Home / Articles / عید الاضحیٰ

عید الاضحیٰ

اسلامی سال کا بارہواں مہینہ ۔۔۔ ذو الحجہ شریف

اسلامی سال کا بارہواں مہینہ ذوالحجہ ہے اس کی وجہ تسمیہ ظاہر ہے کہ اس ماہ میں لوگ حج کرتے ہیں اور اس کے پہلے عشرے کا نام قرآن مجید میں ”ایام معلومات” رکھا گیا ہے یہ دن اللہ کریم کو بہت پیارے ہیں۔ اس کی پہلی تاریخ کو سیدہ عالم حضرت خاتونِ جنت فاطمہ زہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح سیدنا حضرت شیر خدا علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے ساتھ ہوا۔

اس ماہ کی آٹھویں تاریخ کو یومِ ترویہ کہتے ہیں ۔ کیوں کہ حجاج اس دن اپنے اونٹوں کو پانی سے خوب سیراب کرتے تھے۔ تاکہ عرفہ کے روز تک ان کو پیاس نہ لگے ۔ یا اس لئے اس کو یوم ترویہ (سوچ بچار) کہتے ہیں کہ سیدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیٰ نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آٹھویں ذی الحجہ کو رات کے وقت خواب میں دیکھا تھا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے حکم دیتا ہے کہ اپنے بیٹے کو ذبح کر۔ تو آپ نے صبح کے وقت سوچا اور غور کیا کہ آیا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے یا شیطان کی طرف سے ۔ اس لئے اس کو یومِ ترویہ کہتے ہیں ۔

اور اس کی نویں تاریخ کو عرفہ کہتے ہیں۔ کیوں کہ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب نویں تاریخ کی رات کو وہی خواب دیکھا تو پہچان لیا کہ یہ خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ۔ اسی دن حج کا فریضہ سر انجام دیا جاتا ہے ۔

دسویں تاریخ کو یوم نحر کہتے ہیں ۔ کیوں کہ اسی روز سیدنا حضرت اسماعیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قربانی کی صورت پیدا ہوئی ۔ اور اسی دن عام مسلمان قربانیاں ادا کرتے ہیں۔

اس ماہ کی گیارہ تاریخ کو ” یوم القر” اوربارہویں، تیرہویں کو ” یوم النفر” کہتے ہیں اور اس ماہ کی بارہویں تاریخ کو حضور سراپا نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے بھائی چارہ قائم فرمایا تھا۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٥٩۔٤٦٠)

ماہِ ذو الحجہ کی فضیلت:

ذوالحجہ کا مہینہ چار برکت اور حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے ۔ اس مبارک مہینہ میں کثرتِ نوافل، روزے، تلاوت قرآن، تسبیح و تہلیل، تکبیر و تقدیس اور صدقات و خیرات وغیرہ اعمال کا بہت بڑا ثواب ہے ۔ اور بالخصوص اس کے پہلے دس دنوں کی اتنی فضیلت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عشرہ کی دس راتوں کی قسم یاد فرمائی ہے ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَالْفَجْرِ o وَلَیَالٍ عَشْرٍ o وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ o وَالَّیْلِ اِذَا یَسْرِ o
قسم ہے مجھے فجر کی عیدِ قربان کی اور دس راتوں کی جو ذوالحجہ کی پہلی دس راتیں ہیں ۔ اور قسم ہے جفت اور طاق کی جو رمضان مبارک کی آخری راتیں ہیں، اور قسم ہے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کی رات کی۔

اس قسم سے پتہ چلتا ہے کہ عشرہ ذی الحجہ کی بہت بڑی فضیلت ہے۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٦٣)

ماہِ ذو الحجہ کی فضیلت احادیث مبارکہ کی روشنی میں

حدیث ١:

عن أم سلمة – رضي الله عنها – قالت : قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – : إذا دخل العشر ، وأراد بعضكم أن يضحي فلا يمس من شعره وبشره شيئا ، وفي رواية : فلا يأخذن شعرا ، ولا يقلمن ظفرا ، وفي رواية : من رأى هلال ذي الحجة وأراد أن يضحي ، فلا يأخذ من شعره ولا من ظفاره . رواه مسلم
سیدہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول خدا حبیب ِ کبریا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ جس وقت عشرہ ذی الحجہ داخل ہوجائے اور تمہارا کوئی آدمی قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو چاہئے کہ بال اور جسم سے کسی چیز کو مس نہ کرے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ فرمایا کہ بال نہ کترائے اور نہ ناخن اتروائے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ جو شخص ذی الحجہ کا چاند دیکھ لے اور قربانی کا ارادہ ہو تو نہ بال منڈائے اور نہ ناخن ترشوائے۔ (مشکوٰۃ ص ١٢٧)

حدیث ٢:

عن ابن عباس رضي الله عنهما قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ما من أيام العمل الصالح فيهن أحب إلى الله من هذه الأيام العشر , قالوا : يا رسول الله ولا الجهاد في سبيل الله ؟ قال : ولا الجهاد في سبيل الله إلا رجل خرج بنفسه وماله فلم يرجع من ذلك بشيء. [ رواه البخاري ]
سیدنا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی دن ایسا نہیں ہے کہ نیک عمل اس میں ان ایام عشرہ سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ محبوب ہو۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ؟ فرمایا : جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ! مگر وہ مرد جو اپنی جان اور مال لے کر نکلا اور ان میں سے کسی چیز کے ساتھ واپس نہیں آیا (یعنی شہادت)۔ (مشکوٰۃ ص ١٢٨)


حدیث ٣:

عن ابي هريرة ان النبي (صلوات ربي وسلامه عليه) قال ما من ايام احب الى الله ان يتعبد له فيها من عشر ذي الحجة يعدل صيام كل يوم منها بصيام سنة وقيام لَيلَة فيھِن كقيام سنة
سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کوئی دن زیادہ محبوب نہیں اللہ تعالیٰ کی طرف کہ ان میں عبادت کی جائے ذی الحجہ کے ان دس دنوں سے۔ ان دنوں میں ایک دن کا روزہ سال کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی ایک رات کا قیام سال کے قیام کے برابر ہے۔ (غنیۃ الطالبین ص ٤١٧ ، مشکوٰۃ ص  ١٢٨ ، فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٦٤ تا ٤٦٦)

عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت:

جو شخص ان دس ایام کی عزت کرتا ہے اللہ تعالیٰ یہ دس چیزیں اس کو مرحمت فرماکر اس کی عزت افزائی کرتا ہے (١) عمر میں برکت (٢) مال میں افزونی (٣) اہل و عیال کی حفاظت (٤) گناہوں کا کفارہ (٥) نیکیوں میں اضافہ (٦) نزع میں آسانی (٧) ظلمت میں روشنی (٨) میزان میں سنگینی یعنی وزنی بنانا (٩) دوزخ کے طبقات سے نجات (١٠) جنت کے درجات پر عروج۔

جس نے اس عشرہ میں کسی مسکین کو کچھ خیرات دی اس نے گویا اپنے پیغمبروں علیہم السلام کی سنت پر صدقہ دیا۔ جس نے ان دنوں میں کسی کی عیادت کی اس نے اولیاء اللہ اور ابدال کی عیادت کی ، جو کسی کے جنازے کے ساتھ گیا اس نے گویا شہیدوں کے جنازے میں شرکت کی، جس نے کسی مومن کو اس عشرہ میں لباس پہنایا، اللہ تعالیٰ اس کو اپنی طرف سے خلعت پہنائے گا جو کسی یتیم پر مہربانی کرے گا ، اللہ تعالیٰ اس پر عرش کے نیچے مہربانی فرمائے گا، جو شخص کسی عالم کی مجلس میں اس عشرہ میں شریک ہوا وہ گویا انبیا اور مرسلین علیہم السلام کی مجلس میں شریک ہوا۔(غنیہ الطالبین صفحہ ٤١٩)

ذوالحجہ کے پہلے نو دنوں کے روزے:

ذوالحجہ مبارک کے پہلے عشرہ کے پہلے نو دن روزہ رکھنا بڑا ثواب ہے ۔ ام المؤمنین سیدہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:

أربع لم يكن يدعهن النبي صلى الله عليه وسلم : صيامَ عاشورا , والعَشـْرَ , والعَشـْرَ , وثلاثة ً أيام من كل شهر , والركعتين قبل الفجر
چار چیزوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں چھوڑا کرتے تھے ۔ عاشورہ کا روزہ اور ذولحجہ کے دس دن یعنی پہلے نو دن کا روزہ اور ہر ماہ کے تین دن کا روزہ اور نماز فجر سے قبل دورکعتیں۔ ( مشکوٰۃ ص ١٨٠ ، فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٦٦)

ماہِ ذی الحجہ کے نفل:

٭ حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص اول رات ذوالحجہ میں چار رکعت نفل پڑھے کہ ہر کعت میں الحمد شریف کے بعد قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ پچیس مرتبہ پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے بیشمار ثواب لکھتا ہے۔(فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٨٧)

٭ حضور رحمۃ للعالمین شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص دسویں ذی الحجہ تک ہر رات وتروں کے بعد دو رکعت نفل پڑھے کہ ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد سورہ کوثر اور سورہ اخلاص تین تین دفعہ پڑھے تو اس کو اللہ تعالیٰ مقام اعلیٰ علیین میں داخل فرمائے گا اور اس کے ہر بال کے بدلہ میں ہزار نیکیاں لکھے گا اور اس کو ہزار دینار صدقہ دینے کا ثواب ملے گا۔(فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٨٧)

٭ اگر کوئی اس مہینہ کی کسی رات کی پچھلی تہائی رات میں چار رکعات نفل پڑھے جس کی ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد آیۃ الکرسی تین بار اور قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ تین بار اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْـفَلَـقِ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَ بِّ النَّاسِ ایک ایک مرتبہ پڑھے اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا پڑھے

سبحان ذي العزة والجبروت سبحان ذي القدرة والملكوت سبحان ذي الحي الذي لا يموت لا اله إلا الله يحي و يميت وهو حي لا يموت سبحان الله رب العباد والبلاد والحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه على كل حال والله اكبر كبيرا كبرياء ربنا وجلاله وقدرته بكل مكان

پھر جو چاہے مانگے تو اس کے لئے ایسا اجر ہے جیسے کسی نے بیت اللہ شریف کا حج کیا ہو ۔ اور حضور سراپا نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر کی زیارت کی ہوگی (غنیہ الطالبین صفحہ ٤١٧)

٭ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی عرفہ کی رات یعنی نویں کی رات کو سو١٠٠ رکعات نفل ادا کرلے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد ایک بار یا تین بارقُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہوں کو بخش دے گا اور اس کے لئے جنت میں یا قوت کا سرخ مکان بنایا جائے گا۔

دوسری روایت میں ہے کہ عرفہ کی رات میں دو رکعات نفل پڑھے۔ پہلی رکعات میں الحمد شریف کے بعد ١٠٠ مرتبہ آیت الکرسی پڑھے اور دوسری رکعت میں الحمد شریف کے بعد قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ ١٠٠ مرتبہ پڑھے تو اللہ کریم قیامت کے دن اس نماز کی برکت سے اس کو بمعہ اس کے ستر٧٠ آدمی بخشے گا۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٨٩)

٭ جو کوئی نحر کی رات یعنی دسویں ذوالحجہ کو جس کی صبح عید ہوتی ہے بارہ رکعات نفل پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ پندرہ دفعہ پڑھے تو اس نے ستر سال کی عبادت کا ثواب حاصل کیا اور تمام گناہوں سے پاک ہوگیا۔ اسی رات کی ایک نماز یہ بھی ہے کہ ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد ایک دفعہ قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ اور ایک دفعہ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْـفَلَـقِ اورایک دفعہ قُلْ اَعُوْذُ بِرَ بِّ النَّاسِ پڑھے اور سلام کے بعد ستر٧٠ دفعہ سُبحَانَ اللّٰہِ اور ستر٧٠ دفعہ درود شریف پڑھے تو اس کے تمام گناہ بخشے جائیں گے۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٨٩)

