نام کتاب:عکس در عکس
مصنف :ڈاکٹر رابعہ سرفراز
ناشر:پبلشرزرحیم سینٹر پریس مارکیٹ امین پور بازار،فیصل آباد
سن اشاعت:2015
قیمت:200
مبصر:محمد رکن الدین مصباحیؔ
انسان مافی الضمیر کی ادائیگی کے لیے الفاظ کا سہارا لیتاہے۔اسی الفاظ کے ذریعے وہ اپنی تخلیقات کو ایک دوسرے کے درمیان رکھ کرخوش ہوتا ہے۔تاکہ آپسی خیالات کا لین دین ہوتا رہے۔یہ عکس درعکس اسی مرحلے کی ایک اہم کتاب ہے جس میں جدید نسل کی خاتون اسکالر ڈاکٹر رابعہ سرفراز جدید نسل کی نمائندگی اپنی غزلوں کے ذریعے کرتی ہوئی نظرآرہی ہے۔ڈاکٹر رابعہ کی تخلیقات کی تعداد کافی ہیں جن میں ‘‘کوئی رت کوئی رستہ ہو،محبت زمانہ ساز نہیں(یہ دونوں مجموعے نثری نظموں پر مشتمل ہیں)،شبنم سے مکالمہ ،سخن زاد’’ (یہ دونوں مجموعے بالترتیب نظموں اور غزلوں پر مشتمل ہے)قابل ذکر ہیں۔تنقیدی اور تحقیقی کتاب‘‘اردو زبان اور بنیادی لسانیات بہت اہم ہیں۔زیر تبصرہ کتاب ‘‘عکس در عکس’’غزلیات کا مجموعہ ہے۔یہ کتاب مثال پبلیشرز رحیم سینٹر،پریس مارکیٹ ،امین پور بازار،فیصل آباد،پاکستان سے شائع ہوئی ہے۔عکس درعکس 112صفحات پر مشتمل ہے۔اس کتا ب کو مصنفہ نے اریبہ اور افرا کے نام منسوب کیا ہے۔مصنفہ خود اس کتاب پر پیش لفظ لکھی ہیں جن سے ان کے دیگر تخلیقی اور ادبی تصنیفات پر روشنی پڑتی ہے۔اس کتاب کی فہرست میں 47 غزلیں ہیں۔ان غزلوں میں ایک حمدیہ غزل کے ساتھ ساتھ ایک نعتیہ غزل بھی ہیں جو اللہ جل شانہ کی حمد کے بعد نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر درود سلام بھیج رہی ہے جو کہ ایک مستحسن اور بابرکت کا م ہے۔حمدیہ غزل کے چند اشعار دیکھیں:
رحمتیں مجھ پر بے کراں کر دے
سر خروئے ہر دوجہاں کردے
حمد لکھتی ہوں ،حرف عاجز ہیں
اس قلم کو تو ہی رواں کردے
مالک انس وجاں اماں میں لے
حاسدوں کو خود بے نشاں کردے
اس حمدیہ غزل میں رابعہ نے بالکل آسان اور سہل الفاظ کا استعمال کیا ہے۔خدا کی بارگاہ سے لو لگا کر اپنی عاقبت کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی سرخروئی کے لیے التجا کررہی ہے،حمد پڑھ کر ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے پوری دنیا سے بے نیاز ہو کر اپنے معبود حقیقی سے فریاد کررہی ہے کہ مولیٰ تیری حمد وثنا کے لیے الفاظ عاجز ہیں،زبان تو اس لائق ہی نہیں کہ تیری حمد وثنا کر سکے اور نہ ہی میرے پاس الفاظ اس قدر ہیں کہ میں تیری حمد وثنا کرسکوں۔اپنی جان ومال کی حفاظت کے لیے اللہ سے دعا گو تو ہے ہی ساتھ ہی حاسدوں سے بھی پناہ مانگ رہی ہے۔موجودہ دور میں سماجی صورت حال سے سب واقف ہیں۔خود غرضی عروج پہ ہے۔بے اعتنائی کا دور دورہ ہے ،انسانیت کراہ رہی ہے کہ کس طرح اس سماج میں سانس لیں،گویا بے کسی کی حالت میں ایک ہی ذات ہے جو اپنے بندوں پہ رحم کھاتا ہے اور وہ اللہ کی ذات ہے۔چناں چہ اسی کی بارگاہ سے عافیت ورحم کی امید ہے۔اس پس منظر میں اس حمدیہ غزل کو سمجھا جا سکتا ہے۔آخر کے کچھ اشعار دیکھیں:
حرف کی حرمت کا ہنر دے کر
پاک لکنت سے اب زباں کردے
ہو عطا ندرت دو جہانوں کی
اوج میں مثل آسماں کردے
رابعہ ؔ کے فکروعمل میں بھر
وہ صداقت جو کامراں کردے
نعتیہ غزل میں بھی بلا کی شفافیت ہے ۔الفاظ بہت ہی آسان اور سہل ہے۔زبان کی بات کی جائے تو محسوس ہوتا ہے جیسے کوثر وتسنیم سے دھولی ہوئی زبان ہے۔چند اشعار ملاحظہ کریں:
خدا کی رضا ہے رضائے محمد
زمیں وزماں ہیں برائے محمد
عطا ہی عطا ہے ہمارا مقدر
قبول خدا یے دعاے محمد
عصائے کلیمی غضب تھا جہاں میں
ہمارا سہارا عصاے محمد
اس نعت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات وصفات کی مدح کمال کی ہے۔مقصود تخلیق کائنات کی خوب صورت عکاسی کی گئی ہے۔صنعت استعارہ کا استعمال بھی خوب ہے۔اس طرح کی نعت عاشق رسول مولانا احمد رضا خاں بریلوی کے یہاں بھی موجود ہے ،چند اشعار دیکھیں:
زہے عزت واعتلائے محمد
کہ ہے عرش حق زیر پائے محمد
خدا کی رضا چاہتے ہیں دوعالم
خدا چاہتا ہے رضائے محمد
بہم عہد باندھے ہیں وصل ابد کا
رضائے خدا اور رضائے محمد
دم نزع جاری ہو میری زباں پر
محمد محمد خدائے محمد
عصائے کلیم اژدہائے غضب تھا
گروں کا سہارا عصائے محمد
اجابت کا سہرا عنایت کا جوڑا
دلہن بن کے نکلی دعائے محمد
اوپر بیان کردہ اشعار جو کہ رابعہ نے کہی ہے اور اس کے بعد کے اشعار جسے مولانا احمد رضا خان نے عشق رسول میں ڈوب کر لکھی ہے ،دونوں نعت کی زمین ایک ہے اگر میں یہ کہوں تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ رابعہ کی نعت مولانا احمد رضا کی نعت سے مستعار ہے۔مقطع دیکھیں:
ملے رابعہؔ کو ثمر اس سفر کا
شفاعت دلاتا سرائے محمد
اس کے بعد مولانا احمد رضا کا مقطع دیکھیں:
رضاؔ پل سے اب وجد کرتے گزریے
کہ ہے رب سلم صدائے محمد
بہر کیف !حمد و نعت کے بعد مصنفہ نے اپنی دیگر 45غزلوں میں زندگی کی مختلف پہلوؤں پہ روشنی ڈالی ہے۔ان تما م غزلوں کا مطالعہ ہمیں زندگی کی بہت ساری حقیقتوں سے روشناس کراتی ہیں۔شعری الفاظ میں قلبی جذبات کا اظہار انسان کا محبوب مشغلہ رہا ہے ،بعض اوقات انہیں صرف تفنن طبع کے لیے استعمال کیا جاتا تھا ،بعض اوقات ان الفاظ سے سماجی ،سیاسی ،تہذیبی اصلاحات کے کام بھی لیے گیے ۔انسان جو کچھ محسوس کرتا ہے انہیں اپنے الفاظ کا رنگ دے کر اشعار کی شکل میں بیان کردیتا ہے گویا یہی احساس تحریر ی پیرائے میں جادو کا کام کرتا ہے اور انسان اس جادوئی ،مسحور کن لب ولہجہ سے زندگی میں در آمد مسائل کے حل کے لیے راستہ متعین کرلیتا ہے۔اس پس منظر میں اگر ہم رابعہ کی غزلوں کا جائزہ لیں تو یقیناً اندازہ ہوگا کہ شاعرہ کے خیالات بہت وسیع ہیں۔غم جاناں کے ساتھ ساتھ غم دوراں کے احوال بھی ان کی غزلوں میں پوشیدہ ہیں۔لیکن دیگر اردو شعرا کی طرح ان کے یہاں بھی غم جانا ں کو اولیت حاصل ہے۔واضح ہو کہ شاعر ہ کا محبوب کوئی بھی ہوسکتا ہے،خوب صورت وقت ،بہتر حالات،معاشی خوش حالی،سیاسی سکون،تہذیب وتمد ن کی بقا،ذاتی زندگی میں مسرت وشادمانی،یا اس طرح کی دیگر چیزیں جوکہ محبوب اور محبوبہ ایک دوسرے کے احساسات سے اچھی طرح واقف ہوں۔مثلاً چند اشعار اس حوالے سے دیکھیں:
میرے دیوان کی یہ پہلی غزل تیرے لیے
سراظہار،ہنر کا ہے محل تیرے لیے
تیری یادوں سے عبارت مرے دن رات سبھی
ہر گزرتا ہوا ،آتا ہوا پل تیرے لیے
چاہے آباد رکھ اس کو کہ اسے کربرباد
نہیں اس دل میں کوئی ردعمل تیرے لیے
تو سنے یا نہ سنے ،ایک حقیقت ہے مگر
رابعہؔ نے لکھی یہ دل سے غزل تیرے لیے
اس طرح کی تمام غزلوں میں شاعرہ کا کوئی نہ کوئی مخاطب ضرور ہے ،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی نظروں کے سامنے کوئی بیٹھا ہے اور یہ انہیں دیکھ کر غزلیں کہتی جارہیں۔یہ پورا مجموعہ اس طرح کی غزلوں سےپر ہے۔مثال کے لیے چند غزلوں کے کچھ اشعار دیکھیں:
؎معاملات میں یہ وسوسے سے کیا نکلے
کہ حرف آرزو بھی صورت دعا نکلے
؎ قریب جاں ہی رہے گا تو دور جا کر بھی
نہیں یقین تو آدیکھ آزما کر بھی
؎ ہر صورت میں آج سے بہتر ہونا ہے
ہم کو کل کا روشن منظر ہونا ہے
؎ مری گلی سے بھی گزرو مرے گھر آؤ
حصار ہجر گرانے کو لوٹ کر آؤ
؎ہر شخص کہہ رہا تھا،سراپا سراب ہے
وہ حرف زندگی کا مری جو نصاب ہے
؎ ترے بن سحر ہی نہیں مرے
تجھے سوچتی ہوں یقیں مرے
؎ ترے لیے کرے سجن دعا
مری غزل ،مرا سخن،دعا
؎ مرے دل سے تری صورت مٹا نہیں سکتی
ہوا بھی اس دیے کی لو بجھا نہیں سکتی
اس طرح کی مزید غزلیں اس مجموعے میں موجود ہیں جو لگ بھگ ایک ہی تاثر قارئین پر قائم کرپاتی ہے۔عشق و عاشقی کے علاوہ بھی کچھ غزلیں اس مجموعے میں ہیں جو اکیسویں صدی عیسویں کی کاروباری زندگی ،بے چین زندگی،خود غرض دنیا،مطلبی دنیا یا اس طرح کے دیگر حالات سے لبریز زندگی پر روشنی ڈالتی ہے۔مثلاً کچھ اشعار ملاحظہ کریں:
؎ شامل ہر کارواں ہوتے ہوئے
دربدر ہیں آشیاں ہوتے ہوئے
؎لب و لہجہ ہے پر اثر میرا
ہجر سے فن ہے معتبر میرا
ترے دم سے مری اس آگہی کا موسم
دعا میں ڈھل گیا ہے زندگی کا موسم
؎ہوا چلی گلاب کھل گئے
تو موسموں کے کھوج مل گئے
؎یہ دنیا تو میری طلب ہی نہیں ہے
مرے دل میں خواب طرب ہی نہیں ہے
؎سیکھوں گی میں سارا کچھ
ملے جو سچ کا سہارا کچھ
؎ خاک ہے مرا بدن آخر بکھرنا ہے مجھے
عمر کے امکان کی حد سے گزرنا ہے مجھے
؎چہرہ ہے فسردہ مگر آنسو نہیں آئے
اس رات کے دامان میں جگنو نہیں آئے
؎دادوتحسیں نہیں مری خواہش
میں نے یہ کب کہا؟سنو مجھ کو
؎دیکھ اسے بے بسی سے روتے ہوئے
جاگتی آنکھوں اس کو کھوتے ہوئے
ان غزلوں میں شعری محاسن خوب تر ہیں،کبھی انداز ناصحانہ ہے،کبھی استفہامیہ ہے،کبھی ناراضی ،کبھی پیار ہے۔ان سب کے باوجود انداز بیان بہت خوب ہے۔الفاظ کا انتخاب بھی خوب ہے۔مختلف موقعہ ومحل کی یہ تمام غزلیں زندگی کی سچائیوں کو بیان کرتی ہیں۔زندگی اور محبت کے حوالے سے دو شعر ملاحظہ کریں:
؎ زندہ ہوں زندگی کے حوالے سے
یعنی اک دوستی کے حوالے سے
؎جو محبت سے دور رہتے ہیں
آدمیت سے دور رہتے ہیں۔
یقیناً اس دور میں انسانی زندگی کی سلامتی کے لیے پیار ومحبت آب حیات کے مانند ہے ورنہ ہمیشہ انسانی زندگی پہ شب خون مارنے کے لیے خونی پنجہ تاک میں بیٹھے ہوئے ہیں۔اس کی مثال پوری دنیا ئے اسلام میں دیکھ سکتے ہیں اس کے علاوہ طاقت ور ممالک بھی اس کی بہترین مثال ہیں۔
کتاب کے اخیر میں مصنفہ نےایک ضمیمہ پیش کیا ہے جس میں اس مجموعے میں درج تمام غزلوں کی تقطیع پیش کی ہے جو کہ قابل قدر اور مستحسن کام ہے۔
محمد رکن الدین
ریسرچ اسکالر جواہر لعل نہرو یونیورسٹی،نئی دہلی
9891765225