Home / Socio-political / قسمت کا فیصلہ

قسمت کا فیصلہ

عباس ملک

میمو کا معاملہ کوئی عام سی بات نہیں اس کا تعلق ملک کے ایک اہم ترین ادارے اور وفاق کی اکائی سے جڑا ہے ۔ اس کو عام معاملہ قرار دے کر اس پر سیاسی انداز میں بیان بازی کر کے اسکی اہمیت کو ہرگز کم نہیں کیا جا سکتا ۔ صدر زرداری اس سکینڈل میں ملوث نہیں وہ اس کے ذمہ دار نہیں تو اس کو سیدھے انداز میں پیش کیوں نہیں کرتے ۔پیپلز پارٹی کے نقارچی اور زرخرید ڈھنڈورچیوں کے زریعے اس معاملے کو کیوں ڈیل کیا جارہا ہے ۔نواز شریف کو اس بنیاد پر مئورد الزام ٹھہرا کر مطعون کیا جا رہا ہے کہ وہ معاملہ عدالت عالیہ میں کیوں لے کر گئے ہیں ۔ اگر معاملہ پارلیمنٹ میں حل کر لیا جاتا تو انہیں کیا ضرورت پڑی تھی کہ وہ اس کو عدالت میں لے کر جاتے ۔کیا پارلیمنٹ میں اس معاملہ کو حقیقی معنوں میں ملکی سلامتی اور وقار کے تقاضوں کے مطابق نیوٹرل انداز میں لیا جاتا یا اس کوسیاسی ایشو یا ایک پارٹی سربراہ کے معاملے کے طور پر یک طرفہ لیا جاتا ۔ پارلیمانی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یہ معاملہ کبھی بھی وہاں پر حل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کیلئے ایک نیوٹرل پلیٹ فارم کی ضرورت تھی اور وہ عدالت کے عظمیٰ کے سوا کوئی اور نہیں ہو سکتا تھا ۔ طبلچی اور زرخرید ڈھنڈروچی پیپلز پارٹی کو جمہوری جماعت کے خاصہ کے طور پر پیش کرتے ہیں آیا پیپلز پارٹی کی روایات جمہوری اور پارلیمانی ہیں ۔ پیپلز پارٹی ایک خاندانی جماعت بن چکی ہے جو بھٹو خاندان کے سوا کسی اور کو سربراہی کے طورپر قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ۔ پیپلز پارٹی میں بھٹو خاندان کی وفاداری ہی سب سے بڑی قابلیت اور میرٹ بن چکا ہے ۔ پیپلز پارٹی کے موجودہ تمام اکابرین کو صدر صاحب کی قرابت داری اوران سے وفاداری کے انعام کے طور پر کلیدی عہدوں کا حقدار قرار دیا گیا ہے جبکہ ان سے قابلیت میں کہیں بہتر لیڈر شپ کونظرانداز کر کے اور صدر صاحب سے جمہوری انداز میں اختلاف کی سزا کے طور پر پس پردہ کر دیا گیا۔اعتزا احسن اس کی اہم ترین مثا ل ہیں ۔شاہ محمود قریشی اور شیری رحمان اس کی دیگر امثال ہیں۔ جمہوریت کی ترویج کیلئے ضروری ہے کہ اس کو جمہوری انداز میں اگے بڑھایا جائے تو کیا خاندانی وراثت اور جانشینی ہی جمہوریت کا خاصہ ہے؟ اپنے مفادات کے تحفظ اور حصول کیلئے جمہوری اقدار اور قوانین کے علاوہ میرٹ کی دھجیاں بکھیر کر آنے والے دور کیلئے راہ مسدودکی گئی اپنے اور لیے مشکلات کھڑی کی گئیں ۔کابینہ میں عوامی نمائیندگی کے بغیر نامزدگیاں جموری اقدار کا اگر خاصہ نہیں تو پھر جمہوریت کے پاسداروں نے ایسا کر کے جمہوریت کے دامن پر جو داغ لگایا ہے وہ کس کا جرم ہے ۔قوانین کے تحت کسی کو ایک عہدے پر ایک مخصوص مدت تک اور ایک خاص عمر تک فائز رہنے کی اجازت ہے تو پھر اس میں ایکس ٹینشن دے کر میرٹ اور قانون کی تکذیب کے مرتکبین کو اس کا خمیازہ تو بھگتنا چاہیے ۔پیپلز پارٹی کی بقا اب بھٹو خاندانکے بغیر ناگزیر بنا دی گئی کیا اب ہر وہ فرد جو کسی بھی طرح کسی منصب اعلی پر پہنچ جائے گا وہ اس کیلئے ناگزیر ہی قرار پائے گا۔صرف کلرک ،مالی اور دفتر رنرہی ریٹائرڈ ہونے چائیں ۔صرف نچلے طبقے کیلئے رٹیائر منٹ کی عمر اور قانون ہے ۔ اس سے پہلے ملک کے صدر اور وزیر اعظم جو گذر ے ان کے بغیرنظام سلطنت ساکت ہے ؟ بات شخصیات کی نہیں بلکہ روایات کی ہے ۔ شخصیات آتی جاتی رہتی ہیں لیکن روایات مستحکم اور قائم رہتی ہیں۔ اگے دیکھا جائے تو کیا ملک کی سلامتی اور اسکے وقار کو مدنظر رکھتے ہوئے اکابرین صرف اس کو ذاتی حیثت تک محدود رکھے ہوئے ہیں ۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ اس سے ہمارے ملک کے وقار اور وفاق کی اہم ترین اکائیوں کو نقصان ہوا ہے ۔کیا صدر اور ملک کے دفاع پر معمور اہم ترین ادارے کے درمیان اس معاملے کو اس طرح بیان بازی کے ذریعے حل کرنا چاہیے ۔اس پر اگر اعلیٰ عدالت یا پارلیمانی کمیٹی کام کر رہی ہے تو کیااس کی مدد کرنا ضروری ہے یا اس پر ان اداروں یا اس کی تحقیق پر معمور افراد کا میڈیا ٹرائل شروع کر دینا چاہیے ۔میاں نواز شریف حکومت کو فرینڈلی اپوزیشن کا سہارا نہ دیتے تو شاید اس جمہوری دور کا اختتام بہت پہلے ہو چکا ہوتا ۔یہ میاں صاحب کی مجبوری بھی تھی اور ان کی فراست بھی ہے کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کے اس شدید ترین دور حکومت کو اپوزیشن کی وہ زک پہنچانے سے گریز کیا جس سے نومولود جموریت کا دم گھٹ سکتا تھا ۔اس کیلئے انہوں نے میڈیا کے علاوہ اپنوں سے بھی بہت کچھ سنا اور برداشت کیا ۔انہوں نے جمہوریت کی ترویج کیلئے جمہور کو نظرانداز کیا ۔ حکومت کے سیاہ وسفید کو ذات کیلئے برداشت کرنا اور بات تھی لیکن جمہور کیلئے باعث تکلیف بننے والے فیصلوں پر ان کی آواز بلند نہ ہونا ان کی مقبولیت میں کمی کا سب سے اہم ترین نکتہ بن چکا ہے ۔ میاں نواز شریف نے پیپلز پارٹی اور جمہوریت کی ترویج کیلئے تو صبر بھی کیا اور طعنے بھی سننے لیکن عوام کو اس بات کا دکھ ہے کہ میاں نواز شریف نے ان کے دکھ اور ان کی تذلیل ہوتے دیکھ کر بھی ان کی نمائیندگی کا حق ادا نہیں کیا ۔اس کی سزا وہ میاں صاحب کو نظرانداز کر کے عمران خان کی تحریک انصاف کی قدر ومنزلت میں اضافے کے ساتھ دے رہے ہیں ۔آج میاں صاحب کو جن حالات کا سامنا ہے اس کے ذمہ دار وہ خود اور ان کے وہ فیصلے ہیں جو انہوں نے جمہوریت میں باری کی خاطر کیے ۔عوام کی باری نہ پہلے آئی تھی اور نہ اب آنے کی امید ہے ۔اسی لیے عوام میاں صاحب کی بجائے عمران خان کو نجات دہندہ کے طور پر سمجھنے لگے ہیں ۔گیا وقت ہاتھ نہیں آتا ۔ آج اگر عوام کیلئے کوئی بھی بات کی جائے گی تو اسے الیکشن کی تیاری اوراس میں ممدد کام کے طور پر ہی د

یکھا جائے گا ۔زخم کسی اور کے لگائے ہیں لیکن عوام یہ سمجھتے ہیں کہ میاں نواز شریف نے انکی بجائے ان کا ساتھ دیکرعوامی احساسات کو مجروح کیا ہے ۔ اس کے تدارک کیلئے ان کے موجودہ فیصلے دیر آید درست آید کے مصدق ضرور ہیں لیکن عوام کو جمہوریت کے پاسداروں کے لگائے ہوئے زخموں کی ٹیس اب تک باقی ہے ۔ کسی کے رہنے اور جانے میں فرق اس کو ہی محسوس ہوتا ہے جو ان اعلی ترین عہدوں پر فائز ہوتا ہے ۔عوام کو بھی فرق پڑتا اور ملک اور معاشرے بھی یقینا اس فرق پڑنے کاانتظارکرتے ہیں۔ مشرف کی پالیسیاں عوام دوست محسوس ہونے لگتی ہیں کیوں عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات کی اس کی ارزانی نہیں تھی جتنی کہ جمہوریت کے پاسداروں نے عوام سے جمہوریت کے نام پر قربانی لی ہے ۔مشرف اسلام اور پاکستان دوست پالیسیاں نہ ہونے کے وجہ سے آج بھی مغصوب ہے ۔پیپلز پارٹی نے چار سال مشرف کی پالیسیوں کے تسلسل کے بعد وقت کی بدلتی کروٹ اور قانون قدرت کے تحت بدلتے حالات کو اپنے نام سے موسوم کرنے کی کوشش کی ہے ۔چار سال ڈرون حملے ہوتے رہے اور پارلیمنٹ اپنی منظور کردہ قرار دار کا احترام کرانے میں ناکام رہی۔ فوج اورعوام نے سٹینڈ لیا تو اسے ترازو میں تول کر پیپلز پارٹی کے کارناموں میں اندراج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔پہلے مظلومیت کے ڈھونگ میں وقت گذارا اوراب بھی مظلومیت کا پروپیگنڈا ہے ۔آخر اس مظلومیت کا کنارہ کدھر ہے ۔اس کا خمیازہ اورقیمت کب تک عوام دیتے رہیں گے ۔اس مظلوم قوم اور اس ملک کے ساتھ جو کچھ کیا جارہا ہے اس کا خمیازہ ہر اس فرد کو بھگتنا ہوگا ۔خواہ وہ مشرف تھا یا پھر کوئی اور ہے ۔یہ قسمت کا فیصلہ ہے اور اسے کوئی نہیں بدل سکتا ۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *