Home / Socio-political / عجیب نسل کا ضمیر

عجیب نسل کا ضمیر

عجیب نسل کا ضمیر

سمیع اللہ ملک

گاڑی میرے گھر کے سامنے رکی ،پہلے باودی شوفر اترا،پچھلے دروازے کی طرف بھاگا اور سرعت سے ہینڈل کھینچ دیا۔اندر سے سرمئی سوٹ میں ملبوس ایک خوبصورت نوجوان نکلا،اس کے ہاتھوں میں گلدستہ تھا۔ میں یہ سب کچھ اپنے گھر کے فرنٹ روم کی سامنے والی(Bay Window)کھڑکی سے دیکھ رہا تھا۔اس نے عینک کے گہرے سیاہ شیشوں کے پیچھے سے ماحول کا جائزہ لیا اور آگے بڑھ کر میری دہلیز پر قدم رکھ دیا۔ اس نے جونہی گھر کے دروازے پرنصب گھنٹی (Bell)  بجائی تومجھے قدرے حیرت بھی ہوئی اور پریشانی بھی کہ یہ اجنبی کون ہے اور میرے ہی گھر کا اس نے انتخاب کیوں کیا ہے؟

اگلے دو منٹوں میں وہ میرے سامنے بیٹھا تھا۔وہ ایک خوشحال،وجیہہ اور مہذب آدمی دکھائی دے رہا تھالیکن اسے اپنے سامنے پا کر مجھے کوئی مسرت نہیں ہو رہی تھی۔میں دراصل پچھلے سولہ ماہ سے شدید ڈپریشن کا شکار ہوں اورعلاوہ ازیںخداداد پاکستان کی اوپر تلے کی ناکامیاں،سنگین معاشی بحرانوں،مہنگائی میں تڑپتے عوام اور حالات کے بے مہر تھپیڑوں نے میری جڑیں تک ہلا دی ہیں۔مجھے معلوم ہے کہ میں ان دنوںچڑچڑا،سنکی اور بیزارسارہتاہوں۔میل ملاقات سے مجھے چڑ سی ہو گئی تھی اورمیں اپنی روزانہ کے معمولات کیلئے گھر سے نکلنے کی تیاری کررہاتھا۔میں نے سوچا کہ یہ کتنے غلط وقت پر بغیر اطلاع دیئے میرے پاس آیا ہے۔اس کے پھول میرے سامنے میز پر دھرے تھے جو دروازہ کھولتے ہی اس نے اپنی مسکراہٹ کے ساتھ میرے ہاتھوں میں تھما دیئے تھے۔

اس نے دھوپ کا انتہائی قیمتی چشمہ اتارا، ایک زندگی سے بھرپور مسکراہٹ میری طرف پھینک کر بولا’’آپ نے مجھے پہچانا؟‘‘میں نے غور سے اسے دیکھا، چہرہ تو شناسا تھالیکن وقت اور دوری کی دھند میں ملفوف تھا۔اس نے میری کشمکش بھانپ لی’’آپ پہچان بھی کیسے سکتے ہیں،دس سال تھوڑا عرصہ نہیں ہوتا؟‘‘میں اسے خاموشی سے دیکھتا رہا۔’’آپ میرے محسن ہیں،میری خواہش تھی ،میں جب کامیاب بزنس مین بن جاؤں ،میرے پاس بے پناہ دولت آ جائے،لوگ میرے اوپر رشک کریں،تو میں ایک بار آپ کے قدموں میں حاضری دوں۔‘‘

