نائن الیون کے بعدتہذیبوں کے ٹکراؤ کاجس تسلسل سے تذکرہ ہو رہاہے اب باوجود انکار کے اس سے چشم پو شی کی گنجائش تک باقی نہیں رہی اورتہذیبوں کی جنگ چھیڑنے کی استعماری سازشیں تاریخ کے ہردورمیںہزاروں بے گناہ انسانوں کی ہلاکت کاریکارڈ اپنے اندر محفوظ رکھے ہوئے ہیں لیکن نائن الیون نے ان سازشوں کو نئی جہت عطاکی اورخدشات عصرِ حاضر کی موجودہ صورت حال کو انتہائی تیزی کے ساتھ ان خوفناک نہج پر لیجارہے ہیں جہاں اب اس کے سدباب کیلئے راستے مسدود ہوتے جا رہے ہیں۔ٹونی کارٹا لوکی (Tony Carta Lucci)نے ’’طویل ریسرچ‘‘کے ایک حالیہ شمارے میںاس حوالے سے بے لاگ تحقیق پیش کی ہے جس نے غوروفکر کے کئی نئے باب کھول دیئے ہیںجواپنے اندرغوروفکر کی دعوت دیتے ہیں۔ٹونی نے اپنے تحقیقی کالم میں لکھا ہے:
’’فرانس میںآج بھی یہودیوں کے قتل عام (ہولو کاسٹ ) کو جھوٹ پر مبنی قرار دینا خلاف ِ قانون اورجرم ہے جس پرسزاسنائی جا سکتی ہے مگر حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ صرف اور صرف مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے والے خاکوں کی اشاعت کو بالکل درست قرار دینے والے فرانسیسی سیاستدان آزادیٔ اظہاررائے کی حفاظت کے نام پرمیدان میں اترآئے ہیں۔امریکی اخبار کرسچیئن سائنس مانیٹر کے مطابق ان سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ وہ ان خاکوں کی اشاعت کا دفاع کرکے اس اظہارِ رائے کی آزادی کے حق کا دفاع کر رہے ہیں۔اب یہ بات صاف محسوس کی جا سکتی ہے کہ امریکا میں نئے رجعت پسندعناصر کی جانب سے مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے والی فلم سازی اور فرانس سمیت کئی ممالک میں توہین آمیز اشاعت کا اہتمام دراصل اسلامی دنیااورمغرب کے درمیان تصادم کی راہ ہموارکی سازش کے سواکچھ اور نہیں۔
شام کی بگڑتی ہوئی صورت حال اورمشرقِ وسطیٰ کے دگرگوں حالات کے تناظر میں اس سازش کو بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔فرانس سمیت یورپ کے کئی ممالک دونوں طرف کھیل رہے ہیں۔ فرانس نے لیبیا اور شام میںسڑکوں پر آنے والوں،سرکاری املاک اور غیر ملکی سفارتی مشنز کو آگ لگانے والوں، قتل و غارت کا بازار گرم کرنے والوں اورملک کے حالات خراب کرنے والوں کو دل کھول کر فنڈاورہتھیار فراہم کئے ہیں۔فرانس نے لیبین اسلامک فائٹنگ گروپ کو (جسے اقوام متحدہ غیر قانونی قراردے چکی ہیں)کھل کر مدد فراہم کی،صرف فنڈ ہی نہیں بلکہ ہتھیار بھی فراہم کئے گئے اور تربیت بھی دی گئی ۔ یہ سب کچھ کرنل قذافی کی حکومت کاتختہ الٹنے کیلئے تھا۔
امریکا کے ویسٹ پوائنٹ ٹیررازم سینٹرکی ۲۰۰۷ء کی ایک رپورٹ کے مطابق لیبین اسلامک فائٹنگ گروپ نے القاعدہ سے باقاعدہ تعلقات استوار کر لئے ہیں اور یہ رابطے فرانس کی جانب سے قذافی کی حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے فنڈ ہتھیاراورتربیت کی فراہمی سے بہت پہلے کی بات ہے۔فرانس کی حکومت اب شام میں دہشت گردی کو ہوا دینے کیلئے بھرپورفنڈنگ کر رہی ہے،ہتھیار بھی فراہم کئے جا رہے ہیں۔بشارالاسد انتظامیہ کی حکومت گرانے کے نام پر پورے ملک کوتاراج کیا جارہاہے۔شرقِ اوسط کے احوال پر مرتب کی گئی رپورٹ ’’عراق میں القاعدہ جنگجو‘‘میں واضح طور پر درج ہے کہ لیبین اسلامک فائٹنگ گروپ کے القاعدہ سے انتہائی قریبی رابطے ہیں۔۳نومبر۲۰۰۷ء کولیبین اسلامک فائٹنگ گروپ کے ارکان نے القائدہ میں باضابطہ شمولیت اختیار کی۔
بھارتی اخبار’’دی ہندو‘‘نے’’ فرانس ٹوفنڈاپوزیشن ان سیریا‘‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ شام کے جن علاقوں میں منحرفین کا کنٹرول قائم ہو چکا ہے ان میں فرانس دل کھول کر فنڈ اور ہتھیار فراہم کررہاہے جس کے نتیجے میں وسیع یاملک گیرپیمانے پر خانہ جنگی کا خطرہ پنپ رہاہے۔فرانس نے شام اوردیگرممالک میں منحرفین کی بھرپورمدد کرکے دراصل وسیع سازش کوعملی جامہ پہنایا ہے جس کا مقصد بعض مقامات پرناکام ہو جانے کی صورت میںایسے حالات پیدا کرنا ہے کہ مغربی ممالک پر مجبور ہوںاورایک وسیع البنیادجنگ کی راہ ہموار ہو،جسے ہم تہذیبوں کی جنگ سے تعبیرکر سکتے ہیں۔
مغربی میڈیابہت محنت اورباریکی سے اب یہ تاثر پیداکرنے کی کوشش کررہاہے کہ عرب بہار ،یعنی عوامی بیداری کی لہر کے دوران میں بدعنوان اور جابر حکومتوں کا تختہ الٹنے کی کوشش کرنے والے گروپوں کی مددکی مگر وہ انتہا پسند نکلے۔حقیقت یہ ہے کہ کئی برسوں کے دوران میں تمام لوگوں کو چن چن کر جمع کیا گیاجن کی انتہا پسندی کوئی راز نہ تھی بلکہ ان سب کوجمع کرکے لگایا گیا،خرابی پیداکی گئی تاکہ کئی ممالک میں حالات غیر مستحکم ہو جائیں،حکومتیں کمزور ہو کر گرپڑیں۔معیشت کا دھڑن تختہ ہو اورمعاملات کو بالآخرمغربی مداخلت کے ذریعے سے سلجھانے کی کوشش کے سوا کوئی چارۂ نہ رہے۔
امریکی صحافی سیموہرش نے ۲۰۰۷ء میں مشہور جریدے ’’نیویارک ٹائمز‘‘کے مضمون ’’ری ڈائریکشن‘‘ میں لکھا :’’مشرقِ وسطٰی میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثرات کم کرنے کیلئے امریکا نے حکمتِ عملی تبدیل کی ہے۔لبنان میں حزب اللہ کو کمزور کرنے کیلئے بش انتظامیہ نے سعودی عرب کے ساتھ کام کیا۔امریکا نے ایران اوراس کے اتحادی شام کو کمزور کرنے کیلئے بھی خفیہ آپریشن کئے ہیں۔اس کا نتیجہ ایسے سنی گروپوں کو ابھرنے کی صورت میں برآمد ہوا ہے جو امریکا کے مخالف اور القاعدہ کے بہت قریب ہیں‘‘۔سعودی عرب کی معاونت سے ایسے گروپوں کی بھرپور معاونت کی گئی جو بشارالاسدانتظامیہ کے خلاف کام کرنے کیلئے تیارتھے۔اسرائیل سمجھتا تھاکہ بشار الاسدانتظامیہ کے خلاف مختلف گروپوں کو کھڑا کرکے اس پر دباؤ بڑھایا جا سکتاہے اورپالیسیوں میں نرمی پیداکروائی جا سکتی ہے۔پہلے نکولا سرکوزی اور اب فرانکوئی اولاندکے ذریعے سے جن گروپوں کوبھرپور فنڈ اور اسلحہ فراہم کیا گیاان کے بارے میں دورائے نہیں تھیں کہ ان کے ہاتھوں غیر معمولی خرابی پیدا ہوگی،مغرب کیلئے مشکلات بڑھیں گی اوربشارانتظامیہ کو کمزورکرنے کے نام پرکی جانے والی کوششیں مغربی مشنز وغیر کیلئے بھی خطرناک ثابت ہونگی یعنی یہ سب کچھ ایک بڑی اوروسیع سازش کا حصہ ہے۔سعودیوں نے واضح یقین دہانی کرائی تھی کہ بنیاد پرستوں کی سختی سے نگرانی کی جائے گی اور انہیں کسی بھی حال میں ایک خاص حد سے آگے نہیں جانے دیا جائے گا‘‘۔
آج اگر مغربی حکومتیں یہ کہہ رہی ہیںکہ مشرقِ وسطیٰ میںعوامی بیداری کی لہر کے نتیجے میںالقاعدہ فعال ہو گئی ہے تو یقینی طور پریہ سب کچھ آنکھوں میں دھول جھونکنے والی بات ہے، مغربی حکومتوںکو اچھی طرح اندازہ تھاکہ وہ جو کچھ کررہی ہیںاس کے نتیجے میںشدت پسندی اورعسکریت پسندوں کو فروغ ملے گااورانتہا پسند ہی فروغ پائیں گے،یعنی یہ سب کچھ طے تھا۔’’اے پرجیکٹ فار اے نیو امریکن سنچری‘‘پر دستخط کرنے والے ڈینیل پائپس اور ان کے ہم خیال تجزیہ نگاررابرٹ اسپنسر،پامیلا جیلراور ڈیوڈہورز کو بھی طے شدہ انداز سے آگے لانے کی کوشش کی گئی تاکہ ایک بڑے جھوٹ کوآسانی کے ساتھ فروغ دیا جا سکے۔ڈینیل پائپس اوران کے ہم خیال تجزیہ کار آج یہ کہہ رہے ہیںکہ اسلام نوازاوباما کی پالیسیوںکے باعث امریکا اورمشرقِ وسطیٰ میں انتہا پسند تیزی کے ساتھ ابھر رہے ہیں۔یہ سراسر جھوٹ ہے ،حقیقت یہ ہے کہ ایران اور شام کو کمزورکرنے کے نام پرپورے مشرقِ وسطیٰ میں انتہا پسندعناصر کو بھرپورمدد فراہم کی گئی تاکہ وہ ابھریںاور وہ مغرب کے طے کردہ ایجنڈے کے مطابق کام کریں۔
اوبامہ نے تو صرف ایک ایسے منصوبے پر عمل کیا ہے جو برسوں پہلے تیار کرلیا گیا تھااور جس کا مقصدمشرقِ وسطیٰ کو زیادہ سے زیادہ غیر مستحکم کر کے مغربی قوتوں کے مفادات کوزیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنا تھا۔مغرب کے عوام اب اسی بات سے اچھی طرح آگاہ دکھائی دیتے ہیں کہ لیبیا میں حکومت کا تختہ الٹنے کے بعدانتہا پسندوں اور عسکریت پسندوں کے ہاتھ میں سبھی کچھ دے دیا گیا ہے اور اب شام میں بھی ایسی ہی صورتحال پیدا کی جا رہی ہے۔کوشش صرف یہ کہ حکومت کا تختہ الٹنے کے نام پرزیادہ سے زیادہ عدم استحکام پیدا کیا جائے اور پھر یہ تاثر دیا جائے کہ معاملات اب ہاتھ سے نکل چکے ہیں،اس لئے انتہا پسندوںکو قبول کئے بغیر چارہ نہیں۔ایک بھرپور ڈرامہ سٹیج کیا جارہاہے،اسکرپٹ میں تبدیلیاں کی جارہی ہیں۔افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف لڑنے والوں کو مجاہدین کا درجہ ملا،پھرجب سوویت یونین کو بری طرح شکست ہوئی تو وہی مجاہدین دہشتگردٹھہرے۔ القاعدہ کے نام سے یہ کام کرنے والے لوگ بعد میں افغانستان اورعراق میں دس سال تک امریکا اوریورپ کے خلاف لڑنے کے بعدکرنل قذافی کا تختہ الٹنے کیلئے استعمال ہوئے اور محترم ٹھہرے،اب کام نکل جانے کے بعدوہی لٹیرے ،سفارت خانوں کو آگ لگانے والے اورامریکی سفیر کو قتل کرنے والے قرار پائے ہیں۔جس سے جتنا کام لیا جاتاتھا،لیا گیاہے اورلیا جارہاہے۔حقیقت یہ ہے کہ تہذیبوں کی جنگ کی راہ ہموار کرنے کیلئے بھرپور میدان تیار کیاجارہا ہے۔اس معاملے میںسب سے اہم محاذمیڈیا ہے۔لوگوں کو بہت کچھ ایسا دکھایاجا رہاہے جو حقائق کے بالکل برعکس ہے اورانہیں مجبور کیا جارہا ہے کہ اسی کو حق تسلیم کریں۔یہ ایک ایسا ایجنڈہ ہے جسے طویل مدت کے دوران مکمل کیا جاتا ہے اوربہت سے سیاسی پنڈتوں کا کہناہے کہ اوبامہ کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعدان انتہا پسندوں کی ہر قسم کی مدد مزید تیز ہو جائے گی۔
شام اور ایران کے ساتھ ساتھ چین کے خلاف محاذکھلا رکھنابھی ممکن ہو گااور یہ سب کچھ ’’اسلام نواز‘‘اوباما کے نام پر کیا جائے گا۔یہ چاروں ممالک اپنے آپ کو آگ اور خون کی لہروں میں بہتاہوا پائیں گے،یہ سب کچھ سرمایہ دارنظام کو تباہی سے بچانے اور مغربی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر ہے۔امریکا اوریورپ مل کرروس اور چین کا راستہ روک رہے ہیں۔میدان میں مشرقِ وسطیٰ تہذیبوں کے درمیان تصادم یا جنگ کا بہانہ تراش کر دراصل صرف اور صرف مغربی مفادات کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔میڈیا کے ذریعے سے وہ سب کچھ بیان کیا جا رہا ہے جو گمراہ کرنے کیلئے انتہائی کا فی ہو۔جھوٹ کو سچ اور سیاہ کو سفید ثابت کرنے کی بھرپور کو شش ہو رہی ہے۔عوام کو مجبور کیا جارہا ہے کہ جو کچھ میڈیا پرپیش کیا جا رہا ہے اسی کو سچ تسلیم کرتے ہوئے قبول کر لیں۔