Home / Socio-political / غیر قانونی دھندا عروج پر ہے

غیر قانونی دھندا عروج پر ہے

لندن میں مقیم اے ۔حق پاکستان کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے

غیر قانونی دھندا عروج پر ہے

اے حق۔لندن

کون کہتا ہے کہ پاکستان میں بزنس نہیں ہے؟حکومتی عہدیداروں کی زیر نگرانی بغیر محنت کے کمائی کا بزنس عروج پر ہے۔چوری،ڈاکے،قتل،کرائے کے بدمعاش،غیر قانونی کاروائیوں کے ماہرین اور خصوصاًاغوا برائے تاوان کا دھندا پاکستان میں عروج پر ہے۔کوئی بھی کسی کو پیسے دے کر کسی امیر شخص کی اولاد یا اُس کے کسی اہل خانہ کے کسی فرد کو اغواہ کرواسکتا ہے۔خاص طورپراگر پاکستان کے شہر گجرات کو اغوا برائے تاوان کے مجرموں کی جنت کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ہماری پولیس اغوا برائے تاوان کی ہر کاروائی کے بعد ایک روایتی بیان دیتی ہے کہ ”اغواکاروں کو زمین کی ساتویں تہہ سے بھی نکال کر انجام تک پہنچائیں گے“اس بیان کے بعد خاموشی اختیار کرنا ہماری پولیس کی عادت بن چکی ہے۔اب تک اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ۹۹ فیصد مغوی تاوان کی رقم ادا کر ہی رہا ہوئے ہیں مگراکثر کی بازیابی کا کریڈٹ پولیس لیتی ہے حالانکہ اس میں پولیس کا کردار ملزموں کے بجائے مغوی اور ان کے ورثاء کو ڈرا دھمکا کر صحافیوں کے سامنے بیان دلوانے تک ہی محدود ہوتا ہے کہ پولیس نے ہی ہمارے عزیز کو بازیاب کرایا ہے،لیکن عام شہری یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اگر پولیس ہر مغوی کو تاوان کے بغیر بازیاب کرالیتی ہے تو ملزموں کو کیوں نہیں پکڑتی اور اگرہرمغوی کو بغیر تاوان کے چھوڑدیا جاتا ہو تو اس دھندے میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے ملزمان یہ دھندہ چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟پولیس اہلکار صرف اپنی تصویریں اخباروں میں چھپوانے کی خاطر یا نجی ٹی وی چینلز پر اپنی بہادری کے قصے خود اپنے ہی کانوں سُننے کی خاطرعوام کے ساتھ غلط بیانی کرتے ہوئے ملک اور قوم کے ساتھ غداری کر رہے ہیں۔ملک بھر میں تاجران ،بلڈنگوں اور پلازوں کے مالکان اغوا برائے تاوان کے گروپوں سے تنگ آچکے ہیں۔ایک طرف پنجاب میں غیر قانونی پلازوں کو گِرائے جانے پر تاجران پریشان ہیں اور اُنکا کہنا ہے کہ اگر غیر قانونی ہیں تو پہلے اجازت کیوں دی گئی؟اور دوسری طرف تاجران اغواہ برائے تاوان کے گروپوں سے تنگ ہیں۔ملک میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے مگر ہمارے اپنے ہی ملک کے تاجران پولیس اور حکومت کی جانب سے ناقص سیکیورٹی کی وجہ سے ملک سے بھاگنے پر مجبور ہیں۔حالانکہ اگر پولیس چاہے تو ان گروپوں کو پکڑنا بالکل مشکل نہیں۔ہمیں ماننا پڑے گا کہ ہمارے ملک میں پولیس کے نظام میں رشوت کے لینے دینے کے سوا کُچھ نہیں رہا۔پہلے تو جرائم پیشہ افراد بھی ایک بار پولیس کا سامنا کرنے کے بعد جرم کرنے سے پہلے سوچتے تھے اور ڈرتے تھے مگراب جب سے پولیس سے چھتر چھینا گیا ہے پولیس کی اہمیت آٹے میں نمک کے برابر ہوگئی ہے۔اس میں قصور سراسر پولیس کا ہی ہے اور وہ قصور دنیا کی نظروں میں آنا یا ٹی وی کی سکرین پر ظاہر ہونے کا شوق ہے۔مجرموں کے لئے پولیس کا چھتر کوئی نئی چیز نہیں یہ ملک بننے کے بعد سے ہی چلا آرہا ہے مگر سرے عام چھتر مارنے کے ایک دو واقعات کا ٹی وی اور اخباروں میں آنا ہی پولیس کی کمبختی کا سبب بنا۔ورنہ اس سے پہلے اور اندر کھاتے میں مجرموں کو اس سے بھی زیادہ سزائیں دی جاتی ہیں ایسی سزائیں جن کے بارہ میں عام شہری سُن کر ہی غلطی نہ کرنے کا عہد کرتا ہے۔کُچھ قصور ہماری عوام کا بھی ہے جو چوری،ڈکیتی اور قتل کے جرم کرنے والے سنگین مجرموں کو دیکھ کر بھی رحم دلی دیکھاتے ہے۔جس کی وجہ سے حکومت کو ایکشن لینا پڑتا ہے۔خیر اغوا برائے تاوان کے مجرموں کو بھی سرے عام جوتے لگانے چاہئیں تاکہ دنیا دیکھے کہ معصوموں کی جانوں کا تاوان لینے والوں کا کیا حال ہو رہا ہے۔مگر قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایسا اُسی صورت میں ہوسکتا ہے جب پولیس تاوان وصول کرنے والے کسی مجرم کو پکڑے ۔نہ مجرم پولیس سے پکڑا جائے گا اور نہ اس دھندے میں کمی آئے گی۔اگر یہی حالات رہے توایک دن ایسا ضرور آئے گاکہ ملک کے بڑے بڑے سرمایہ کار اور تاجران اپنا پیسہ لیکر مکمل طور پر ملک چھوڑ چکے ہوں گے اورملک کھوکھلا ہوجائے گا ۔

 

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

One comment

  1. رابعہ ریحٰن

    اب جرم پولیس کی مدد سے ہی ہواکرتے ہیں۔ اس میں کسی ملک کی خصوصیت نہیں ہے یہ جرائم پیشہ کی ترقی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *