اورجنگ ختم ہوگئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
عراقی جنگ کا حاصل ذلت آمیز شکست اور شرمناک رسوائی۔ ۔ ۔ ۔
تحریر :۔ محمد احمد ترازی
جمعرات 15دسمبر 2011ءکوعراق کے دارالحکومت بغداد میں امریکی پرچم اتار لیا گیا اور بالآخر عراق میں نو سالہ امریکی فوجی آپریشن کا خاتمہ ہوگیا،یوں اتوار 18دسمبر کی صبح عراق میں تعینات آخری امریکی فوجی دستہ بھی سکیورٹی معاملات عراقی حکام کے سپرد کر کے وہاں سے روانہ ہوگیا،جمعرات کو عراقی دارالحکومت بغداد میں امریکی فوجی انخلا کی ایک باضابطہ تقریب منعقد ہوئی جو نو برس کے قریب جاری رہنے والی اِس جنگ کے اختتام کی علامت تھی،اِس اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا کا کہنا تھا کہ نو سال جاری رہنے والی اِس جنگ میں امریکی فوجیوں کی قربانیاں قابل تحسین ہیں،لیون پنیٹا کا کہنا تھا کہ ایک آزاد اور خودمختار عراق کو وجود میں لانے کیلئے امریکہ اور عراق نے اِس جنگ کی بڑی قیمت ادا کی ہے، اِس تقریب سے ایک روزقبل 14دسمبر کو شمالی کیرولائنا میں صدر باراک اوباما نے وطن واپس لوٹنے والے فوجیوں کا استقبال کرتے ہوئے عراق جنگ کو امریکی فوج کی ایک بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ”عراق سے نکلتے ہوئے امریکی فوج کے سر بلند ہیں،عراق جنگ جلد ہی تاریخ کا حصہ بن جائے گی اور آپ کی خدمات کو صدیوں تک یاد رکھا جائے گا،بارک اوباما کا کہنا تھا کہ اب عراق کی تقدیر اُس کے عوام کے ہاتھوں میں ہے،انہوں نے کہا کہ عراق کی صورت حال کو مثالی تو قرار نہیں دیا جا سکتا،لیکن امریکی فوجی اپنے پیچھے ایک آزاد اور مستحکم ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں،پورے خطے کے عوام عراق کو ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھیں گے جو اپنی قسمت کا خود تعین کرے گا،انہوں نے کہا کہ عراقی عوام یہ بات جان لیں کہ وہ تنہا نہیں ہیں،وہ امریکہ کے مضبوط اور دیرپا شراکت دار ہیں،امریکہ اپنی افواج کی واپسی کے بعد بھی عراق کے ساتھ مضبوط تعلق قائم رکھے گا۔“
گو کہ عراق میں تعینات امریکی فوج کے انخلا کے بعد عراق میں امریکہ کا نو سالہ فوجی مشن سرکاری طور پر اپنے انجام کو پہنچ گیا،لیکن عراق پر امریکی حملے کا پس منظر اور پیش منظر بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے،بظاہرابتداء میں بش انتطامیہ کا موقف تھا کہ سابق عراقی صدر صدام حسین بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار اپنے ملک میں چھپائے ہوئے ہیں اور وہ القاعدہ کے عسکریت پسندوں کی حمایت کرتے ہیں،اِس لیے امریکہ عراق کی ایک جمہوری ملک کے طور پر تعمیر نو کرے گا،جو باقی مشرقِ وسطیٰ پر گہرے اثرات مرتب کرے گی،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عراق پر امریکی حملے اور وہاں مستقل فوجی موجودگی کی تہہ میں کارِ فرما اصل پس پردہ مقاصد عراقی تیل کے ذخائرمیں امریکہ کی گہری دلچسپی،عراق پر قبضے کی آڑ میں معدنی دولت سے مالا مال دوسرے عرب ممالک میں اثر ورسوخ و قبضہ،اسرائیل کےلئے بقاء کی ضمانت،اُس کے تحفظ کو یقینی بنانا اوردریائے نیل سے دریائے فرات تک اسرائیل کی رسائی اور عرب ممالک میں اسلامی بیداری کی لہر کا قلع قمع کرنا تھا،اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کو وہ مطلوبہ نتائج حاصل ہوئے،جو عراق پر حملے کی ظاہری و خفیہ وجوہات تھے،ساتھ ہی اِس بات کا بھی جائزہ لینے کی بھی اَشد ضرورت ہے کہ کیا واقعی امریکہ عراق کو ایک آزاد اور مستحکم ملک کے طور پر چھوڑ کر جا رہا ہے۔؟
جہاں تک اِس بات کا تعلق ہے کہ امریکہ عراق کی ایک جمہوری ملک کے طور پر تعمیر نو کرے گا،جوکہ باقی مشرقِ وسطیٰ پر گہرے اثرات مرتب کرے گی،تو عراق پر حملے کے مابعد اثرات کو دیکھ کر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ مقصد کبھی بھی حاصل نہیں کیا جاسکتا،ہاں البتہ یہ ضرور ہوا کہ مالکی حکومت جو کہ امریکہ کی ہمدرد حکومت ہے،کی موجودگی میں خطے میں امریکہ کے بنیادی مفادات کو کبھی نقصان نہیں پہنچے گا،رہی یہ بات کہ عراق کو وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو تیار کرنے کی صلاحیت سے محروم کردیا جائے،تو اب یہ بات سب کے علم میں ہے کہ عراق کے پاس کبھی ایسی کوئی صلاحیت تھی ہی نہیں، بلکہ یہ تو عراق پر حملے کا محض ایک ظاہری بہانہ تھا،خود اِس کا ا عتراف سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے اُس بیان سے ہوتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ” اگر عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار نہ بھی ہوتے تو بھی وہ عراق پر حملہ ضرور کرتے کیونکہ اُن کے خیال میں صدام کی آمرانہ حکومت اِس بات کا اخلاقی جواز فراہم کرنے کے لیے کافی تھی کہ مغربی ممالک طاقت استعمال کریں اور وہاں کی حکومت کو تبدیل کردیں۔“رہی عراقی تیل کے ذخائر میں امریکی دلچسپی کی بات، تو اِس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ امریکہ عراقی تیل کے ذخائر میں گہری دلچسپی رکھتا ہے،اِس کی بنیاد عراقی تیل کے اثاثوں سے فائدہ اٹھانے کےلئے 2007ءکا وہ معاہدہ ہے جس میں اِس بات پر اتفاق کیا گیا کہ امریکی کمپنیوں کو ترجیحی بنیادوں پر مواقع فراہم کیے جائیں گے،اِس معاہدے کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ اپنے اِس مقصد میں کامیاب رہا،باقی رہا اسلامی ممالک میں اثر ورسوخ،اسرائیل کے تحفظ و بقاء کی ضمانت اورنیل سے فرات تک رسائی کے ساتھ عرب ممالک میں اسلامی بیداری کا قلع قمع کرنا،تو یہ وہ مقاصد ہیں جس کے حصول میں امریکہ اور اُس کے حواری زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہوئے ۔
مگر اس تمام تر جزوی کامیابی کے باوجود اس حقیقت کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ امریکہ کو اِن مقاصد کے حصول کیلئے بہت بڑی اور بھاری قیمت چکانا پڑی ہے،اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ اب تک امریکہ جنگ کی مد میں 8 کھرب ڈالر سے زائد کا نقصان اٹھا چکاہے،جبکہ امریکی کانگریس کی بجٹ رپورٹ کے مطابق عراق جنگ پر اب تک 7 کھرب 8 ارب ڈالر اور افغانستان کی جنگ پر 3کھرب 45 ارب ڈالر خرچ ہوچکے ہیں،یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ سابق صدر بش نے جنگ کے نام پر جو خطیر رقم کانگریس سے منطور کروائی تھی وہ چین،روس،برطانیہ اور بھارت کے مجموعی فوجی بجٹ سے بھی زیادہ تھی،آج اِس قدر زیادہ مالی نقصان کو دیکھ کر بہت سے امریکی پالیسی ساز اِس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ یہ جنگ لڑی ہی نہیں جانی چاہیے تھی، جبکہ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ 2003ء میں عراق پر حملے کے بعد سے وہاں 15 لاکھ امریکی فوجیوں نے خدمات انجام دیں،جس میں لقمہ اجل بننے والے 4394 امریکی فوجی اہلکار بھی شامل ہیں،یہ تعداد عراق جنگ میں ہلاک ہونے والے1471 امریکی شہری،141 صحافی اور 450 نمایاں شخصیات کے علاوہ ہے،جبکہ عام عراقی شہریوں کی ہلاکتوں کا صحیح تخمینہ لگانا مشکل ہے،پینٹاگان کے اعداد و شمار عراق میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 10 لاکھ70 ظاہر کرتے ہیں،حقیقت یہ ہے کہ اب تک عراق و افغانستان جنگ پر امریکہ 10 کھرب ڈالرز سے زائد خرچ چکا ہے،جس نے اُس کی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے،اُس کا مالیاتی بحران پانچ ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے،جسے پورا کرنے کیلئے اُس نے بڑے حصے کواپنے اتحادیوں کی گردن پر ڈال دیا ہے، یعنی امریکہ اب عراق اور افغان جنگ کے اخراجات دنیا کے دیگرملکوں کی جیبوں سے پوراکررہاہے اوریوں موجودہ دنیا بالخصوص امریکہ اور اُس کے اتحادی ممالک عراق اورافغانستان میں بش کی جنونی جنگ کی بھاری قیمت اداکررہے ہیں،مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی اقتصادی کمر اِس حدتک ٹوٹ چکی ہے کہ اب وہ دوسرے ملکوں پر شرطیں عائد کرنے کے بجائے اُن کی شرطیں ماننے پرتیار ہے،اِس کی وجہ گذشتہ کئی برسوں سے دس ٹریلین ڈالرکے بجٹ خسارے میں چلتی امریکی معیشت ہے،دوسری طرف عراق اورافغانستان کی جنونی جنگ نے طاقت کے نشے میں بدمست امریکہ کوسپرپاورکی کرسی سے بھی نیچے اتاپھینکا ہے ۔
اِس تناظر میں دیکھا جائے تو عراق و افغانستان جنگ نے اپنے پیچھے مایوسی اور غیر یقینی کا ترکہ چھوڑا ہے،دراصل اِس جنگ نے پورے سرمایہ دارانہ نظام کی چولیں ہلا دی ہیں،تیل اور اسلحے کے سوداگروں کی تجوریاں تو بھرگئی ہیں لیکن عوام کی بے روزگاری میں اضافہ ہوا،امریکہ اور مغربی یورپ کے اہم ممالک کے سینکڑوں بینک دیوالیہ ہو گئے ہیں،بینکنگ سسٹم کو بچانے کے لیے جو داخلی قرضے لیے گئے اُس نے مقروض معیشتوں کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیئے،یہاں تک کہ امریکی معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے نئی قانون سازی کا سہارا لینا پڑا،تاکہ حکومت مزید داخلی قرضے لے سکے،بے رحم سرمایہ داروں نے اپنے اموال میں تو اضافہ کیا ہے،مگرحکومت اور عوام کو مزید کمزور کر دیا،دوسری طرف اس جنگ کے دوران عراق میں جو تباہی آئی ہے اُسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا،امریکہ کی نظر تو فقط اپنے پانچ ہزار فوجیوں کی لاشوں پر ہے،لیکن عراقیوں کی لاشیں تو گنی بھی نہیں جاسکتیں،آج امریکی اِس بات پر توغور کر رہے ہیں کہ اتنی بھاری قیمت اور اتنی انسانی جانوں کی قربانی دینے کے بعد انہیں کیا حاصل ہوا،مگر وہ یہ نہیں سوچتے کہ عراق پر قبضے صدام حسین کی بے دخلی اور 30 دسمبر 2006 کو اُن کی پھانسی کے باوجود عراق میں وسیع پیمانے کی تباہی مچانے والے ہتھیار نہ ملنے کی وجہ سے اِس جنگ کا اصلی جواز تو پہلے ہی غلط ثابت ہوگیا ہے،ہمارا ماننا ہے کہ عراق پر قبضے کے امریکی استعماری مقاصد کی مجموعی طور پر جس انداز اور جس پیمانے پر شکست ہوئی ہے،وہ امریکہ کیلئے شرمناک اور ذلت آمیز ہے،حقیقت یہ ہے کہ امریکی افواج ظلم و بربریت اور اپنی شکست و رسوا کن ناکامی کا داغ لے کر عراق سے نکلی ہے،آج آزادی،انسانی حقوق اور جمہوریت کے نام نہاد عالمی چیمپئن عراق کو تباہی و بربادی کے ساتھ عصبیت،لسانیت اورفرقہ واریت کے تحفے دے کر عراق سے رخصت ہوچکے ہیں،دوسری طرف آج عراق حالت جنگ میں نہیں مگر وہ پر امن بھی نہیں ہے،عراق کا مستقبل غیر یقینی ہے،ملک کا ایک وسیع علاقہ برباد ہو چکاہے،بنیادی انفراسٹریکچر تباہ ہو کر رہ گیا ہے،ہزاروں عراقی یتیم بچوں اور بیواؤں کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے،ملک نسلی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر الگ تقسیم ہو کر رہ گیا ہے اورآج اپنے مستقبل کے حوالے سے ہر عراقی بے یقینی اور مایوسی کی کیفیت میں مبتلا ہیں،چنانچہ اِس تناظر میں امریکہ کا یہ دعویٰ کہ وہ ایک آزاد اور مستحکم عراق چھوڑ کر جارہا ہے،قطعاً غلط اور سراسر جھوٹ ہے،گو بظاہر عراق میں امریکی جنگ ختم ہوگئی ہے،لیکن آج بھی عراق میں ایسے کوئی آثارنظرنہیں آتے جس کی بنیاد پریہ کہا جاسکے کہ عراق میں امریکی مفادات کی جنگ ختم ہوگئی ہے،نوری المالکی کی امریکہ نواز بغل بچہ حکومت کی وجہ سے عراقی یہ سمجھتے ہیں کی اُن کا ملک ابھی تک امریکی گرفت سے آزاد نہیں ہوا اور ابھی عراق کا امریکی مفادات کی باجگزار جمہوریت سے ایک آزاد و خودمختار ریاست بننے کا مرحلہ باقی ہے،دوسری جانب مشرق وسطیٰ میں طلوع ہوتی ہوئی بیداری کی لہر اور التحریر اسکوائر سے جنم لیتی ہوئی حریت پسندوں کی انقلابی سوچ نے امریکہ کی ناجائز اولاد اسرائیل کو اپنے مستقبل کے بارے میں پہلے سے بھی زیادہ فکر مند کردیا ہے ۔
٭٭٭٭٭