اسرائیل نے اپنے ناپاک منصوبے کے ذریعے دنیا کو فتح کرنے کے لیے اب تک جتنے منصوبے بنائے ہیں اس میں اسلام اور مسلمانوں کو اس نے سر فہرست رکھا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہےکہ دنیا میں اسلا م دوسرا بڑا مذہب ہے جو تقریبا ڈیڑھ ارب لوگو ں کا مذہب ہے۔ دنیا کے مذاہب میں اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہےجس کی تعلیمات کی جانب لوگ بڑی تیزی کھنچے چلے آرہے ہیں اور اسلام کی امن پسندی انسانیت نوازی کے سبب اسلام کو قبول بھی کر رہے ہیں۔ یوروپی اور امریکی ممالک میں اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سب سے زیادہ اسرائیل کے لیے پریشان کن ہے کیونکہ اسلام کے مقابلےمیں اسرائیل کی نہ تو آبادی بڑھ رہی ہے اور نہ ہی یہودی مذہب میں کسی کے داخل ہونے کی بات سا منے آتی ہے۔ یہ اسرائیل کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے کیونکہ اقتصادی اور جدید اسلحے کی طاقت کے لحاظ سے یہ دنیاکا سب سے اہم ملک ہے ، جو ملک امریکہ کی سیاست اوراقتصاد کو ڈکٹیٹ کرتا ہو اسے یہ کیسے ہضم ہو سکتا ہےکہ جو امریکہ کو اپنے شکنجے میں لے کر اسلامی دنیا کو تباہ کرنے کا منصوبہ بناتا ہو،وہ بھلا یہ کیسے گوارہ کر سکتا ہے کہ اسی امریکہ میں اسی کے ناک کے نیچے اسلام کی طرف لوگ کشا ں کشاں آرہے ہوں۔اسی لیے وقفے وقفے سے اسرائیل اپنے ہمنواؤں سے مل کر ایسی حرکتیں کرتا رہتا ہے جو مسلمانوں کے لیے ذہنی اذیت کا سبب بنے ۔ اسرائیل کا ایک اور منصوبہ یہ بھی ہےکہ وہ مسلمانوں کو ایسے ہی جذباتی مسائل میں الجھائے رکھے تاکہ مسلم قوم دنیا کے اور مسائل سے بے خبر ہوکر ایسے ہی جذباتی مسائل کے خلاف آوازیں بلند کرتی رہے اور باقی دنیا اقتصادا ور جدید دور کے تقاضے سے ہم آہنگ ہو کر آگے بڑھتی رہی۔ اس منظم سازش کی زندہ مثال یہ ہے کہ اس نے تمام اسلامی ممالک کو ایسے مسائل کا شکار بنا رکھا ہے کہ وہ آپس میں متحد نہیں ہوسکتےاور نہ ہی کسی اور کے لیے کچھ سوچ سکتے ہیں۔لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ ان سازشی ممالک نے اسلامی دنیا کے تمام ممالک کو اپنے دام میں اس طرح گرفتار کر لیا ہے کہ وہ اگر اس جال سے نکلنا بھی چاہیں تو نہیں نکل سکتے۔ موجودہ اسلامی دنیا میں کسی کا نام لے لیں کوئی ان کی سازش سے نہیں بچ سکا ہے ۔حد تو یہ ہے کہ اسلامی دنیا کی سب سے بڑی تنظیم اوآئی سی کا بھی حال یہ ہے کہ وہ اہم مسلم مسائل پر بھی زبان کھولنے سے ڈرتی ہے۔ ابھی حال کی مثال سب کے سامنے ہےکہ امریکہ میں ایک چرچ کے ذریعے نائن الیون کے موقعے پر عالمی قرآن سوزی کا ہفتہ منانے کا اعلان کیا مگر اب تک اوآئی سی کی جانب سے کوئی بیان اور کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عالمی سطح پر مسلمانوں کے اندر اب وہ دم خم نہیں رہا ۔دوسری جانب امریکہ کےصحافتی ادارے اس خبر کو ہوا دے رہے ہیں اور اس مذموم حرکت کے مرتکب پادری کومختلف میڈیا گروپس اس کاانٹرویو دیکھا رہے ہیں۔
امریکی ریاست فلوریڈا میں اسلام کی مخالفت کے لیے ایک چرچ نے نائن الیون کی برسی کے موقع پر مقدس کتاب قرآن مجید کے نسخے جلانے کا ناپاک منصوبہ بنایا ہے۔ گینس ویلے، فلوریڈا میں واقع ”ڈوو ورلڈ آؤٹ ریچ سنٹر” اپنی ویب سائٹ اور سوشل نیٹ ورکنگ کی ویب سائٹس پر اسلام کی مقدس کتاب قرآن مجید کے نسخوں کو جلانے کی ترغیب دینے کے لیے مذموم مہم چلا رہا ہے۔ یہ چرچ نائن الیون کے حملوں کے ملہوکین کی یاد میں ”ایوری باڈی برن قرآن ڈے” کے نام سے گیارہ ستمبر کا دن منانے کا مذموم منصوبہ بنا ریاہے اور اس نے اپنے پیروکاروں سے کہا ہے کہ وہ اسلام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ اس چرچ کے انتہا پسند لیڈر ڈاکٹر ٹیری جونز نے”اسلام ایک برائی ہے” کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے اور چرچ کے باہر اسی نعرے پر مبنی ایک کتبہ بھی لگا رکھا ہے۔31جولائی2010 امریکی چینل سی این این نے گیارہ ستمبر 2010ء کوفلوریڈا امریکا کے ایک چرچ ۔ (Nondenominational church in Gainesville, Florida) ۔میں معاذاللہ قرآن کریم کو جلانے کی ایک روح فرسا خبر نشرکرتے ہوئے اس ناپاک تحریک کےسرغنہ ‘‘ پاسٹرو ٹیری جونز ‘‘ کا انٹرویو دکھایاجس میں وہ اپنے اس عمل پر نادم ہونے کے بجائے فخر کرتے ہوئے امریکا بھر کے عیسائیوں کو اس کام کی نہ صرف دعوت دے رہا تھابلکہ اسلام کے خلاف کافی ہذیان بھی بک رہا تھا۔اپنے اس کام کی تشہیر کیلئے اس نے ’’یوٹیوب‘‘اور’’فیس بک‘‘کااستعمال بھی کیا ہے۔ چرچ کے اس اعلان کودہشت گردی کے علاوہ اور کیا کہہ سکتے ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل دہشت گردی کی نئی نئی تعبیریں پیش کر کے اسلامی دنیا کو بدنام اور برباد کرنے میں مصروف ہے لیکن حیرت یہ بھی ہے کہ اس کی تعبیریں ہم بھی ماننے لگتے ہیں۔ آج تک کسی مسجد سے دنیا کے کسی مذہب کے لیے ایسا اعلان نہیں ہوا ،اگر ہوجاتا تو اعلان کرنے والا ملک بھی عراق کی طرح برباد ہوجاتا۔ لیکن فلوریڈا کے چرچ سے قرآن سوزی کے اعلان اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات کو وہ دہشت گردی پر محمول نہیں سمجھتے بلکہ اس کی تعبیر آزادی رائے سے کر رہے ہیں اس لیے ان کی نظر میں یہ دہشت گردی نہیں ہے۔کیونکہ یہ ایک عیسائی کے ذریعے کیا جا رہا ہےاور وہ بھی امریکہ میں اس لیے اس طرح کی باتیں امریکہ کے لیے دہشت گردی نہیں ہیں۔امریکہ کے ساتھ پوری دنیا اور با لخصوص اسلامی ممالک نے بھی اس اعلان کو سنجیدگی سے نہیں لیا ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ دہشت گردی کو مٹانے کا عزم رکھنے والا ملک اگر ایسا کرتا ہے تو اس کے خلاف بھی آوازیں اٹھنی چاہیے اور اسے بھی معلوم ہونا چاہیے کہ انسان کے بنیادی حقوق میں یہ شامل ہے کہ وہ جس مذہب کو چاہے اختیار کرے لیکن دوسرے مذاہب کا احترام کرے اگر یہ نہ کر سکے تو اتنا تو لازم ہے کہ وہ کسی مذہب کے خلاف توہین آمیز باتیں اور حرکتیں نہ کرے ۔ اس اعتبار سے فلوریڈا کے پادری کا بیان اور اعلان سراسر دہشت گردی پر مبنی ہے۔لیکن خود کو مہذب کہنے والی امریکی اور یوروپی قوم کی حمیت کہاں گئی ۔ جو اس اعلان اور پادری کی دہشت گردی پر خاموش ہیں۔ اگر خدا نخواستہ کسی مدرسے یا مسجد سے کسی مذہب کے بارے میں کچھ کہا جاتا تو پوری دنیا میں اس پر کتنا واویلا مچتا ، اسلام اور مسلمانوں کو کس کس نام سے یاد کیا جاتا یہ آپ کو معلوم ہے ۔لیکن اگر یہ خود کوئی بات کہیں تو ان کے لیے کچھ نہیں کیونکہ کوئی اسرائیلی ، امریکی اور یوروپی تو کسی طور بھی دہشت گرد نہیں ہوسکتا کیونکہ دہشت گردی توصرف مسلمانوں سے جڑی ہوئی ہے ۔ اس پادری کے اعلان کے مقابلے آپ اس اعلان کو یاد کریں جو امام خمینی نے ایران سے سلمان رشدی کے لیے کیا تھا۔امام خمینی نے سلمان رشدی کی کتاب شیطانی آیات لکھنےاور حضور اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے جیسی حرکت پر دنیا کی بےحسی کودیکھتے ہوئے شدید رد عمل کے طور پر رشدی کے قتل کرنے کا فتویٰ دیا تھا ( جسے میں درست نہیں سمجھتا کیونکہ کسی کے قتل سے بات نہیں سلجھتی ) لیکن اس فتوے کے بعد پوری دنیا میں جو واویلا مچا تھا وہ اب بھی لوگوں کو یاد ہے ۔ دنیا کے تمام صحافتی ادراے اسی خبر سے شروع ہوتے تھے اور اسی پر ان کی تان ٹوٹتی تھی۔ جس قدر مذمت ہوسکتی تھی اس سے بڑھ کر سبھی اداروں نے امام خمینی کے بیان اور فتوے پر ہنگامہ مچایا ۔ بعض اسرائیلی صحافتی اداروں نے تو اسلام اور مسلمانوں کو گالیاں دینے اور برا بھلا کہنے سے بھی پرہیز نہیں کیا۔ خمینی کے فتوے ان کے لیے اس لیے بھی زیادہ آزار کا باعث بنا کیونکہ رشدی اسرائیل کاہی نمک خوار تھا اور اب بھی ہے۔لیکن اب اس سے بھی قبیح صورت سامنے آئی ہے، پادری کا اعلان کسی ایک شخص کے لیے نہیں ہے بلکہ دنیا کےسب سے بڑی مذہبی کتاب کے بارے میں ہے ۔ سب کو معلوم ہے کہ اس سے مسلمانوں کی دلآزار ی ہو رہی ہے ۔ اس سے امن و امان کی فضا مکدر ہورہی ہے ۔با وجود اس کے اسلامی دنیا کی معمولی ہلچل اوربات بات پر ہنگامہ کرنے والی عالمی میڈیا خاموش کیوں ہیں؟اس کا جواب شاید ان کے پاس بھی نہیں ہے اور اس امریکی صدر کے پاس بھی نہیں ہے جو اسلامی دنیا سے قریب ہونے کا ناٹک کر چکے ہیں۔امریکی صدرباراک اوبامہ میں اگر تھوڑی سی اخلاقی رمق موجود ہوتی اوروہ واقعی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مخلص ہوتے تو وہ بذاتِ خوداس واقعے کی نہ صرف مذمت کرتے بلکہ اس کو جڑ سے مٹانے کے لیے کوئی عملی قدم اٹھاتے ہوئے مسلمانوں سے معافی مانگتے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہےجیسے کوئی ایسی بات ہی نہیں ہوئی کہ امریکی صدر اس کے بارے میں اپنا بیان دیں یا مسلمانوں سے معافی مانگیں؟۔سچائی یہ ہے کہ ان کے شعار میں یہ داخل ہے کہ وہ مسلمانوں کو تکل یف پہنچائیں اور نفسیاتی طور ہمیشہ دباؤ میں رکھیں ۔ امریکا اوریورپ میں اسلامی شعائرکامذاق اورتوہین کرنے کی یہ کوئی پہلی کوشش نہیں ہے۔ بار بار اس طرح کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں ۔ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت سب سے پہلے گوانتاموبے کے عقوبت خانے میں امریکی فوجیوں نے مسلمان قیدیوں کے سامنے قرآنِ کریم کی بے حرمتی کا آغاز کیا تھا جس کے بعد یہ سلسلہ درازتر ہوتا جارہا ہے۔کئی اسرائیلی اور امریکی وظیفہ خوا ر مصنفین دن رات اس کام میں لگے ہوئے ہیں کہ کس طرح مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا جائے ۔ ابھی ایک دوسال قبل کی ہی بات ہے کہ یوٹیوب پر فتنہ جیسی فلم اَپ لوڈ کر کے دنیا بھر کے مسلمانوں کو تکلیف پہنچائی۔ڈنمارک کا ایک اخبار نے گستاخانہ کارٹون شائع کرنے کی جو مذموم کوششیں کیں ، تو کبھی یورپ میں مسلمان خواتین کے حجاب پرقانونی پابندیوں کے بل منظور کئے جارہے ہیں۔کبھی کویت میں قرآن میں تحریف کرکے ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں میں تقسیم کئے جاتے ہیں تو کبھی چندگمراہ خواتین کو مسلمان ظاہر کرکے مسلمان عورت کی معیت میں نماز جمعہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔اور اس سے بھی گھناؤنی حرکت یہ تھی کہ عریاں لڑکی کےجسم پر سورہ نسا ءسے قرآن کی آیات کو گودوایا گیا اس لڑکی نے عریاں جسم کے ساتھ اسلام میں عورتوں کے حقوق کے خلاف توہین آمیز حرکتیں کیں ۔ اس نام نہادمسلمان لڑکی کی تصویریں تمام مغربی ممالک میں دیکھائی گئیں۔اس طرح کی چھوٹی بڑی حرکتوں سے ان کی تاریخ کے سیاہ باب بھرے پڑے ہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ ان کی کچھ کوششوں کا ہمیں پتہ چل جاتا ہے اور اکثر کا پتہ نہیں چل پاتا لیکن وہ جدید سائنسی اور تکنیکی وسائل کو استعمال کر کے نئی نسل کے ذہن کو پوری طرح اپنے شکنجے میں لینے کی تیاری میں مصروف ہیں اس کی ایک بڑی مثال یہودیوں کی مشہور سوشل نیٹ ورکنگ کی سائٹ فیس بُک ہے۔یہ ہےکہ دنیا کا سب سے مقبول سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ ہے جو نئی نسل کو اپنی جانب متوجہ کر چکا ہے ۔ یہ نیٹ ورک اب دنیا کے چند بڑے منافع کمانے والے نیٹ میں شامل ہے ۔ اس طرح یہودی لابی ایک جانب اپنی ایجاد سے لوگوں کو متوجہ بھی کررہی ہے تو دوسری جانب اسی کے ذریعے گاہے بگاہے اسلام اور مسلمانوں پر حملے بھی کرتا رہتاہے۔ گویا اسرائیلی، امریکی میڈیا اور بعض یوروپی میڈیا اس مہم میں مستقل لگے ہوئے ہیں۔ وہ جو کریں یا کہیں سب درست لیکن ان کے علاوہ کوئی کچھ بھی کتنی ہی سچی بات کیوں نہ کہےب سب غلط۔ شاہد عباسی نے اپنے بلاگ میں اسرائیلی اور امریکی ذہنیت پر بہت اچھی تحریر لکھی ہے جس کا یہ اقتباس صورت حال کو اس طرح بیان کرتا ہے۔’’آج کی دنیا کو اپنے مہذب ہونے پر فخر ہے جس کا ثبوت وہ سب کے لئے برابری،برداشت اور حقوق کی فراہمی کو قرار دیتی ہے۔اس دعوے پر عمل میں اہل دنیا اتنے آگے بڑھ گئے کہ مغربی ممالک نے اپنے ہاں کتوں ،بلیوں سمیت پالتو وغیر پالتو جانوروں تک کے حقوق کی حفاظت اوران کی فلاح وبہبود کے لئے متعدد تنظیمیں قائم کر لیں،زمین پر کٹنے والا ہر درخت انہیں کرہ ارض کی تباہی لگتا ہے،عورتوں کی آزادی خواہ وہ اخلاقیات سے عاری کیوں نہ ہو،مزدوروں کے حقوق خواہ وہ آجر کی جیب پر ڈاکہ کیوں نہ ہوں،آزادی اظہار اوراطلاعات تک رسائی کا حق خواہ وہ کسی کی جان جانے کا سبب ہی کیوں نہ بنے،یہ اور اس جیسے بے شمار ”حقوق و فرائض“ ہیں جن کے حصول کی خاطر مغرب اور اہل مغرب ہر لمحہ تیار رہتے ہیں۔وہ اس بات کا اتنا ڈھول پیٹتے ہیں کہ ناواقفان حال انہیں فرشتہ صفت سمجھنا شروع کر دیں،لیکن یہ شرافت، دیانت،قانون پر عملدرآمد،مہذب پن،حقوق کی طلب ، فرائض کی ادائیگی،برداشت،تعلیم دوستی،انسانی ترقی کا جنون وغیرہ اس وقت کہاں کھو جاتے ہیں جب معاملہ اسلام اورمسلمانوں کا آ جائے۔ اس مرحلے پر پہنچتے ہی ان کے منہ میں موجود دانت گویاکسی خون آشام درندے اورزبانیں کسی گنوار جاہل اوروحشی کی مانند ہو جاتی ہیں جبھی وہ ہر کس و ناکس کا نرخرہ چبانے اور خون چاٹنے کو تیار رہتے ہیں۔بدکاری میں ملوث مردوعورتوں کو بیماریوں سے بچاﺅ اورمزدور حقوق کے نام پر کروڑوں ڈالر کے فنڈ مہیا کرنے والا مغرب سویٹزرلینڈ میں مساجد کے میناروں پر پابندی کا اعلان کر دیتا ہے،عورتوں کی آزادی کو ہر سانس سے بھی ذیادہ جپنے والا معاشرہ فرانس میں حجاب جیسے فرض پر پابندی کا قانون منظور کر لیتا ہے، پاکستان، ایران یا کسی بھی مسلم ملک کی جانب سے جوہری ٹیکنالوجی کے حصول کی کوشش پر آسمان سر پر اٹھا لینے اوروجود ہی نہ رکھنے والے ہتھیاروں کے بہانے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے والے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا نظام جرمنی کی بھری عدالت میں حجاب کرنے پر مسلم خاتون کو خنجر گھونپ کر شہید کر وادیتا ہے،افغانستان کے دوردراز علاقے میں مرتد ہونے والے”عبدالرحمن“کو راتوں رات خصوصی جہاز سے زندگی محفوظ بنانے کی آڑ میں یورپ منتقل کرنے والے انسانی حقوق کے چیمپئن دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی محبوب ترین ہستی پر کیچر اچھالنے کو باعث فخر سمجھتے ہیں۔اپنی قوم کے افراد کے ہاتھوں لکھی گئی آئینہ دکھاتی کتابوں، بنائی گئی فلموں پر پابندی لگانے والا مغرب مسلمانوں کی جان سے بھی ذیادہ عزیزترین کتاب قرآن مقدس کی کھلے عام ”نعوزباللہ“تذلیل کرتا اور کرواتا ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے اسے کوئی حق یا حقوق یاد نہیں آتے۔‘‘ لیکن اسی کے ساتھ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اب بھی ان کی حرکتوں اور سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی اپنی انجمن میں تقریریں کر کے ہی کرنا چاہتے ہیں۔ یہ طریقہ اپنے لوگوں کو مطمئن کرسکتا ہے اور ] ]>