Dr. Khwaja Ekram
فلسطین خود اپنی ہی سر زمین میں بے دخلی کے جس کرب سے گزر رہا ہے اس کا اندازہ کوئی نہیں کرسکتا کیونکہ عالمی اور صیہونی سازشوں نے جس طرح فلسطینوں پر عرصہ ٴ حیات تنگ کر رکھا ہے اور جس طرح وہ بیکسی اور مظلومی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ان کے شب وروزجس بے یقینی سے گزر رہے ہیں ان کو دنیا کی وہ تمام طاقتیں بھی نہیں دیکھ پارہی ہیں جو خود کو ناانصافی کا چمئین کہتے نہیں تھکتے جو دہشت اور ناانصافی کے نام پر دنیا کے کسی حصے پر حملہ کرنے سے بھی باز نہیں آتے ، ان کی آنکھیں ، ان کے نظریے اور ان کے اصول سب کے سب یہاں آکر شل ہوجاتے ہیں۔دنیا کے طاقتور ممالک چونکہ اسرائیل کے ساتھ ہیں اس لیے وہ اسرائیل کے بجائے فسلطین کو خطے میں بد امنی کے لیے ذمہ دار قرار دیتے ہیں اور جو ممالک امریکہ کے رحم وکرم پر سانس لے رہے ہیں وہ خاموش تماشائی ہیں لیکن ان کو شاید یہ معلوم نہیں کہ جب ان کی بھی یہ حالت ہوگی تو دنیاا ن کے لیے بھی خاموش تماشائی رہے گی۔ رہی بات اسلامی ممالک کی تو بھی متحد اور متفق ہوکر فلسطین کے حقوق کے لیے کھل کر سامنے آنے سے اس لیے کتراتے ہیں کہ کہیں امریکہ اور برطانیہ ان سے خفا ہوکر ان کے لیے مشکلیں نہ کھڑی کردیں۔ لیکن آخر کب تک ؟ کیونکہ جس انداز آج کے طاقتور ممالک اپنی من مانی کر ہے ہیں اور اپنے مفاد اور حالات کے پیش نظر اصول اور قوانین بنا رہے ہیں وہ صرف فلسطین کے لیے خطرناک نہیں ہیں بلکہ ان سب ممالک کے لیے ایک تھریٹ ہے جو ابھی ان کے حواری بنے ہوئے ہیں ۔ دنیامیں انسانی حقوق کی پامالی اور دہشت گردی کے لیے جو ممالک میزائیلوں کا رخ دشمنوں (ان کی اصطلاح میں یہ اس لیے دشمن ہیں کیونکہ یہ ان کے کہے پر چلنے کو تیار نہیں ) کی جانب کیے بیٹھے ہیں ۔آج جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل اور غیر مستقل15 ارکان میں سے 8 ارکان نے فلسطینی ریاست کی جانب سے اقوام متحدہ کا مستقل رکن بننے کی کوششوں کی حمایت کردی۔تو امریکہ نے ویٹو لگانے کی بات کر کے اس معاملے کو سردخانے میں ڈلا دیا ۔ لیکن مسلم ممالک اس کے خلاف متحدہ احتجاج بھی نہیں کر سکے ۔کیونکہ دبی زبان میں امریکی زبان میں وہ بھی فلسطین کی تحریک آزادی کو حریت کے بجائے دہشت گردی سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسرائیلی کی ریاستی دہشت گردی جس نے دنیا میں بے رحمی کے سارے ریکارڈ تو ڑ دئے اسے امریکہ اور اس کے حواری زبردستی خود حفاظتی کی مہم مانتے ہیں ۔ ایسا اس لیے ہے کہ فلسطین ایک کمزور ملک ہے جس کی حمایت کرنے والے بھی موجودہ عہد میں کمزور ہیں اس لیے فلسطین پر ہر طرح کے ظلم و ستم کو یہ کہہ کر جائز ٹھہرایا جا رہا ہےکہ وہ دہشت گرد ہیں ۔ لیکن اسرائیل اور فلسطین کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو بات واضح ہو جائے گی کہ کس طرھ فلسطین کے ساتھ زیادتی ہوئی ۔ فلسطین کی اس تاریخ وک اپنی زبان میں لکھنے سے بہتر ہے کہ میں قارئین کے لیے آزاد دائرة المعارف کی ویکی پیڈیا کے الفاظ ہی نقل کروں :