میری وحشت حیرت میں تبدیل ہو گئی اور میں سکتے کے مریض کی طرح اسے دیکھنے لگا۔وہ تھوڑا سا جذباتی ہو گیا’’میری آپ سے لاہورمیں ملاقات ہوئی تھی،میں پچھلے چندبرسوں میں کئی مرتبہ کاروباری سلسلے میں یورپ میں آیا لیکن لندن آنے کاپہلی مرتبہ اتفاق ہو اکہ مجھے آپ کی یاد بھی بہت ستارہی تھی۔ سر میں ایک ناکام شخص تھا،غریب تھا جذباتی تھا،جس سونے کو ہاتھ لگاتا مٹّی ہو جاتا،جس نوکری کیلئے درخواست دیتا وہاں سے انکار ہو جاتا۔میں نے سوچا اس زندگی سے تو موت اچھی ہے۔اس سے پہلے کہ میں مرجاتا،ایک دوست مجھے آپ کے پاس چھوڑ گیا۔آپ نے میری ساری کہانی سن کر مجھے خود کشی کا ایک انوکھا طریقہ بتایا۔آپ نے کہا اس معاشرے میں زندہ رہنے سے بڑی کوئی خود کشی نہیں،تم اپنے ارد گرد موجود لوگوں جیسے ہو کر ان سب سے انتقام لے سکتے ہو۔آپ نے کہا کامیابی اور ناکامی ، اچھائی اور برائی فقط اسٹیٹ آف مائنڈ(State of Mind)ہوتی ہے۔جیب تراشی ایک شخص کی ناکامی اور دوسرے کیلئے کامیابی ہوتی ہے۔اسے ایک برائی کہتا ہے اور دوسرے کے نزدیک وہ حصولِ رزق کا ذریعہ ہوتی ہے جس سے وہ اپنے بال بچوں کاپیٹ پال رہاہوتا ہے اوران کے علاج معالجے پربھی اسی دھندے سے کمائی ہوئی رقم صرف کرتاہے۔جیب تراش اپنے اس عمل سے اس قدروفادار ہوتاہے کہ کسی غریب کی جیب کاٹتے ہوئے ایک لمحے کیلئے بھی اس کے ہاتھ نہیں کانپے کیونکہ وہ ’’ضمیر ‘‘نام کی کسی چیز سے واقف نہیں ہوتا۔گھوڑااگرگھاس سے دوستی کرلے تووہ پھرکھائے گاکیا؟

وہ سانس لینے کیلئے رکا،وہ مجھے اب ہلکا ہلکا یاد آنے لگا۔دس سال پہلے وہ ایک کمزور ساز رد رو لڑکا تھا لیکن اب وہ سڈول جسم کا خوبصورت نوجوان تھا۔وہ گویا ہوا’’آپ نے کہا تھا کہ اصل قصوروار ضمیر ہوتا ہے ،یہ جوتم بہت خوشحال قسم کے لوگ دیکھتے ہو جن کی لوگ مثالیں دیتے ہیں کہ یہ برسوں میں ارب پتی بن گیا یہ بھی کبھی تم جیسے لوگ تھے،بس انہوں نے خود کو مارنے کی بجائے اپنے اپنے ضمیر کو قتل کر دیااور بس ایک ہی رات میںخوشحالی کے سفر پر گامزن ہو گئے۔جیسا دیس ویسا بھیس۔اس ملک میں ضمیر کی کوئی ضرورت نہیں،اس سوسائٹی میں ضمیراپینڈکس کی طرح ہے ،اگر ہے تو کوئی فائدہ نہیں،موجود نہیں تو کوئی نقصان نہیں۔آپ نے کہا تھا کہ اپنے ارد گرد دیکھو‘کتنے سیاستدان ہیں،کتنے مذہبی رہنما،بزنس مین، دانشور ، ادیب اور صحافی ہیں،یہ سب اخبار،ریڈیو اور ٹیلیویژن پرکتنا جھوٹ بولتے ہیں کہ عرش تک ہل جاتا ہے۔کتنے دھڑلے کے ساتھ قائداعظم ،علامہ اقبال اوردیگرقومی مشاہیرپرکیچڑ اچھالتے ہیںتاکہ اپنے غیرملکی آقاؤں کی نمک حلالی ہوسکے حالانکہ یہ جب کہتے ہیں تو جانتے ہیں ہم غلط کہہ رہے ہیں لیکن تم ان کا اعتماد دیکھو،ان کے لہجے کی کھنک،ان کی آنکھوںکی چمک اور ان کے چہرے کی دمک ملاحظہ کروتمہیں کسی جگہ کشمکش ، پریشانی اور شرمندگی نظر آتی ہے،نہیں دکھا ئی دیتی، کیوں؟کیونکہ ان لوگوں کے اندر ضمیر جیسی چیز ہی نہیں۔آپ نے کہا تھا یہ ضمیر ہی ہوتا ہے جو انسان کو شرمندگی،پریشانی اور کشمکش سے دوچار کرتا ہے،جو آپ کے اعتماد میں دراڑ ڈالتا ہے،اگر ضمیر نہیں تو سکھ ہی سکھ،اطمینان ہی اطمینان اور سکون و چین ہی چین…….!‘‘

وہ رکا،اس نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگائی اور لمبا سا سانس لیکر بولا’’سر!اس کے بعد آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر ضمیر کے ساتھ زندہ رہو گے تو میں تمہیں یہ یقین دلاتا ہوں کہ کامیاب تو تم پھر بھی ہو جاؤ گے لیکن یہاں نہیں بلکہ وہاں،جہاں ہم سب کا انتظار ہو رہا ہے۔سر! میں نے آپ کی پہلی نصیحت پر عمل کیا،میں نے اپنے ضمیر کا گلہ دبادیا،میں نے اسے گہرے گڑھے کی مٹی میں دفن کر دیاجہاں سے اس کی ہلکی سے بھی آواز سنائی نہ دے۔آپ کی پشین گوئی یا تجربہ کی بات بالکل سچ ثابت ہوئی ،میں واقعی کامیاب ہو گیا۔مجھے لگا میں آپ کے ساتھ ملاقات سے پہلے قطب شمالی پر برف کی دوکان کھول بیٹھا تھا یا چولستان کے باسیوں کو ریت بیچ رہا تھا۔میں نے جب بازار میں درست سودا بیچنا شروع کیاتو دن دگنی رات چوگنی ترقی کی۔میں آپ کا مشکور ہوں سر!‘‘ وہ خاموش ہو گیا۔

میں اس کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگا،وہاں واقعی کوئی ملال،کوئی شرمندگی اور کشمکش نہیں تھی بالکل ہمارے ان حکمرانوںاوران کے نمائندے حسین حقانی سفیر پاکستان برائے امریکہ کی طرح جوکبھی کیری لوگر بل کی شرمناک شرائط کو پاکستانی عوام پرمسلط کرکے کس قدر خوشی اور فتح مندی کے ساتھ سینہ پھلا کر پاکستان کے مختلف چینلز کو اپنی کارکردگی سے آگاہ کر رہا تھا۔وہ اس کو اپنا حق بھی سمجھتا تھا کیونکہ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے بڑے فخر کے ساتھ اس طوقِ غلامی کی کامیابی کا سہرا بھی تو اسی کے سر باندھا تھا۔آج اسی امریکا کیلئے ہم نے طالبان کوقطرمیں مذاکرات کیلئے نہ صرف آمادہ کیابلکہ طالبان کواپنی سخت شرائط پرنظرثانی کیلئے آمادہ بھی کیالیکن جان کیری جونئی منتخب حکومت سے ملنے کیلئے بڑے بے تاب تھے لیکن جونہی نئی منتخب حکومت نے چین کے ساتھ گوادرپورٹ اورایرانی پائپ لائن معاہدے پرعملداری کااعلان کیاجان کیری بھارت کے علاوہ دوسرے کئی چھوٹے چھوٹے ممالک کے دورے پرتونکل کھڑے ہوئے لیکن اب پاکستان نہیں آرہے۔

 شائدامریکاکی دوستی نبھاتے ہوئے ہمارے حکمرانوں کاحافظہ ان کاساتھ چھوڑدیتاہے لیکن اس پاکستانی قوم کو تویہ بھی یاد ہے کہ پاکستان نے ہی چین اورامریکاکوقریب لانے کیلئے سب سے پہلے امریکی خارجہ سیکرٹری ہنری کسینجر کے چین کے خفیہ دورے کااہتمام کیاتھا جس کے بعدباقاعدہ دونوں ممالک کی اعلیٰ قیادت نے ایک نئی دوستی کاآغازکیاتھالیکن اس کے جواب میں پاکستان کواپنے دونوں ہمسایہ ممالک بھارت اورروس کی خطرناک سازش کے تحت سانحہ مشرقی پاکستان جیسی بھاری قیمت اورامریکاکے چھٹے بحری بیڑے کے دھوکے کاسامناکرناپڑا۔

 ’’ فن لینڈ کی امن نوبل انعام یافتہ ’’مارٹی احتصاری‘‘(Martti Ahtisaari)نے ابھی حال ہی میں بتایا ہے کہ امریکہ اس وقت بھی عراق میں ۲۲۰ ملین ڈالر روزانہ خرچ کر رہا ہے جہاں اس نے ۸۰ فٹ بال کی گراؤنڈ کے برابر اپنا سفارت خانہ تعمیر کر رکھا ہے،افغانستان کا یومیہ خرچہ تو اس سے کہیں زیادہ ہے لیکن ہمارے حکمرانوں نے تواپنے سارے ادارے بشمول پاکستان کی بہادر فوج صرف ۱.۴ ملین یومیہ میں امریکہ کی خدمات کیلئے پیش کر دیں تھیں ۔ساڑے تین لاکھ سے زائد امریکی ’’بلیک واٹر‘‘ نامی اہلکار اس وقت عراق، افغانستان اورپاکستان میں خدمات بجا لا رہے ہیںجو امریکہ سے سالانہ بارہ ارب ڈالر وصول کر رہے ہیں۔ کیاہمارے حکمرانوں نے پاکستانی عوام اور اس کے اداروں کو اس قدر حقیر سمجھا ہوا تھا کہ پاکستان کے بجٹ کا صرف ایک فیصد وصول کرکے اس کی خود مختاری کو پامال کر دیا گیا جبکہ عوام کوایک عرصے سے یہ غلط تاثردیاگیاکہ قومی خزانے کا ۶۰ فی صد ڈیفنس پرخرچ ہوتاہے؟اب پتہ چلاہے کہ پچھلے کئی برسوں سے بری فوج کے حصے میں توبجٹ کاصرف آٹھ فیصد جاتاہے جس میں اب تک کوئی اضافہ نہیں ہوسکاجبکہ بھارت نے اپنی فوج کے بجٹ میں جوصرف اضافہ کیاہے وہ پاکستانی فوج کے کل بجٹ سے زیادہ ہے‘‘۔

اس نے آگے پیچھے دیکھا اوربڑے اعتماد سے بولا’’سر!آپ مجھے کچھ پریشان دکھائی دے رہے ہیں،کوئی مسئلہ آن پڑا ہے؟ اینی پرابلم سر(Any Problem Sir?)؟‘‘ میں نے ٹھنڈی سانس بھری اور تھکی مرجھائی آواز میں کہا’’ہاں میں پریشان ہوں،میں بھی اپنے ضمیر کے ہاتھوں تنگ آ چکا ہوں‘‘اس نے قہقہہ لگایا اور چمک کر بولا’’آپ بھی میری طرح اپنی ہی نصیحت پرعمل کریں،مطمئن اور خوشحال ہو جائیں‘‘۔میں نے بھی زوردار قہقہہ لگایااور اس کی طرف دیکھ کر کہا’’بڑی کوشش کرتا ہوںلیکن اللہ نے میرے اندر ایک عجیب نسل کا ضمیر فِٹ کر دیا ہے،میں جہاں چھوڑ کر آتا ہوں،یہ بلی کی طرح واپس آجاتا ہے،میرے گھر پہنچنے سے پہلے دہلیز پر کھڑا ہوتا ہے اور پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ مجھ پر حملہ آور ہوتا ہے اور بالآخر مجھے شکست سے دوچار کر دیتا ہے۔’’سر! پھرآپ کا شماران لوگوں میں ہوتا ہے جو اپنے مقدر میں ناکامی لکھواکر آئے ہیںجو کبھی کامیاب نہیں کہلوا سکتے البتہ یہاں نہیں بلکہ وہاں بھی آپ کامیاب ٹھہریں گے،مجھے معلوم نہیں؟میرے لائق کوئی خدمت ہو تو یہ میرا کارڈ رکھ لیں،کبھی یاد فرمائیں!‘‘اب میز پرپڑے پھولوں کے ساتھ یہ کارڈ بھی مجھے دیکھ کر طنزیہ ہنسی کو چھپانے کی کوشش کر رہا تھا!

نئے خداؤں سے مشروط دوستی کرلی           فقیہہ  شہر نے   تجدیدِ  بندگی  کر  لی

وہ بد نصیب جسے سب ضمیر کہتے تھے         سنا ہے اس نے کہیں چھپ کے خود کشی کر لی

اسے خلوص  کہوں  یا  اپنی  نادانی        جو کوئی  ہنس کے  ملا اس  سے  دوستی کرلی

بہار صحنِ چمن تک نجانے کب پہنچے         خزاں سے  ہم  نے سرِ دست  دوستی کر لی

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *