قانون کے محافظ
انعام الحق
سب جانتے ہےں کہ پاکستان اےک لمبے عرصہ سے دہشتگردی کی لپےٹ مےں ہے اوردہشت گردو ں سے سب ہی تنگ ہےں۔مگر شاےد ہماری عوام ےہ نہےں جانتی کہ دہشت گردوں کے پکڑے جانے کے بعد اُن کے ساتھ کےا ہوتا ہے۔جو دہشت گرد مارے جاتے ہےں وہ تو دوزخ کے حوالے ہوجاتے ہےں مگر جو زندہ حالت مےں پکڑے جاتے ہےں اور عدالتوں مےں پےش کئے جاتے ہےں وہ اکثر عدالتوں سے باعزت بری ہوجاتے ہےں۔کےونکہ ہمارے ملک مےں عدلےہ آزاد ہے اور عدلےہ کی آزادی کا مطلب ےہ ہے کہ کوئی عدلےہ کو پوچھنے والا نہےں کہ دہشت گردوں کو کےوں بری کےا گےا۔ےہاں تک کہ سنگےن مقدمات مےں پکڑے جانے والے دہشت گرد بھی با عزت بری ہو جاتے ہےں۔ ہمارے ملک پاکستا ن مےں اےسے مجرموں کو سزا دےنے کی بجائے باعزت بری کےوں کر دےا جاتا ہے؟بات تو سوچنے کی ہے مگر وہ سوچتے نہےں جو دہشت گردوں کے محافظ بنتے ہوئے اُنہےں بری کرتے ہےں۔اگر پاکستانی عوام کی رائے لی جائے تو اکثرےت کے مطابق دہشتگردوں کو پھانسی دےنی چاہئے۔پاکستان مےں جمہورےت قائم ہے عوام کی رائے کا خےال کرتے ہوئے دہشت گردی پھےلانے والوں کو ہر گز معاف نہےں کرنا چاہئے۔مگر آزاد عدلےہ عوام کی رائے کو قبول نہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کو بری کرتی رہی۔اےک جائزے کے مطابق نائن الےون کے بعد اب تک17,742دہشت گرد مارے ےا پکڑے گئے۔جو کہ اےک بڑی تعداد ہے،اگر زندہ پکڑے جانے والوں سے صحےح تفتےش کی جاتی تو اُن کے گروپوں کا پتہ لگانا ہر گز ناممکن نہےں تھا۔اس کے علاوہ2009مےں پنجاب مےں انسداد دہشت گردی کی عدالت مےں 629مقدمات تھے جبکہ471ملزمان کو عدالت نے بری قراردےاشاےد وہ اثرورسوخ والے دہشت گرد تھے ےا اُن کےلئے لےن دےن مشکل نہ تھا اور اُن کے پاس پےسہ وافر مقدار مےں تھا جس کی بدولت وہ باعزت بری ہوگئے۔9اپرےل2010انسداد دہشت گردی کورٹ نے جی اےچ کےو اور حمزہ کےمپ کے حملوں مےں ملوث7افراد کو بری قرار دےاےہ وہ افراد تھے جن کے پاس انتہائی اہم ترےن معلومات تھیں کےونکہ جی اےچ کےو ےعنی پاکستان فوج کے جنرل ہےڈ کواٹر پردن دھاڑے حملہ کرنے والے کوئی عام ہو نہےں سکتے،جس قدر قےمتی اور اہم ترےن معلومات ان افراد کے پاس ہوسکتی تھےں وہ کسی کے پاس شاےد نہ ہوتی۔6مئی2010مےرےٹ ہوٹل دھماکوں کے ملزمان کو انسداد دہشتگری کی عدالت نے اُنہےں بھی بری کر دےاجبکہ مےرےٹ ہوٹل کے دھماکے سے پورا اسلام آباد اور اسلام آباد کی عوام لرز اُٹھی تھی اورسب حےران پرےشان تھے کہ ےہ ہو کےسے گےا،اےوان صدر کی روڈ کے قرےب ترےن اسلام آباد کے اہم ترےن علاقہ اور اہم ترےن ہوٹل مےںاس شدت کا دھماکہ ہوا کہ ملک بھر کے ہوٹل مالکان محتاط ہوگئے اور ہوٹلوں مےں عوام کی آمدورفت کم ہوگئی۔14مئی2010کو کامرہ مےں سکول بس پر حملے مےں ملوث6افرادکو عدالت نے بری قرار دےا شاےد ہماری آزاد عدلےہ نے اُن 6افراد کو بھی ملک مےں دوبارہ آزادی سے دندناتے ہوئے پھرنے اور دوبارہ غےر قانونی حرکات مےں ملوث ہونے کےلئے بری کےا تھا ۔14مئی2010راولپنڈی مےں دہشت گردی کے دو واقعات مےں ملوث9افراد کو عدالت نے بری کر دےااس طرح کے کئی اور افراد اےسے ہوں گے جنہےں ہماری آزاد عدلےہ نے آزاد کر دےا۔ہمارے ملک مےں لاقانونےت کی انتہا اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ عام شخص کو بھی قانون توڑتے وقت زرا ڈر محسوس نہےں ہوتااور اگر کوئی قانون توڑتا پکڑا جائے تو پےسہ ہمارے قانون کے ٹھےکےداروں کی مرغوب غذا ہے جسے نوش فرمانے کے بعد فےصلے بدل جاتے ہےں۔دہشت گردوں کو پولےس پکڑتی ہے اور پولےس کی خاطر سابقہ حکومت نے بےس روپے کا نوٹ نکالا تھا،ےہ نوٹ خاص طور پر سفےد وردی مےں موجود ٹرےفک پولےس اہلکاروں کےلئے نکالا گےا۔کےونکہ اےک وقت اےسا تھا جب لاہور مےں حالات کُچھ اس قسم کے آئے کہ سفےد وردی والے ٹرےفک پولےس اہلکار صرف گولڈ لےف کا سگرےٹ ےا پھر5ےا10روپے کا نوٹ لے کر چھوڑ دےتے تھے جو کہ توہےن تھی،لہٰذا بےس روپے کا نوٹ نکالا گےا،جس کا نتےجہ ےہ نکلا کہ اگر اُن پولےس اہلکاروں کو بےس روپے کا نےا نوٹ نہےں ملتا تو وہ حقےقت مےں پکڑے جانے والے کا چلان کر دےتے تھے۔مگر جےسا کہ سب جانتے ہےں لاہور لاہور ہے۔تمام لاہورےوں نے بھی بےس روپے کے نوٹ جےب مےں رکھنے شروع کر دئےے تھے اور روکے جانے پر بغےر بات کئے بےس کا نےا نوٹ دےتے اور گزر جاتے جےسے کوئی ٹول پلازہ کراس کرتے ہوئے کار،وےگن،ٹرک ےا بس والا دےتا ہے اور گزر جاتا ہے۔اسی لئے بعد مےںشہر لاہور سے سفےد وردی والوں کاسفاےا کر دےا گےا۔