‘‘فلسطین دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ یہ اس علاقہ کا نام ہے جو لبنان اور مصر کے درمیان تھا جس کے بیشتر حصے پر اسرائیل کی ریاست قائم کی گئی ہے۔ 1948 سے پہلے یہ تمام علاقہ فلسطین کہلاتا تھا۔ جو خلافت عثمانیہ میں قائم رہا مگر بعد میں انگریزوں اور فرانسیسیوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔ 1948 میں یہاں کے بیشتر علاقے پر اسرائیلی ریاست قائم کی گئی۔ اس کا دارالحکومت بیت المقدس تھا جس پر 1967 میں اسرائیل نے قبضہ کر لیا۔ بیت المقدس کو اسرائیلی یروشلم کہتے ہیں اور یہ شہر یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں تینوں کے نزدیک مقدس ہے۔ مسلمانوں کا قبلہ اول یہیں ہے۔تاریخ جس زمانہ میں لوگ ایک جگہ رہنے کی بجائے تلاش معاش میں چل پھر کر زندگی بسرکیا کرتے تھے۔ عربستان سے قبیلہ سام کی ایک شاخ جو کنعانی یا فونیقی کہلاتی تھی، 2500قبل مسیح میں یہاں آ کر آباد ہو گئی۔ پھر آج سے 4000سال پہلے یعنی لگ بھگ 2000قبل مسیح میں حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق کے شہر ار (Ur) سے جو دریائے فرات کے کنارے آباد تھا ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ایک بیٹے اسحق علیہ السلام کو بیت المقدس میں، جبکہ دوسرے بیٹے اسمعٰیل علیہ السلام کو مکہ میں آباد کیا۔ حضرت اسحق علیہ السلام، کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام تھے جن کا نام اسرائیل بھی تھا۔ ان کی اولاد بنی اسرائیل کہلائی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت دائودعلیہ السلام،حضرت سلیمان، حضرت یحییٰ علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور بہت سے دیگر پیغمبر اسی سرزمین میں پیدا ہوئے یا باہر سے آ کر یہاں آباد ہوئے۔ اسی مناسبت سے یہ خطہ زمین پیغمبروں کی سرزمین کہلایا۔ان علاقوں میں عبرانی قومیت (Hebrews) کے لوگوں کی آمد کا نشان ولادت مسیح سے لگ بھگ 1100 سال قبل میں ملتا ہے۔ حضرت سیموئیل جو اللہ کے نبی تھے، پہلے اسرائیلی بادشاہ تھے۔ انہوں نے کافی عرصہ حکومت کی اور جب وہ بوڑھے ہو گئے تو انہوں نے اللہ کے حکم سے حضرت طالوت علیہ السلام کو بادشاہ مقرر کیا۔ اس واقعہ کا ذکر قرآن مجید کے پارہ دوئم میں سورہ بقرہ کی آیات 247 تا 252 میں ملتا ہے۔حضرت طالوت علیہ السلام نے 1004 قبل مسیح سے 1020 قبل مسیح تک حکمرانی کی۔ اس دوران انہوں نے جنگ کر کے جالوت (Goliath) کو مغلوب کیا اور اس سے تابوت سکینہ واپس لیا جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کے تبرکات تھے۔حضرت طالوت علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت دائود علیہ السلام بنی اسرائیل کے بادشاہ بنے۔ انہوں نے پہلے حیبرون (Hebron) اور پھر بیت المقدس میں اپنا دارالحکومت قائم کیا۔ بیت المقدس دنیا کا قدیم ترین شہر ہے۔ یہ دنیا کا واحد شہر ہے جو یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے لئے یکساں مقدس اور محترم ہے۔ اس شہر کا موجودہ نام ”یروشلم“ حضرت دائود علیہ السلام نے رکھا تھا۔حضرت دائودعلیہ السلام نے 1004 قبل مسیح سے 965 ق م تک 33 سال حکمرانی کی۔ ان کے بعد ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام نے 965 ق م میں حکومت سنبھالی جو 926 قبل مسیح تک 39 سال قائم رہی۔حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد اسرائیل کی متحدہ ریاست دو حصوں سامریہ اور یہودیہ میں تقسیم ہو گئی۔ دونوں ریاستیں ایک عرصے تک باہم دست و گریبان رہیں۔598 قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے حملہ کر کے یروشلم سمیت تمام علاقوں کو فتح کر لیا اور شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا کر بادشاہ اور ہزاروں شہریوں کو گرفتار کر کے بابل میں قید کر دیا۔ 539 قبل مسیح میں ایران کے بادشاہ خسرو نے بابل کو فتح کیا اور قیدیوں کو رہا کر کے لوٹا ہوا مال واپس یروشلم بھیج دیا۔332 قبل مسیح میں یروشلم پر سکندراعظم نے قبضہ کر لیا۔ 168 قبل مسیح میں یہاں ایک یہودی بادشاہت کا قیام عمل میں آیا۔ لیکن اگلی صدی میں روما کی سلطنت نے اسے زیر نگین کر لیا۔ 135 قبل مسیح اور 70 قبل مسیح میں یہودی بغاوتوں کو کچل دیا گیا۔ اس زمانے میں اس خطے کا نام فلسطین پڑ گیا۔
20 اگست 636ءکو عرب فاتحین نے فلسطین کو فتح کر لیا۔ یہ قبضہ پرامن طریقہ سے عمل میں آیا۔ 463 سال تک یہاں عربی زبان اور اسلام کا دور دورہ رہا۔ تاہم یہودی ایک اقلیت کی حیثیت سے موجود رہے۔ گیارہویں صدی کے بعد یہ علاقہ غیر عرب سلجوق، مملوک اور عثمانی سلطنتوں کا حصہ رہا۔ 1189ءمیں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو فتح کیا اور یہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہو گئی۔چار صدیوں تک عثمانیوں کی حکمرانی کے بعد 1917 ءمیں برطانیہ نے اس خطے کو اپنی تحویل میں لے لیا اور اعلان بالفور کے ذریعہ یہودیوں کے لئے ایک قومی ریاست کے قیام کا وعدہ کیا گیا۔
فلسطین کی جانب یہودیوں کی نقل مکانی 17 ویں صدی کے اواخر میں شروع ہو گئی۔ 1930 ءتک نازی جرمنی کے یہودیوں پر مظالم کی وجہ سے اس میں بہت اضافہ ہو گیا۔ 1920ء، 1921 ء، 1929ءاور 1936 ءمیں عربوں کی طرف سے یہودیوں کی نقل مکانی اور اِس علاقے میں آمد کے خلاف پرتشدد مظاہرے ہوئے لیکن یہ سلسلہ جاری رہا۔1947ءمیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعہ فلسطین کو تقسیم کر کے ایک عرب اور ایک اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا اعلان کر دیا ۔ برطانیہ نے اس علاقے سے 1948ءمیں اپنی افواج واپس بلالیں اور 14 مئی 1948ءکو اسرائیل کی آزاد حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس کے ساتھ ہی فلسطینی ریاست بھی قائم کر دی جاتی لیکن ایسا نہ ہوا۔ عربوں نے تقسیم کو نامنظور کر دیا اور مصر، اردن، شام، لبنان، عراق اور سعودی عرب نے نئی اسرائیلی ریاست پر حملہ کر دیا، تاہم وہ اسے ختم کرنے میں ناکام رہے۔ بلکہ اس حملے کی وجہ سے یہودی ریاست کے رقبے میں اور اضافہ ہو گیا۔1949ءمیں اسرائیل نے عربوں کے ساتھ الگ الگ صلح کے معاہدے کئے اس کے بعد اردن نے غرب اردن کے علاقے پر قبضہ کر لیا جب کہ مصر نے غزہ کی پٹی اپنی تحویل میں لے لی۔ تاہم ان دونوں عرب ممالک نے فلسطینیوں کواٹانومی سے محروم رکھا۔29 اکتوبر 1958ءکو اسرائیل نے صحرائے سینا پر حملہ کر کے اسے مصر سے چھین لیا۔ اس حملے میں برطانیہ اور فرانس کی حکومتوں نے اسرائیل کا ساتھ دیا۔ 6 نومبرکو جنگ بندی عمل میں آئی۔ عربوں اور اسرائیل کے درمیان ایک عارضی صلح کا معاہدہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہوا جو 19مئی 1967ءتک قائم رہا جب مصر کے مطالبے پر اقوام متحدہ کے فوجی دستے واپس بلالئے گئے۔ مصری افواج نے غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لیا اور خلیج عقبہ میں اسرائیلی جہازوں کی آمد و رفت پر پابندی لگا دی۔5جون 1967 ءکو چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ شروع ہو گئی۔ اسرائیلیوں نے غزہ کی پٹی کے علاوہ صحرائے سینا پر قبضہ کر لیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے مشرقی یروشلم کا علاقہ، شام کی گولان کی پہاڑیاں اور غرب اردن کا علاقہ بھی اپنے قبضہ میں کر لیا۔ 10 جون کو اقوام متحدہ نے جنگ بندی کرا دی اور معاہدے پر دستخط ہو گئے۔6 اکتوبر 1973 ءکو یہودیوں کے مقدس دن ”یوم کپور“ کے موقعہ پر مصر اور شام نے اسرائیل پر حملہ کر دیا۔ اسرائیل نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے شامیوں کو پسپائی پر مجبور کر دیا اور نہر سویزعبور کر کے مصر پر حملہ آور ہو گیا۔ 24 اکتوبر 1973ءکو جنگ بندی عمل میں آئی اور اقوام متحدہ کی امن فوج نے چارج سنبھال لیا۔ 18 جنوری 1974ءکو اسرائیل نہر سویز کے مغربی کنارے سے واپس چلا گیا۔3 جولائی 1976ءکو اسرائیلی دستوں نے یوگنڈا میں انٹی بی (Entebe) کے ہوائی اڈے پر یلغار کر کے 103 یرغمالیوں کو آزاد کرا لیا جنہیں عرب اور جرمن شدت پسندوں نے اغواءکر لیا تھا۔نومبر 1977ءمیں مصر کے صدر انور السادات نے اسرائیل کا دورہ کیا اور 26 مارچ 1979ءکو مصر اور اسرائیل نے ایک امن معاہدے پر دستخط کر کے 30 سالہ جنگ کا خاتمہ کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی دونوں ممالک میں سفارتی تعلقات قائم ہو گئے۔ (تین سال بعد 1982ءمیں اسرائیل نے مصر کو صحرائے سینا کا علاقہ واپس کر دیا۔)جولائی 1980ءمیں اسرائیل نے مشرقی یروشلم سمیت پورے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قراردیدیا۔ 7 جون 1981ءکو اسرائیلی جیٹ جہازوں نے بغداد کے قریب عراق کا ایک ایٹمی ری ایکٹر تباہ کر دیا۔ 6 جون 1982ءکو اسرائیلی فوج نے پی ایل او کی مرکزیت کو تباہ کرنے کے لئے لبنان پر حملہ کر دیا۔ مغربی بیروت پر اسرائیل کی تباہ کن بمباری کے بعد پی ایل او نے شہر کو خالی کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ اسی سال 14 ستمبر کو لبنان کے نومنتخب صدر بشیر جمائل کو قتل کر دیا گیا۔
16 ستمبر 1982ءلبنان کے عیسائی شدت پسندوں نے اسرائیل کی مدد سے دو مہاجر کیمپوں میں گھس کر سینکڑوں فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا۔ اس سفاکانہ کارروائی پر اسرائیل کو دنیا بھر میں شدید مذمت کا نشانہ بننا پڑا۔1989ءمیں انتفادہ کے زیر اہتمام فلسطینی حریت پسندوں نے عسکری کارروائیوں کا آغاز کیا۔’’
اس طرح فلسطین اور اسرائیل کے تنازعے آج بھی بر قرار ہیں بلکہ اسرائیل عالمی نقشے پر ایک بڑی طاقت بن کر ابھر رہا ہے اس لیے اب فلسطین کی حمایت کر نے والوں کی زبانیں گنگ اور آوازیں مدھم ہوتی جارہی ہیں ۔ امریکہ کی اقتصاد کی بہت سی جڑین اسرائیل سے ملتی ہیں اس لیے وہ اسرائیل کے جا و بیجا حمایت کرنے میں نہ کوئی جھجھک محسوس کرتا ہے اور نہ اسے کسی کا خوف ہے ۔
لیکن امید کی ایک کرن یہ ہےکہ اب تک بیشتر اسلامی ملکوں نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال نہیں کیے ہیں۔ ترکی جو کئی دہائیوں سے اسرائیل کے ساتھ کئی معاہدوں سے جڑا ہوا تھا اب وہ معاہدے بھی اس لیے ٹو ٹ گئے کیونکہ اسرائیل نے ترککی کے جہاز پر حملہ کر کے بین الاقوامی قوانین کے ساتھ ساتھ ترکی کے ساتھ بھی معاندانہ رویہ اپنایا ۔ ترکی نے ہمت و حوصلہ دیکھاتے ہوئے اسرائیل سے روابط منقطع کرنے کی راہ میں پیش رفت کی ہے ۔ اسرائیل کے لیے ترکی کے بعد سب سے اہم ممالک میں مصر اور شام ہیں ۔ یہاں کے بھی حالات دیگر گوں ہیں اور مصر میں نئے انتخاب کے بعد کیا خارجہ پالیسی اپنائی جاتی ہے اور شام کس کروٹ بیٹھتا ہے ؟ یہ دیکھنے کی بات ہے کیونکہ اس کےبعد اسرائیل کو کئی طرح کے کرائسس سے گزرنا پڑے گا۔ شاید اس کے بعد امریکہ اتنے واشگاف انداز میں ویٹو لگانے کی بات نہیں کر سکے گا۔ اس کے ساتھ ہی اگر رکن ممالک اور اسلامی ممالک جن کی تاریخ اور وراثتیں اس سرزمین سے جڑی ہوئی ہیں ، اگر انھوں نے ذرا ہمت و حوصلہ سے کام لیا تو یقینا فلسطین کے حالات بہتر ہوں گے اور ایک آزاد ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر اس کا وجود سامنے آئے گا۔