٭ دسویں تاریخ کو نماز قربانی کے بعد گھر آکر چار رکعات نفل جو مسلمان ادا کرے کہ پہلی رکعت میں الحمد شریف کے بعد سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی ایک بار اور دوسری رکعت میں الحمد شریف کے بعد وَالشَّمْسِ ایک بار اور تیسری رکعت میں الحمد شریف کے بعد وَالَّیْلِ ایک بار پڑھے اور چوتھی رکعت میں الحمد شریف کے بعد وَالضُّحٰی ایک دفعہ پڑھے ۔ پس پایا اس نے ثواب آسمانی کتابوں کو پڑھنے کا ۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٨٩)

٭ جو شخص قربانی کے بعد دو رکعت نفل پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد وَالشَّمْسِ پانچ بار پڑھے تو وہ شخص حاجیوں کے ثواب میں شامل ہوا اور اس کی قربانی قبول ہوئی۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٩٠)

٭ بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر کوئی فقیر ہو اور قربانی کی طاقت نہ رکھتا ہو تو کیا کرے؟ حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ نمازِ عید کے بعد گھر میں دورکعات نفل پڑھے ۔ ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد سورئہ الکوثر تین مرتبہ پڑھے تو اللہ جل شانہ، اس کو اونٹ کی قربانی کا ثواب عطا فرمائے گا۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٩٠ بحوالہ راحت القلوب)

ذی الحجہ کی اہم دعا

الحمد لله الذي في السمآء عرشه ، الحمد لله الذي في الارض قدرته ، الحمد لله الذي في القيامة هيبته ، الحمد لله الذي في القبر قضاؤه ، الحمد لله الذي في الجنة رحمته ، الحمد لله الذي في جهنم سلطانه ، الحمد لله الذي في البر والبحر برهانه ، و الحمد لله الذي في الهواء ريحه، و الحمد لله الذي لا مفر و لا ملجآ الآ اليه والحمد لله رب العلمين
ہر خوبی اللہ کے لیے ہے جس کا عرش آسمان میں ہے ، تعریف اللہ کے لیے ہے جس کی قدرت زمین پر ہے ، تعریف اللہ کے لیے ہے جس کی ہیبت قیامت میں ہے ، تعریف اللہ کے لیے ہے جس کا حکم قبروں پر ہے ، تعریف اللہ کے لیے ہے جس کی رحمت جنت میں ہے ، تعریف اللہ کے لیے ہے جس کی برہان خشکی اور سمندر میں ہے ، تعریف اللہ کے لیے ہے جس کی خوشبو ہوا میں ہے ، تعریف اللہ کے لیے ہے کہ سوائے اس کی ذات کے کوئی پناہ کی جگہ نہیں ہے تعریف اللہ کے لیے ہے جو رب العالمین ہے۔

ذو الحجہ شریف میں رونما ہونے والے اہم واقعات

٭ اعلان نبوت کے بارہویں سال اہل مدینہ کی جانب سے تیسری بیعت عقبہ جس میں ٢٩ مرد اور دو عورتیں مشرف بہ اسلام ہوئیں ، اہل مدینہ کے لیے بارہ نقیب مقرر۔۔۔۔۔۔١ھ ٭ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، کی ولادت بمقام ”قباء”۔۔۔۔۔۔١ھ ٭ غزوہ سویق۔۔۔۔۔۔٢ھ ٭ سیدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی ۔۔۔۔۔۔٢ھ ٭ غزوہ بنی قریظہ۔۔۔۔۔۔٥ھ ٭ وفات حضرت سعد بن معاذ سید الاوس۔۔۔۔۔۔٥ھ ٭ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ امیر حج بنے۔۔۔۔۔۔٩ھ ٭ حجۃ الوداع (عرفات اور منیٰ میں عظیم خطبات کے ذریعہ منشور انسانیت کا اعلان) ۔۔۔۔۔۔١٠ ھ ٭ حجۃ الوداع سے واپسی پر خطبہ غدیر خم میں حضرت علی کو مولائے کائنات کا منصب اور اہلبیت کو قرآن کی عملی تفسیر اور ھادی قرار دیا۔۔۔۔۔۔١٠ھ ٭ وفات ابو العاص (دامادِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)۔۔۔۔۔۔١٢ھ ٭ وفات یزید بن ابی سفیان۔۔۔۔۔۔١٨ھ ٭ وفات سعد جمحی۔۔۔۔۔۔٢٠ھ ٭ حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ پر قاتلانہ حملہ ۔۔۔۔۔۔٢٣ھ ٭ پہلی بحری جنگ (دور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ)۔۔۔۔۔۔٢٧ھ ٭تعمیر نہر بصرہ۔۔۔۔۔۔٢٩ھ ٭شہادتِ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالی عنہ وخلافت حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٣٥ھ ٭ وفات محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٣٨ھ ٭ وفات عثمان جمحی رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٤٢ھ ٭ وفات حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٤٤ھ ٭ وفات عاصم بن عدی رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٤٥ھ ٭وفات جریر بن عبداللہ البجلی ۔۔۔۔۔۔٥١ھ ٭ وفات عبداللہ بن انیس رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٥٤ھ ٭فتح سمرقند ۔۔۔۔۔۔٦٢ھ ٭ یزیدیوں کے ہاتھوں حرمین طیبین کی بے حرمتی (واقعہ حَرہ)۔۔۔۔۔۔٦٣ھ ٭ ترمیم کعبۃ اللہ شریف ۔۔۔۔۔۔٦٤ھ ٭ کوفہ پر بنو امیہ کا قبضہ ۔۔۔۔۔۔ ٧٢ھ ٭ تعمیر نو کعبۃ اللہ شریف۔۔۔۔۔۔٧٣ھ ٭ حجاج امیر کوفہ ہوا۔۔۔۔۔۔٧٥ھ ٭ وفات خالد الحکیم ۔۔۔۔۔۔٨٥ھ ٭ وفات مقدام بن معدی کرب۔۔۔۔۔۔٨٧ھ ٭ شہادت عظیم جرنیل قتیبہ بن مسلم۔۔۔۔۔۔٩٦ھ ٭ حاکم بنو امیہ سلیمان نے حج کیا۔۔۔۔۔۔٩٧ھ ٭ وفات عظیم جرنیل و فاتح موسیٰ بن نصیر۔۔۔۔۔۔٩٧ھ ٭ علوی، فاطمی اور عباسی خلافت کیلئے سازشیں۔۔۔۔۔۔١٠٠ھ ٭ وفات ابو بردہ بن ابی موسیٰ الاشعری۔۔۔۔۔۔١٠٤ھ ٭ وفات قاسم بن محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔١٠٧ھ ٭ وفات قاسم بن مخمیر۔۔۔۔۔۔١١١ھ ٭ شہادت الجراح الحکمی۔۔۔۔۔۔١١٢ھ ٭ شہادت امام محمد باقر رضی اللہ تعالی عنہ بن امام زین العابدین رضی اللہ تعالی عنہ۔۔۔۔۔۔١١٤ھ ٭یزید بن ہشام امیر حج بنا۔۔۔۔۔۔١٢٣ھ ٭وفاتِ یزید اور خلافتِ ناقص ابراہیم۔۔۔۔۔۔١٢٦ھ ٭ مروانِ ثانی کا قتل اور بنو امیہ کی امارت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ اور بنو عباس کی امارت کے دور کا آغاز۔۔۔۔۔۔١٣٢ھ ٭وفات ابو العباس السفاح۔۔۔۔۔۔١٣٦ھ ٭ وفات خلیفہ منصور۔۔۔۔۔۔١٥٨ھ ٭ خلافت مہدی۔۔۔۔۔۔١٥٨ھ ٭ خلیفہ مہدی امیر حج۔۔۔۔۔۔١٦٠ھ ٭ وفات حماد بن دینار۔۔۔۔۔۔١٦٧ھ ٭ وفات الخیزران (والدہ ہارون رشید) ۔۔۔۔۔۔١٧٢ھ ٭ ہارون رشید کا حج ۔۔۔۔۔۔ ١٧٤ھ ٭ وفات حماد زید بن بصری ۔۔۔۔۔۔١٧٩ھ ٭ ہارون رشید کا حج۔۔۔۔۔۔١٨٦ھ ٭ ہارون رشید کا حج۔۔۔۔۔۔١٨٨ھ ٭ اعلان خلافت ابراہیم بن المبارک۔۔۔۔۔۔٢٠١ھ ٭ خراسان میں زلزلہ۔۔۔۔۔۔٢٠٣ھ ٭ وفات المنتصر و حکومت عبدالرحمن۔۔۔۔۔۔٢٠٦ھ ٭ وفات ابو عبیدہ معمرہ الغوی۔۔۔۔۔۔٢٠٩ھ ٭ وفات معلی الرازی ۔۔۔۔۔۔ ٢١١ھ ٭ وفات مفتی اندلس عیسیٰ الغافقی۔۔۔۔۔۔٢١٢ھ ٭ وفات الحافظ شریح الجوہری۔۔۔۔۔۔٢١٧ھ ٭ فتنہ شیعہ خرمیہ۔۔۔۔۔۔٢١٨ھ ٭ وفات ابو جعفر محمد الجواد۔۔۔۔۔۔٢٢٠ھ ٭ وفات الحافظ الحکم البہرانی۔۔۔۔۔۔٢٢٢ھ ٭ وفات ابو الجماہیر الکفرسوسی۔۔۔۔۔۔٢٢٤ھ ٭ محمد بن سلام البیکندی ۔۔۔۔۔۔ ٢٢٥ھ ٭ وفات الواثق باللہ و خلافت المتوکل۔۔۔۔۔۔٢٣٢ھ ٭ وفات عبدالقواریری ۔۔۔۔۔۔٢٣٥ھ ٭ وفات محمد بن کرام بانی کرامیہ۔۔۔۔۔۔٢٥٥ھ ٭ وفات حافظ ابو زرعہ محدث۔۔۔۔۔۔٢٦٤ھ ٭ وفات قاضی صا لح بن امام احمد بن حنبل۔۔۔۔۔۔٢٦٥ھ ٭ وفات ابوبکر ابن حازم۔۔۔۔۔۔٢٧٦ھ ٭ وفات ابو عمر الراقی ۔۔۔۔۔۔٢٨٠ھ ٭ وفات ابو عمرو بن خرذ اد الانطاکی۔۔۔۔۔۔٢٨١ھ ٭ وفات ابو العباس المبرد النحوی۔۔۔۔۔۔٢٨٥ھ ٭ وفات محمد بن وضاح محدث اندلسی۔۔۔۔۔۔٢٨٦ھ ٭ وفات عبدان الجوالیقی۔۔۔۔۔۔٣٠٦ھ ٭ وفات حافظ الدولابی۔۔۔۔۔۔٣١٠ھ ٭ قرامط نے حاجیوں کا قتل عام کیا۔۔۔۔۔۔٣١١ھ ٭ وفات ابو بکر بن الباغنوی۔۔۔۔۔۔٣١٢ھ ٭ عراقی حاجی مکہ نہ جاسکے۔۔۔۔۔۔٣١٤ھ ٭ وفات ابو بکر بن بہلول الانباری۔۔۔۔۔۔٣٢٩ھ ٭ وفات ابو بکر الاخشید و ابو بکر شبلی (شیخ طریقت سلسلہ عالیہ قادریہ خلیفہ حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ)۔۔۔۔۔۔٣٣٤ھ ٭٭ وفات ابو عبداللہ الاخرم۔۔۔۔۔۔٣٤٤ھ ٭عراق میں شدید ژالہ باری۔۔۔۔۔۔٣٥١ھ ٭ عید غدیر کی ابتداء ۔۔۔۔۔۔٣٥٢ھ ٭ وفات ابو بکر البزاز صاحب الغیلانیات۔۔۔۔۔۔٣٥٤ھ ٭ وفات ابو الفرج الاصفہانی صاحب الاغانی۔۔۔۔۔۔٣٥٦ھ ٭ بدامنی کی وجہ سے عراق و شام سے حاجی نہ جا سکے ۔۔۔۔۔۔٣٥٧ھ ٭ عید غدیر جبراً عوام پر مسلط کی گئی۔۔۔۔۔۔٣٥٩ھ ٭ بنیاد جامع الازہر۔۔۔۔۔۔٣٦١ھ ٭ وفات ابن البقیۃ الوزیر۔۔۔۔۔۔٣٦٧ھ ٭ وفات ابو زکریا المزکی۔۔۔۔۔۔٣٩٤ھ ٭ خلافت ہشام (دوبارہ)٤٠٠ھ ٭ وفات ابو بکر ابن الباقلانی۔۔۔۔۔۔٤٠٣ھ ٭ وفات امام الحاکم صاحب المستدرک (محدث علیہ الرحمہ)۔۔۔۔۔۔٤٠٥ھ ٭ وفات ابو الفضل الخزاعی صاحب کتاب الواضح۔۔۔۔۔۔٤٠٨ھ ٭ حکومت الظاہر الفاطمی۔۔۔۔۔۔٤١١ھ ٭ وفات فقیہ الشعیہ الشیخ المفید ۔۔۔۔۔۔ ٤١٣ ھ ٭ وفات ابو بکر المتقی۔۔۔۔۔۔٤٢٠ھ ٭ وفات القادر با

للہ العباسی و خلافت القایم بامراللہ العباسی۔۔۔۔۔۔٤٢٢ھ ٭ وفات عبدالملک ابو منصور الثعالبی (مفسر قرآن) ۔۔۔۔۔۔٤٣٠ھ ٭ وفات ابو علی الاہوازی۔۔۔۔۔۔٤٤٦ھ ٭ قتل امیر البساسیری۔۔۔۔۔۔٤٥١ھ ٭ وفات القاضی ابو عبداللہ القضاعی۔۔۔۔۔۔٤٥٤ھ ٭ وفات الوزیر ابو نصر الکندی۔۔۔۔۔۔٤٥٦ھ ٭ وفات ابو القاسم المہروانی۔۔۔۔۔۔٤٦٨ھ ٭ وفات ابو بکر ابن حمدویہ۔۔۔۔۔۔٤٧٠ھ ٭ وفات ابو بکر الخراز۔۔۔۔۔۔٤٨٠ھ ٭ وفات شیخ ابو اسماعیل الانصاری ۔۔۔۔۔۔٤٨١ھ ٭ وفات ابو الفرج الشیرازی۔۔۔۔۔۔٤٨٦ھ ٭ وفات عبدالملک بن سراج اللغوی۔۔۔۔۔۔٤٨٩ھ ٭ وفات الفقیہ عبدالوہاب الفاسی۔۔۔۔۔۔٥٠٠ھ ٭ وفات ابو بکر احمد الزاہد حنبلی۔۔۔۔۔۔٥٠٣ھ ٭ بغداد میں زلزلہ۔۔۔۔۔۔٥١١ھ ٭ وفات ابو بکر بن بلتگین النحوی۔۔۔۔۔۔٥١٣ھ ٭ وفات ابو علی الحسن الحداد۔۔۔۔۔۔٥١٥ھ ٭ وفات ابو طالب الیوسفی۔۔۔۔۔۔٥١٦ھ ٭ وفات ابن عبدون اللغوی التیونسی۔۔۔۔۔۔٥١٩ھ ٭ وفات ابو الحجاج المنورقی۔۔۔۔۔۔٥٢٣ھ ٭ وفات محمد بن الحسین المزرنی۔۔۔۔۔۔٥٢٧ھ ٭ وفات ابو القاسم الثروطی۔۔۔۔۔۔٥٢٨ھ ٭ وفات ہبۃ اللہ البدیع الاسطرابی۔۔۔۔۔۔٥٣٣ھ ٭ وفات قوام الستہ الحافظ اسمٰعیل الاصبہانی۔۔۔۔۔۔٥٣٥ھ ٭ وفات زمخشری صاحب الکشاف۔۔۔۔۔۔٥٣٨ھ ٭ وفات اُمیہ بن ابی الصلت٥٤ھ ٭ وفات ابو علی البسطامی۔۔۔۔۔۔٥٤٨ھ ٭ وفات القاضی ابن راشد۔۔۔۔۔۔٥٥١ھ ٭وفات قطب المشائخ عدی الہکاری۔۔۔۔۔۔٥٥٧ھ ٭ وفات علی بن عبدوس الفقیہ۔۔۔۔۔۔٥٥¤

About admin

Check Also

جشن آزادی

    Share on: WhatsApp

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *