Home / Socio-political / عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر:مودی کو سزا دینے میں تاخیر کیوں ؟

عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر:مودی کو سزا دینے میں تاخیر کیوں ؟

عابد انور

ہندوستان میں آزادی کے بعد سے ہی منظم طریقے پر مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے کے لئے فسادات کا سہارا لیا گیااس بہانے ان کی جائدادیں چھینی گئیں،کاروبار تباہ کردی گئیں اور زندگی کے تمام وسائل سے محروم رکھنے کی بھرپور اور کامیاب کوشش کی گئی۔ جب پوری دنیا میں ہندوستان کی بدنامی ہونے لگی ہندوتو کے علمبردار افسران اور رہنماؤں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور ایسا طریقہ کار وضع کرنے پر غور و فکر کرنے لگے کہ وہ قتل بھی کریں اور پوری دنیا سے شاباشی بھی ملے۔ امریکہ کے نائن الیون نے انہیں یہ موقع بھی فراہم کردیا۔ اس کے بعد فرضی تصادم اور دھماکے کا سیلاب آگیا۔اس بات کا پروپیگنڈہ کیا جانے لگا کہ مسلمان اس وقدر وحشی ہوگئے ہیں کہ وہ اپنے مسجدوں ، خانقاہوں، درگاہوں اور دیگر مذہبی مقاما ت پر بھی دھماکے کرنے لگے۔جس طرح چور چوری کرکے بھاگتے وقت چور چور شور مچاتے ہوئے بھاگتا ہے تاکہ وہ پکڑا نہ جائے اسی طرح یہاں ہندو انتہا پسندوں نے خفیہ ایجنسیوں ، میڈیا اورانتظامیہ کی مدد سے دھماکے کرتے رہے اور مسلمانوں کو پھنساتے رہے اور دس سال تک ہندوستانی میڈیا، عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ مسلمانوں کا جینا دوبھر کرتی رہی لیکن انہیں ذرا بھی احساس جرم نہیں ہوا۔ اتنے طویل عرصے سے فرضی تصادم کے نام پر مسلمانوں کا قتل کرتے رہے لیکن ہندوستان کی کسی مشنری نے اسے روکنے میں دلچسپی نہیں لی اور نہ ہی ہندوستان کے کسی لیڈر نے اس سمت میں آواز اٹھانے کی کوشش کی۔یوں توں ہندوستان میں تمام لوگوں کو آئینی طور پر مساویانہ حق حاصل ہے لیکن حقیقی معنوں میں ایسا نہیں ہے اگر ایسا ہوتاتو مسلمانوں کا مختلف بہانوں سے خون نہ بہایا جاتا۔ فسادات اور دھماکے کرکے انہیں قتل نہیں کیا جاتا ۔ فسادات سے ہندو شدت پسند انتظامیہ وہ مقصد حاصل نہیں کرسکی تھی جو دھماکے سے حاصل ہونا شروع ہوگیا تھا کیوں کہ دھماکے کے بعد ملزم کا پورا خاندان تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتا تھا فسادات کے بعد لوگوں کی ہمدردیاں متاثرین کے ساتھ ہوتی تھیں لیکن دھماکے یا فرضی انکاؤٹر میں مارے گئے مسلم نوجوانوں کے خاندان والوں کو زبردست اذیت سے گزرنا پڑتا ہے ایک تو دہشت گردی کا بدنما داغ ماتھے پر ہوتا دوسرا کوئی اس خوف سے مدد کو سامنے نہیں آتا کہ کہیں وہ بھی پولیس کی نظر میں مشتبہ نہ ہوجائیں گے۔ اس کے خاندان کو کہیں نوکری نہیں ملتی تھی۔ معاشرے میں ذلیل ہوکر رہ جاتا ہے یہاں تک اس کے رشتہ دار بھی نظر انداز کرتے تھے۔ ایسا ہوا بھی تھاکسی ایک علاقہ میں اس طرح کا کوئی واقعہ پیش آجاتا تھا تو پورا علاقہ پولیس کی نظر میں مشکوک ہوجاتا تھااور اس علاقے والوں کو تنگ کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ جیسا کہ بٹلہ ہاؤس، ذاکر، اعظم گڑھ کا علاقہ سنجر پور کا ہوا ہے۔ اعظم گڑھ کو ہندوتو میڈیا آتنک گڑھ کہنے لگا تھا۔ ذاکر نگر کے رہنے والے ایک لڑکے کو محض اس بنا پر مشہور کثیر قومی کمپنی میں نوکری نہیں ملی تھی کہ ذاکر نگر میں سیمی کا دفتر تھا۔

خون ایک دن ضرور رنگ لا تا ہے خصوصاً اس وقت جب اسے ناحق بہایا جائے۔ عشرت جہاں کابھی خون رنگ لایا ہے اور بے شرم فاسشٹ مودی ایک بار پھر گناہگاروں کے کٹہرے میں کھڑا ہے۔ پوری دنیا میں گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی جیسا بے شرم کوئی نہیں ہوگا جس کے اتنے گناہ سامنے آنے کے باوجود وہ اپنے عہدے پر براجمان ہے۔ ہندوستانی سیاست اور جمہوریت کا ایک ایسا بدترین پہلو ہے جس کا پردہ اٹھایا جانا نہایت ضروری ہے۔ اگر اس پہلوکو ہندوستانی میڈیا، دانشور، فلسفی اور مفکرین حضرات نے نظر انداز کردیا تو آنے والی تاریخ ان لوگوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی کیوں کہ مودی کے گناہ میں وہ صرف ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ ان کے حامی بھی اتنے ہی ذمہ دار ہیں جتنا کہ مودی اینڈ کمپنی۔ہندوستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کا تعلیم یافتہ ، نام نہاد مذہب معاشرہ اور مڈل کلاس ظلم کے خلاف ہمیشہ خاموش رہا ہے۔کبھی اس نے کسی کے ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھائی وہ صرف ایک خاموش تماشائی اور نظرانداز کرنے کی حکمت عملی اپنائی بلکہ بیشتر اوقات اس نے ظالموں کا ساتھ دیا ہے۔ عشرت جہاں کا معاملہ اسی مڈل کلاس کی خا موشی دین ہے قاتلوں کو یہ معلوم ہے کہ آواز اٹھانے والا ہمارا حامی ہے۔ اس وقت جو ماحول بنایا گیا تھا وہ مسلمانوں کے لئے انتہائی تباہ کن تھا ۔ مسلمانوں کو اس وقت دہشت گرد کی نظروں سے دیکھا جارہا تھا۔ کوئی بھی واقعہ ہو پہلا نام مسلمان کا ہی آتا تھا۔کئی واقعہ کیا بتداء میں پہلے کسی ہندو کا نام آیا تھا لیکن اس کے بعد پھر اچانک کسی مسلمان کا نام آنے لگا ۔ ابھی حالیہ واقعہ میں تمل ناڈو میں ایل کے اڈوانی کی جن چیتنا یاترا میں بم دھماکہ کی کوشش کے الزام میں پہلے کسی نہرو کا نام آیا تھا لیکن اب دو مسلم نوجوان اس الزام میں قید میں ہیں۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے تئیں یہاں کی سیکوٹی ایجنسی اور خفیہ ایجنسی کا رویہ کیا ہے۔ 15 جون 2004کو عشرت جہاں کو ان کے چار ساتھیوں کے احمد آباد میں قتل کردیا گیا تھا۔ گجرات پولیس نے مودی کی مقبولیت میں اضافہ کرنے کے لئے یہ شور مچایا تھا کہ یہ لوگ مودی کو قتل کرنے آئے تھے۔ گجرات ہائی کورٹ کے ذریعے تشکیل کردہ خصوصی تفتیشی ٹیم نے عدالت عالیہ کو پیش کی گئی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس نے جو شواہد جمع کیے ہیں ان سے یہ واضح ہے کہ عشرت جہاں اور تین دیگر افراد کو فرضی پولیس مڈبھیڑ میں ہلاک کیا گیا تھا۔ تفتیشی ٹیم نے عدالت کو یہ بھی بتایا ہے کہ عشرت جہاں اور ان کے ساتھیوں کو پولیس نے تصادم سے پہلے ہی ہلاک کر دیا گیا۔ہائی کورٹ نے یہ حکم عشرت جہاں کی والدہ شمیمہ کی عرضی پر جاری کیا تھا۔ ہائی کورٹ نے گزشتہ ستمبر 2010میں ایس آئی ٹی کی تشکیل کی تھی اور حکم دیا تھا کہ دو ہفتے کے اندر اندر اس کی نوٹیفکیشن جاری ہو جانی چاہئے اور تین ماہ کے اندر اندر ایس آئی ٹی ہائی کورٹ کو رپورٹ کرے لیکن گجرات حکومت نے حسب سابق انصاف کے عمل میں روڑہ اٹکاتے ہوئے اس حکم پر عمل کرنے کی جگہ پر اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا کہ ایس آئی ٹی کی تشکیل کا حق ریاستی حکومت کو ہے نہ کہ ہائی کورٹ کو،لیکن سپریم کورٹ نے 12 نومبر 2010 کو یہ اپیل خارج کر دی تھی اور ریاستی حکومت کو ہدایات دیئے تھے کہ وہ ہائی کورٹ کے احکام پر عمل کرے۔گجرات حکومت نے ہائی کورٹ کو بتایا کہ ریاست کی وزارت داخلہ نے ایس آئی ٹی کی تشکیل کی نوٹیفکیشن 16 نومبر کو جاری کر دی تھی اور 19 نومبر کو ریاست گزٹ میں اس نوٹیفکیشن بھی شائع کر دی گئی ہے۔ اس کے مطابق اس کا قیادت دہلی کے سابق پولیس کمشنر کرنیل سنگھ کریں گے اور ریاست کے دو پولیس اہلکار موہن جھا اور ستیش ورما اس کے رکن ہوں گے۔نوٹیفکیشن میں یہ صاف کر دیا گیا ہے کہ ایس آئی ٹی براہ راست یا بالواسطہ طور پر ایسے کسی پولیس افسر کی مدد نہیں لے گی جس کا اس تصادم سے کوئی تعلق رہا ہو۔

2009 میں جودیشیل مجسٹریٹ ایس پی تمانگ اپنی رپورٹ میں عشرت جہاں تصادم کو فرضی قرار دیا تھا ۔ اس وقت سنگھ پریوار سنگھ پریوار کی رکھیل ہندوستانی میڈیا میں طوفان برپا ہوگیا تھا اوروہ عشرت جہاں کے بارے میں بال کی کھال نکالنے لگ گئے تھے ۔ یہ افواہ پھیلانا شروع کردیا کہ عشرت جہاں لشکر طیبہ کی دہشت گرد تھی ۔ اسی کے ساتھ میڈیا نے اس مفروضہ کو بھی زور و شور سے ہوا دی کہ 2008 ممبئی حملہ کے ملزم ڈیوڈ ہیڈلی نے بھی قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) کی پوچھ گچھ میں عشرت کا جہاں کانام لیا ہے کہ وہ لشکر طیبہ کی دہشت گردی تھی ۔ جب کہ این آئی اے کی طرف سے ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی تھی۔جولائی 2010 میں ، کچھ ذرائع ابلاغ میں یہ خبر زور و شور سے آئی تھی کہ پاکستانی نژاد امریکی دہشت گرد ڈیوڈ ہیڈلی نے لشکر کے ایک رکن کے طور پر عشرت کا نام لیا ہے تاہم ، گجرات ہائی کورٹ کو لکھے ایک خط میں ، NIA واضح کیا ہے کہ میڈیا کی یہ رپورٹیں غلط ہیں اور ڈیوڈ ہیڈلی نے عشرت جہاں کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔گجرات پولیس ابھی تک یہی دعوی کرتی رہی ہے کہ یہ سبھی دہشت گرد تھے۔ 19سالہ عشرت جہاں کا تعلق ممبئی سے تھا اور وہ خالصہ کالج کی طالبہ تھیں۔ 2002 میں والد کے انتقال کے بعد گھروں میں ٹیوشن پڑھاکر زندگی کی گاڑی چلانے میں اپنی والدہ کا ہاتھ بٹاتی تھیں اور ساتھ میں کالج میں زیر تعلیم بھی تھیں۔ وہ پرنیش پلئی نام کے ایک شخص کی پرفیوم کے بزنس میں حساب کتاب کا کام دیکھتی تھیں۔ان کے علاوہ پرنیش پلئی،امجد علی رانا اور ذیشان کو بھی پولیس نے تصادم کے نام پر قتل کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فرضی تصادم میں بھی وہی پولیس افسران ملوث ہیں جنہیں سہراب الدین اور ان کی بیوی کوثر بی بی اور ان کے ایک ساتھی کے فرضی پولیس مقابلے میں پہلے ہی گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اس فرضی انکاؤنٹر کی قیاد ت بھی ڈی آئی جی جی ڈی ونجارا نے کی تھی۔ اس معاملے میں اب اس وقت کے جوائنٹ کمشنر آف پولیس پی پی پانڈے ، معطل ڈی آئی جی ڈی جی ونجارا ، اس وقت کے اے سی پی جی ایل سنگھل اور اے سی پی این کے امین پر الزام سمیت تصادم میں کل 21 پولیس اہلکاروں کے ملوث ہونے کی بات سامنے آئی ہے۔

گجرات پولیس کامسلمانوں کے تئیں حیوانیت، درندگی، سفاکی اور حشیانہ نظریے کا تصور کیجیے کہ ایک بیوی کے سامنے ان کے شوہر کا قتل کردیا جاتا ہے اور پھر ان کی عصمت دری کی جاتی ہے تاریخ میں ایسا سفاک واقعہ کم ہی ملے گا اس عورت کی عصمت دری کی جاتی ہے جو اپنے شوہر کے قتل سے نڈھال ہے اس عالم ان کی آبروریزی کی جاتی ہے اور انہیں بھی قتل کردیا جاتاہے۔ ہم صرف اس کا تصور کرسکتے ہیں کہ کوثر بی کس دردناک اوراذیتناک لمحے سے گزری ہوگی۔ ونجارا اینڈ کمپنی نے ایک دیگر فرضی انکاؤنٹر میں سنجے کشواہا کو بھی مارا ڈالا تھا۔ امیش بھائی کے حلفی بیان کے مطابق ونجارا کایہ حکم تھاکہ کسی بھی مسلم نوجوان کے جیپ میں اردو میں تحریر پرچہ رکھ دو انہیں ختم کردو۔ ایسا ہوا بھی ۔ اس کے بعد گجرات سمیت ملک کے دیگر حصے میں انکاؤنٹر اور ہونے والی گرفتاری میں ثبوت کے طورپر پولیس مسلم نے نوجوانوں سے اردو کی تحریر یا اردو اخبارات یا کتابیں برآمد کیں اسے ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا۔ دہلی ایر پورٹ کا یہ واقعہ قارئین کے ذہن میں ہوگا کہ دو طالب کسی موضوع پر بات کر رہے تھے کہ ”آج کل مسائل بہت ہیں“ وہاں کھڑے پولیس والے نے مسائل کو میزائل سمجھ لیا اور ان دونوں نوجوانوں سے پوچھ گچھ کا جو تکلیف دہ سلسلہ شروع ہوا وہ بیان سے باہرہے۔ ان سے پولیس والے کہتے رہے کہ میزائل کہاں ہیں بتاؤ ، طالب علم کہتے رہے کہ ہم نے کسی میزائل کا تذکرہ نہیں کیا اور نہ ہم میزائل کے بارے میں جانتے ہیں لیکن پولیس والے میزائل کا پتہ معلوم کرنے پر بضد تھے

عشرت جہاں اب اس دنیا میں نہیں ہے اور ان پر لگے دہشت گردی کے داغ بھی مٹ جائیں گے لیکن مودی اینڈ کمپنی عشرت جہاں کو دوبارہ زندہ کرسکتی ہے اگر وہ زندہ نہیں کرسکتی تو مودی کو مارنے کا حق کس نے دیا تھا۔ ان پولیس افسران اور افسران کو سامنے لایا جانا چاہئے کہ جس نے رپورٹ کی تھی یا ان سے اس طرح کی رپورٹ دینے کے لئے کہا گیا تھاکہ لشکر طیبہ کے دہشت مودی کو قتل کرنے آرہے ہیں، اس کی گہرائی سے تفتیش ضروری ہے۔ آنریبل ہائی کورٹ نے اچھا فیصلہ سنایا ہے اور خاطیوں کے خلاف 302 کے تحت مقدمات قائم کرنے کا حکم دیا اس سے ایسے پولیس افسران پر لگام لگانے میں آسانی ہوگی جو قانون کی پرواہ نہیں کرتے۔ہائی کورٹ نے نئے سرے سے ایف آئی آردرج کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کیس کی نئے سرے سے جانچ کرنے کا بھی حکم دیا ہے کہ یہ معاملہ کس طرح پیش آیا اس کے پیچھے کون لوگ تھے، کس کے اشارے پر یہ کام انجام دیا گیا۔ عشرت جہاں کی ماں شمیمہ رضا شیخ کو جس طرح تلخ زندگی گزارنی پڑی اور معاشرے میں ذلیل ہونا پڑا ، بھائی کی نوکری گئی، بہنوں کو اپنی تعلیم ترک کردینی پڑی، کہیں نوکری کے لئے گئے تو وہاں نوکری نہیں ملی، پہلے چھوٹے چھوٹے بچے ان کے یہاں ٹیوشن پڑھنے آیا کرتے تھے جو آنا بند ہوگئے، چار جوان بیٹیوں کی ماں شمیمہ کو اس حالت میں پہنچانے کا ذمہ دارکون ہے؟۔عشرت جہاں کے بھائی کو بھی اپنی بہن پر لگے اس الزام کا خمیازہ نوکری سے برخاستگی کی صورت میں بھگتنا پڑا۔انہیں ایک کمپنی میں دوست کی مدد سے کام مل گیا لیکن صرف پندرہ دنوں بعد ہی مجھے کام سے یہ کہہ کر نکال دیا گیا کہ وہ ایسے خاندان کے کسی بھی فرد کو ملازمت نہیں دے سکتے جن کے دامن پر دہشت گرد ہونے کا لیبل لگا ہو پھر چاہے اس میں سچائی نہ ہو‘۔ عشرت جہان کے چچا نے عدالت سے باہر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا ’ہمارے دامن پر دہشت گردی کا جو داغ لگایا گیا تھا وہ اس تفتیش کے بعد دھل گیا ہے لیکن کیا اس کی تلافی مودی اینڈ کمپنی اور ہندوستانی میڈیا کرسکتی ہے۔ اس معاملے میں جتنا قصور وار مودی اینڈ کمپنی ہے اس سے کہیں ذمہ داری ہندوستانی میڈیا بھی ہے اس کا ٹرائل ہونا چاہئے اور ایسے رپورٹرس، اینکرس، ایڈیٹرس کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہئے جن لوگوں نے گجرات پولیس کے بیان کو نمک مرچ لگاکر ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کیا اور ٹرائل سے پہلے مجرم قرار دیا۔

معاملہ اب یہ ہے کہ ان کے پیچھے پیچھے کون لوگ شامل تھے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس سازش کوبہت ہی منظم طریقہ سے انجام دیا گیاتھا اور اس کی منصوبہ بندی بہت عرصہ پہلے کی گئی ہوگی۔ سارے مکالمے اور ڈائیلاگ لکھے ہوئے ہوں گے اور اداکاروں کا انتخاب کیا گیا ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ڈائیلاگ کا مصنف کون ہے ۔اس طرح کے اور کتنے ڈائیلاگ لکھے گئے ہیں جسے عملی جامہ نہیں پہنچایا گیا ۔ عشرت جہاں اور سہراب الدین سمت19 انکاؤنٹرگجرات میں انجام دئے گئے ہیں ۔سب کی تفصیلات اجاگر ہونی چاہئے ۔ پرنیش پلئی کے وکیل مکل سنہا نے کہا ہے کہ ’یہ صرف ایک فرضی تصادم نہیں تھا۔ اس کے پیچھے ایک سیاسی سازش تھی اور اس سازش کی تفتیش ہونی جاہیئے۔‘ احمد آباد کے جوائنٹ پولیس کمشنر ستیش ورما نے کہا کہ عشرت جہاں تصادم فرضی اور منصوبہ بند تھی۔یہ اچھی بات ہے کہ سپریم کورٹ کا رویہ بھی فرضی تصادم انجام دینے والوں کے تئیں نہات سخت ہے۔ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ فرضی انکاوٴنٹر قتل سے کم نہیں ہیں اس لیے اس میں شامل پولیس اہلکاروں کو موت کی سزا ملنی چاہئے۔ اس وقت کے سپریم کورٹ کے جج جسٹس مارکنڈے کاٹجو اورجسٹس سدھا مشرا نے کہا ‘کسی معاملے میں اگر کسی پولیس والے کے خلاف فرضی تصادم ثابت ہو جاتی ہے تو ایسے معاملات کو رےئرریسٹ آف رےئر کے زمرے میں تسلیم کرنا چاہئے۔

ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵

abidanwaruni@gmail.com

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *