فرق سمجھ کانہیں سمجھنے کاہے
سمیع اللہ ملک ، لندن
انسان کی تخلیق بے شک خداوند قدوس کا ایک بہت عظیم کارنامہ ہے پھر اس تخلیق کو خالق نے اشرف المخلوقات کہہ کر اس کی عظمت کا معیار بھی مقرر کردیا ،ساتھ ہی زمین آسمان، سورج، پانی ہوا بلکہ ساری کائنات کی تخلیق کر کے انسانی زندگی کے تسلسل کا سامان ہی پیدا کردیا بلکہ یہ حکم بھی صادر فرما دیا کہ کسی ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل سمجھا جائیگا ۔ان واضح احکامات کے باوجود بہت سے فرعونوں، ظالم بادشاہوں ،فوجی اور سیاسی آمروں نے انسانیت کا بے دریغ قتل کرکے اپنے ہاتھ انسانی خون سے رنگے۔ پہلی جنگ عظیم میں انسانوں کا قتل، دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے ہاتھوں انسانی جانوں کا ضیاع، جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکا کا ایٹمی حملہ جس میں نہتے لوگوں کی ہڈیاں بھی راکھ بن گئیں ویت نام، کوریا، بوسنیا، ایران عراق، فلسطین، عرب اسرائیل اور گلف کی لڑائیوں میں بے پناہ لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ حالیہ دور میں عراق اور افغانستان میں جو ہو رہا ہے وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اور صرف پچھلی دو دہائیوں میں ایک لاکھ سے زائدبے گناہ کشمیریوں کومحض اس لئے صفحہ ہستی سے مٹادیاگیاکہ وہ انسانیت کے نام پراپنے ان بنیادی حقوق (حق خودارادیت ) کامطالبہ کررہے تھے جس کااقوام عالم کے ایک معتبرادارے اقوام متحدہ میں دلی سرکار نے ان سے وعدہ کیاتھالیکن ظلم وستم کادوراورکربناک آزمائش اب بھی جاری وساری ہے۔
مشہورزمانہ امریکی مصنف ”باب ووڈورڈز“ کی کتاب ”اوبامہ کی جنگیں“ کے تہلکہ خیزانکشافات نے قصرسفید اوراہم امریکی اداروں کی غلام گردشوں میں پلنے والے خوفناک رازوں سے پردہ اٹھایا ہے جس میں ایک انکشاف یہ بھی ہے کہ کس طرح قصرسفید کے فرعون جارج بش اورامریکی جنگی عزائم رکھنے والے اداروں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کوسبوتاژ کرنے کے پروگرام مرتب کئے اور اب اس کی تصدیق وکی لیکس (Wiki Leaks)سے بھی ہوگئی ہے جس کوامریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن نہ صرف امریکابلکہ بین الاقوامی برادری پرحملہ قراردے رہی ہیں۔
ان دستاویزات میںکئی ہوشرباانکشافات کئے گئے ہیں جس میں امریکی ذہنیت کاپتہ چلتا ہے کہ کس طرح اس نے گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کواپنی تحویل میں لینے کےلئے کمانڈوایکشن کے آپشن پرغورکیاتھا۔یہ غور کرنے کی وجہ لال مسجد کاوہ بحران بھی تھا جس کےلئے فاسق کمانڈومشرف نے اپنے آقاو
¿ں کوخوش کرنے کےلئے مدرسے کے تمام بچوں اوربچیوں کوفاسفورس بموں کے ساتھ بھسم کردیا تھا۔کیونکہ امریکیوں کویہ خوف دامن گیرہوگیا تھاکہ کہیں لال مسجدکے انقلابی کہوٹہ کی طرف مارچ کرتے ہوئے ایٹم بم پرقبضہ نہ کرلیں۔کیاعجب کہ لال مسجد کے دوڈھائی سو طلبہ وطالبات نصف درجن کلاشنکوف ‘رائفلوںاوربانس کے ڈیڑھ دوسوڈنڈوں کے ذریعے اسلام آبادسے نکل کرکہوٹہ پر قبضہ کرلیتے اوردرمیان میں انہیں کوئی روک ٹوک بھی نہ ہوتی۔کہوٹہ پرقبضہ کرنے کے بعدعبدالرشیدغازی ڈنڈے کے ساتھ ایٹمی وارہیڈباندھ کرشمال اورجنوب کی طرف پھینکتے چلے جاتے ‘ادھرممبئی اورکلکتہ تک تباہی ہوجاتی اوردوسری جانب بگرام ایئر بیس اورکابل ہدف ہوتے اورپھربانس کے ڈنڈے پر بندھا ہواکوئی ایٹمی وارہیڈبحرہ عرب عبورکرکے تل ابیب تک جاپہنچتا۔
لال مسجدکے بحران پر آبپارہ مارکیٹ میں ”رشیدالمعروف چھیدے“موچی سے بھی اس مفروضے پربات کی جائے تووہ بھی اسے ایک لطیفہ سمجھ کرہنسی میں اڑادے گاکیونکہ چھیدے موچی نے نہ صرف لال مسجد کی طرف آنے جانے والے ہرشخص کوبغور اوربے ساختہ دیکھاہے بلکہ مدرسے کے بچے اوربچیاں اکثر پھٹی پرانی چپلیں اورجوتے بھی اسی سے سلائی اورمرمت کرواتے تھے۔وہ لال مسجد کی انتظامیہ اورطلبہ کی صلاحیتوںسے بھی بخوبی آگاہ تھااورخوداپنے معاشرے اور سماج کارمزآشنابھی ،کہ جودن بھرایسے سینکڑوں پاکستانیوں سے ملتاہے جواپنی جوتی کی سلائی کراتے ہوئے وقت گزارنے کےلئے چھیدے موچی کے سامنے مہنگائی کا روناروتے ہیں‘بڑھتی ہوئی مہنگائی کومعاشرے کےلئے عذاب قراردیتے ہیں۔حکمرانوں کومہنگائی کاتدارک نہ کرنے پربے نقط سناتے ہیں اورتھوڑی دیرمیں جوتی تیارہوتی ہے تواسے پہن کرمارکیٹ میں گم ہوجاتے ہیں۔قریب سے مہنگائی کے خلاف گزرنے والے جلوس سے نظریں بچاکر گزرجاتے ہیں لیکن جس بات کوراجہ بازاراورآبپارہ کاایک عام محنت کش سمجھتاہے وہ امریکا کے اہل دانش وبیناکی سمجھ میں کیوں نہیں آتی؟
لال مسجد بحران کوجسے ہردوسراآدمی ایک مصنوعی بحران سمجھ رہاتھا‘امریکی اس کوبنیادبناکر اس آڑ میں کہوٹہ میں کمانڈوایکشن کافیصلہ کررہے تھے۔امریکیوں کویہ بات معلوم نہیں کہ پاکستانی سیا سی مزاج کے اعتبارسے ایک قدامت پرست اورروایت پرست سماج ہے جواوّل تومختلف سیاسی رحجانات رکھنے والے یونٹس پرمشتمل وفاق ہے اوران یونٹس کے اندربھی جاگیردار‘قبائلی سرداراپنی چھوٹی چھوٹی ریاستیں اورراجواڑے قائم کئے ہوئے ہیں جنہوں نے ریاستی ڈھانچے کے ساتھ بقائے باہمی کے معاہدات کررکھے ہیں۔کراچی اورلاہور جیسے چندشہرجاگیردارانہ اثرات سے باہر تھے لیکن کراچی جیسے بڑے شہرکاانقلابی‘سیاسی مزاج ایم کیو ا یم کے بعدجاگیردارانہ ہوگیا ہے۔یوں بھی پاکستان کی رائے عامہ کی اکثریت دیہاتوں میں آبادہے جہاں لوگ اپنے سرداریاچوہدری کے ساتھ تاحیات وفاداری کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ایسے معاشروںمیں سب کی بقاء”اسٹیٹس کو“میں ہوتی ہے۔سب کی ترجیح اسی میں ہوتی ہے کہ سسٹم کاپہیہ رواں دواں رہے۔اس ہیئت ترکیبی کے حامل معاشروںمیں لوگ زلزلے کی ہنگامی حالت میں ریفلکس ایکشن کے طورپرگھروں سے باہرنکل توسکتے ہیںلیکن وہ کسی انقلابی اورہمہ گیرتبدیلی کےلئے ساتھ نہیں چلتے۔مہنگائی اس معاشرے کےلئے ایک نئے جاگیرداراورسردارکے روپ میں سامنے آئی ہے ۔عوام کاایک بہت بڑاطبقہ غمِ روزگارکودل سے لگائے بیٹھاہے ۔اسے سیاسی اورسماجی تبدیلیوںسے غرض نہیں کیونکہ اس کامسئلہ آٹا‘دال چینی ہے۔ایسی سوسائٹی میں امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ سوات یاوزیرستان سے پاکستان کاکوئی ملاعمرگھوڑوں اورگاڑیوں کے قافلے کے ساتھ سیاہ پرچم لئے اسلام آبادکی طرف مارچ کرتاچلاجائے گااورراستے میں لوگ جابجا پھولوں کی پتیاں نچھاورکرکے اس قافلے میں شامل ہوجائیں گے اوراک روزیہ کارواں کہوٹہ میں جاکرمورچہ زن ہوجائے گا اوریوں خطے میں ایک خوفناک تباہی کاآغازہوجائے گا۔
وائٹ ہاوس‘پینٹاگون اورسی آئی اے پاکستان کے سیاسی‘سماجی‘اقتصادی ‘وفاقی اورانتظامی ڈھانچے کی روشنی میں یہاں کے حالات کاتجزیہ کرنے کی بجائے امریکن ”ہالی ووڈ“کے فلمی اورافسانوی اندازمیں پاکستان کاتجزیہ کررہے ہیں۔حقیقت تویہ ہے کہ امریکی سیدھے اورآسان اندازسے معاملے کوسمجھناہی نہیں چاہتے کیونکہ ان کے خیال میں فلسطین کے مسئلے کی وجہ سے مسلمان ایک مدت سے صدمے اورردعمل کی کیفیت میں ہیں اوراس انسانی کیفیت کے ساتھ مہلک ہتھیاروں کاہاتھ میں ہونادنیاکےلئے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔جس طرح یہودیت اورصہیونیت ایک نظریاتی اورعالمگیر تحریک ہے ‘امریکیوں کے خیال میں اس کے ردعمل میں مسلمان بھی ایک اورہمہ گیر تحریک ہیں۔اس لئے عراق کاایٹم بم عریبک بم‘ایران کابم پرشین بم‘لیبیاکاایٹم بم افریقن بم اورپاکستان کاایٹم بم اردوبم نہیں ہوتابلکہ ان کے نزدیک یہ سب اسلامی بم ہیں۔بھارت کاایٹم بم ہندوبم نہیں ‘امریکااورمغرب کے ایٹم بم قطعاً عیسائی بم نہیں کہ یہ بم انسانیت کی تباہی کیلئے نہیں بلکہ پھولوں کی بارش برسانے کاکام آتے ہیں!
اسی خوف نے ۱۸۹۱ءمیں عراق کے ایٹمی ری ایکٹرکی تباہی کاسامان کیاتھا۔یہی خوف اس کے چندبرس بعد سے ہی پاکستان کے ایٹم بم کے تعاقب میں ہے۔یہی خوف کرنل قذافی کے خیمے تک جاپہنچاتھا۔یہی خوف ایران کے گلے کاپھندہ بنانے کی پوری کوشش کی جارہی ہے۔ نائن الیون کے بعد تویہ خوف اوربھی بڑھ گیا ہے اوریہ طے کرلیاگیا ہے کہ انڈونیشیاسے لیکر مراکش تک کی ساری پٹی ایٹم بم کےلئے موزوں اورمناسب نہیں۔یہ الگ بات ہے کہ یہ ساری پٹی مسلمان آبادی پرمشتمل ہے۔پاکستان پرعدم استحکام ‘بے چینی اورشورش کاعذاب بھی اسی لئے نازل ہورہاہے کہ اسے ایٹم بم کے حوالے سے غیرذمہ دار‘نااہل اورناکام ثابت کرنااوراس کی سرزمین کوایٹم بم کےلئے ناموافق اورغیرموزوں ثابت کرنامقصودہے۔اسی لئے چھیداموچی جس بات کوآسانی سے سمجھ رہا ہے ‘قصر سفید‘پینٹاگون اورسی آئی اے مکیں اس بات کوسمجھناہی نہیں چاہتے ۔راولپنڈی خوف کے جن سایوں سے آزاد ہے وہ سائے ہزاروں میل دورواشنگٹن کی گلیوں میں لہراتے اوردندناتے پھر رہے ہیں اورایک خاص منصوبے اورپالیسی کے تحت لندن ‘پیرس اورفرینکفرٹ کواپناساتھی اور خوفزدہ بنائے رکھنے کےلئے ان سایوںکااحساس دلانابہت ضروری ہے۔
چھیدے اورہلری کلنٹن کایہ فرق سمجھ کانہیں سمجھنے کاہے۔ہلری چھیدے سے بہت سمجھدار ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ مسئلے کوسمجھناہی نہیں چاہتی۔
یہ جوہم نے غیروں سے کچھ رنگ لئے کچھ روپ لئے اچھے خاصے چہروں کاسب رنگ گیابہروپ بھرے
عالم عالم لرزاں تھا جن شاہینوں کی دہشت سے ان کی بربادی کی خاطر زاغ و زغن سب ایک ہوئے