنی تنقیدی بصیرت کو بروئے کار لاکر اپنا مطمح نظر پیش کیا ہے ۔ باوجود ان کی پہلی کاوش ہونے کے ان میں تنقیدی شعور کی بالیدگی اور پختگی جھلکتی ہے ۔