Home / Socio-political / فرقہ واریت کا صیہونی رقص

فرقہ واریت کا صیہونی رقص

ایک طرف رمضان کی رونقیں ہی تو دوسری جانب پاکستان میں دہشت گردی کا صیہونی رقص ہے۔ کراچی ،لاہور کے بعد اب کوئٹہ میں مذہبی جلوس پر خود کش حملہ کر کے دہشت گردوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ جو چاہیں وہی ہوگا ۔حکومت اور انتظامیہ ان کے لیے سب بے معنی لفظ ہیں۔ قتل و خون ان کا شیوہ ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھتےکہ  ماہ رمضان کے متبرک ساعتوں میں اور اس عشرے میں جن میں لیلة القدر کی راتیں ہیں۔ ان میںتو کم از کم اس طرح کی گھناؤنی حرکتیں نہ کی جائیں۔ لیکن انھوں نے مسلک اور نفرت کےنام پر کراچی سے کوئٹہ تک خون بہایا ،خود کش حملے میں بے قصوروں  کی جانیں چھین لیں ، ہزاروں گھروں سے رمضان اور عید کی خوشیاں ختم کر دیں ۔ لیکن اس سےبڑی بات یہ ہے کہ پاکستان میں شیعہ سنی کے درمیان دوریاں کم ہورہی تھیں اور شیعہ سنی فساد کم ہورہا تھا ۔ مشرف حکومت کے دوران پاکستان میں متحدہ طور پر علما نے ایک پلیٹ فارم پرآکر سیاسی جماعت بنائی تھی اس سے ایک فائدہ یہ ہوا تھا کہ دونوں فرقوں کے درمیان دوریاں کم  ہوئی تھیں۔ لیکن شیعہ سنی فساد کی لعنت جو پہلے پاکستان میں ایک بڑے وبا کی طرح پھیلا ہو تھا اب پھر سے اپنا پیر پسارنے لگا ہے۔ ابھی حالیہ دنوں میں پاکستان میں شیعہ کمیونٹی پر جو شدید اور سخت حملےہوئے ہیں اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اب پاکستان میں مسلکی تشدد پھر سے بھڑک اٹھا ہے۔اگر خدا نخواستہ ایسا ہوا تو پاکستان میں کوئی محفوظ نہیں رہے گا۔ کچھ ہی دنوں قبل لاہور کے داتا دربار میں حملہ کر کے یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ پاکستا ن کی مسلکی تنظیمیں اب تشدد  کے ذریعے لوگوں کو اپنی طرف لانا چاہتے ہیں یا پھر بندوق اور دھماکے کے زور پر لوگوں کو غلط راستے سے روکنا چاہتے ہیں۔ لیکن سوال یہ  ہے کہ انھیں کون بتائے گا کہ ہر فرقہ یہی دعوی کر رہا ہے کہ وہی راہ راست پر ہے۔اس لیے بڑا سوال یہ ہے کہ لوگ کس کی بات مانیں اور کس کی نہ مانیں۔ کچھ ہی مہینے قبل جب داتا دربار میں خود کش دھماکہ ہوا تھا تب کچھ دنوں قبل سے ہی وہاں کئی طرح کے پمپھلیٹ بانٹے جارہے تھے جس میں دھکمیاں دی جارہی تھیں ۔ اب اسی طرز پر کھلے عام پاکستان میں کئی بڑے فرقے ایک دوسرے کو ڈرا دھمکا رہے ہیں۔

          کوئٹہ دھماکہ بھی اس طرح کادھماکہ تھا جس کی اطلاع پولیس کو تھی ۔ خفیہ ایجنسی کو اتنا معلوم تھا کہ شیعہ جلوس پر حملے ہوسکتے ہیں ، حکام  کو یہ بھی ملعوم تھا کہ ممکنہ جگہ کونسی ہوسکتی ہے ۔ اسی لیے جلوس سے قبل ہی ان کے منتظمین کے درمیان ملاقات میں کچھ احتیاطی اقدامات پر اتفاق ہوا تھا مگر اس کے باوجود دھماکہ ہوا اور لوگوں کی جانیں گئیں۔  اس کی تفصیلات اور وجوہات کیا ہیں یہ پاکستانی اخبارات کی رپورٹس سے معلوم ہوجائیںگی ‘‘کوئٹہ گزشتہ روز(3 ستمبر2010)  فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لئے القدس ریلی دوپہر تین بجے کے قریب جوں ہی میزان چوک کے قریب پہنچی حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔خودکش حملے میں جاں بحق افراد کی تعداد64ہوگئی ہے جبکہ ایک سوبیس افراد زخمی ہیں۔ آج کوئٹہ میں شٹرڈاون ہڑتال اور تمام تعلیمی ادارے بند ہیں۔شہر میں سوگ کی فضا ہے ۔بلوچستان شیعہ کانفرنس کی جانب سے چالیس روزتک سوگ کا اعلان ہوا ہے۔ حکومت بلوچستان نے کوئٹہ میں تمام مذہبی جلوسوں پر پابندی عائد کردی ہے۔ گزشتہ روز میزان چوک پر ہونے والے دھماکے اور فائرنگ کے نتیجے میں چونسٹھ افراد جاں بحق اور ایک سو پچاس زخمی ہوگئے تھے ۔ دھماکے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم لشکرجھنگو ی نے قبول کی ہے۔ دھماکے کے بعد نامعلوم افراد نے شدید فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں متعدد صحافی اور عام شہری زخمی ہوگئے۔ شرپسندوں نے متعدد دکانیں ، گاڑیاں حتی کہ سیلاب متاثرین کے کیمپوں کوبھی نذرآتش کردیا۔ فائرنگ سے کئی افراد زخمی ہوئے ۔ وزیراعلی بلوچستان نواب اسلم ریئسانی نے واقعے کی عدالتی تحقیقات کرانے کا اعلان کیا ہے جبکہ آئی جی بلوچستان نے تحقیقات کیلئے چارٹیمیں تشکیل دی ہیں۔ حکام کے مطابق دھماکے میں دس سے پندرہ کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا۔دھماکے کے بعد ایف سی نے شہر کا کنٹرول سنبھال لیا۔ شہر میں سخت اشتعال اور کشیدگی ہے۔اس سلسلے میں صوبائی سیکرٹری داخلہ اکبر حسین درانی نے بتایا کہ نمازجمعہ اور یوم القدس کے جلوس کے موقع پر چار ہزار سے زیادہ پولیس اہلکاروں کو مساجد اور امام بارگاہوں پر تعینات کیاگیا تھا۔ اس کے علاوہ ضلعی انتظامیہ کو فرنٹیئر کور کے گیارہ پلاٹون کی بھی خدمات حاصل تھیں۔بقول اکبر حسین درانی کے جلوس کے شرکاء کو صادق شہید گراونڈ کے قریب پولیس نے روکنے کی کوشش کی مگر جلوس کے منتظمین انتظامیہ کے ساتھ دو دن قبل ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے زبردستی جلوس لیکر میزان چوک تک چلے گئے تھے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے خود کش حملے اور بعد میں فائرنگ کے واقعہ کی تحقیقات کے لیے صوبائی وزیر داخلہ میر ظفر زہری کے سربراہی میں کمیشن قائم کر دیا ہے اور جلد ہی ملوث ملزمان کے خلاف قانونی کاروائی ہوگی۔

شیعہ فریقے سے تعلق والے اکثررہنماؤں نے خودکش حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جلوس کے موقع پر حکومت کی جانب سے امن وامان برقرار رکھنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے گئے تھے۔ہزارہ ڈیموکرٹک پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری عبدالخالق ہزارہ نے کہا ہے کہ ایک سازش کے تحت بلوچستان میں شیعہ سنی مسئلہ پیدا کیا جا رہا ہے اور جولوگ ان واقعات میں ملوث ہیں ان میں سے چند ایک کے سوا کوئی گرفتارنہیں ہوا ہے۔خالق ہزارہ نے کہا کہ انتظامیہ کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے جلوس کےمنتظمین  کے خلاف بھی قانونی کارروائی ہونی چاہیئے جس کی وجہ سے اتنے زیادہ لوگ ہلاک و زخمی ہوئے اور پورا کوئٹہ شہر سوگوار ہوگیا ہے۔جبکہ صوبائی حکومت نے واقعہ کے بعد سینیئر سٹی پولیس افسر غلام شبیر شیخ کا فوری تبادلہ کر کے کوئٹہ شہر میں سیاسی اور مذہبی اجتماعات پر ایک ماہ تک کے لیے پابندی عائد کردی ہے۔ قابل گور بات یہ ہےکہ کوئٹہ سمیت بلوچستان میں گزشتہ سات سال میں شیعہ فریقے سے تعلق رکھنے والے پانچ سو سے زیادہ افراد ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں میں ہلاک جبکہ پندرہ سو کے قریب معذور ہوچکے ہیں۔

 شیعہ فرقے پر حملے کا ایساہی انداز لاہور میں تھا جہاں دو خود کش دھماکے سے کم از کم 38افراد جاں بحق 200سے زائد ز خمی ہوئے ،لشکر جھنگوی العالمی نے ذمہ داری قبول کر لی ۔ دھماکوں کے بعد لاہور شہر میں صورتحال کشیدہ، مشتعل افراد کی توڑ پھوڑ،رینجرز طلب کرلی گئی ہے ۔ لاہور میں یوم علی کے مو قع پر نکلنے والے جلوس میں دھماکوں کے بعد شرکا مشتعل ہو گئے اور مشتعل افراد نے پولیس سول ڈیفنس ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ جس پر تمام اہلکار جانیں بچا کر بھاگ نکلے مشتعل مظاہرین نے پولیس ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کی گاڑیوں اور آدھے درجن موٹر سائیکلوں کو آگ لگا دی اور اس کے بعد مشتعل مظاہرین نے لوئر مال تھانہ کو آگ لگا دی اس گھمبیر صورتحال سے نمٹنے کے لیے پولیس نے ہوائی فائرنگ کر کے مشتعل مظاہرین کو منتشر کیا ۔ مظاہرین پنجاب پولیس اور صوبائی حکومت کے خلاف نعرے بازی کر تے رہے۔ جلوس کے شرکا کاکہنا تھا یہ سانحہ پولیس انتظامات کے باعث پیش آیاان کا کہنا تھا کہ اگر پولیس نے بروقت سیکورٹی کے مناسب انتظامات کیے جاتے تو اتنی تباہی نہ پھیلتی ان شرکا کا کہنا تھا کہ ہمارے بچے اور خواتین لاپتہ ہیں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مشتعل مظاہرین کی طر ف سے پولیس و دیگر اہلکاروں پر تشدد کے بعد پولیس کے اعلی افسران سمیت اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگ نکلے اور لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا۔ تاہم بعد میں پولیس کی طرف سے ہوائی فائرنگ کے بعد صورتحال کو کنٹرول میں کر لیا اور کربلا گامے شاہ کی طرف جانے والے تمام راستوں کی ناکہ بندی کر لی اور اس طرف جانے والے تمام راستوں کو بند کر دیا۔ پولیس نے اس موقع پر 4 مشتبہ افراد کوتحویل میں لے لیا ۔ دھماکوں کے نتیجے میں زخمی ہونے والے اور شہدا کے ورثا نے میو ہسپتال میں زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا مظاہرین نے وفاقی اور صوبائی حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کرتے ہوئے کہا کہ حکومت عوام کی جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہو چکی ہے اب صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ ہمیں خود اپنے دفاع کے لیے باہر نکلنا ہوگا ۔ مظاہرین نے اس موقعہ پر دہشت گردی مردہ باد اور طالبان مردہ باد کے نعرے لگائے۔

          دریں اثنا کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے بدھ کی شام لاہور میں ہونے والے خود کش حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔تحریک طالبان کے رہنماء قاری حسین نے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ حضرت علی کی شہادت کی یاد میں نکلنے والے جلوس پر حملوں کا مقصد کالعدم سپاہ صحابہ کے رہنما علی شیر حیدری کی ہلاکت کا بدلہ لینا تھا۔ علی شیر حیدری کوقریباً ایک سال قبل اندرون سندھ نامعلوم افراد نے ہلاک کر دیا تھا۔تحریک طالبان کے رہنماء قاری حسین نے دعویٰ کیا کہ تین خود کش حملہ آوروں نے شیعہ جلوس کو نشانہ بنایا ۔

مسلکی تشدد اور نفرت کا یہی انداز کراچی میں تھا ۔کراچی کے علاقے صدر میں امام المتقین علی علیہ  السلام کی شہادت کے موقع پر اکیس رمضان کو نکالے جانے والے جلوس پر فائرنگ کی گئی ہے جس سے سات افراد زخمی ہوگئے ہیں ۔ فائرنگ سے جلوس میں بھگدڑ مچ گئی  تھی لیکن اطلاعات کے مطابق بڑے پیمانے پر کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔جلوس کے موقع پر اگرچہ صوبائی حکومت نے حفظ ماتقدم کے طور پر سیکیورٹی کے خاصئ انتظامات کر رکھے تھے لیکن دہشت گرد کسی نہ کسی طرح اپنی کاروائی میں کامیاب ہو گئے۔کراچی میں یوم علی کے موقع پر انتہائی سخت سیکیورٹی کے باوجود صدر کے علاقے ایمپریس مارکیٹ میں نامعلوم افراد کی جانب سے کی جانے والی شدید فائرنگ سے 7 افرادزخمی ہو گئے،جبکہ 3 افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

          ان واقعات اور سانحات سےمعلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں شیعہ آبادی ایک بار پھر دہش کے نشانے پر ہے کیونکہ سنی کے مقابلے پاکستان میں شیعہ کی آبادی کم ہے اور اب تک جو لگاتار شیعوں پر حملے ہوئے اس کے دفاع یا ان افراد کو سزا دینے کے لیے حکومت  نے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا ہے۔جو افسوس ناک ہے ۔ حکومت کے ساتھ ساتھ سماجی تنظیموں اور علما کی جانب سے بھی کوئی عملی اقدام نہیں ہوا ہے۔اگر علما آپس میں مل کرکوئی متفقہ اور متحدہ بیان دیتے اور اپنے لوگوں کو سمجھاتے تو بہت فرق پڑ سکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہورہاہے اور افسوس کی بات یہ ہے  ایک مسلم ملک میں جہاں لوگ رمضان اور عید کی خوشیاں منانےکی تیاری کر رہے ہیں وہاں لوگوں کی عید خود اسی ملک کے باشندے اگر سوگوار کر رہے ہوں تو اس سے  بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ظاہر ہے یہ عام انسان نہیں کر سکتا یہ وہی کر سکتا ہے جو شیاطانی ذہن اور صیہونی کرتوت پر یقن رکھتا ہو۔

 

 

 

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *