Home / Socio-political / عہد وسطیٰ میں مسلم حکمرانوں کی رواداری

عہد وسطیٰ میں مسلم حکمرانوں کی رواداری

عہد وسطیٰ میں مسلم حکمرانوں کی رواداری

                                                                                       ابرار احمد اجراوی *

جنت نشاں غیر منقسم ہندوستان کے طول وعرض پر کم و بیش آٹھ سو سال تک کئی مسلم خاندانوں نے حکومت کی ہے اور ہرخاندان سے تعلق رکھنے والے بادشاہ نے ہندستان کے تاج زرنگار اور اس کے تخت طاؤس میں نت نئے گل بوٹوں کا اضافہ کیا ہے۔ چمنستان ہند کی آبیاری اور اس کی ہمہ جہت ترقی اور خوش حالی ان کی حیات مستعار کا شیوہ تھا۔رواداری،وسعت ظرفی کا مظاہرہ کرنا اور پر امن بقائے باہم اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضا کو برقراررکھنا ان کی حاکمانہ زندگی کا طرۂ امتیاز تھا۔ان کے حریم حکومت میں ہندو مسلم یا سکھ عیسائی کی کوئی مذہبی یا نسلی تفریق نہیں تھی۔ انھوں نے کثرت میں وحدت سے عبارت یہاں کی گنگا جمنی تہذیب اور بھائی چارہ کے تصور کو فروغ دینے میں کسی طبقاتی یا مدہبی تعصب کا مظاہرہ نہیں کیا۔عہد وسطی میں مسلم حکمرانوں نے امن و سلامتی اور صلح وآشتی  کے آدرشوں کو رو بہ عمل لاتے ہوئے،جس شاندار طریقہ سے حکومت کی ہے، وہ ہندوستانی تاریخ کاہی نہیں، عالمی تاریخ کا بھی ایک روشن اور باعث صد افتخار باب ہے،سر زمین ہند سے ان مسلم بادشاہوں کی اٹوٹ محبت کا اندازہ کرنے کے لیے بس اتنا جان لینا کافی ہے کہ وہ یہاں مختلف سماجی، تجارتی اور سیاسی وجوہ کی بناء پرآئے ، لیکن ایک بارقدم رکھنے کے بعد اپنے آبائو اجداد کے مسکن و مدفن اورجان سے زیادہ عزیز اپنی جائے پیدائش کی طرف مڑ کربھی نہیں دیکھا،بلکہ یہاں کی خاک سے اس قدر محبت، دل چسپی اور وابستگی بڑھ گئی کہ وہ یہیں کے ہو کر رہ گئے ،  ان کے اخلاف اور اولاد واحفاد نے بھی اسی مٹی پر جنم لیا اور یہیں کی خاک کو اپنی آخری آرام گاہ بھی بنایا۔یہ مسلم حکمراں عرب و ترکی اور افغانستان و ایران سے آئے تھے، لیکن کسی نے بھی یہاں عربستان یا ترکمانستان و افغانستان بنانے کی کوشش نہیں کی، بلکہ وطن عزیز ہندستان کی وحدت اور سالمیت کو ایک جاں باز اور وفادار سپاہی کی طرح تحفظ فراہم کیا۔ اور یہ ملک ہندستان ہی رہا۔انھوں نے اس خطۂ زمین سے اپنے مادر وطن کی طرح پیار کیا۔ انہوں نے جہاں اسلامی تہذیب وثقافت کی جو صحیح معنوں میں انسانیت و شرافت اور اعلی انسانی اقدار سے عبارت تھی،ترویج وترقی اور توسیع وتبلیغ کے عمل کو مذہبی فریضہ کے تحت انجام دیاوہیں رواداری، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اورخوشگوار برادرانہ تعلقات کا عملی مظاہرہ بھی پیش کیا، انھوں نے آج کے حکمرانوں کی طرح جات پات ،نسلی تفریق اونچ نیچ اور مذہبی خطوط پر نظام حکومت وضع نہیں کیا،بلکہ ان کی حکومت عدل وانصاف، مودت ومحبت ، بھائی چارگی او ر مساوات کی اعلیٰ اور پائیدار بنیادوں پر ہی قائم ہوتی تھی۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ رواداری، بقائے باہم کا عالمی تصور اورخاص طور سے یہاں کے غیر مسلموں کے ساتھ دوستانہ اور برادرانہ برتاؤ ان مسلم حکمرانوں کا طرۂ امتیاز تھا۔ غیر مسلموں کے حقوق کی ادائیگی اور ان کی نگہداشت کے حوالے سے وہ بہت محتاط رہتے تھے۔ فرض شناسی اور عدل گستری ان کی زندگی کا شناخت نامہ تھی۔ ان کے اندروسعت ظرفی اور فراخدلی اس حدتک تھی کہ وہ ان کے مذہبی رسم ورواج اور ان کی خصوصی مذہبی تقاریب میںبھی بصد خوشی شرکت کرنے کے حامی تھے،جن کے طریقۂ کار اسلام مخالف تھے۔ ہندؤں کے تہذیبی اور معاشرتی وجود سے انہیں کسی بھی درجے میں تنفرنہیں تھا۔ وہ مختلف اقوام وملل کا پاس ولحاظ اور ان کے حقوق ومطالبات کاپورا احترام کرتے تھے۔ ان کے عہد حکومت میں شہریوں کے مابین قومی یک جہتی کا تصور بدرجۂ اتم موجود تھا۔ سماجی مساوات اور قانونی ومعاشی انصاف نظامہائے حکومت کی اساس تھا۔

ان تمام تاریخی حقائق کے باوجود المیہ یہ ہے کہ معاصر ہندوستان کے اکثر تاریخ نویس سیاست سے مرعوب اور گردوپیش کے حالات سے متأثر نظر آتے ہیں، انہوںنے چند ذاتی اغراض ومقاصد کے پیش نظراور چند ٹکوں کے حصول کے لیے تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کو تسکین دی ہے۔ ان  کی غلط تاریخ نگاری کی وجہ سے ہندوستان کی سچی اور مبنی برحقائق تاریخ جھوٹ اور افتراء پر دازیوں کا آمیز ہ بن کر رہ گئی ہے۔ زیادہ تر یوروپین مؤرخین اور سفید فام انگریزوں نے ’’لڑاؤاور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ہمارے اسلاف اورمسلم حکمرانوں کے معجزاتی اور عدیم المثل کارناموں کو آگ اگلتی تحریروں اور شرارت بھری تقریروں سے کچھ اس طرح پیش کیا ہے کہ اس سے معصوم اذہان بھی پر ا گندہ ہوگئے۔ ان کی طرف سے شائع ہونے والے لٹریچراور تاریخی کتابوں سے جو اثرات مرتب ہوئے اس سے فرقہ واریت کی مزید آبیاری ہوئی۔انھوں نے فرقہ واریت اور ہندو مسلم منافرت کی جو تخم ریزی کی تھی، اسی کی فصل آج کے فاشسٹ اذہان کے لوگ کاٹ رہے ہیںاور فرقہ پرستی کا زہر ہندستان کے جسم نازک میں گھول رہے ہیں۔

برطانوی سامراج نفرت وحقارت اور فرقہ پرستی کا جو بیج بو کر ہندوستان سے گیا تھا وہ آج ایک تنا ور درخت کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف ریاستوں کے سرکاری اسکولوں میں ایسی کتابیںداخل نصاب کردی گئیں اورہنوز کی جارہی ہیں جن سے مسلم دور حکومت اور مسلم حکمرانوں کی غلط تصویر کشی ہو تی ہے۔ مسلم حکمرانوں پر یہ الزام عائد کیا گیاہے کہ وہ بت شکن تھے۔ ہندو مخالف تھے۔مندروں کی مسماری اور غیر مسلموں کے عبادت خانوں کا انہدام حکومت کی منظم اور منصوبہ بندسازش تھی۔ وہ جبراً ہندوؤں کو مسلمان بناتے تھے۔غیر مسلموں کو حکومتی مراعات سے محروم رکھتے تھے۔

جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے، تاریخی حقائق بتلاتے ہیں کہ مسلم حکمراں بہت ہی روادار، رحم دل اور فراخ دل ہوتے تھے، کسی بھی مسلم بادشاہ کی اسٹیٹ پالیسی یہ نہیں تھی کہ غیر مسلموں کو جبراً مسلمان بنایا جائے اور انھیںتبدیلی مذہب پر مجبور کیا جائے ، مندروں اور بتوں کو توڑ ا جائے ، اس طرح کی ہندو مخالف پالیسی ان سے منسوب کرنا سراسر تاریخی بددیانتی ہے۔

مشہو رمؤرخ خلیق احمد نظامی بجا طور پرلکھتے ہیں: ’’ ہندوؤں کو نہ صرف پوری مذہبی آزادی حاصل تھی بلکہ ان کے رسوم وعقائد ، فلسفہ وافکار کونہایت ہی ہمدردانہ طور پر سمجھنے کی کوشش کی جاتی تھی ، بت پرستی پر طعنہ کے بجائے مسلمان ان کے جذبوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے تھے‘‘۔ (سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات:۷۴) ذیل کی سطروں میں چند مسلم حکم رانوں کا تذکرہ تاریخی حقائق کی روشنی میں کیا جارہاہے۔تاکہ مبالغہ اور بے جا الزامات سے مبرا اور منزہ ان کی صحیح تصویر ابھر کر سامنے آسکے اور فرقہ پرست طاقتوں اور ملک کے فاششسٹ عناصر کو ان کا منھتاریخ کے سچے آئینے میں دکھا سکے۔

جواں سال محمدبن قاسم پہلا مسلم شخص ہے جس نے سب سے پہلے سر زمین ہند پر قدم رکھا تھا۔ انھوں نے راجہ داہر کو اس کی بد عہدی اور وعدہ خلافی کی وجہ سے جنگ کے میدان میں شکست دی تھی اور جب ہزیمت کا کشکول اس کے ہاتھوں میں تھماکر ،سندھ میں تخت نشین ہوا تو یہاں ہندؤں کے ساتھ روادارانہ اور دوستانہ تعلقات کا ایک خوشگوار اور قابل رشک تصور پیش کیا، جمہوریت اور سیکولرازم ان کے طرز حکومت کا شناخت نامہ تھا، ان کے عہد حکومت میںہندوؤں اور بودھوں کو پوری مذہبی آزادی دی گئی ، کسی سے مدہب اور سماج کی بنیاد پر تعرض نہیں کیاجاتا تھا۔ انھوں نے حکومت میں سب کو حصول معاش کامساوی موقع فراہم کیا اوران کو بڑے قابل قدر عہدے تفویض کئے گئے۔ ایک غیر مسلم کاک ان کے دور حکومت میں وزارت اعلی کے قابل قدر عہدے پر فائز تھا۔ لیکن پھر بھی محمد بن قاسم زعفرانیت کا شکار برادران وطن کی نظروں میں ظالم اور ہندو دشمن قرار دیا جاتا ہے۔مسٹر چونی لال نے اپنے تحقیقی مضمون میں حقیقت کی نقاب کشائی کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ محمد بن قاسم ہندوؤں کی سوشل اور مذہبی رسومات واعتقادات کی عزت کرتاتھا، ہندوؤں کی سوشل اور مذہبی انسٹی ٹیوشنوں میں کوئی مداخلت نہیں کرتا تھا‘‘۔ (اسلام اور غیر مسلم : ۱۷۵)

 شرپسندعناصر نے یہ مفروضہ طشت ازبام کررکھا ہے کہ محمود غزنوی ایک تنگ دل اور متعصب مسلم حکمراں تھا،وہ ہندوؤں سے دشمنی رکھتا تھا،اس نے غیر مسلموں سے ان کی مذہبی اور سماجی آزادی سلب کرلی تھی، جب کہ تاریخی حقائق کچھ اور کہتے ہیں۔میدان جنگ کی بات دوسری ہے، یہاں تو ایک بھائی دوسرے بھائی کی گردن مارنے کے درپے ہوتا ہے۔ ورنہ محمود غزنوی تو اہنسا اورعدم تشدد کا داعی تھا۔ ان کی رحم دلی اور نرم خوئی کا اندازہ لگانے کے لیے صرف اتنا کافی ہے کہ راجپال ، انند پال اور دیگر ہندوراجاؤں کی مسلسل ناقابل برداشت بدعہدیوں کے باوجودجب وہ ان کے مد مقابل ہوتے تھے، وہ ان سے چشم پوشی اور درگزرکر تے تھے۔ ہزاروں غیر مسلم فوجی ان کے دفاعی نظام میں سپہ سالار اور سپاہی کی حیثیت سے موجود تھے۔تلک سندر اور بیج ناتھ کو انھوں نے جنرل کے عہدے پر فائز کیا تھا۔محمود غزنوی ہی وہ مسلم حکمراں ہے جس نے سومنات کا مفتوحہ علاقہ راجہ سکھ پال کو عطیہ میں دے دیا تھا، یہ وہی راجا سکھ پال ہے جس نے کئی بار عہد و پیمان شکنی کا ارتکاب کیا تھا ۔ محمود غزنوی کی رواداری کا یہ عالم تھا کہ اس نے عیر مسلموں کی دل جوئی کے لیے اپنی حکومت کے سکہ کے ایک جانب عربی میں تو دوسری جانب ہندؤوں کی متبرک مدہبی زبان سنسکرت میں عبارت نقش کرائی تھی۔ان تمام واشگاف حقائق کے باوجود محمودغزنوی ظالم و جابر اور متعصب و تنگ نظر ہے۔زعفرانیت زدہ لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے مسٹر الفنسٹن کا مندرجہ ذیل اعتراف کافی ہے، وہ کہتا ہے:’’ ہم ایک مثال بھی ایسی نہیں سنتے کہ اس نے (محمود غزنوی نے) کسی ہندو کو جبراً مسلمان بنایاہو، ایک شہادت بھی ایسی نہیں کہ جنگ یا قلعہ گیری کے موقع کے سوا اس نے کسی ہندو کو قتل کروایا ہو‘‘۔(تاریخ ہند: ۳۳۶)

محمد غوری اسلامی مزاج و منہاج پرنظام حکومت چلانے والا ایک نہایت مخلص،اور نرم دل بادشاہ گزرا ہے، رواداری اور ایثار وہمدردی کے جذبات کا عالم دیکھئے کہ اس نے اپنے سب سے بڑے دشمن ’’پرتھوی راج ‘‘ کے دونوں بیٹوں کی دل کھول کر شاہانہ انداز میں نگرانی وسرپرستی کی ، ڈاکٹر تارا چندلکھتے ہیں:’’ محمود اور محمد غوری مذہبی تعصب سے بالکل پاک تھے ، اگر چہ انہوں نے ملاحدین کو سزائیں دیں، ؛لیکن کسی کو تبدیلی مذہب پر مجبور نہیں کیا‘‘۔(اسلام اور غیر مسلم : ۱۸۸)

تغلق خاندان سے تعلق رکھنے والا مسلم بادشاہ،محمد شاہ تغلق علم دوست اور عدل وانصاف میں ضرب المثل تھا، اپنے مذہب کی پیروی میں سخت تھا، شریعت محمدیہ میں مداخلت اور مذہب اسلام کے معاملے میں کسی بھی مفاہمت کا روادار نہ تھا، مگردیگر مداہب و ادیان کے حوالے سے متعصب بھی نہیں تھا، بقول ایشوری پرساد’’ اس کے تعلقات ہندؤں کے ساتھ بہت اچھے تھے‘‘۔

 ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اورسیاسی مفادات کی روٹی سینکنے کے لیے ، چند متعصب اور خام ذہن کے حامل ہندؤں نے ان کی طرف نامناسب اور غیر حقیقی واقعات کا انتساب کیا ہے۔ ہندؤں سے مذہبی آزادی سلب کرنے، مندروں کا انہدام ،  مذہبی میلوں میں آمدورفت پرعام رعایا کی پابندی اور پوجاپاٹ میں اڑچنیں ڈالنے کے نام نہاد واقعات یہ سب کچھ ان کے پس منظر اور پیش منظر میں غور نہ کرنے کا فطری نتیجہ ہیں، چوں کہ بعض مندر اور مذہبی میلے اخلاقی بگاڑ ، فتنوں اور فحاشی وعریانیت کا اڈہ اور ذریعہ بن گئے تھے ؛ اس لیے اخلاقی تقاضوں کے پیش نظر اُن پر پابندی مملکت کے نظم ونسق کے تئیں بالکل موزوں اور مناسب تھا؛ چنانچہ ایک اسکالر’’ایشورٹوپا‘‘ لکھتا ہے:’’فیروز شاہ نے اسلامی قانون کے تحت اور دوسری طرف پبلک کی بھلائی کے پیش نظر ان مندروں کو توڑا‘‘۔ (ہندی مسلمان حکمرانوں کے سیاسی اصول: ۸۹)

سلاطین مغلیہ کے جدا مجد ظہیر الدین بابرکو دوسرے مسلم حکمرانوں کے بالمقابل کچھ زیادہ ہی ملعون و مطعون ٹھہرانے کی کوشش کی گئی ہے اور تاریخ کے آئینے میں ان کے روشن چہرے کو اتنا دھندلا کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مسلمانوں کی سفاکانہ اور قاتلانہ ذہنیت کی تعبیر کے لیے موجودہ عہد میں ہندی مسلمانوں کو بابر کی اولاد کا طعنہ دینے کا رجحان عام کیا جارہا ہے۔ حالاں کہ ظہیر الدین بابر روادار تھا، فراخ دل تھا، غیر مسلموں کا خیر خواہ تھا،عدل گستر اور عایا پرور تھا، اگر اس کی سرشت میں یہ عناصر داخل نہ ہوتے، تو وہ کیوں اپنے بیٹے ہمایوں کو ہندؤوں کے ساتھ ہمدردی اور خیر سگالی کی تلقین کرتا۔بابرنے بستر مرگ پر ہمایوں کو جن ہمدردانہ کلمات کے ساتھ وصیت کرکے اپنی رعایا سے حددرجہ قلبی لگاؤ کا اظہار کیا تھا ، وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔اور فرقہ پرست عناصر کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے،ہندؤں کے جذبات واحساسات کا خیال رکھنے کے متعلق انہوں نے ہمایوں سے کہا تھا: ’’ مذہبی تعصبات سے اپنے دماغ کو متأثر نہ ہونے دینا، ہر قوم ومذہب کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے ایک غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کرنا ، تم کبھی بھی کسی قوم کے عبادت خانہ کو منہدم نہ کرنا‘‘۔

جس بابر کو آج ایودھیا میں رام مندر کے انہدام کا قصور وار ٹھرایا جارہا ہے اور اس کی جگہ تعمیر شدہ مسجد کو مسمار کرکے پورے ملک میں فرقہ واریت کا ننگا ناچ ہوا اور ہنوز یہ سلسلہ مختلف حیلوں حوالوں سے جاری ہے، اسی بابر نے ایک اچھوت مہترانی کے معصوم بچے کو بد مست ہاتھی کی زد سے بچاکر اپنے سینے سے چمٹا لیا تھا، جس کی چیخ و پکار اور آہ وبکاء کو جائے وارادت کے قریب ہی موجود ایک اعلی ذات کے راجپوت نے سننے اور اس کی مدد کو پہنچنے سے صرف اس لیے انکار کردیا تھا کہ وہ ایک نیچی دات کے بچے کو ہاتھ لگاکر اپنی شان و شوکت اور اپنی نام نہاد مدہبیت کو بھرشٹ کرنا نہیں چاہتا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ بابر ایک سچا رحم دل اور رعایا کا بہی خواہ اورانسان دوست حکمراں تھا۔مجھ جیسے نو عمر اور ناتجربہ کار کو تو اس بات پر کبھی یقین نہ آیا کہ ایسا نیک دل انسان کیسے کسی مذہب کی عبادت گاہ کو مسمار کرسکتا ہے۔اگر چہ تاریخی حقائق نے ان تمام الزامات کے غبارے کی ہوا نکال کر رکھ دی ہے، مگر جن لوگوں نے بھی بابر پر مندر شکنی کایہ الزام رکھا ہوگا، کیا اس نے کبھی تنہائی میں بابر کی غیر متعصب زندگی کے خدو خال کا مطالعہ نہیں کیا۔

شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کے پوتے اورعظیم مسلم بادشاہ جہاں گیر پر بھی لعن طعن کرنے اور اس کو متعصب ٹھہرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ حالاں کہ جہاں گیرظلم واستحصال اور جبر وتشدد سے سخت نفرت کرتاتھا، غیر مسلم رعایا کے جائز مطالبات کے پورا کرنے اور ان کے حقوق کی ادائیگی کو اپنا اولین فریضہ تصور کرتاتھا،ان کے عہد حکومت میں بڑے بڑے مندر تعمیر ہوئے،متھرا میں واقع ’’گوبند دیوی‘‘ کا مندر بھی انہی کی کرم فرمائی اور نواز شوں کارہین منت ہے،  جہاں گیرمیں مذہبی اور سماجی تعصب نام کو بھی نہ تھا، وہ تو اتنا وسیع الظرف تھا کہ غیر مسلموں کے مذہبی تہواروں میںبھی خندہ دلی اور پوری شاہانہ آن بان اور لاؤ لشکر کے ساتھ شرکت کرتا تھا۔

جہاں گیر کے لخت جگرشاہ جہاں کی رواداری اور رعایا پروری سے کون واقف نہیں۔ اس کے عہد حکومت میں مختلف علاقوں سے لوگ آئے ،جن کی زبان بھی مختلف تھی اور طرز بودو باش بھی۔ مختلف تہوار منانے والے ، مختلف زبانیں بولنے والے اور مختلف تہذیب وتمدن کو اپنا نے والے ہندوؤں کی اس وقت ہندستان میںکثرت تھی؛ مگردین الہی کے موجد اکبر کے پوتے شاہ جہاں نے ایک رواداراور جمہوریت پسند حکمراں کی نفسیات کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے غیر مسلم رعایا کے مذہبی جذبات واحساسات اورافکار ونظریات کا پورا پاس ولحاظ رکھا، انہیںمکمل مذہبی آزادی دی؛ ہندستان کے نامورمصنف حفیظ اللہ نے بجا طور پر کہا ہے کہ:’’شاہ جہاں اپنی رعایا کے ساتھ کسی مذہبی امتیاز کے بغیر یکساں سلوک کرتاتھا اور نہایت فراخ دلی کے ساتھ بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر ہندؤں کو مامور کرتا تھا‘‘۔ (اسلام اور غیر مسلم :۲۰۱)

مسلسل پچاس سالوں تک ہندوستان پر حکومت کرنے والے قابل فخر مسلم بادشاہ اور نگ زیب عالم گیر پر تو خاص طور سے فرقہ پرستوں کی نظر عنایت مرکوز رہی ہے۔ شروع سے ہی ہمارے نام نہاد تاریخ نگاروں نے ان کے طرز حکومت کا مشروط دہن کے ساتھ محاسبہ اور محاکمہ کیاہے۔ اور اس طرح ان کے اوپر بھی نفرت وتعصب کا لبادہ ڈال دیا گیا ہے، عموماً یہ بات مشہور کردی گئی ہے کہ اس نے لاکھوں ہندؤں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا، لاکھوں غیر مسلموں کو تہ تیغ کیا، کئی مندروں کو توڑا،انہیں سیاسی ، معاشی اور اقتصادی سطح پر لاچار وکمزور کیا، لیکن سچی اور حقیقی تصویر کچھ اور ہے۔ تاریخی اور اق اس بات پر شاہد عدل ہیں کہ وہ بڑے ہی انصاف پسند اور رعایا پر ور تھے۔ ان کی عالم گیر اور قابل رشک رواداری سے متأثر ہوکر ایک ہندو مؤرخ لکھتاہے: ’’کاشی پر یاگ اور دوسری عبادت گاہوں کے لیے اس نے جو جاگیر یں وقف کی ہیں اور ہندو پیشواؤں کے ساتھ جو رعاتیں کی ہیں، ان سے اس کی انصاف پسندی ثابت ہوتی ہے۔(تاریخ ہند:۶۵۸)

اورنگ زیب اپنے مذہب اور اسلامی مسلمات سے انحراف اور روگردانی کو برداشت نہیں کرتے تھے ، مگریہ حقیقت بھی بجا ہے کہ انہوں نے اسلام کی اشاعت کے لیے کوئی سرکاری یانیم سرکاری تنظیم نہیں قائم کررکھی تھی، جس سے اسلام کی توسیع وتبلیغ کا کام لیا جاتا رہا ہو، چنانچہ پروفیسر آرنلڈ نے لکھا ہے:’’ اس نے کبھی کسی غیر مسلم کو بالجبر مسلما ن نہیں بنایا ؛بلکہ اس نے غیر مسلموں کی دلداری کی انتہائی کوشش ہے‘‘۔(پریچنگ آف اسلام:۱۰)

 اورنگ زیب کے عہد حکومت میں مندریں پوری طرح تحفظ کے زیر سایہ تھیں، ان میں دستبردسے کام نہیں لیا جاتاتھا۔ اور اگرہندؤوں کی کسی عبادت گاہ کو مسمار کیا گیا ہے تو وہ بالٹیکل مصالح کی بنیاد پر تھا؛ وہ عبادت گاہ نہیں رہ گئی تھی، بلکہ بوالہوسوں کی عیاشی اور لوٹ مار اور ڈاکہ زنی کا اڈہ بن گئی تھی۔کاشی کے جس مندر کے انہدام کا الزام اورنگ زیب کے سر رکھا جاتا ہے، وہ مندر ملک مخالف سازشوں اور بد کاریوں کا اڈہ بن گیا تھا۔چنانچہ ایک انگریزسیاح ہملٹن نے اورنگ زیب کے عہد حکومت کا جائزہ لیتے ہوئے لکھاہے:’’ ریاست کا مسلمہ مذہب اسلام ہے۔ ہندؤں کے ساتھ مذہبی رواداری پورے طورپر برتی جاتی ہے۔ وہ اپنے برت رکھتے ہیں اور اسی طرح تہوار مناتے ہیں جیسے اگلے زمانے میں مناتے تھے‘‘۔(اسلام اور غیر مسلم:۲۲۴)

اگر اورنگ زیب عالم گیر مندر شکن اور ہندو دشمن ہوتا تو وہ کیوں بنارس کے حاکم ابو الحسن کے نام فرمان جاری کرکے یہ کہتا کہ’’ہماری پاک شریعت اور سچے مدہب کی رو سے یہ ناجائز ہے کہ غیر مدہب کے قدیم مندروں کو گرایا جائے۔۔۔۔۔ یہ حکم دیاجاتا ہے کہ آٹندہ سے کوئی شخص ہندؤوں اور برہمنوں کو کسی وجہ سے بھی تنگ نہ کرے اور نہ ان پر کسی قسم کا ظلم کرے۔‘‘

اورنگ زیب کے دور حکومت میں غیر مسلموں کو بڑے اعزاز ات ومناصب بھی دیے گئے، گورنر، جنرل ، وائسرائے اور کمانڈر انچیف جیسے قابل قدر عہدے ان کے سپرد کئے گئے۔ اچاریہ پر فلاچندرائے کے مطابق ’’شہنشاہ اورنگ زیب کے عہد میں سلطنت کے اندربڑی بڑی ذمہ داری کے عہد ے ان کو ملے ہوئے تھے‘‘۔ ان کے علاوہ دیگر تمام مغل بادشاہوں نے بھی ہندؤں کے ساتھ روادارانہ اور برادرانہ سلوک کیاہے۔ اور انہیں برابر کا شہری سمجھتے ہوئے ہر طرح کے جائز حقوق سے نوازا ہے؛غیر مغل مسلم بادشاہ شیر شاہ سوری بھی بڑا انصاف پرور اور روادار تھا۔ وہ خود کو ہر مذہب کا حاکم اور سرپرست تصور کرتا تھا اور یہ کہتا تھا کہ اگر کسی نے بھی میری رعایا کے کسی فرد پر ظلم کیا تو میں اس پر بجلی بن کر گروں گا اور اس کو مٹاکر ہی دم لوں گا۔ شیر شاہ سوری کے فرمان میں یہ درج تھاکہ’’ غیر مسلموں کی عبادت گاہیں بالکل محفوظ رہیں۔ ان عبادت گاہوں کی جو مسلم حاکم حفاظت نہیں کرے گا اسے معزول کردیا جائے ‘‘۔( ٹی لیون:۷۳)

عہد وسطی میں مسلم حکمرانوں کی رواداری ، رعایا نوازی اور خیر سگالی کی یہ ایک جھلک ہے۔ اس کا تفصیلی مطالعہ بہت سے مخفی گوشوں سے پردہ اٹھائے گا۔جس کو الزامات کی دبیز چادر میں ڈھک دیا گیا ہے۔اگر ہم کھلے ذہن کے ساتھ ہندوستان کے عہد وسطیٰ کے نظامہائے حکومت اور اس وقت کے حکام کی روشن زندگیوں کے خدو خال کا مطالعہ کریں تو ہمارے مؤرخین اور سیاست دانوں کو یہ فیصلہ کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوگی کہ محمود غزنوی سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک سارے مسلم حکمراں مسلم اور غیر مسلم دونوں ہی سماج کے حقوق و واجبات کے تئیں مخلص اور روادار تھے۔انھوں نے طبقاتی اور سماجی بنیادوں پر حکومت نہیں کی ہے، بلکہ مساوات اور برابری ان کی حکومت کا نشان تھا۔ہمیں غور کرنے پر ان کے عہد حکومت میںخوش خوئی، خیر سگالی بقائے باہم اور روادری کی ایسی نظیریں ملیں گی جن کی مثال پیش کرنے سے جمہوریت اور سیکولرازم کا دم بھرنے والی یہ مہذب دنیا قاصر ہوگی۔

اگر اس زوال آمادہ عہد میں بھی ان کے اختیار کردہ نظام حکومت کو منزل کا نشان تصور کرلیا جائے اور جمہوریت و سیکولرازم کا دم بھرنے والی یہ دنیا ان کی پالیسیوں کو بنیاد بناکر اپنی سیاسی اور معاشی پالیسی ترتیب دینے لگے تو نہ صرف یہ کہ نفرت و دشمنی اور بغض و عداوت کی افسردہ اور مسموم فضاؤوں میں اخوت و محبت اور مودت وعطوفت کی خوشبو بکھیری جاسکتی ہے، بلکہ معاشی کساد بازاری اور عالمی دہشت گردی کے بھوت سے خوف زدہ اس دنیا کو ہمہ جہت ترقی کی راہ پر بھی ڈالا جاسکتا ہے۔ ماضی کی شان دار روایات سے روشنی لے کر ہی ہم، مستقبل کی راہوں میں آنے والی ظلمتوں کے قافلے سے مقابلہ کرسکتے ہیں اور زندگی کی شب تاریک کو تابناک سحر میں تبدیل کرسکتے ہیں۔جامع مسجد کے بلند وبالا منارے، تاج محل کا حسن اور لال قلعے کی مضبوط سرخ دیواریں یہی کچھ ہمارے وقت کے حکمرانوں سے کہ رہی ہیں۔ کاش کوئی ان کی آواز پر کان دھرتا، تاکہ جنت نشاں ہندستان کے سر سے فرقہ پرستی اور نفرت و عداوت کے ناپاک اور منحوس سایے کا خاتمہ ہوتا اور کیا رام اور کیا رحیم، سبھی بھائی بھائی کی طرح رہتے۔اور ملک ومعاشرے کی تعمیر و ترقی میں باہمی تعاون اور خیر سگالانہ جذبات کا مظاہرہ کرتے۔٭٭٭

ABRAR AHMAD IJRAVI

ROOM NO.21, LOHIT HOSTAL, JNU,

NEW DELHI-110067

MOB:9910509702

Email:abrarahmadijravi@gmail.com

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *