سمیع اللہ ملک
لندن
قرآن میں تفکر وتدبر
’’مسلمان محض قرآن میں تفکر کر کے بہت جلد اُس مقام پر پہنچ سکتے ہیں کہ جہاں انتہائی ترقی یافتہ اقوام، سالہا سال کی ریسرچ اور کھربوں ڈالر خرچ کر کے پہنچے ہیں‘‘……میں نے اپنے کالم ’’پہچان کی معرفت‘‘ میں یہ تحریر لکھی تھی۔ بہت سے قارئین کرام نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور بہت سوں نے وہ طریقہ دریافت کیا تھا کہ جس سے مسلمان انتہائی ترقی یافتہ اقوام سے آگے نکل سکتے ہیں،اور مجھے اپنے اس بیان کی تصدیق کے لئے مزید دلائل دینے کے لئے کہا گیا ہے۔
دراصل قرآنِ کریم کائناتی فارمولوں کی ’’دستاویز‘‘ہے۔قرآن میں ہر دور کے تمام علوم موجود ہیں۔مثلاً اس میں معیشت و معاشرت بھی ہے……موت کیا ہے؟ ……موت کے بعد ایک اور زندگی کیا ہے؟……کائنات اور اس کے اندر اشیاء کی تخلیق کس طرح ہوئی ؟……اور کن کن طریقوں سے اﷲ تعالیٰ نے وسائل فراہم کئے……علومِ ظاہری اور علومِ باطنی……عالم رنگ و بو کی تشریح……اور عالمِ غیب میں موجود مخلوقات کی تعریف……لاشعوری یعنی پیراسائکالوجی یا روحانی علوم……علم طب، علم جمادات و نباتات و حیوانات……سورج،چاند ستاروں اور گلیکسیز کے علوم……گویا قرآنِ پاک دنیا و کائنات کے تمام علوم یا فارمولوں کی ’’مائیکرو فلم‘‘ہے ،جس میں کائنات کے ذرے ذرے کا علم بصورت ’’شارٹ فارم‘‘موجود ہے…… !
مثلاً حضرت یوسفؑ کے قصے میں بہترین پلاننگ کا علم موجود ہے ……حضرت سلیمانؑ کے قصے میں آوازوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے علم کا تذکرہ ہے……اسی طرح حضرت عزیرؑ کے واقعہ میں ڈیپ فریزر کے فارمولے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے……حضرت مریمؑ کے بیان میں روحانی علوم کی طرف اشارہ موجود ہے……حضرت موسٰیؑ کے قصے میں فرعون کے دور میں ماورائی، جادوئی،اورانتہائی ترقی یافتہ علوم(پیرامڈٹیکنالوجی)میں مہارت کو واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے……حضرت ابراہیم ؑکے واقعہ میں کائناتی ریسرچ کا اصول بیان ہوا ہے کہ کس طرح حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے ذہن کو ریسرچ کا خوگر بنا کر اﷲ تعالیٰ کی ذات تک رسائی حاصل کی……حضرت عیسٰیؑ کے واقعہ میں علم طب اور میڈیکل سائنس کے عروج کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔
اس وقت سائنس کی تمام تر ترقی کا دارومدار ’’سپیڈ‘‘پر ہے۔سائنس کے سامنے سب سے اہم مسئلہ یہی ہے کہ ’’ٹائم اینڈ سپیس‘‘کی نفی کر کے زیادہ سے زیادہ سپیڈ پر کنٹرول حاصل کرلیا جائے۔قرآنِ پاک میں حضرت سلیمانؑ کے قصے میں ایک ایسے انسان کا تذکرہ ہوا ہے جس نے ملکہ بلقیس کا بہت بڑا تخت ۱۵۰۰ میل کے فاصلے سے ایک سیکنڈ میں ان کے پاس پہنچا دیا تھا۔گویا کہ ٹائم اینڈ سپیس کو ’’لیس نیس‘‘کرنے کا فارمولہ بھی قرآن میں موجود ہے……اس میں معیشت معاشرت بھی ہے اور مادی و روحانی و سائنسی علوم بھی موجود ہیں۔قوموں کے عروج و زوال کے حقائق بھی واء ہیں۔اس میں مذہب و تمدن بھی ہے اور دنیا و آخرت میں کامیابی کے اصول بھی موجود ہیں ……یعنی یہ کتاب دنیا اور اُخروی زندگی میں کامیابی کی ایک مکمل اور یقینی ’’کی ‘‘ہے۔باوجود اس کے کہ قرآنِ پاک تمام مادی و روحانی علوم، معیشت و معاشرت، مذہب و تمدن اور سائنسی و کائناتی تسخیری فارمولوں کی دستاویز ہے،
یہ قرآن ہی تو تھا جسکی تعلیمات نے صحرائی خانہ بدوشوں کوقوموں کاامام بنادیاتھا۔تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسلمانوں نے قرآن کی تعلیمات پرتفکراورتدبرکیاانہیں سائنسی علوم پربھی برتری حاصل رہی لیکن جب انہوں نے قرآن کوجزدانوں میں سجاکرصرف حلف اٹھانے پرموقوف کردیا تو جس تیزی کے ساتھ ان کودنیامیں عروج حاصل ہواتھا اس رفتار سے ان کاتنزلی اورزوال شروع ہوگیا۔ اب مسلمان قوم کی زبوں حالی دیکھئے اور دوسری قوموں کاعروج بھی ملاحظہ کیجئے:
یورپ کی کل سالانہ برآمدات ۳۷۲۴/ارب ڈالر ہیں۔امریکہ کی ۷۴۴/ارب ڈالر،جرمنی کی۷۴۸/ارب ڈالر،جاپان کی ۱۵۴۵/ارب ڈالر ہیں……اس کے مقابلہ میں پاکستان، سعودیہ ،ایران سمیت۵۵اسلامی ممالک کی کل برآمدات صرف ۶۱۰/ارب ڈالر ہیں……دنیا کی۱۳بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ۸۲فیصد عالمی خوراک پر اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔یہ تیرہ کمپنیاں یہودیوں کی ملکیت ہیں۔ ان کمپنیوں کی مصنوعات استعمال کر کے مسلمان روزانہ کروڑوں ڈالراسرائیل کو ’’گفٹ‘‘کردیتے ہیں،ترقی یافتہ (غیر مسلم)ممالک کے چند باشندے پوری دنیا کی کل آمدنی کا ۸۳فیصد حاصل کرلیتے ہیں، جبکہ دنیا کے۴/ارب انسان غریب جبکہ ایک ارب افراد غربت کی لکیر سے بھی آخری حد سے نچلی سطح پر زندہ ہیں…… عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی حکمت عملی طے کرنے والے مغربی معاشی ماہرین کے پاس غربت دور کرنے کے لئے ’’چھٹک جانے والی معیشت‘‘(ٹرکل ڈاؤن اکانومی) Trickle Down Economyکا لائحہ عمل ہے۔یعنی امیروں کی امارت کے برتن اس حد تک بھردئیے جائیں کہ وہ چھلکنے لگیں اور ان کے چھلکنے سے غریبوں کا بھی کچھ بھلا ہو جائے……قارئین کرام سوچنے کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی اس زبوں حالی کو خوشحالی میں بدلنے کا آخر کوئی طریقہ تو ہوگا؟……؟……؟
مختلف قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ کا مطالعہ کر کے اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ ریسرچ کا مقابلہ ریسرچ ہی سے ممکن ہے۔ جس قوم نے بھی ترقی کی ہے تحقیق، غور و فکر ،ریسرچ اور ایجادات کے ذریعے ہی کی ہے۔اس لئے کہ ’’تفکر، غور وفکر اور ریسرچ، قرآنی طرزِ فکر ہے۔ جو قوم بھی قرآنی تعلیمات ’’تحقیق، تفکر، غور و فکر اور ریسرچ ‘‘ پر عمل کر ے گی دنیا میں ترقی و خوشحالی و عروج حاصل کرے گی، مسلم یا غیر مسلم کی اس میں کوئی تخصیص نہیں……مسلمانوں کے لئے انتہائی ترقی کا شارٹ کٹ قرآن میں ریسرچ اور تفکر سے ہی وابستہ ہے۔ علاوہ ازیں تمام راستے پستی کی طرف گامزن ہیں……اور یہ اس مضمون پہ ختم الکلام ہے۔
ایجادات کا قانون:……انسان کی فکر دورخوں میں کام کرتی ہے، پہلا رخ کسی بھی شے کے ظاہر کو دیکھتا ہے، لیکن جب تخیل کو کسی بھی ایک نقطے پر مرکوز کر کے اس شے کی گہرائی یعنی باطن یا لاشعور میں جھانکا جاتا ہے، تو تفکر، تجسس اور ریسرچ کی فکر اس شے کے باطن یا لاشعور میں پہنچ کر اس شے کے اندر گہرائی سے خفیہ صلاحیتوں اور علوم کو شعورکی سطح پر کھینچ لاتی ہے اور نتیجہ میں کوئی نہ کوئی ایجاد معرضِ وجود میں آجاتی ہے۔ اس لئے کہ ذہن انسانی کی فکر یا تخیل یا تفکر یا ریسرچ ’’نقطۂ ذات‘‘(تحتِ لاشعور) کی گہرائی میں جاکر ان علوم اور صلاحیتوں تک رسائی کی صلاحیت رکھتا ہے کہ جہاں ازل تا ابد تمام علوم کئی لاکھ سال سے موجود تھے، ہیں اور رہیں گے…… اس کی مثال یہ ہے کہ انٹرنیٹ کا علم آج سے لاکھوں سال پہلے بھی انسان کے تحت، لاشعور میں موجود تھا لیکن جب کس ریسرچر نے تفکر کیا تو یہ علم منصہ شہود پر اُبھر کر موجود دور میں عملی شکل میں ہمارے سامنے آگیا۔ قرآن جیسی عظیم دستاویز کو خوبصورت ریشمی غلافوں میں بند کر کے ہاتھ سے دور اونچی جگہ پر رکھ کر، صبح و شام چوم کر،آنکھوں کو لگا لینا،اوراس کی اصل تعلیمات ’’عمل و تفکر و ریسرچ‘‘سے روگردانی کرنا……کیا ہم سے قرآن کا یہ مطالبہ نہیں ’’افلاتدبرون‘‘ تم تدبر(غوروفر)کیوں نہیں کرتے؟ کیا یہی اندازِ مسلمانی ہے؟……؟؟